جنوری 2011
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴سولہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم یہ پیغام سن کر مسکرایا اس نے اپنے سالار و نائب سالاروں اور امیر محمد بن وداع نجدی کو بلایا اور ترجمان سے کہا کہ وہ ان سب کو یہ پیغام پڑھ کر سنائے، ترجمان نے پیغام ایک بار پھر پڑھا اور تمام حاضرین مسکرانے لگے۔
اس شخص نے مجھے مغرور کہا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے شگفتہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔کیا یہ شخص کم عقل اور کمینہ نہیں، میں جو جواب لکھوانا چاہتا ہوں وہ آپ سب سن لیں اور اپنی رائے اور مشورے دیں۔
محمد بن قاسم نے انہیں بتایا کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے، سب نے مشورہ دیا کہ ایسے شخص کو شریفانہ جواب نہیں ملنا چاہیے ،سب نے جو مشورے دیے ان سے پیغام تیار ہوا ،محمد بن قاسم نے کاتب کو بلا کر پیغام لکھوایا یہ خط بھی تاریخوں میں محفوظ ہے، جو اس طرح ہے۔
یہ خط اس محمد بن قاسم ثقفی کی طرف سے ہے جو شرکش اور مغرور مہاراجوں اور بادشاہوں کا سر نیچا کرنا جانتا ہے ،اور جو مسلمانوں کے خون کا انتقام لیے بغیر نہیں رہتا ہے، تو کافر، جاہل ،مغرور، اخلاق کا منکر اور اپنی سگی بہن کا خاوند ہے ،اور جسے احساس نہیں کہ وقت اور زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور حالات تکبر اور غرور کو کچل دیتے ہیں،،،،،
تم نے جہالت اور حماقت سے جو لکھا ہے وہ میں نے پڑھا ہے، اس میں سوائے تکبر و غرور اور چھچھورے پن کے کچھ بھی نہیں ،مجھے اس سے بھی واقفیت ہوئی کے تمہارے پاس طاقت ہے ہتھیار ہیں اور ہاتھی بھی ہیں، میں نے سمجھ لیا کہ تم انہی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہو، میرے پاس طاقت بھی کم ہے اور ہاتھی بھی نہیں لیکن ہماری سب سے بڑی طاقت خداوند تعالی کا کرم اور فضل ہے،،،،،
اے عاجز انسان !سواروں، ہاتھیوں ،اور لشکر پر کیوں ناز کرتا ہے، ہاتھی تو ایک کمزور اور انسان جیسا عاجز جانور ہے جو ایک مچھر کو بھی اپنے جسم سے نہیں ہٹا سکتا ،اور تم میرے جن گھوڑوں اور سواروں کو اپنے ملک میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے ہو وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق فتح انہیں کے لیے لکھی گئی ہے، اور یہی غالب آئیں گے کیونکہ یہ اللہ کی جماعت ہے (حزب اللہ) ہیں،،،،،،،
ہم تمھارے ملک پر لشکر کشی کبھی نہ کرتے لیکن تمہاری بداعمالیوں ،اسلام دشمنی ،اور تکبر نے ہمیں مجبور کر دیا ہے، تم نے سراندیپ کے مسلمانوں کے بحری جہاز کو روک کر ان کو لوٹا اور پھر ان کو قید کر لیا حالانکہ خلیفۃ المسلمین کی برتری اور حکومت کو دنیا کے تمام ملک تسلیم کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین نبوت کا نائب ہوتا ہے۔
صرف تم ہو جس نے سرکشی کی اور ہمارے ساتھ دشمنی شروع کی ،تم بھول گئے تھے کہ تمہارے باپ دادا ہماری خلافت کو خراج ادا کرتے تھے جو تم نے روک دیا ہے، پھر تم نے بیہودہ حرکتیں کیں اور دوستانہ تعلقات رکھنے کی بجائے دوستی کے منکر ہوئے اور پھر تم نے اپنی اشتعال انگیز حرکتوں کو جائز سمجھا، تمہاری کرتوت کو دیکھتے ہوئے مجھے خلافت سے حکم ہوا کہ تمھیں سبق سکھاؤں مجھے یقین ہے کہ میرا اور تمہارا مقابلہ جہاں کہیں بھی ہو گا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے جو ظالموں اور مغرورں کو مغلوب کرنے والا ہے تم پرغالب آؤں گا، اور تم ذلت کا منہ دیکھو گے تمہارا سر کاٹ کر عراق بھیجوں گا یا اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا،،،،،،،
جسے تم اپنے ملک پر لشکر کشی کہتے ہو یہ ہمارے لئے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،میں نے یہ فرض اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے لئے قبول کیا ہے، اور میں اسی کی ذات کے فضل و کرم کا طلبگار ہوں وہی مجھے فتح عطا فرمائے گا۔
یہ پیغام راجہ داہر کے ایلچی کو دے کر رخصت کر دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آج سندھ کے زمینی خدوخال وہ نہیں رہے جو آج سےایک ہزار دو سو سال پہلے تھے، دریائے سندھ نے بارہا اپنا راستہ بدلا ہے آج یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم کے دور میں سندھ کا راستہ کیا تھا، کون کون سی بستیاں اس کنارے اور کون سی اس کنارے تھیں ،اس وقت کی متعدد بستیوں اور قصبوں کے نام و نشان بھی نہیں رہے۔
دریائے سندھ کے معاون دریا بھی تھے یہ سب اب خشک نالے بن چکے ہیں ،چھوٹی بڑی ندّیاں بھی تھیں ان میں ایک ساکرہ نالہ بھی تھا جس کی گہرائی بڑی کشتیوں کے لئے کافی تھی۔
ایسے ہی برہمن آباد اس دور میں ایک شہر ہوا کرتا تھا راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سینا کو اس کے دستوں کے ساتھ برہمن آباد بھیج دیا تھا ،آج اس شہر کے کہیں کھنڈرات بھی نظر نہیں آتے، بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ یہ آج کا منصورہ ہے، مختلف مورخوں کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برہمن آباد منصورہ سے سات آٹھ میل دور ہوا کرتا تھا۔
یہ تو گمنام بستیاں تھیں جو زمانے کی ریت میں دب گئی، لیکن ایسی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہو کر جو مر کر بھی زندہ رہتی ہیں یہ بستیاں اپنا نام و نشان مٹا کر بھی زندہ ہیں، ان بستیوں سے وہ مجاہد گزرے تھے جو سینوں میں اللہ کا پیغام لے کر بڑی دور سے آئے تھے، وہ کفر کی تاریکیوں میں اسلام کا نور بکھیرتے گئے تھے، ان میں سے بہت سے لوٹ کے نہیں آئے تھے وہ اللہ کی راہ میں خاک و خون میں تڑپے اور سندھ کی ریت کے ذروں کے ساتھ ریت ہوگئے تھے ،اللہ کی راہ ان بستیوں میں سے گزرتی تھی انہی کے صدقے ان بستیوں کے نام آج بھی زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے۔
اس وقت جب راجہ داہر دو سو بیس میل دور اروڑ میں اپنے بیٹے جے سینا سے کہہ رہا تھا کہ یہ جنگ اب دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی نہیں یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے۔ اُس وقت دیبل میں محمد بن قاسم جمعہ کے خطبے میں کہہ رہا تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں آئے تھے وہ پورا ہو چکا ہے، ہم نے قیدی رہا کرانے ہیں سندھ کی فوج کو سزا بھی دے لی ہے اور مال غنیمت، جزئے، اور جنگی قیدیوں کی صورت میں راجہ داہر سے ہرجانہ بھی وصول کر لیا ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش کرو کے ہم پر ایک اور فرض عائد ہو گیا ہے،
ہم نے دیکھا ہے کہ اس مندر کا گنبد ٹوٹا اور جھنڈا گرا تو ان لوگوں کے حوصلے ختم ہوگئے محمد بن قاسم نے خطبے میں کہا۔۔۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک جھنڈا لہرا رہا ہے انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی یہ لوگ دیوتا پرست اور بت پرست ہیں، ان کے دل اللہ کے نام سے بے بہرہ اور خالی ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ سب سے بڑی قوت اللہ ہی، انہیں کسی نے بتایا نہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ انھیں ذہن نشین کرایا جائے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ کے بندے ہو کر یہ اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں، ان کا خدا یہ جھنڈا تھا ہم انہیں خدا سے روشناس کرائیں گے، یہ ملک بت خانہ ہے۔
اور جب راجہ داہر اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والوں پر قہر نازل ہوگا ،اُس وقت محمد بن قاسم کہہ رہا تھا کہ ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ جن دیوتاؤں اور دیویوں کے تم بت اور مورتیاں بنا کر پوجتے ہو وہ اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔
تم اس ملک کے لوگوں سے جہاں بھی ملو ان کے ساتھ پیار، محبت اور تعظیم سے پیش آؤ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انہیں بتاؤں کہ خدا ہم سب کا خالق ہے لیکن تم نے اپنے خداؤں کی تخلیق اپنے ہاتھوں کی ہے ،اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جسے گمراہ دیکھو اسے صراط مستقیم دکھاؤ ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اندھے کو ٹھوکریں کھاتا دیکھتے ہو تو اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس راستے پر ڈال دیتے ہو ،جس پر ٹھوکریں نہیں لگتیں۔
راجہ داہر اسے دو مذہبوں کی جنگ کر رہا تھا، تو محمد بن قاسم نے بھی اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا تھا، اس نے حجاج بن یوسف کو اطلاع دے دی تھی اور حجاج کا اجازت نامہ بھی آ گیا تھا ،اور حجاج نے اسے لکھا تھا کہ وہ کمک اور رسد بھیج رہا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کے اپنے جاسوس بھی تھے اور ان کے ساتھ دیبل کے چند آدمی مل گئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا ،ان کے علاوہ علافی نے محمد بن قاسم کو درپردہ اپنے چار آدمی دے دیے تھے جو اس خطے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے ،محمد بن قاسم نے انہیں آگے بھیج رکھا تھا اور کچھ جاسوس نیرون کے اندر بھی تھے، شعبہ جاسوسی کا سالار شعبان ثقفی بھی بہروپ میں نیرون تک ہوا آیا اور اردگرد کا علاقہ دیکھ آیا ان کی رپوٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ راجہ داہر باہر آکر نہیں لڑنا چاہتا، اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا تھا کہ وہ باہر آ کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ،محمد بن قاسم جانتا تھا کہ راجہ داہر اِس دور دراز علاقے میں کھلے میدان کی جنگ لڑے گا جہاں تک پہنچتے محمد بن قاسم کی فوج پیش قدمی اور محاصروں کی تھکی ہوئی ہو گی، اور شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے اس کی نفری بھی کم ہو چکی ہو گی، اور یہ فوج دیبل کی بندرگاہ سے بہت دور ہو گی، اس طرح سندھ کی فوج نے محمد بن قاسم کی فوج کے رسد اور کمک کے راستے کاٹ دینے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو دشمن کی اس نیت سے آگا ہ کر دیا۔
آپ تجربے کار ہیں ۔۔۔اس نے سالاروں سے کہا ۔۔۔رسد اور کمک کو رواں اور محفوظ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم سندھ کے راجہ کے دارالحکومت اروڑ تک کچھ قلعے فتح کر لیں کچھ بستیاں لے لیں اور ان میں اپنی تھوڑی نفری چھوڑتے جائیں جو گشت کے ذریعے رسد اور کمک کی آمدورفت کو محفوظ رکھے۔
آگے سے آنے والے جاسوسوں نے اگلے قلعے کی رپورٹ دی تھی جن کے مطابق آگے ایک مقام سیسم تھا اور اس سے آگے نیرون (حیدرآباد) تھا محمد بن قاسم کی منزل نیرون تھی وہاں تک کا فاصلہ اس وقت کی پیمائش کے مطابق پچیس فرسنگ تھا ایک فرہنگ ساڑھے پانچ میل کے لگ بھگ ہوتا تھا۔
ایک چھوٹا دریا جس کا نام ساکرا تھا دیول کے قریب سمندر میں گرتا تھا ،اور نیرون کے قرب وجوار سے گزر کر آتا تھا ،محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجنیقیں کشتیوں میں لاد کر کشتیاں دریائے ساکرا میں جو ساکرا نالہ کہلاتا تھا لائی جائیں، ان کے علاوہ بے شمار رسد اور دیگر جنگی سامان بھی کشتیوں میں لاد نے کا حکم دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند ہی دنوں بعد کشتیوں کا ایک بیڑہ دیبل سے نیرون کی طرف ساکرا نالے میں جا رہا تھا، ان میں بادبانی کشتیاں بھی تھیں اور چپو والی بھی، ان میں تیر انداز بھی جارہے تھے کہ دشمن حملہ کرے تو اسے دریا کے قریب نہ آنے دیا جائے، دریا کے دونوں کنارے کے ساتھ گھوڑسوار جا رہے تھے یہ اس بیڑے کی حفاظت کا انتظام تھا۔
باقی فوج جاسوسوں کے بتائے ہوئے راستے پر جا رہی تھی، گائیڈ ساتھ تھے شعبان ثقفی نے اپنے آدمی آگے اور دائیں اس مقصد کے لئے بھیج دیے تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اسے پکڑ لیں، کوشش کی جارہی تھی کہ نیرون تک یا داہر تک اسلامی فوج کی پیشقدمی کی اطلاع نہ پہنچ سکے ،لیکن یہ ممکن نہیں تھا، یہ دریا تھا اور دریا کے کنارے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن کی آبادی نے فوج کو جاتے دیکھا ،کئی آدمی دریا کے کنارے ملے وہ دیہاتی اور سادہ لوح لوگ تھے۔
موسم سخت گرم تھا ساون کی برسات ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، یہ عرب کی فوج تھی جو عرب کی گرمی کی عادی تھی اور ریگستان بھی ان کے لیے نیا اور تکلیف دے نہیں تھا ،لیکن سندھ کی گرمی کچھ اور قسم کی تھی۔
کشتیاں سیسم کے مقام پر پہنچ گئیں کچھ وقفے سے فوج بھی پہنچ گئی محمد بن قاسم نے وہاں پڑاؤ کا حکم دیا ،گرمی جلا رہی تھی کشتیوں کو بھی وہیں روک لیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کے وقت بصرہ سے ایک قاصد آیا ،وہ خشکی کے راستے آیا تھا ،پہلے دیبل گیا وہاں سے اسی راستے پر چل پڑا جس راستے پر فوج جا رہی تھی، آخر سیسم کے مقام پر محمد بن قاسم تک پہنچا وہ حجاج بن یوسف کا پیغام لایا تھا حجاج نے لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ؛
حجاج بن یوسف کی طرف سے سالار محمد بن قاسم کے نام ،ہمارے دلی ارادوں کا اور ہماری ہمت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمہیں ہر حال میں فتح و نصرت حاصل ہو اور انشاءاللہ تم فتحیاب ہوکر واپس آؤ گے، اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین کا دشمن اس دنیا میں سزا پائے گا، اور اپنے بت کے عذاب میں ہمیشہ پڑا رہے گا ،ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا کے دشمن کے ہاتھی، گھوڑے، زروجواہرات اور اس کا تمام مال و اسباب تمہاری ملکیت میں آجائے گا، اس کی بجائے کیا یہ بہترین نہیں کہ تم اپنے رفیقوں اور تمام مجاہدین کے ساتھ پر مسرت زندگی بسر کرو ،لالچ نہیں رکھو گے تو تمہاری زندگی پر مسرت ہوگی،،،،،،،
تمہارا وصول یہ ہو کہ ہر کسی کی تعظیم و تکریم کرو ،اور چھوٹے بڑے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،دشمن کے ملک پر فتح پا کر بھی اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین دلاوں کے یہ ملک تمہارا ہے، جب کبھی کوئی قلعہ فتح کرو تو اس میں سے ضروریات کی جو بھی چیزیں ملیں وہ اپنے پاس نہ رکھا کرو، یہ سب اپنے لشکر پر اور فوج کو تیار کرنے پر صرف کرو، اگر کوئی شخص کھانے پینے کی چیزیں زیادہ رکھتا ہے تو اس سے مت چھینو اور اس کو مت ٹوکو،،،،،،
کسی شہر کو فتح کرو تووہاں اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دو ،جو مال و اسباب خصوصا غلہ دیبل میں پڑا ہے وہ فوج کی رسد کے طور پر استعمال کرو، ایسا نہ ہو کہ وہ دیبل میں ذخیرے کے طور پر پڑا رہے اور خراب ہو جائے، جو شہریاخطہ فتح کر لو سب سے پہلے اس کا دفاع مضبوط کرو اور پھر دیکھو کہ وہاں کے لوگ بغیر خوف و ہراس کے مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں ،مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی دلجوئی کرو اور پوری کوشش کرو کہ وہاں کے کسان دیگر پیشہ ور لوگ اور تاجر آسودہ حال ہوں، اور وہاں کی کھیتیاں ویران نہ ہو جائیں، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ 20رجب 93 ہجری 712 عیسوی۔
حجاج بن یوسف نے اس خط میں محمد بن قاسم کے حوصلے کو تازگی بخشی، اس نے اپنے سالاروں اور کماندروں کو بلا کر یہ خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ تمام لشکر کو سنایا جائے۔
ایک دو روز قیام کرکے محمد بن قاسم نیرون کی طرف روانہ ہوا ،کشتیاں چل پڑی ساتویں روز یہ لشکر بلہار کے مقام پر پہنچا۔
یہاں پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ،دریا جس میں کشتیاں جا رہی تھی بہت پرے ہو گیا تھا اور فوج کا راستہ خاصہ دور چلا گیا تھا ،پانی کی قلت پیداہوگئی گھوڑے پیاس سے بے چین ہوتے اور ہنہناتے تھے، لشکر کی حالت بھی دگرگوں ہونے لگی ایک دو روز میں پانی کے ذخیرے کا آخری قطرہ بھی ختم ہو گیا صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ کوچ ناممکن نظر آنے لگا ،محمد بن قاسم نے دوپہر کے وقت جب زمین اور آسمان جل رہے تھے تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور کہا کہ نماز استسقاء ادا کی جائے۔
تمام لشکر قبلہ رو ہو کر صف آراء ہو گیا امامت کے فرائض محمد بن قاسم نے ادا کیے تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس نے رقت آمیز آواز میں دعا مانگی اس کی دعا کے الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں جو اس طرح ہیں۔
اے اپنے گمراہ اور پریشان حال بندوں کو راستہ دکھانے والے!اے فریادیوں کی فریاد سننے والے!اپنے ان الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے صدقے ہماری فریاد سن لے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار پر ایسی رقت طاری ہوئی کے اس سے آگے اسکی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا مجاہدین کے لشکر میں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ،متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس قدر مینہ برسا کے ریگزار سمندر کی صورت اختیار کرگیا تمام لشکر نے پانی ذخیرہ کر لیا اس سے اگلے روز محمد بن قاسم نے نیرون کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لشکر نیرون سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا کہ ایک شتر سوار جو اسی علاقے کا مسافر معلوم ہوتا تھا سامنے سے آتا نظر آیا ،وہ سیدھا لشکر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جس حصے میں محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار چلا جا رہا تھا، وہ مسلمان جاسوس تھا اور نیرون سے آیا تھا ۔
کیا خبر لائے ہو ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے پوچھا۔
سالار اعلی!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔نیرون کا حاکم سندر شمنی نیرون سے غیر حاضر ہے۔
کہاں چلا گیا ہے
اروڑ!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بلاوے پر گیا ہے۔
شہر کے لوگ کیا کہتے ہیں؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
شہر کے لوگ نہیں لڑیں گے۔۔۔ جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان کے راجہ نے نیرون کی فوج کے حاکم کو بدل ڈالا ہے ،فوج شہر کے لوگوں کو ڈراتی پھر رہی ہے کہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے تو لوٹ مار کریں گے، اور بچوں اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور وہ کسی گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے غلہ بھی اکٹھا کرکے خود کھا لیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج مقابلہ کرے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں سالار اعلی!،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔فوج مقابلے کے لیے تیار ہے۔
محمد بن قاسم نے پیشقدمی تیز کرکے نیرون شہر کو محاصرے میں لے لیا ،اور اس طرح کے اعلان شروع کردیئے کہ فوج نے قلعہ ہمارے حوالے نہ کیا اور ہم نے قلعہ لے لیا تو کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مورخ لکھتے ہیں کہ نیرون کے حاکم سندرشمنی کی اروڑ میں طلبی ایک سازش تھی ،راجہ داہر نے اس اطلاع پر کے مسلمان کی فوج نیرون کی طرف بڑھ رہی ہے سندر شمنی کو ایک ضروری کام کے بہانے اروڑ بلا لیا، پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نیرون کے اس حاکم نے راجہ داہر کو بتائے بغیر حجاج بن یوسف کی طرف اپنا وفد بھیج کر دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا، اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی تھی، حجاج نے اسے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اسے شہر کے دروازے کھلے ہوئے ملیں گے، لیکن محمد بن قاسم کے لیے شہر کے دروازے بند تھے ،اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ منجیقوں سے شہر پر سنگباری کریں یا نہ کریں، سنگ باری سے شہریوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ،جاسوس نے بتایا تھا کہ شہری نہیں لڑنا چاہتے لیکن فوج ان پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اروڑ میں راجہ داہر نے سندرشمنی کو ویسے ہی روکا تھا ،اسے توقع تھی کہ اس نے نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم سالار بھیجا ہے وہ مسلمانوں کے محاصرے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ایک صبح راجہ داہر نے سندرشمنی کو بلایا پتہ چلا کہ سندرشمنی کمرے میں نہیں ہے ،اسے ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ ملا ،وہ ملتا بھی کہاں اس وقت وہ اروڑ سے بہت دور پہنچ چکا تھا، اس کے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز تھی، اس کے محافظ بھی اروڑ سے لاپتہ تھے۔ وہ سب اس کے ساتھ نیرون کو جا رہے تھے۔
سندر شمنی کے محافظ دراصل عرب کے مسلمان تھے جنہیں شعبان ثقفی نے بھیجا تھا وہ وہاں کی زبان روانی سے بولنے لگے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ آدھی رات کے لگ بھگ محمد بن قاسم کے ایک جاسوس کو محمد بن قاسم کے کہنے پر اروڑ بھیجا گیا تھا، اسے زبانی سندر شمنی کے لئے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیرون میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس میں ہم کیا کریں، جاسوس کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ اس نے سندر شمنی کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔
جب یہ جاسوس سندر شمنی کے پاس اروڑ پہنچا اور اسے پیغام دیا تو اس وقت سندر شمنی کو خیال آیا کہ راجہ داہر نے اسے نیرون سے دور رکھنے کے لئے اروڑ میں پابند کر رکھا ہے، وہ اسی وقت اٹھا اور نہایت خاموشی سے اپنے محافظوں سے کہا کہ وہ اس طرح اپنے گھوڑوں کو باہر لائیں کہ کسی کو شک نہ ہو۔
کسی کو شک ہو یا نہیں انہیں اروڑ سے نکلنا تھا اور کم سے کم وقت میں نیرون پہنچنا تھا۔ وہ جب نیرون پہنچے اس وقت سورج بہت اوپر آچکا تھا سندر شمنی محاصرے میں سے گزر کر شہر کے ایک دروازے پر آیا ،محاصرہ ابھی خاموش تھا مسلمان فوج نے کوئی کارروائی شروع نہیں کی تھی ،کئی دن گزر گئے تھے۔
اپنے حاکم کو دیکھ کر اندر کی فوج نے دروازہ کھول دیا۔
سندرشمنی نے دروازہ بند نہ کرنے دیا اس نے اپنے ایک محافظ کو محمد بن قاسم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ آؤ اور شہر میں داخل ہو جاؤ۔
فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ سندر شمنی نے محمد بن قاسم کا شاہانہ استقبال کیا بیش قیمت تحفے بھی پیش کئے، اور مسلمان فوج کو شہر میں داخل کر کے اعلان کیا کہ معاہدے کے مطابق نیرون کے لوگ محمد بن قاسم کے وفادار رہیں گے۔
یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ نیرون کی فوج مزاحمت کرے گی لیکن شہر کے لوگوں نے ایسی پرمسرت اور ہنگامہ خیز فضا پیدا کردی کہ فوج کچھ بھی نہ کرسکی، اس فوج کے حاکم نے یہ ضرور سوچ لیا ہو گا کہ اس نے کوئی مزاحمت کی تو مسلمانوں کی فوج اور خود نیرون شہر کے لوگ نیرون کی فوج کے ایک سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نیرون کا ہاتھ سے نکل جانا راجہ داہر کے لیے ایک اور چوٹ تھی لیکن اب اس کا رد عمل و ایسا نہیں تھا جیسا ارمن بیلہ اور دیبل کی شکست کے بعد ظاہر ہوا تھا۔
مہاراج!،،،،،، ایک فوجی مشیر نے کہا ۔۔۔عربوں کو نیرون سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے ۔
ہمیں حکم دیں مہاراج !،،،،ایک اور بولا ہم سندر شمنی کو اور اس کے خاندان کے بچے بچے کو قتل کر کے ان کے سر آپ کے قدموں میں حاضر کر دیں گے۔
سنا ہے وہ لڑکا سا ہے۔۔۔ داہر کے ایک اور فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔اور او چھی چالیں چلتا ہے ،اپنے فیصلے کو بدلیں۔
اسے اروڑ تک نہیں پہنچنا چاہیے مہاراج !،،،ایک اور نے کہا۔۔۔ ہم اسے نیرون میں ہی ختم کر سکتے ہیں۔
ہاں مہاراج!،،،، فوجی مشیر نے کہا۔۔۔ ہم نیرون کا محاصرہ کر لیتے ہیں اسکی منجنیقیں ابھی دریا میں کشتیوں پر رکھی ہوئی ہیں۔
راجہ داہر کمرے میں اس طرح ٹہل رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے اور سر ذرا سا جھکا ہوا تھا، جب کوئی اسے مشورہ دیتا تھا تو وہ ذرا رکتا اور ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھ کر چل پڑتا تھا، ہر مشورے پر اس کے ہونٹوں پر تبسم سا آجاتا تھا ،وہاں جتنے بھی مشیر اور حاکم موجود تھے ان سب نے اپنے اپنے مشورے دے ڈالے ،پھر داہر کے اس شاہانہ کمرے میں سکوت طاری ہو گیا ،داہر کے قدموں کی ہلکی ہلکی آہٹ اس سکوت کو منتشر کرتی تھی۔
آخر داہر رک گیا اس کا انداز یہ ہوا کرتا تھا کہ بولنے والے کی پوری بات چلتے چلتے بھی سن لیتا تھا لیٹے لیٹے بھی سن لیتا تھا ،لیکن جب وہ جواب میں بولتا تھا یا کوئی حکم نامہ جاری کرتا تھا تو وہ اپنی کرسی پر جا بیٹھتا، تلوار اپنے سامنے رکھ لیتا تلوار کا ہیرو ں سے مرصع دستہ اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ اپنے چہرے پر ایسا بارعب تاثر پیدا کرلیتا جیسے تمام تر ہندوستان پر اس کی حکمرانی ہو ،اس وقت تمام درباری مکمل انہماک سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔
یہ تمام مشورے سن کر وہ اپنے مخصوص انداز سے تخت کی تین سیڑھیوں پر چڑھا بیٹھا اور اس نے سب پر نگاہ دوڑائی۔
وہ یہاں تک پہنچے گا ۔۔۔راجہ داہر نے مہاراجوں کے لہجے میں کہا ۔۔۔ہم اسے یہاں تک آنے دیں گے، لیکن وہ یہاں اپنی تلوار ہماری جوتیوں کے نیچے رکھنے کے لیے آئے گا، وہ کسی عربی ماں کا نادان بچہ اس وقت اپنے آپ کو جنگل کا شیر سمجھ رہا ہے، ہم اسے یہی بتا رہے ہیں کہ مورکھ بالک تو شیر ہے ،،،،،راجہ داہر مسکرایا اور بولا ،،،یہ شیر اروڑ کی دیواروں سے دور آ بیٹھے گا اور اپنے زخم چاٹے گا،،،،،،،، کیا تم نہیں جانتے کہ سندھ کی دھرتی کا سپوت جے سینا اس کے راستے میں پہاڑ بن کر کھڑا ہے، برہمن آباد میں ایک عربی بیٹے اور ایک سندھی بیٹے کا مقابلہ ہوگا، پھر اس ملک میں ہندو مت رہےگا یا اسلام، یہ اپنے سینوں پر لکھ لو کہ ہم نے محمد بن قاسم کو اور اس کی فوج کو نہیں روکنا بلکہ ایک مذہب کو روکنا ہے، اور یہ وہ مذہب ہے جو تھوڑے سے عرصے میں دور دور تک پھیل گیا ہے، کیا تم جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟،،،،،،، اس نے بڑے مندر کے پنڈت کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھا اس نے پنڈت سے کہا ۔۔۔رشی مہاراج انہیں بتائیں۔
اسلام اس لیے پھیل گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں آنے والے مذہب سچے نہیں تھے۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔ایک طرف آگ کو پوجنے والے ایرانی تھے، دوسری طرف صلیب کے پجاری عیسائی تھے، ان مذہبوں میں کوئی طاقت نہیں تھی ،ہندومت دیوتاؤں کا مذہب ہے ہمارے دیوتا آگ برسا سکتے ہیں، پہاڑوں کو اٹھا کر جہاں چاہیں لے جا کر اپنے دشمنوں پر گرا سکتے ہیں، یہ مسلمان آگ اور صلیب کے پجاریوں کے دھوکے میں یہاں آ نکلے ہیں۔
اور ہمارا دھرم اور دھرم ہے جس پر ہماری عورتیں اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اپنے دھرم اور اپنی دھرتی پر قربانی دینے والی عورتوں کو دیوتا دھرتی سے اٹھا کر آکاش پر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے سائے میں رکھتے ہیں ۔
مہاراج کی جے ہو ۔۔۔ایک فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ ہماری عورتیں اس وقت قربانی دیں گی جب ہم کٹ چکے ہوں گے۔
تم نہیں سمجھے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہماری جوان عورتیں اس جنگ میں شامل ہو چکی ہیں۔
تم نہیں سمجھے۔۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔وہ نوجوان ہے کیا نام لیتے ہو اس کا، ہاں محمد بن قاسم ،وہ تلوار کو اور لڑائی بھڑائی کو کھلونا اور کھیل سمجھ رہا ہے ،وہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ دیوتاؤں کی آگ سے کھیل رہا ہے۔ ہماری ایک خوبصورت لڑکی اس کے سامنے چلی گئی تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے گی ،کسی نادان بچے کو معمولی سا کھلونا دکھا دو تو اپنا قیمتی کھلونا چھوڑ کر معمولی سے کھلونے کی طرف لپکا آئے گا ،،،،،کیا ایسا نہیں ہوتا؟
لیکن ہمیں یہی حسین ہتھیار استعمال نہیں کرنا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم جب اسے کھلے میدان میں اپنے سامنے لائیں گے تو وہ اپنے سب داؤپیچ بھول جائے گا اور ہم اسے ایسی بری حالت میں لے آئیں گے کہ وہ ہمارے سامنے جھک کر کہے گا مہاراج مجھے اپنی پناہ میں لے لو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر کی اس مجلس میں اس کا وزیر بدہیمن نہیں تھا ،بدہیمن اسی محل کے ایک کمرے میں راجہ داہر کی بہن مائیں رانی کو جو داہر کی بیوی بھی تھی لیے بیٹھا تھا، جس حسین حربے کا ذکر راجہ داہر کر رہا تھا اس کے استعمال کی تمام تر ذمہ داری بدہیمن اور مائیں رانی نے سنبھال رکھی تھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ دو قوموں نے فریب کاری عیاری اور انتہائی بے غیرتی کو تلوار سے زیادہ خطرناک ہتھیار بنایا ہے، ایک یہودی اور دوسرے ہندو، یہودی کبھی بھی کھلی جنگ میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زمین دوز محاذ آرائی جاری رکھی اور اس زمین دوز جنگ میں انھوں نے دو ہتھیار استعمال کیے ایک زر و جواہرات اور دوسرا انتہائی حسین اور تربیت یافتہ لڑکیاں ،ہندو کی تاریخ بھی بے حیائی بے غیرتی اور جنسیت سے بھری پڑی ہے، انھوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی تو تحفوں کے طور پر اپنی بیٹیاں دے دیں اور ان بیٹیوں کے ذریعے اسلامی سلطنتوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، اس کی سب سے بڑی اور عبرت ناک مثال مغل شہنشاہ اکبر کی ہے جسے ہندو آج تک مغل اعظم کہتے ہیں، ہندوؤں نے اس کا حرم اپنی انتہائی اور بے حد عیار لڑکیوں سے بھر دیا تھا ،ہندوستان کی اس طلسماتی ہوس نے اس مسلمان بادشاہتوں کو اس حد تک گمراہ کردیا تھا کہ اس نے دین الہی کے نام سے اسلام کا چہرہ ہی مسخ کر دیا تھا۔
جو قوم اپنی بہو بیٹی کو خواہ وہ سہاگ کی ایک ہی رات گزار کر بیوہ ہو جائے اپنے ہاتھوں چتا پر کھڑا کر کے زندہ جلا دیتی ہے اس کے لیے یہ حربہ معمولی نہیں کہ دشمن کو کمزور کرنے کے لیے بیٹیوں کو استعمال کرے یہ ان کے گھر میں شامل ہے ،ان کے پنڈت چانکیہ کی تحریر ارتھ شاستر کے عنوان سے آج بھی ہندو اور ان کے لیڈر عقیدت مندی سے پڑھتے ہیں، یہ کتاب اس وقت سے صدیوں پہلے لکھی گئی جب محمد بن قاسم اسلام کا پرچم لئے ہندومت کے لئے ایک عظیم چیلنج بن کر سندھ کے ساحل پر اترا تھا، مؤرخ شہادت پیش کرتے ہیں کہ راجہ داہر اپنے پنڈت چانکیہ کا اتنا معتقد تھا کہ اسے پیغمبری کا درجہ دیتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کا استقبال نیرون والوں نے یوں کیا تھا جیسے کوئی اوتار زمین پر اتر آیا ہو، اس نے وہاں کے حاکم سندر کو خودمختاری عطا کردی لیکن کوتوال اپنا مقرر کیا جس کا نام ذہلی بصری تھا ۔پھر اس شہر کے انتظامات کے متعلق احکام جاری کئے، اور ان شہر میں جس پہلی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا وہ ایک مسجد تھی، آج یہ کہنا مشکل ہے کہ حیدرآباد میں وہ کون سی قدیم مسجد ہے جس کی بنیاد کھودنے کے لیے پہلی کدال محمد بن قاسم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھوں چلائی تھی۔
محمد بن قاسم فوراً ہی پیش قدمی نہیں کرسکتا تھا ،حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق پیش قدمی سے پہلے یہ ضروری تھا کہ رسد اور کمک کے راستوں کو محفوظ کیا جائے، محمد بن قاسم اچھی طرح سمجھتا تھا کہ راجہ داہر کی یہ کوشش ہے کہ عرب فوج کی رسد اور کمک کا راستہ زیادہ سے زیادہ لمبا ہوجائے تاکہ عربی فوج اس کی حفاظت کا مستحکم انتظام نہ کر سکے۔
راستوں کی حفاظت کے انتظامات کے علاوہ جاسوسوں کو آگے بھیجنا بھی ایک پیچیدہ کام تھا، عربی فوج جوں جوں سندھ کے اندر آتی جا رہی تھی جاسوسوں کا کام مشکل ہوتا جا رہا تھا ،اب ضرورت یہ تھی کہ عربی جاسوسوں کے ساتھ مقامی جاسوس بھی رکھے جائیں۔
حجاج بن یوسف کی تمام تر توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز سندھ بن گیا تھا، باقاعدگی سے کمک بھیچ رہا تھا، اس کے لئے دیبل بڑا ہی کارآمد اڈہ بن گیا تھا زیادہ تر کمک اور جنگی سامان سمندر کے راستے آتا تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک کام اور کیا نیرون کی فوج نے بغیر لڑے شہر اس کے حوالے کر دیا تھا اس فوج کا جو حاکم تھا وہ اپنے تین چار جونیئر کمانڈروں کے ساتھ معلوم نہیں کس وقت نیرون سے بھاگ گیا تھا ۔محمد بن قاسم کو یہ بتایا گیا تھا کہ نیرون کی فوج لڑنے کے لئے تیار تھی اور یہ بھی کہ یہ فوج اس حد تک تیار تھی کہ نیرون کے حاکم کا حکم نہیں مانے گی، لیکن نیرون کے حاکم نے دروازے کھلوا دئیے اور شہریوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ نہ خود لڑیں گے نہ فوج کو لڑنے دیں گے۔
ان اطلاعوں سے محمد بن قاسم نے یہ تاثر لیا تھا کہ یہ فوج کسی بھی وقت خطرہ بن سکتی ہے اس خطرے کے پیش نظر اس نے نیرون کی فوج ایک میدان میں اکٹھا کیا اور ایک ترجمان کے ذریعے اس فوج سے خطاب کیا۔
ملک ہند کے سپاہیوں!،،،، تمہارے دلوں میں اب بھی یہ خوف موجود ہوگا کہ ہم تم سب کو قتل کردیں گے، ہونایہی چاہیے تھا ،یہی دستور چلا آرہا ہے کہ جس ملک کو فتح کرو اس کی فوج کو زندہ نہ رہنے دو لیکن یہ دستور اُن فاتحین کا ہوتا ہے جو ملک کو فتح کرنے کے لیے آتے ہیں، وہ مفتوحہ فوج کو اس لیے ختم کر دیتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے، ہم ملک گیری اور بادشاہی کے حصول کے لئے نہیں آئے ہیں، ہم اللہ کا ایک پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ہم یہ پیغام جو ایک عقیدہ ہے اور ایک سچا مذہب ہے تم پر اس لیے مسلط نہیں کریں گے کہ تم نے ہمارے آگے ہتھیار ڈالے ہیں، ہمارے ہاتھوں وہ قتل ہوتے ہیں جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، ہم تمہیں معاف کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کو دیکھو اگر تمہیں اس میں صحیح راستہ نظر آتا ہے تو اسے اختیار کر لو اور یہ بھی سوچو کہ تمہارے جو بت اور جو مورتیاں ہمیں اس شہر میں داخل ہونے سے نہیں روک سکی وہ تمہاری کیا مدد کر سکتی ہیں، وہ تو اپنے اوپر سے ایک مکھی بھی نہیں اڑا سکتی یہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے جس نے انسانوں کو بنایا ہے،،،،،،،
یہ بھی سن لو کہ ہم نے تمھیں جو آزادی دی ہے اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ تم گھروں میں بیٹھ کر اور چوری چھپے ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے پھرو ،تمہاری کوئی حرکت ہم سے چھپی نہیں رہے گی اور تمہاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے کانوں تک پہنچے گا،،،،،،، اور ہم تمہیں یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ تم میں سے جو یہاں سے جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے لیکن اسے دوبارہ یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔
اس دور کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کئی آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اس خوف سے مرے جا رہے تھے کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے گا ،انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی جان بخشی کردی گئی ہے ۔
محمد بن قاسم کا فیصلہ سن کر انہوں نے عرب کے شہزادے کی جے ہو کے نعرے سے زمین و آسمان ہلا دیے۔
کچھ ایسا ہی خوف شہریوں پر بھی طاری تھا پنڈتوں نے مندروں میں یہ پراپیگنڈا کیا تھا کہ مسلمان بہت ظالم ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کسی گھر میں کچھ نہیں چھوڑتے اور جوان عورتوں کو گھروں سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
یہ سب جھوٹ ثابت ہوا اور شہر کی فضا میں امن و امان کی خوشبوئیں مہکنے لگیں ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس مسجد کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی تھی اس کی تعمیر میں نیرون کے فوجیوں اور شہریوں نے بلا اُجرت حصہ لیا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیرون کی کچھ عورتیں اسے ملنے آئی ہیں، محمد بن قاسم نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
وہ سات آٹھ جوان لڑکیاں تھیں اور ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت تھی وہ سب ہندو تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں، اندر آکر انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ہندوانہ طریقے سے سلام کیا، ادھیڑ عمر عورت نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے پاؤں پر ماتھا رکھ دیا محمد بن قاسم پیچھے ہٹ گیا، پھر لڑکی آگے بڑھی کسی نے اس کے ہاتھ پکڑ کر چومے کسی نے اس کی عبا پکڑ کر آنکھوں سے لگائی اور والہانہ عقیدت اور تشکر کا اظہار کیا ،محمد بن قاسم نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعے ان سب کے ساتھ بات کی۔
تم سب کیوں آئے ہو؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
ہم بہت دنوں بعد خشک گھاس اور بھوسے کے نیچے سے نکلی ہیں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے جواب دیا۔۔۔۔ہمارے آدمیوں نے ان لڑکیوں کو چھپا دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>



⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پندرہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے جائیں، دیوار کے اوپر ایک بھی سپاہی نہیں رہا تھا جھنڈا گرنے سے وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ،مجاہدین نے دیوار پر کمند پھینکی اور اوپر چڑھنے لگے سب سے پہلے جو مجاہد دیوار پر چڑھا اس کا نام آج تک تاریخ میں محفوظ ہے وہ تھا "سعدی بن خزیمہ" وہ کوفہ کا رہنے والا تھا، دوسرا مجاہد جو دیوار پر گیا اس کا نام عجل بن عبدالملک بن قیس دینی تھا وہ ال جاروو میں سے تھا ،اور بصرہ کا رہنے والا تھا۔
شہر پر پتھر گر رہے تھے افراتفری مچی ہوئی تھی، مجاہدین ایک دوسرے کے پیچھے دیوار چڑھتے جارہے تھے کئی کمندیں پھینکیں گئیں تھیں، انہوں نے اندر سے دروازے کھول دیے اور محمد بن قاسم کی فوج سیلاب کی طرح دروازوں میں داخل ہوئی۔
پہلے اپنے قیدیوں کو دیکھو محمد بن قاسم نے ایک سالار سے کہا۔۔۔ اگر وہ اسی قلعے میں ہیں تو ہندو انہیں قتل کردیں گے، دیبل کی گلیوں میں خون بہنے لگا کسی پر رحم نہ کرو محمد بن قاسم بڑی بلند آواز سے کہہ رہا تھا یہ لوگ رحم کے قابل نہیں۔
شہر کے لوگوں نے اور سپاہیوں نے اسلامی فوج کو بہت طعنے دیے تھے، دیوار کے اوپر سے ان کا مذاق اڑایا تھا اب وہ مجاہدین کی للکار سن رہے تھے۔
بلاؤ اپنے دیوتاؤں کو تمہیں بچائیں ۔
اپنے بتوں سے مدد مانگو۔
کہاں ہے دیوتاؤں کا قہر۔
محمد بن قاسم اپنے محافظوں کے ساتھ قید خانے کی طرف گھوڑا دوڑاتا جا رہا تھا محمد بن قاسم اپنے محافظ دستے کے ساتھ قید خانے کی طرف جا رہا تھا محافظوں نے قلعے کے ایک آدمی کو رہبر کے طور پر ساتھ لے لیا تھا ،رہبر کا گھوڑا ان کے آگے آگے جا رہا تھا۔
عرب کی فوج شہر میں پھیل گئی ایک مکان سے تین عربی سپاہی نکلے وہ دو جوان عورتوں کو گھسیٹ کر لارہے تھے، دو مقامی آدمی اندر سے نکلے اور عربی سپاہیوں کے آگے آ کر دو زانو بیٹھ گئے ،انہوں نے ہاتھ جوڑ کر سپاہیوں سے التجاء کی کہ وہ ان عورتوں کو نہ لے جائیں، ایک سپاہی نے تلوار نکالی اور وار کرنے کو اوپر اٹھائی۔
رُک جا ؤ!،،،،،،اس مسلمان سپاہی کو للکار سنائی دی،،،،،،تلوار نیچے کر لے، اس نے تلوار نیچے کرکے ادھر دیکھا اس کا سالار اعلی محمد بن قاسم آرہا تھا، اسی نے اسے للکارا تھا ۔
محمد بن قاسم نے ان سپاہیوں کے قریب جاکر گھوڑا روکا ،کیا تم دونوں عرب ہو؟
ہاں سالار!،،،،،،،، ایک نے تعظیم سے کہا ۔۔۔ہم عرب ہیں۔
کیا تم مسلمان نہیں ہو؟
الحمدللہ سالار!،،،،عرب دوسرے نے کہا۔۔۔ ہم مسلمان ہیں۔
کیا تمہارے خون میں فارسیوں کے خون کی ملاوٹ ہے یا رومیوں کے خون کی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم میرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہتّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔۔۔ وہ گرج کر بولا چھوڑ دو انہیں۔
محمد بن قاسم نے عورتوں اور ان کے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ وہ اندر چلی جائیں اور وہ اپنے قاصدوں سے مخاطب ہوا جو اس کے ساتھ تھے۔
سارے شہر میں گھوم جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور اعلان کرتے جاؤ کے صرف فوج کے آدمیوں کو پکڑو شہر کے لوگوں، ان کی عورتوں، اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے والے کی سزا موت ہوگی، اس وقت تاریخ اسلام کا یہ کمسن اور بیدار مغز سالار بہت جلدی میں تھا، جن قیدیوں کو وہ رہا کرانے کا عزم لے کر آیا تھا وہ خطرے میں تھے، محمد بن قاسم ان کے قتل سے پہلے قیدخانے میں پہنچ جانے کی کوشش میں تھا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس طرح شہر میں بھگدڑ مچ گئی تھی ایسی ہی افراتفری قید خانے کے اندر بپا ہو چکی تھی، قید خانے کے چاروں کونے پر سنتریوں کی مچانیں بنی ہوئی تھیں، سنتریوں نے جب دیکھا کہ مندر کا جھنڈا گر رہا ہے تو وہ مچانوں سے اتر آئے اور قید خانے میں پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرے۔
دیول گر رہا ہے۔۔۔ وہ چلاتے پھر رہے تھے۔۔۔ دیول کا قہر آ رہا ہے۔۔۔ لوگ قلعے سے بھاگ رہے ہیں۔
قیامت جو قید خانے کے باہر باپا تھی وہ پتھروں کی اونچی اور مضبوط دیواروں کے اندر بھی بپا ہوگئی ،بڑے دروازے والے سنتری نے دروازہ کھول دیا ،قید خانے کے تمام قیدی نکل بھاگے، کوٹھریوں میں جو قیدی بند تھے وہ سالاخوں کے ساتھ ٹکرانے لگے وہ نکل نہیں سکتے تھے۔
باہر کی خبر تہہ خانے تک بھی پہنچ گئی جہاں عرب کے قیدی بند تھے، سب قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے،انہیں ابھی معلوم نہیں تھا کہ مسلمان فوج شہر میں داخل ہو گئی ہے انہیں صرف یہ احساس تھا کہ وہ قید خانے میں نہیں بلکہ موت کی آغوش میں بیٹھے ہیں، صبح طلوع ہوئی تھی تو وہ اسے اپنی زندگی کی آخری صبح سمجھتے تھے، سورج غروب ہوتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ ان کی زندگی کا آخری سورج ڈوب گیا ہے، وہ ہر روز مرتے اور زندہ ہوتے تھے، انہیں یہ علم ہو گیا تھا کہ عرب کی فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے، عبادت تو وہ پہلے بھی کرتے تھے عبادت کے سوا ان کی اور کوئی مصروفیت تھی بھی نہیں، لیکن محاصرے کی خبر سن کر ان کا ہر لمحہ عبادت اور دعا میں گزرنے لگا تھا۔
انہوں نے اسلامی دستور کے مطابق اپنا ایک امیر مقرر کر لیا تھا ،وہ عمرع بن عوانہ تھا۔ شام کا رہنے والا تھا، جس روز باہر کی بھگدڑ اور نفسانفسی قیدخانے میں پہنچی اس روز عمر بن عوانہ نے آدمیوں اور عورتوں کو آخری پیغام دیا۔
اس فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ ہم رہا ہوں گے یا قتل۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔ دعا کرو اللہ قیدخانے کے سنتریوں سے پہلے عرب کے سپاہیوں کو ہم تک پہنچا دے، اگر سنتری تمہیں باہر نکالنے لگے تو ان سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرنا، مرنا ہی ہے تو لڑتے ہوئے مرنا، اگر ہم سب کو اکٹھے نکالا گیا تو قیدخانے میں ہی ہم سب ان پر ٹوٹ پڑیں گے، ہر وقت زبان پر اللہ کا نام رکھو۔
وہ اپنی کوٹھری کی سلاخوں کے ساتھ لگا بول رہا تھا، قیدی چار کشادہ کوٹھریوں میں بند تھے سب نے اپنے امیر کی آواز پر لبیک کہی، عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تہ خانے میں جو سیڑھیاں اترتی تھیں ان پر قدموں کی دھمک سنائی دینے لگی۔
سیڑھیوں کے ساتھ والی کوٹھڑی سے آواز اٹھی خبردار دروازے کھلتے ہی اندر گھسیٹ لینا یہ آواز عربی زبان میں تھی۔
تمام قیدی تیارہوگئے کوٹھریوں میں خاموشی طاری ہو گئی، جسے بھاری قدموں کی دھمک توڑ رہی تھی، سب سے پہلے قید خانے کا دروغہ قیدیوں کو نظر آیا اس کا نام قُبلہ تھا، تاریخ میں اس کا مذہب نہیں لکھا خیال ہے کہ وہ بدھ تھا ،اس کے آتے ہی اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا تھا اس کے پیچھے جو آدمی سامنے آئے وہ اس قید خانے کے سنتری نہیں تھے۔
خدا کی قسم تم عرب کے مجاہد ہو۔۔۔ایک کوٹھری سے آواز بلند ہوئی۔۔۔ تمہارے جسموں سے عرب کی خوشبو آتی ہے۔
اور اس کے بعد تہہ خانے کا منظر انتہائی جذباتی ہو گیا ،قیدی ان سے لپٹ رہے تھے جو انہیں چھوڑانے آئے تھے، یہ محمد بن قاسم کے محافظ دستے کے سپاہی تھے، سب پر خوشی اور فتح کی رقت طاری تھی۔
فوراً اوپر آؤ۔۔۔ محافظوں کے کماندار نے کہا۔۔۔ سالار اعلی انتظار کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم اوپر قید خانے کے وسط میں کھڑا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کی نظریں اس تاریک راہداری کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں جس میں اس کا محافظ دستہ غائب ہو گیا تھا، اسے سب سے پہلے قیدی خواتین نظر آئیں وہ اپنی نجات دہندہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں، لیکن دھوپ میں آئیں تو ان کی آنکھیں چوندھیا گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے وہ ایک لمبے عرصے بعد دھوپ میں آئیں تھیں، انہیں سورج کی روشنی اور تپش سے محروم کردیا گیا تھا ان کے پیچھے جو بھی قیدی باہر آیا اس نے سرجھکا کر دونوں ہاتھ اوپر آنکھوں پر رکھ لئے
آنکھیں کھولو۔۔۔ عمربن عوانہ نے جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔اپنے فاتح سالار کو دیکھو جو فرشتہ بن کر اترا ہے۔
محمد بن قاسم گھوڑے سے کود آیا اور دوڑتا ہوا آگے گیا سب سے آگے جو عورتیں تھیں ان کی آنکھوں نے سورج کی چمک کو قبول کر لیا تھا، اور ان کی اپنی کوشش بھی یہی تھی کہ ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو جائیں ،انہوں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان ان کے سامنے اس طرح موجود تھا کہ اس کا ایک گھٹنا زمین پر تھا اور دوسرا گھٹنا سامنے تھا وہ زمین پر ایک زانو تھا اور اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے یہ محمد بن قاسم تھا، جو قیدیوں کے استقبال کو اس پوزیشن میں زمین پر بیٹھ گیا تھا، عورتیں اس کے قریب آ کر رک گئیں۔
کیا میں نے عہد پورا کردیا ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ کیا تم اللہ کے حضور گواہی دوں گی کہ یہ ہے اسلام کا وہ فرزند جس نے ہمیں کفار کی کال کوٹھریوں سے نکالا تھا۔
ایک ادھیڑ عمر عورت اس کی طرف لپکی اور اسے اٹھا کر گلے لگا لیا پھر اس کے چہروں پر بوسوں کی بوچھاڑ کردی۔
خدا کی قسم!،،،،،، اس خاتون نے کہا ۔۔۔اہل ثقیف کی مائیں ایسا بیٹا پھر نہیں جنیں گیں، ہر قیدی جذبات اور عقیدت سے دیوانہ ہو کر محمد بن قاسم سے لپٹ لپٹ کر ملا ۔
محمد بن قاسم رہا کرائے ہوئے قیدیوں کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں گیا ،اس نے قید خانے میں ان قیدیوں کا شور سنا جو بند کوٹھریوں کی سلاخوں کو جھنجھوڑ رہے تھے، اور جو قیدی باہر تھے وہ اپنے پاؤں میں پڑی ہوئی آہنی بیڑیوں کو پتھروں سے توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ سب پنجروں میں بند پرندوں کی طرح تڑپ رہے تھے پھڑپھڑا رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دروغہ کو پکڑ کر لاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔۔ اور اسے قتل کر دو ۔
محافظ دوڑ پڑے قید خانے میں ہر جگہ دیکھا محافظوں کو صرف قیدی دکھائی دئے ان سے پوچھا دروغہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا، محمد بن قاسم جب قید خانے میں داخل ہوا تھا تو اسے دروغہ مل گیا تھا، اس نے فوراً بتادیا تھا کہ عرب کے قیدی کہاں ہیں، اس نے چابیاں لیں اور محافظ کے ساتھ تہہ خانے کی طرف چل پڑا تھا ،جس وقت قیدی باہر آکر محمد بن قاسم سے ملے تھے اس وقت دروغہ وہاں سے کھسک گیا تھا، نکل بھاگنے کا موقع اچھا تھا۔
دو قیدی بیڑیوں سمیت قدم گھسیٹتے قیدخانے کے بڑے دروازے سے نکل رہے تھے انہوں نے بتایا کہ دروغہ باہر چلا گیا ہے ،دو محافظوں نے باہر کو گھوڑے دوڑا دئیے انہوں نے دروغہ کو پہلے دیکھا تھا تھوڑی ہی دور گئے تو انہیں دروغہ جاتا نظر آ گیا اسے پکڑ کر محمد بن قاسم کے پاس لے آئے۔
کیا تو سمجھتا تھا کہ دیبل سے زندہ نکل جائے گا ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے ترجمان کی معرفت پوچھا۔
اے فاتح سالار!،،،،، دروغہ نے کہا ۔۔۔۔اگر میں زندہ نکل جانے کی کوشش میں ہوتا تو آپ کے ان آدمیوں کو اتنی آسانی سے نہ مل جاتا۔
کیا تو زندہ نکلنے کی کوشش میں نہیں تھا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔ کیا تو قتل ہونا چاہتا ہے؟
نہیں !،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہو گی کہ آپ فاتح ہیں اس کے سوا آپ کے پاس میرے قتل کی کوئی اور وجہ موجود نہیں۔
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ قید میں رکھنا کوئی جرم نہیں ؟،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارا یہ جرم کیسے بخش دوں؟
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا جرم ہے ؟،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ انہیں ہمارے راجہ کے حکم سے قید میں ڈالا گیا تھا ،اور انھیں آرام اور عزت سے میرے حکم سے رکھا گیا تھا ،انھیں قید میں ڈالنے کی سزا کا حقدار راجہ داہر ہے ،اور اگر انہیں قید خانے میں کوئی تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس کی سزا ملنی چاہیے، پہلے ان قیدیوں سے پوچھ لیں سالار محترم۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے اپنے قیدیوں سے پوچھا کہ قید خانے میں ان کے ساتھ ان لوگوں کا سلوک کیسا رہا ؟،،،،،،تمام قیدیوں نے بتایا کہ یہ دروغہ ہر روز تہہ خانے میں آتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا ،تمام قیدیوں نے اس کے سلوک
کی بہت تعریف کی۔
سالار محترم !،،،،،دروغہ نے کہا ۔۔۔آپ نہیں جانتے کہ میں نے ان قیدیوں میں جو دو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو میں نے دیبل کے حاکم سے بڑی مشکل سے بچا کر رکھا ہے، کبھی کبھی وہ قید خانے میں آیا کرتا تھا ،میں اس کے آنے کی اطلاع پر ان دو لڑکیوں کو ایک جگہ چھپا دیا کرتا تھا، اور سالار محترم اروڑ سے راجہ داہر کا حکم آیا تھا کہ عرب کی فوج کا دیبل کا محاصرہ کامیاب ہوگیا اور عرب فوج شہر میں داخل ہو گئی تو ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، وہ وقت آ گیا تھا میں نے اپنے راجہ کے اس حکم کی تعمیل نہ کی۔
جیل سے سنتری بھاگ گئے تھے ۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔راجہ داہر کا قانون اور حکم ختم ہوگیا تھا، پھر تم نے ہمارے قیدیوں کو آزاد کیوں نہ کر دیا۔
آزاد کر دیتا تو سنتری بھاگنے سے پہلے انہیں قتل کردیتے ۔۔۔۔۔دروغہ نے جواب دیا ۔۔۔۔سنتریوں کو معلوم تھا کہ عرب کی فوج ان قیدیوں کو رہا کرانے کے لئے آ رہی ہے، انہوں نے دیول پر پتھر گرتے اور پھر جھنڈے کو بھی گرتے دیکھا تھا ،یہ ان قیدیوں سے انتقام لے لیتے لیکن میں نے تہہ خانے کا دروازہ بند کرا دیا تھا ،سب کے بھاگ جانے کے بعد میں یہاں موجود رہا ،میں نے عہد کیا تھا کہ ان قیدیوں کو عربی فوج کے حوالے کرکے یہاں سے جاؤنگا، میں اپنا عہد پورا کرکے جا رہا تھا، میں بھاگ نہیں رہا تھا۔
تم ان پر اتنے مہربان کیوں رہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
اس لئے کے یہ بے گناہ تھے ۔۔۔دروغہ نے جواب دیا۔۔۔ اگر آپ نے مجھے قتل کرانا ہے تو تلوار ان قیدیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں اور اسے کہیں کہ وہ مجھے قتل کریں۔
قیدی پہلے ہی محمد بن قاسم کو بتا چکے تھے کہ اس دروغہ نے انہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔
تمہیں اسلام قبول کر لینا چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہاری قدروقیمت صرف اسلام میں جانی پہچانی جائے گی ،تم پر کوئی جبر نہیں میں تمہیں قبول اسلام کی دعوت دے کر ایک نیکی کر رہا ہوں اس کا اندازہ تمہیں اسلام میں آکر ہوگا۔
تاریخیوں میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے، دروغہ نے اسلام قبول کرلیا یہ واضح نہیں کہ اس کا نام قُبلہ اسلامی تھا یا پہلے ہی اس کا نام یہی نام تھا اور یہ بدلا نہیں گیا ،تاریخیوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ہندوستان کے کسی اور علاقے کا رہنے والا تھا، اور وہ ہندوستان کا مشہور دانشور، صاحب علم ،اور اہل قلم تھا ۔محمد بن قاسم نے اس کی یہ خوبیاں بھانپ لی، اور نہ صرف قید خانے کا دروغہ رہنے دیا ،بلکہ دیبل کا جو امیر مقرر کیا گیا دروغہ قُبلہ کو اس کا مشیر بنا دیا۔ حمید بن ورداع نجدی کو دیول کا امیر یا حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ اسے محمد بن قاسم نے کہا کہ وہ انتظامی امور اور دیگر معاملات میں قُبلہ سے مشورہ لیا کرے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم ابھی قیدخانے میں تھا اور اس نے قبلہ کو دروغہ قیدخانہ مقرر کردیا۔
کیا یہاں ایسے اور بھی بے گناہ قیدی ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے قبلہ سے پوچھا۔
جس ملک کا حکمران سچ سننا پسند نہ کرتا ہو اس ملک کے قیدخانے سچ بولنے والوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔قبلہ نے جواب دیا۔۔۔ یہاں کئی بے گناہ ہوں گے۔
یہ فیصلہ تم خود کرو قبلہ !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔ جنہیں بے گناہ سمجھتے ہو انہیں رہا کر دو،اور جو مجرم ہے ان کی سزائیں اگر جرم کی نسبت زیادہ ہے تو کم کردو، اب اسلامی عدل و انصاف کے اصول چلیں گے۔
عرب کے جن قیدیوں کو رہا کرایا گیا تھا ان کے متعلق محمد بن قاسم نے حکم دیا کے انہیں فوراً کشتیوں میں عرب کو بھیج دیا جائے۔ اس نے ان قیدیوں کے ساتھ بہت باتیں کیں۔
،،،، تم اللہ کا شکر صرف اس پر بجا نہ لاؤ کہ تم اس قیدخانے سے زندہ و سلامت نکل آئے ہو،جس سے تم جیسے قیدی زندہ نہیں نکلا کرتے، بلکہ اللہ نے تمہیں بہت بڑی سعادت بخشی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قیدیوں سے کہا۔۔۔ تم یہاں قید نہ ہوتے تو میں یہاں نہ آتا، میں آگیا ہوں تو میں اس کفرستان کے گوشے گوشے میں اسلام کا نور پھیلاؤنگا، تمہاری قید نے میرے لیے نہیں اسلام کے لئے راستے کھول دیے ہیں، اس ملک کی تاریخ میں جب یہاں اسلام کی آمد کا ذکر آئے گا تو اسلام سے پہلے تمہارا ذکر ہوگا ،سندھ کی فتح کے ساتھ تمہارا ذکر ہو گا ،تم نے قید کی جو اذیت برداشت کی ہے اللہ اسکا تمہیں اجر دے گا، دعا کرتے رہنا کہ میں جو عزم لے کر آیا ہوں وہ پورا کر سکوں، تمہاری رہائی پر ہی میرا کام ختم نہیں ہوا، میرا کام اب شروع ہوا ہے ،
قیدی دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل کا ہندو حاکم بھاگ گیا تھا اسے بہت ڈھونڈا گیا گھر گھر دیکھا گیا اس کا سراغ نہ ملا ،وہ نیرون پہنچ گیا تھا اسے نیرون میں ہی پناہ مل سکتی تھی، وہ اروڑ میں راجہ داہر کے پاس جاتا تو داہر اسے شکست اور اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ آنے کے جرم میں قتل کرا دیتا، اسے معلوم تھا کہ نیرون کا حاکم سندرشمنی امن پسند آدمی ہے۔
داہر کو جب اطلاع ملی کہ دیول پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے تو وہ صحیح معنوں میں آگ بگولا بن گیا، کوئی بھی اس کے سامنے نہیں جاتا تھا، ایسی جرات اسکا دانشمند وزیر بدہیمن ہی کرسکتا تھا ،وہ اندر چلا گیا۔
کیا لینے آئے ہو ؟،،،،راجہ داہر نے گرج کر بدہیمن سے کہا۔۔۔ کہاں گئی تمہاری دانشمندی؟
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری فوج نے عرب کے حملہ آوروں کو دو بار شکست دی تھی، اس سے ہماری فوج نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اُسے کسی میدان میں شکست تو ہو ہی نہیں سکتی ،ہماری فوج پر فتح کا نشہ سوار ہوگیا تھا ،مسلمانوں کے دباؤ کو ہمارے سپاہی برداشت نہ کر سکے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا۔۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔عرب کے ان مسلمانوں نے مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے تھے، گنبد ٹوٹا تو جھنڈا گر پڑا ،ہماری قسمت اس جھنڈے کے ساتھ وابستہ ہیں ،اگر وہاں اس سے چار گنا زیادہ فوج ہوتی تو وہ بھی بھاگ جاتی۔
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔سوال آپ کے راج بھاگ کا ہے، اگر مسلمان اسی طرح فتح پر فتح کرتے آئے تو اپنا انجام سوچ لیں ،آپ تخت سے تہہ خانے تک پہنچ جائیں گے، آپ نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا اور مجھے دانشمند سمجھا ہے ،اور آپ کو میری وفاداری پر بھی شک نہیں تو میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میری کسی بات سے آپ خفا نہیں ہوں گے۔
نہیں ہونگا ۔۔۔راجہ داہر نے جھنجلا کر کہا ۔۔۔تم بات کرو اور فوراً کرو، دیبل پر قبضہ ہو گیا ہے تو یوں سمجھو کہ دشمن نے ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قسمت بےجان چیزوں کے ساتھ وابستہ کر دی ہے، وہ ایک جھنڈا تھا جو گر پڑا تھا وہ کپڑے کا ٹکڑا تھا اور ایک بانس کے ساتھ بندھا ہوا تھا، پنڈتوں نے دلوں میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ یہ جھنڈا دیوتاؤں نے اپنے ہاتھوں یہاں لہرایا تھا ،یہ گر پڑا تو سمجھو ہم سب گر پڑے، اور دیوتاؤں کا قہر آ گیا ،اگر اپنی فوج کو اور اپنے لوگوں کو یہ بتایا جاتا کہ یہ جھنڈا ہماری عظمت اور عزت کا نشان ہے، دشمن اس تک نہ پہنچنے پائے ،اگر جھنڈے کو ہم یہ درجہ دیتے تو دیول کی فوج اور وہاں کے لوگ اپنی جانیں لڑا دیتے۔
انہوں نے جانے لگا دی تھیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔وہ سب دروازے کھول کر باہر نکلے اور دشمن پر حملہ کردیا تھا۔
میں جانتا ہوں مہاراج!،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔وہاں سے آئے ہوئے دو آدمیوں میں سے میں نے پوری تحقیقات کی ہے، ہماری فوج اور دیبل کے شہریوں کا باہر نکل کر مسلمانوں پر جو حملہ کیا تھا وہ حملہ نہیں تھا وہ تو خودکشی کی کوشش تھی، یہ بھی عقیدہ ہے کہ جھنڈا گر پڑے تو دشمن پر اندھا دھند ٹوٹ پڑو اور مارے جاؤ۔
وہ تو مارے جاچکے ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں دیول کے حاکم کو اور وہاں کے فوجی حاکم کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا، معلوم نہیں وہ کہاں ہے؟
مہاراج کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔انہیں زندہ رہنے دیں ،اور انہیں شرمسار کریں، وہ کوشش کریں گے اور اگلی لڑائی میں اپنے چہروں سے شکست کا داغ دھو ڈالیں گے،لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے مہاراج اگر ان کے دلوں پر یہ دہشت طاری رہی تو دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا اس لیے ان پر دیوتاؤں کا قہر گرتا رہے گا، تو وہ ہر میدان میں شکست کھائیں گے
کیا میں انہیں یہ کہو کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔۔۔راجہ داہر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ کیا میں یہ کہوں کہ مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ؟،،،،جس کے ماننے والوں نے دیول کا جھنڈا گرا کر ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، بدہیمن تم دانشمند ہو تم میں مجھ سے زیادہ عقل ہو سکتی ہے، لیکن میرا یہ عہد سن لو کہ سندھ میں اسلام نہیں آئے گا۔
وہ تو آ گیا ہے مہاراج!،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج نے پہلے ہی اسلام کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے، جن عربوں کو مہاراج نے اپنے سائے اور شفقت میں رکھا ہوا ہے وہ ہمارے نہیں اپنے مذہب کے لوگوں کے ہمدرد ہیں ،کیا مہاراج نے سوچا ہے کہ مسلمانوں کے سالار کو کس نے بتایا تھا کہ اس جھنڈے کو گرا دو تو دیبل والوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، شہر کے دروازے بند تھے اندر سے باہر کوئی نہیں گیا، یہ ایک راز تھا جو ان عربوں نے حملہ آور سالار کو دیا ہے ،جنہیں ہم نے مکران میں آباد کر رکھا ہے ۔
ان کے خلاف میں اب کیا کرسکتا ہوں؟
مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ انہیں اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ان سے ایک راز لینے کی کوشش کریں، ان سے پوچھیں کہ منجنیق کس طرح بنائی جاتی ہے؟،،،، ہوسکتا ہے انھیں میں منجنیق بنانے والے ایک دو کاریگر ہوں، اگر ہمیں دس بارہ منجنیقیں مل جائیں تو ہم مسلمان فوج کے پڑاؤ پر رات کے وقت پتھر اور آگ کے گولے برسا سکیں گے، جب ان کی فوج ایک جگہ سے کوچ کرے گی تو ہم انھیں اگلے پڑاؤ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
یہ راز تم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر ان میں کوئی کاریگر نہ ملے تو ان میں سے ایسے آدمی تیار کرو جو عرب کی فوج میں ان کے وفادار بن کر شامل ہو جائیں اور منجنیقوں کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ اس کی ساخت کیا ہے، اور کس لکڑی سے بنتی ہے، میں منجنیقیں بنانے والے کو اتنا انعام دوں گا جو اس کی سات پشتوں میں ختم نہیں ہوگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل کی شکست راجہ داہر کے لئے معمولی سی چوٹ نہیں تھی اور وہ کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا کہ وزیر کے مشورے کے بغیر کچھ سوچ ہی نہ سکتا ،وہ تجربے کار اور عیار قسم کا جنگجو تھا، ہندومت کے سوا کسی اور مذہب کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا، اس کے وزیر اس کی فوج کے سالار اور مشیروں اور پنڈتوں تک کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے ہی لمحے وہ کیسی خوفناک کارروائی کا حکم دے دے، وہ شکست کھانے والے فوجی افسروں کو بخشنے والا نہیں تھا۔
اس نے بدہیمن کو رخصت کردیا اور کمرے کے دروازے بند کرکے تنہائی میں بیٹھ گیا، اس کے درباری اور حاکم وغیرہ باہر کھڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، انہیں معلوم تھا کہ راجہ آگ اگلنے والا پہاڑ ہے اگر یہ پھٹ پڑا تو معلوم نہیں کس کس کو بھسم کر ڈالے گا۔
بہت دیر بعد اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس نے حکم دیا کہ جے سینا کو فوراً بلایا جائے۔
جے سینا راجہ داہر کا اپنا بڑا بیٹا تھا ،جو کسی دوسری بیوی میں سے تھا اس نے اپنی سگی بہن کو بھی بیوی بنا رکھا تھا لیکن کہتا تھا کہ وہ اس کی بہن ہی ہے۔
جے سینا سندھ کی فوج میں سالار تھا جسے فوجی حاکم کہا جاتا تھا، جس وقت داہر نے اسے بلایا اس وقت وہ اپنے دستوں کے ساتھ نیرون کے مضافات میں کسی جگہ خیمہ زن تھا، اسی وقت قاصد روانہ ہو گیا۔
جے سینا آدھی رات کے وقت آ پہنچا ،راجہ داہر اس کے انتظار میں جاگ رہا تھا اس نے اپنے بیٹے کو آرام تک نہیں کرنے دیا اور اپنے پاس بٹھا لیا ۔
میرے عزیز بیٹے!،،،، اس نے کہا ۔۔۔کیا تم نے اس خطرے کا اندازہ کیا ہے جو ہمارے سر پر آگیا ہے؟
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔۔۔میں حیران ہوں کہ آپ ابھی تک سوچوں میں پڑے ہوئے ہیں میں فوراً دیول پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہوں۔
جوان اور بوڑھے میں یہی فرق ہوتا ہے ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ جوان آدمی کرکے سوچتا ہے اور بوڑھا سوچ کر کرتا ہے، تم نے نہیں سوچا کہ نیرون ہاتھ سے نکل چکا ہے، میں زہر کا یہ گھونٹ اپنے حلق سے کبھی نہیں اتاروں گا۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عرب کی حملہ آور فوج کا سالار مجھ سے بھی چھوٹی عمر کا ہے۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ آپ مجھے صرف اس لیے کم عقل نہ سمجھیں کہ میں جوان ہوں۔
میں تمہارا اور اس کا مقابلہ نہیں کر رہا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس پر غور کرو اور جو میں کہتا ہوں وہ کرو ،اور یہ بھی سوچ لو کہ اب یہ جنگ کی صورت بدل چکی ہے، اب یہ دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی جنگ نہیں، یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے، مسلمانوں نے دیول کا متبرک جھنڈا گرا کر ہمارے مذہب کو اور ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، اب ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والا ان کے قہر سے نہیں بچ سکتا، یہ بھی سوچ لو کہ ہم نے اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی تو یہ سیاہ دھبہ میرے خاندان کے چہرے پر لگا رہے گا کہ اس خاندان نے ہندوستان میں اسلام کے لیے دروازے کھولے تھے، اتنی زیادہ باتوں کا وقت نہیں، ارمن بیلہ اور دیبل کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے یہ بڑی خطرناک صورت ہے، دشمن کو وہ مضبوط اڈے مل گئے ہیں ،دیبل بندرگاہ ہے اب دشمن کو سمندر کے راستے کمک رسد اور ہر طرح کی مدد آسانی سے ملتی رہے گی ،ادھر نیرون کے حاکم سندرشمنی نے پہلے ہی مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔
پِتامہاراج !،،،،،جے سینا نے کہا۔۔۔ نیرون کو ہم اس طرح بچا سکتے ہیں کہ میں اپنے دستے نیرون میں بھیجوں اور وہاں کے حاکم سندر شمنی کو اس کے گھر میں نظر بند کر دوں۔
نہیں! ،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر تم ایسا کرو گے تو وہاں کے لوگ تمہارے خلاف ہو جائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائیں، کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے وزیر بدہیمن نے لوگوں کو مرعوب کرنے اور وہاں کے حاکم کے خلاف بھڑکانے کے لئے شعبدہ بازی کا انتظام کیا تھا، لیکن وہ بری طرح ناکام رہا، مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے اس ناکامی کے پیچھے عربوں کا ہاتھ تھا جو سندرشمنی کے بلانے پر یا وہ خود ہی نیرون میں آگئے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندرشمنی کا عربوں کے ساتھ درپردہ رابطہ ہے۔
اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس شخص کو ہمیشہ کے لیے غائب کر دو ۔۔۔جے سینا نے کہا۔
اگر ایسا کرنا ہوتا تو میں کبھی کا اسے غائب کر چکا ہوتا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔لیکن اس حالت میں جب کہ حملہ آور ہمارے قلعوں پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کے جاسوس ہمارے محلات تک پہنچ رہے ہیں میں کوئی خطرہ مول نہیں لوں گا ،خطرہ یہ ہے کہ نیرون میں بدھ مت کے لوگ جمع ہو گئے ہیں وہ خانہ جنگی پر اتر آئیں گے، اور اس کا فائدہ حملہ آور مسلمان کو پہنچے گا، میں نے یہ سوچا ہے کہ جب مسلمان کی فوج دیبل سے آگے بڑھے گی تو میں نیرون کے حاکم سندرشمنی کو کسی خاص اور ضروری کام کے بہانے اپنے پاس بلا لوں گا ،میرا خیال یہ ہے کہ مسلمان دیبل سے نیرون پر ہی آئیں گے، تم ابھی واپس چلے جاؤ اور اپنے دستے برہمن آباد لے جاؤ ،تمہیں دریا عبور کرنا پڑے گا لیکن یہ بہت ضروری ہے وہ اس لئے کہ دشمن جب تمہارے سامنے آئے تو دریا تمہاری پیٹھ کے پیچھے ہو، اس طرح دشمن تمہارے عقب میں نہیں آ سکے گا، نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم ہے اس سے ملنا اور کہنا کہ وہ نیرون کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
جے سینانے کہا! اور اگر لوگوں نے اپنی ہی فوج کے لئے کوئی مشکل پیدا کر دیں تو کیا کارروائی کی جائے؟
جیسی صورتحال پیدا ہو وہ اس کے مطابق کارروائی کرے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر وہ کسی طرح مجھ تک اطلاع پہنچا سکے تو پہنچا دے، میں کچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ،اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کر رہا ہوں کہ میں مسلمانوں کے سالار محمد بن قاسم کو ایک خط لکھ رہا ہوں ،میں اسے ڈرانے کی کوشش کروں گا ،میں جانتا ہوں کہ جو اپنے وطن سے اتنی دور آئے ہیں وہ الفاظ سے نہیں ڈرا کرتے، لیکن اس طرح ہمیں تیاری کا اور اپنے دستے مختلف جگہوں پر بھیجنے کا وقت مل جائے گا۔
جے سینا اسی وقت روانہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل میں اذان گونج رہی تھی ،محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ان فوجیوں کو جو بھاگ نہیں سکے تھے قیدی بنا لیا تھا ،اس فوج میں سے زیادہ تر آدمی محمد بن قاسم کے اس حکم کے تحت مارے گئے تھے کہ کسی کو بخشا نہ جائے، دیبل کے شہریوں نے بھی دیول کا جھنڈا گرنے کے بعد مسلمان فوج پر ہلہ بولا تھا لیکن محمد بن قاسم نے عام معافی کا اعلان کردیا ،اس طرح کچھ لوگ شہر سے بھاگ کر مضافات میں ہی کہیں چھپ گئے تھے وہ آہستہ آہستہ واپس آگئے۔
محمد بن قاسم نے مال غنیمت اپنی فوج میں تقسیم کیا اور بیت المال کا حصہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سمندر کے راستے عراق بھیج دیا۔ اس نے حمید بن ورداع نجدی کو امیر دیبل مقرر کیا ۔
دیبل کو مکمل طور پر اسلامی شہر بنانے کے لئے محمد بن قاسم نے شہر کے وسط میں ایک مسجد کی تعمیر شروع کردی ،اس مسجد کی بنیادوں کی کھدائی میں بسم اللہ محمد بن قاسم نے اپنے ہاتھوں کی، آج اس مسجد کا کہیں نام و نشان ہے نہ دیبل کہیں نظر آتا ہے، اس کے کھنڈر بھی وقت اور زمانے کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن تاریخ میں دیبل ایک سنگ میل کی طرح زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس شہر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ یہاں ہندوستان کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔
دو تاریخ نویسوں نے اس وقت کی تحریروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دیبل کے لوگ محمد بن قاسم کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ وہاں کے بت تراشوں نے محمد بن قاسم کا مجسمہ بنالیا تھا ،کسی اور مستند مورخوں نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کا اور اس کی فوج کا سلوک وہاں کے شہریوں کے ساتھ اتنا مُشفقانہ تھا کہ لوگ اس کی پوجا کرنے پر بھی اتر آئے تھے، محمد بن قاسم کو بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن وہ شہری انتظامات مکمل کیے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار کے سامنے ایک مقصد تھا وہ ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا جو دولت اور ملک گیری کی ہوس لے کر حملہ کرتے اور بستیوں کی بستیاں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے جاسوسی کا نظام خالد بن ولید جیسا بنا رکھا تھا بلکہ اس نے جاسوسی خالد بن ولید سے ہی سیکھی تھی، اسی مقصد کے لیے اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا، وہ خود اپنی فوج کے ساتھ دیبل میں تھا لیکن جاسوسوں کی معرفت وہ نیرون اور اروڑ تک پہنچ چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز دیبل شہر کے دروازے کے باہر آٹھ شاہی سوار آ کر رکے، انھوں نے بتایا کہ وہ اروڑ سے آئے ہیں اور راجہ داہر کا پیغام لائے ہیں ۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی۔
ان کے لیے دروازہ کھول دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ ایلچی کو میرے پاس بھیج دو اور اس کے محافظوں کو عزت سے رکھو اور ان کی خاطر مدارت کرو ۔
راجہ داہر کا ایلچی جب محمد بن قاسم کے سامنے آیا تو وہ رکوع کی طرح جھک گیا پھر اس نے پر تکلف سے الفاظ کہنے شروع کردیئے ترجمان اس کے الفاظ کا ترجمہ کرتا جا رہا تھا۔
کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ یہ یہاں آگیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے کہو کہ ہم اپنے سامنے کسی کا اس طرح جھکنا پسند نہیں کرتے، نہ ہی ہمارا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کے سامنے اس طرح جھکے، اس سے پیغام لے لو اور اسے باہر بٹھاؤ۔
ایلچی نے پہلا عربی سالار دیکھا تھا جو فاتح بھی تھا ،اس سالار کی بات سن کر وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ نوجوان بھی ہے، سالار بھی ہے، اور فاتح بھی ہے لیکن اس میں اخلاق بھی ہے، اس نے پیغام محمد بن قاسم کے حوالے کیا اور باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے کھول کر دیکھا یہ پیغام راجہ داہر نے اپنی زبان میں لکھا تھا ،محمد بن قاسم نے پیغام اپنے ترجمان کے حوالے کردیا ترجمان پیغام پڑھنے لگا تاریخوں میں یہ پیغام لفظ بلفظ محفوظ ہے ،یہ اس طرح ہے۔
یہ پیغام چچ کے بیٹے داہر کی طرف سے ہے جو سندھ کا بادشاہ اور ہندوستان کا راجہ ہے، یہ خط اس داہر کی طرف سے ہے جس کا حکم دریاؤں جنگلوں صحراؤں اور پہاڑوں پر چلتا ہے، یہ پیغام عرب کے کم عمر اور ناتجربہ کار سالار محمد بن قاسم کے نام ہے جو انسان کے قتل میں بے رحم اور مال غنیمت کا حریص ہے ،اور جس نے اپنی فوج کو تباہی اور موت کے منہ میں پھینکنے کی حماقت کی ہے،،،،،
ائے کمسن لڑکے تم سے پہلے بھی تمہارے وطن کے سالار اپنے دماغوں میں یہ خبط لے کر آئے تھے کہ وہ سندھ کو اور پھر ہندوستان کو فتح کریں گے، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا یاسنا، ہم نے اسی شہر دیبل میں ان کو ایسی شکست دی تھی کہ وہ زندہ واپس نہ جا سکے، وہ دیبل کی دیواروں تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے، اب یہی خبط تم اپنے دماغ میں لے کر آ گئے ہو دیبل کو فتح کرکے اور اس شہر کے اندر بیٹھ کر تم بہت خوش ہوں گے، لیکن میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کے اس شہر کی فتح پر غرور نہ کرنا یہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں تاجر بیوپاری اور دکاندار رہتے ہیں، یہ لوگ جنگجو نہیں نہ کبھی انہیں لڑائی سے واسطہ پڑا ہے، ان پر دو تین پتھر پھینکے تو انہوں نے ڈر کر شکست تسلیم کر لی ،دیبل میں ہماری کوئی اتنی فوج بھی نہیں تھی، تم اسے اتنی بڑی فوج اور ہماری شکست نہ سمجھو اگر ہمارا ایک بھی بہادر سالار وہاں ہوتا تو تمہارا انجام تمہارے وطن کے پہلے سالاروں جیسا ہوتا ،تم اور تمہارا ایک بھی سپاہی زندہ نہ ہوتا، میں تمہاری نوجوانی پر رحم کرتا ہوں اور تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک قدم آگے نہ بڑھانا جہاں تک پہنچے ہو وہی سے واپس چلے جاؤ ،آگے آؤ گے تو تمہارا سامنا میرے بیٹے جے سینا سے ہوگا ،تم نہیں جانتے کہ اس کے قہر اور غضب سے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہ بھی پناہ مانگتی ہیں، اور ہندوستان کے راجہ اور مہاراجہ اس کے آگے ماتھے رگڑتے ہیں ،میرا بیٹا سندھ ،مکران، اور توران کا حکمران ہے، اس کے پاس ایک سو جنگی ہاتھی ہیں جو بدمست ہو کر لڑتے اور دشمن کو کچلتے ہیں، اور جے سینا خود ایک سفید ہاتھی پر سوار ہوتا ہے جس کا مقابلہ نہ گھوڑے کرسکتے ہیں نہ وہ بہادر سپاہی جوبرچھی برادر ہوتے ہیں،،،،
تم صرف ایک فتح پر اتنے مغرور ہوگئے ہو کہ تمہاری عقل پر پانی پڑ گیا ہے، تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو تمہارے پہلے سالار بدیل کا ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>



⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چودہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن یاسر آگے بڑھتا گیا ،بولنے کی آوازیں آگے تھیں۔
وہ ایک دروازے تک پہنچ گئے یہ ایک کشادہ کمرہ تھا اس کے فرش پر چٹایاں بچھی ہوئی تھیں، درمیان میں ایک چبوترا تھا جس پر ایک بت بیٹھا ہوا تھا اور یہ بالکل عریاں تھا ،دیواروں کے ساتھ تراشے ہوئے پتھروں کے اسی قسم کے اور بھی بت تھے، اس کمرے کی چاروں دیواروں میں ایک ایک دروازہ تھا ،اس کمرے کے دو دیواروں میں مٹی کے دیئے رکھے ہوئے تھے جو جل رہے تھے۔
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے آگے آگے تھا کسی کی باتیں سنائی دے رہی تھی، یاسر دیوار کے ساتھ ساتھ ایک دروازے کے قریب گیا یہ ایک اور کمرہ تھا جو زیادہ کشادہ نہیں تھا ،یہ شاید پنڈتوں کا رہائشی کمرہ تھا، عبادت والا کمرہ شاید کسی اور طرف تھا ،اس رہائشی کمرے میں تین چار دیے جل رہے تھے، کوئی دریچہ اور کوئی روشن دان نہیں تھا،اندر جلتے ہوئے تیل کی بدبو تھی ،اس رہائشی کمرے میں چار آدمی تھے اور دو جوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں، یہ سب گول دائرے میں بیٹھے تھے ان کے درمیان بارہ تیرہ سال عمر کی سانولے رنگ کی ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، اس کا چہرہ مریضوں جیسا تھا ،اس کی آنکھوں سے اور ہر طرف دیکھنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ اسے کہیں سے زبردستی اٹھا کر لائے ہیں، اور اس پر دہشت طاری ہے، ایک پنڈت نے ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھا اور اس کا ماتھا چوما جیسے یہ اس کی بچی ہو۔
ایک لڑکی نے ایک پیالا اٹھا کر اس کے ہونٹوں سے لگایا معلوم نہیں اس پیالے میں کیا تھا لڑکی بےتابی سے پینے لگی جب وہ پی چکی تو اس نے رونا شروع کردیا ۔۔۔مجھے چھوڑ دو اس نے روتے روتے کہا۔۔۔ مجھے گھر جانے دو ۔۔۔اس نے اپنے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔۔ میرے اندر آگ لگی ہوئی ہے۔
چونکہ روشنی اتنی زیادہ نہیں تھی اور ابن یاسر دروازے کے ساتھ اس طرح لگا کھڑا تھا کہ اندر والوں کو اچھی طرح نظر نہیں آتا تھا، اور چونکہ اندر والے لڑکی کے ساتھ الجھے ہوئے تھے اس لیے وہ دروازے کی طرف نہ دیکھ سکے، ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور دروازے میں کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا، اس کے جواب میں ان چھ عرب مجاہدوں نے اتنی زور سے اللہ اکبر کہا کہ مندر جیسے ہل گیا ہو، مندر کے کمرے بند سے تھے ان چھے مجاہدین کی گرج کچھ دیر مندر کی محدود اور مقید فضا میں آگ کے بگولوں کی طرح گھومتی اور برستی رہی۔ مجاہد بڑی تیزی سے اندر گئے اور ان سب کو گھیرے میں لے لیا مندر کے اندر بیٹھے ہوئے آدمی اس قدر ڈر گئے تھے کہ ان کے منہ سے آواز بھی نہیں نکلی تھی۔
سب لوگ دیوار کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔
وہ سب دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ان میں تین تو صاف طور پر پنڈت نظر آتے تھے چوتھا آدمی عجیب سے حلیے کا تھا، اور دو جوان لڑکیاں اور ایک یہ چھوٹی بچی تھی ۔
ابن یاسر نے اپنے ساتھی کو جو سندھ کی زبان بولتا اور سمجھتا تھا اپنے پاس بلا کر کہا کہ میری ان کے ساتھ باتیں کراؤ ۔اسکے ساتھی نے ترجمانی شروع کردی۔
چھوٹی لڑکی دوڑ کر ابن یاسر کی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور وہ رو رو کر کہنے لگی کہ یہ لوگ اسے گھر سے اٹھا لائے ہیں۔
یہ تمہیں کیا کہتے ہیں؟،،،، ابن یاسر نے کہا۔
لڑکی نے اس آدمی کی طرف دیکھا جو پنڈت نہیں لگتا تھا، پھر اس نے بازو لمبا کر کے اس آدمی کی طرف اشارہ کیا لیکن اس کے ساتھ وہ ابن یاسر کی ٹانگوں میں سکڑنے لگی۔ جیسے بہت ہی ڈری ہوئی ہو، اس آدمی کی شکل و صورت تھی ہی بڑی ڈراؤنی ،اس کا چہرہ کھردرا اور کرخت تھا ،اس کی داڑھی بھی تھی جس کے آدھے بال سفید تھے اس نے مونچھیں مروڑ کر اوپر کو کی ہوئی تھیں، اس کی آنکھیں گہری سرخ تھیں،اس کے سر پر پگڑی نما ٹوپی سی تھی، اس کے بازوؤں میں چوڑیوں جتنے بڑے رِنگ تھے جو شاید لکڑی کے بنے ہوئے تھے، اس نے سیاہ کپڑے کا لمبا سا چغہ پہن رکھا تھا، اس کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا تھی، یہ آدمی کسی پہلو مذہبی پیشوا نہیں لگتا تھا اور وہ تھا ہی نہیں۔
ابن یاسر نے جھک کر لڑکی کو اٹھایا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا اور دلاسہ دیا اور کہا کہ وہ کسی سے نہ ڈرے۔
یہ شخص مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا تھا ۔۔۔لڑکی نے بتایا۔۔۔ ایک ہاتھ سے میرا سر پکڑ لیتا تھا اور دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ میرے ماتھے پر پھیرتا تھا ،پھر میری آنکھوں میں دیکھتا تھا دیکھتے دیکھتے میرے جسم کے اندر جلن شروع ہوجاتی تھی، یہ اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ میری چیخیں نکلتی تھیں، یہ پنڈت مجھے گھسیٹ کر کسی نہ کسی گلی میں چھوڑ آتے تھے مجھے اتنی ہی ہوش ہوتی تھی کہ میں مندر کی طرف بھاگتی تھی، اور مجھے گھسیٹ کر پھر باہر پھینک آتے تھے، کبھی تو مجھے ہوش ہی نہیں رہتی تھی جب میں ہوس میں آتی تھی تو جلن کم ہونے لگتی تھی، پھر یہ مجھے شربت پلاتے تھے اور میرے ساتھ پیار کرتے تھے، مجھے یہاں سے لے چلو یہ آدمی مجھے کھا جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میرے دوستوں!،،،،، ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔ شعبان نے مجھے یہی بتایا تھا، اس نے کہا تھا کہ ڈرنا نہیں یہ اس ملک کی شعبدہ بازی معلوم ہوتی ہے ،دل مضبوط کرکے اس میں کود جانا ،شعبان نے یہ بھی کہا تھا کہ تم اسلام کے مجاہد ہو اور تمہارے پاس بڑا ہی زبردست تعویذ ہے جس کے سامنے کوئی جادو اور کوئی شعبدہ نہیں ٹھہر سکتا،،،، یہ ڈراؤنی شکل والا آدمی جادوگر ہے۔
ابن یاسر نے یہ بات عربی زبان میں کی تھی جسے پنڈت وغیرہ نہ سمجھ سکے، اور ابن یاسر کے ساتھیوں کے حوصلے بڑھ گئے ، ابن یاسر نے مندر کے ان آدمیوں کو اور دونوں لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ آگے ہو کر جھک جائیں ان کی گردنیں اڑائیں جائیں گی۔
ڈراونی شکل والے آدمی نے دونوں ہاتھ بلند کرکے کچھ بڑبڑانا شروع کر دیا اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنا جادو چلانا چاہتا ہے ،ابن یاسر نے اس کے اوپر اٹھے ہوئے بازوؤں میں سے ایک پر بڑی زور سے اپنی تلوار ماری پھر اس کے منہ پر بڑی زور سے گھونسا مارا وہ پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا، ابن یاسر کے دونوں ساتھیوں نے اسے پکڑ کر پیٹھ کے بل گرلیا، اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی۔
کیا تم جادوگر ہو؟،،،،،ابن یاسر نے پوچھا، یاشعبدہ باز ہو فوراً بولو، ورنہ گردن کٹ جائے گی ۔
اس نے ہاتھ جوڑے اور سر ہلایا جیسے اس نے اعتراف کیا کہ وہ شعبدہ باز ہے۔
پنڈت الگ کھڑے کانپ رہے تھے اور رحم کی بھیک مانگ رہے تھے، ابن یاسر نے اس خطے کی زبان بولنے والے ساتھی سے کہا کہ ان پنڈتوں سے کہو کہ انہیں زندہ نہیں چھوڑا جا سکتا ،اور ان کی لاشیں شہر سے دور پھینک آئیں گے جہاں انہیں صحرا کے درندے کھائیں گے۔
ابن یاسر کے اس ساتھی نے جب پنڈتوں کی زبان میں انہیں بتایا کہ ابن یاسر نے کیا کہا ہے تو پنڈت اس قدر خوفزدہ ہوئے کے تینوں نے گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑے، بڑا پنڈت اٹھا اور ابن یاسر کے ساتھی کو الگ لے گیا، اور اس کے کان میں کچھ کہا، اس ساتھی نے ہنستے ہنستے ابن یاسر کو بتایا کہ یہ پنڈت کہہ رہا ہے ان دونوں لڑکیوں کو لے جاؤ اور اس کے ساتھ یہ ہمیں بہت سا سونا اور رقم دے گا، اس کے عوض جان بخشی چاہتے ہیں۔
ابن یاسر نے شعبدہ باز کو گرایا ہوا تھا جب اس کرخت صورت آدمی نے سر ہلا کر اعتراف کر لیا تو ابن یاسر نے اسے اٹھایا ،ابن یاسر کے کہنے پر اس نے کہا کہ وہ بتائے گا کہ یہ سب کیا ہے، بلکہ کر کے بھی دکھا دے گا۔
یہاں نہیں ۔۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔سب حاکم نیرون کے پاس چلو اور اس کے سامنے بتاؤ کہ تم یہ شعبدہ کس طرح کررہے تھے اور اس کا مقصد کیا تھا ۔
ان سب کو سندرشمنی کے پاس لے جایا گیا وہ سویا ہوا تھا اسے جگایا گیا اور بتایا گیا کہ پراسرار آگ کا معمہ حل ہو گیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن یاسر نے حاکم نیرون سندر کو بتایا کہ وہ کہاں چلا گیا تھا اور وہاں سے کیا ہدایات لایا تھا ،پھر وہ کس طرح ان پر اسرار آگ کے بگولوں اور چیخوں کے دوران مندر میں داخل ہوا، اور اس نے کیا دیکھا ،ابن یاسر کے کہنے پر پہلے چھوٹی لڑکی نے بتایا کہ اس کے ساتھ یہ لوگ کیا عمل کرتے تھے، پھر شعبدہ باز سے کہا گیا کہ وہ بولے، سندر نے اسے کہا کہ اس نے ذرا سی بھی جھوٹ بولا تو اسی وقت اس کے دونوں بازو کاٹ دیے جائیں گے اور اسی حالت میں اسے دور پھینک آئیں گے۔
شعبدے باز نے بڑے اطمینان سے اپنا آپ ظاہر کردیا اور جو کمال وہ دکھا رہا تھا وہ بھی اس نے بیان کیا اس نے بتایا کہ اس سارے ملک ہند میں صرف تین آدمی ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔
یہ آگ جو آپ لوگ شہر کے اوپر گھومتی پھرتی دیکھتے رہے ہیں یہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔یہ بے ضرر چیز ہے اسے آپ نظر کا دھوکا بھی کہہ سکتے ہیں ،لیکن یہ ایک علم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اپنے من کو اور اپنے جسم کو ایسی تکلیفوں میں رکھنا پڑتا ہے جو ہر آدمی برداشت نہیں کرسکتا ،اس آگ سے کسی ایک آدمی کو یا اس کے گھر کی کچھ چیزوں کو جلایا جا سکتا ہے ،لیکن اس آگ میں یا اس آگ کا شعبدہ دکھانے والے کسی بھی جادوگر میں اتنی طاقت نہیں کہ اس سے وہ کسی بستی کو جلا دے، اور وہ آگ جو فوارے کی طرح زمین سے پھوٹتی تھی وہ بھی کوئی آگ نہیں تھی جادو کا کرشمہ تھا، اسی طرح پانی کے جو فوارے پھوٹ دے رہے ہیں ان میں اگر آپ ہاتھ رکھتے تو آپ کے ہاتھ خشک رہتے، اس پانی میں پانی والا کوئی وصف نہیں تھا۔
تم نے شعبدہ بازی یہاں آکر کیوں کی؟۔۔۔ حاکم نیرون نے پوچھا۔
دولت کی خاطر ۔۔۔شعبدےباز نے جواب دیا۔۔۔ مہاراج داہر نے ایک اپنے جیسے مہاراجہ دوست سے کہہ کر مجھے اپنے پاس بلوایا تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ نیرون کے حاکم اور لوگوں کو ڈرانا ہے، انہوں نے ایک آدمی میرے ساتھ بھیجا تھا اس آدمی نے ان پنڈتوں کو بتایا تھا کہ جب میں اپنے علم کا یہ کمال دکھاؤں گا تو پنڈت شہر میں کیا پرچار کریں گے اور آپ کے پاس آکر کیا کہیں گے، مہاراج نے مجھے اتنا زیادہ انعام دینے کو کہا تھا جو میری سات پُشتوں کے لئے کافی تھا۔
اس معصوم بچی کو تم کیوں جلاتے رہے ہو؟،،،،،، سندر نے کہا۔
اس عمر کے بچے کو خواہ لڑکی ہو یا لڑکا ایک خاص طریقے سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔یہ لڑکی اپنے ماں کے ساتھ مندر میں آئی تھی اتفاق سے میں نے اسے دیکھا تو پنڈت جی مہاراج سے کہا کہ یہ لڑکی زیادہ موزوں ہے لڑکی چلی گئی اور شام کو ایک پنڈت نے معلوم نہیں کس طرح اسے اٹھا لایا،،،،، مہاراج یہ ہمارا علم ہے میں آپ کو سمجھا نہیں سکتا کہ اس عمر کے بچے کو کس طرح اس شعبدے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ،ایسے انسانی ذریعے کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا، اگر کسی خاندان کو پریشان کرنا ہو تو اس خاندان کے کسی ایک فرد پر یہ عمل دور بیٹھ کر کیا جاتا ہے، اسے ایک دورہ سا پڑتا ہے پھر اس گھر پر جادوگر یا شعبدہ باز پتھر گراتا چاہے ان کی چیزوں کو آگ لگانا چاہے یا جو بھی کرنا چاہے کرتا ہے،،،،،، میں آپ کو الفاظ میں نہیں سمجھا سکتا اگر مہاراج اجازت دیں تو میں کر کے دکھا سکتا ہوں ،آپ شہر کے اوپر آگ کے بگولے دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ دکھا دوں گا ،زمین سے آ گ یا پانی دونوں پھوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں تو دکھا دوں گا۔
ہم جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیا ہے۔۔۔ سندر نے کہا ۔۔۔۔تم اس شہر سے نکل جاؤں لیکن اپنی وطن کا رخ کرو اروڑ کی طرف نہ جانا۔
حاکم نیرون!،،،،، ابن یاسر نے کہا ۔۔۔اسے ابھی جانے نہ دیں ،ضرورت یہ ہے کہ شہر کے لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ کوئی آسمانی آفت نہیں تھی، صبح سارے شہر میں منادی کرا کے تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور انہیں اصل حقیقت دکھائی جائے گی، صبح ہونے میں تھوڑی سی دیر باقی تھی سندر نے حکم دیا کے ابھی منادی والے بلا لیے جائیں اور لوگوں کو فلاں میدان میں جمع کیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب سورج طلوع ہوا تو نیرون شہر کا بچہ بچہ ایک میدان میں آ گیا تھا ،سندرآیا اس کے ساتھ یہ شعبدہ باز اور پنڈت تھے، سندر کے کہنے پر ایک آدمی کی آواز بہت بلند تھی آگے کیا گیا اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس نے کیا کہنا ہے، اس نے لوگوں کو بتایا کہ جسے وہ آسمانی آفت سمجھتے رہے ہیں وہ شعبدہ تھا اور یہ سیدھے سادے امن پسند لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور انہیں جنگ میں جھونکنے کے لئے دکھایا جا رہا تھا ،اور اب ان کے سامنے یہ شعبدہ دکھایا جا رہا ہے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ڈریں نہیں ،شعبدہ باز سے کہا گیا کہ وہ اپنا کمال دکھائے، اس بچی کو بھی وہاں بلایا گیا لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور میدان کے درمیان بہت سی جگہ خالی چھوڑ دیں۔
شعبدہ باز نے لڑکی کے سر پر ایک ہاتھ رکھا دوسرا ہاتھ اس کے ماتھے پر پھیرنے لگا اور چند لمحوں بعد لڑکی نے تڑپنا اور چیخنا شروع کر دیا ،اس کے ساتھ ہی فضا میں آگ کے آٹھ دس بگولے گرنے اور اڑنے لگے، لوگ ڈر کر پیچھے ہٹنے لگے انہیں کہا گیا کہ وہ نہ ڈریں،
شعبدہ باز نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور آسمان کی طرف منہ کرکے کچھ بڑبڑایا آگ کے بگولے غائب ہو گئے اور میدان سے آگ کا فوارہ یا لمبوترا شعلہ اوپر کی طرف جانے لگا، جیسے زمین سے آگ پھوٹ رہی ہو، اس سے تھوڑی دور پانی کا فوارہ پوٹا ان دونوں فواروں کی بلندی کم و بیش بیس گز تھی۔
ابن یاسر آگے بڑھا اور ان فواروں کی طرف چلا گیا پہلے وہ آگ کے فوارے میں سے گزرا آگے جاکر وہ واپس آیا اور پانی کے فوارے سے گزرا ،اسے نہ آگ نے جلایا نہ پانی اسے بھیگو سکا، واپس آکر اس نے سندر کو بتایا کہ آگ اور پانی میں جا کر اسے نہ تپش محسوس ہوئی نہ ٹھنڈک۔
بچی چیخ رہی تھی اس کی ماں اس کے باپ کے ساتھ دوڑتی ہوئی آئی اور دونوں اپنی بچی کے پاس جانے لگے لیکن شعبدہ باز نے انہیں روک دیا تھوڑی دیر بعد بچی کی چیخیں بند ہوگئیں وہ گر پڑی اور آگ اور پانی کے فوارے غائب ہو گئے۔
لوگوں کو ایک بار پھر بتایا گیا کہ انہیں کیوں اور کس نے خوفزدہ کیا ہے، اس شعبدہ باز کو نیرون سے نکال دیا گیا۔
پنڈت جی !،،،،،مہاراج سندرشمنی نے پنڈتوں سے کہا ۔۔۔۔جو مذہب شعبدہ بازی کا سہارا لیتا ہے وہ لوگوں کے دلوں میں اپنے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے ،،،،جاؤ میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
712 عیسوی 922ہجری کے ایک جمعہ کے روز محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ دیبل کے مضافات میں پہنچ گیا ،شعبان ثقفی نے اسے یہ رپورٹ دی تھی کہ راستہ صاف ہے اور راجہ داہر کی فوج کا ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا ،اس طرح اسلامی فوج بڑی اچھی رفتار سے دیبل پہنچ گئی تھی، راجہ داہر کی فوج کا کوئی آدمی باہر ہو ہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ اس نے تمام قلعےداروں کو حکم بھیج دیا تھا کہ قلعہ بند ہو کر لڑنا ہے اس نے سختی سے کہا تھا کہ اپنے دستوں کو باہر لا کر کھلے میدان میں نہیں لڑنا۔
مؤرخوں کے مطابق محمد بن قاسم نے ارمن بیلہ سے حجاج بن یوسف کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فلاں روز دیبل کی طرف کوچ کر رہا ہے، حجاج بن یوسف نے اسے پہلے ہی پیغام بھیج دیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ جب تک وہ نہ کہیے لڑائی شروع نہ کی جائے، حجاج نے لکھا تھا کہ دشمن دشنام طرازی اور طعنہ زنی کرے تو بھی مشتعل ہوکر حملہ نہیں کرنا، ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حجاج نے بصرہ میں بیٹھ کر سندھ کے محاذ کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم جمعہ کے دن دیبل کے مضافات میں جمعہ کی نماز سے کچھ وقت پہلے پہنچ گیا ،اس کے حکم سے ایک بلند آواز مجاہد نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر اذان دی ،اس سرزمین پر یہ پہلی اذان تھی، نماز کے وقت تمام لشکر نماز کے لئے صف بصف ہو گیا اس دور کے دستور کے مطابق امامت محمد بن قاسم نے کی، کیونکہ وہ سپہ سالار تھا اور سپہ سالار ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن مجاہد نے جمعہ کا خطاب دیا۔
،،،،،، اور عہد کرو اللہ تبارک وتعالی سے کہ اس زمین پر ہماری یہ نماز آخری نہیں ہوگی، اور دعا کرو کہ خدائے ذوالجلال ہمارے رکوع و سجود قبول فرمائے، راہ شہادت کے ہمسفروں ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے، ہم اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں جو اس ملک کی آخری سرحدوں تک پہنچانا ہے، اور ہم بے گناہ قیدیوں کو رہا کرانے آئے ہیں جنہیں کفار نے قید خانے میں بند کررکھا ہے، اس راجہ نے اسلام کی غیرت کو للکارا ہے اور یہ راجہ بے بہرہ ہے کہ اسلام کے پاسبان جب آتے ہیں تو وہ اسلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور اسلام واپس جانے کے لئے نہیں آیا کرتا،،،،،
یاد کرو ان عظیم مجاہدین کو جن کی قبروں کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی، یہ کل کا واقعہ ہے کہ انہوں نے کسی میدان میں شکست نہیں کھائی تھی، انہوں نے قیصر روم کی جنگی طاقت کا گھمنڈ توڑا کر اس کی سلطنت کی سرحدیں سمیٹ دی تھیں، مدائن میں کسریٰ کے محل ہمارے باپوں کے فاتحانہ نعروں سے آج بھی لرز رہے ہیں ،سیاہ چٹانوں جیسے ہاتھیوں کو کاٹنے اور میدان جنگ سے بھگانے والے مجاہدین کو یاد کرو فارسیوں اور رومیوں جن شہنشاہیت کی جنگی طاقتیں دہشت ناک تھی آج دیکھو ان دونوں کی سرحدیں کتنی دور پیچھے چلی گئی ہیں ،ان بچھو کا زہر کس نے مارا تھا ،تم جیسے مجاہدین نے، اور آج جس راجہ نے ہمیں یہاں آنے پر مجبور کیا ہے یہ قیصر روم کی برابری کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ،فارسیوں کا عشر عشیر بھی نہیں ،خدا کی قسم میں تکبر نہیں کر رہا جن کے تم بیٹھے ہو اور جن کے پوتے ہو وہ غیرت و حمیت والے تھے ،جوان اور شجاعت والے تھے۔
میں امیر بصرہ حجاج بن یوسف کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں، اللہ تعالی کا ذکر ہر وقت کرتے رہو اللہ سے مدد اور فتح کے طلبگار رہو، اور جب لڑائی سے مہلت ملے تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرتے رہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق محمد بن قاسم نے دیبل کے قلعے کے کچھ قریب جاکر اپنی فوج کو خیمہ زن کیا اور خیمہ گاہ کے ارد گرد ایک خندق کھدوائی جو بارہ گز چوڑی اور چھ گز گہری تھی، حجاج نے اسے لکھا تھا کہ رات کو بیدار رہنا ہے تاکہ دشمن بے خبری میں حملہ نہ کر دے، حجاج نے خاص طور پر لکھا تھا کہ جو لوگ قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ قرآن پڑھتے رہیں اور انہیں قرآن پڑھائیں جو نہیں پڑھ سکتے، تلاوت قرآن کے علاوہ نفل پڑھتے رہیں اور خیمہ گاہ کے اردگرد سنتری گھومتے پھرتے رہیں۔
محمد بن قاسم نے راتوں کی عبادت کا یہ سلسلہ شروع کردیا ہر رات خیمہ گاہ سے تلاوت قرآن کی مقدس اور مترنم آوازیں بلند ہوتیں، اور سندھ کی فضا میں تیرتی دور دور تک جا پہنچتی تھی، اس کے ساتھ ہی سپاہی سے لے کر سالار تک نوافل پڑھتے تھے ساری رات خیمہ گاہ مشعلوں سے روشن رہتی تھیں، لیکن اصل روشنی نورِ خدا کی تھی جسے وہی محسوس کر سکتے تھے جو اپنے وطن سے دور بے گناہ قیدیوں کو چھڑانے آئے تھے،اور ساری دنیا کو یہ بتانے آئے تھے ،،،،،کیوں کر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں۔۔۔اس دوران دن کے وقت دیبل کے قلعے سے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن خندق انہیں آگے نہیں آنے دیتی تھی، ہندوؤں کے یہ دستے تیر برساتے تھے محمد بن قاسم کے لئے حکم تھا کہ وہ کوئی جوابی کارروائی نہ کرے لیکن دشمن کے تیر انداز کو پیچھے ہٹانے کے لئے تیراندازی ضروری تھی ،حجاج کا مقصد یہ تھا کہ اپنی فوج ان چھوٹی چھوٹی جھڑپوں میں اپنی توانائی ضائع نہ کرے، دشمن یہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو قلعے سے باہر ہی الجھا کر رکھا جائے، محمد بن قاسم نے یہ ساری صورتحال سمجھتے ہوئے خیمہ گاہ میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ آخر ایک روز بصرہ سے حجاج کا پیغام آیا کہ دیبل کو محاصرے میں لے لیا جائے اور اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے جو اقدام ضروری ہے وہ جانوں کی قربانی دے کر بھی کیا جائے۔
محمد بن قاسم اسی حکم کے انتظار میں تھا پیغام ملتے ہی اس نے حکم دے دیا کہ رات کو دیبل کے قلعے کو محاصرے میں لے لیا جائے گا ،خیمہ گاہ قلعے کی دیواروں سے نظر آتی تھیں اس لیے دن کے وقت ایسی کوئی حرکت نہیں کی جاسکتی تھی جس سے یہ پتا چلتا کہ خیمہ گاہ اکھاڑے جارہے ہیں اور مسلمان کوئی کاروائی یا نقل و حرکت کرنے والے ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی خیمہ گاہ میں سرگرمی شروع ہوگئی اور دستے اس طرف سے نکلنے لگے جدھر خندق نہیں کھودی گئی تھی یہ تھوڑی سی جگہ اسی مقصد کے لئے رکھی گئی تھی، اسلامی فوج کے جو دستے باہر نکلتے تھے وہ احکام اور ہدایات کے مطابق قلعے کے اردگرد محفوظ فاصلے پر پھیلتے جارہے تھے، آدھی رات تک محاصرہ مکمل کر لیا گیا اور چھوٹی منجیقیں ایسی جگہوں پر رکھ دی گئیں جہاں سے قلعے کے دروازوں پر اور قلعے کے اندر بھی پتھر پھینکے جا سکتے تھے۔
علی الصبح قلعے کی دیواروں پر گھومتے پھرتے سنتریوں نے اعلان کرنے شروع کر دیے کہ محاصرہ ہو گیا ہے، خبردار ہو جاؤ، اس اعلان سے شہر میں ہربونگ مچ گئی تیرانداز دیواروں پر آ گئے شہر کے جو لوگ لڑنے کے قابل تھے وہ بھی پھینکنے والی برچھیاں اٹھائے دیوار پر پہنچ گئے اور باقی جو تھے وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔
محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا وہ دیوار کا کوئی نازک مقام دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ،اس قلعے میں ایک سہولت یہ نظر آرہی تھی کہ اس کے ارد گرد خندق نہیں تھی، اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ قلعہ بہت مضبوط ہے، یہ تو محمد بن قاسم نے بھی دیکھ لیا تھا،قلعے کی دیوار عمودی نہیں بلکہ ذرا ڈھلانی بنائی گئی تھی، ایسی دیوار کو بہت ہی خطرناک سمجھا جاتا تھا وہ اس لئے کہ محاصرہ کرنے والے جب دیوار کے قریب جاتے تھے تو دیوار کے اوپر سے وہ صاف نظر آتے تھے اور بڑی آسانی سے تیروں کا یا برچھیوں کا نشانہ بنتے تھے ،ایسی دیوار میں سرنگ بھی نہیں کھودی جا سکتی تھی۔ محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ چھوٹی منجیقوں سے شہر کے اندر پتھر پھینکے جائیں ،اس حکم کے ساتھ ہی شہر پر سنگ باری شروع ہو گئی دیوار پر دشمن کے جو تیر انداز تھے انھوں نے بے خوف و خطر تیروں کی بوچھاڑ منجیقوں پر پھینکنا شروع کر دیں ،ان سے منجیقوں والے کئی سپاہی زخمی ہوگئے اس لئے منجیقیں پیچھے کرنی پڑی، اس سے یہ نقصان ہوا کہ پتھر شہر کے اندر نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ فاصلہ زیادہ ہو گیا تھا
ہندوؤں نے دلیری کا یہ مظاہرہ کیا کہ قلعے کے پہلو والے ایک دو دروازے کھلتے تھے اندر سے سوار دستے سرپٹ نکلتے اور مسلمانوں پر حملہ کرکے اسی رفتار سے قلعے کے اندر چلے جاتے تھے، مسلمانوں نے ان حملوں کا توڑ کیا قلعے کے باہر لڑائیاں ہوئیں لیکن ہندو سواروں کا انداز یہ تھا کہ وہ جم کر نہیں لڑتے تھے بلکہ شب خون کے انداز سے گھوڑے دوڑاتے ضرب لگاتے اور واپس جانے کی کوشش کرتے تھے، ایسے حملوں میں ان کا نقصان تو ہوتا تھا لیکن وہ اسلامی فوج کا بھی خاصا نقصان کر جاتے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ ایسے جانباز سوار الگ کر لیں جو اس وقت قلعے کے اندر جانے کی کوشش کریں جب اندر کا کوئی دستہ باہر آجائے، یہ طریقہ آزمایا گیا لیکن قلعے کے دروازے فوراً بند ہوجاتے تھے ،مسلمان سواروں اور پیادوں نے دشمن کے باہر آنے والے دستوں کو گھیرے میں لینے کی بھی کوشش کی لیکن گھیرے میں لینے کے لیے دیوار کے قریب جانا پڑتا تھا اور اوپر سے ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ خونریزی کئی دن جاری رہی رات کے وقت کچھ جاں باز آگے دیوار کے قریب بھیج دیئے گئے ان کے پاس دیوار کو توڑنے اور سرنگ کھودنے کا سامان تھا لیکن وہ زخمی اور شہید ہونے کے سوا کچھ نہ کر سکے، کیونکہ رات کو بھی دشمن کے سپاہی دیوار پر چوکس رہتے تھے، وہ اوپر سے تیر بھی چلاتے اور ان جانبازوں پر جلتی ہوئی مشعلیں بھی پھینکتے تھے۔
پھر ایک طریقہ اور آزمایا گیا منجیقوں کو آگے کیا گیا اور ان کے ساتھ بہت سے تیرانداز بھیجے گئے، یہ تیر انداز اپنے سامنے دیوار کے اوپر بہت تیزی سے تیر چلاتے تھے تاکہ اوپر والے تیرانداز سر نہ اٹھا سکیں، اور منجیقوں کو تیروں کا نشانہ نہ بنا سکیں، اس طرح منجیقیں شہر پر پتھر پھینکتی رہیں،
شہر کے اندر کی کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ سنگ باری سے خوف وہراس پھیلتا جا رہا تھا لیکن اندر کی فوج اور لڑنے والے شہریوں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ وہ شہر کے لوگوں کا حوصلہ بھی مضبوط کرتے رہتے تھے، شہر میں بہت بڑا مندر تھا جو دیول کہلاتا تھا اسی کے نام پر اس شہر کا نام دیول رکھا گیا تھا جو دیبل بن گیا، اسے ایک بہت اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا اس کے کئی گنبد تھے جو مسجدوں کے گنبدوں کی طرح گول نہیں تھے بلکہ مخروطی اور چوکور تھے ،ان کے درمیان ایک گنبد تھا جس کی بلندی اتنی زیادہ تھیں کہ کئی میل دور سے نظر آتا تھا ،بعض مورخوں نے اس کی بلندی ایک سو بیس فٹ کے لگ بھگ لکھی ہے، اس گنبد کے اوپر ایک لمبا بانس کھڑا تھا جس کے ساتھ سبز رنگ کا بہت بڑا جھنڈا لہراتا رہتا تھا۔
اس جھنڈے کے متعلق کئی حکایت مشہور تھیں ،جن میں ایک یہ تھی کہ بہت دور سے گزرتے ہوئے مسافر اس جھنڈے کو دیکھ لیتے تھے تو ان کا سفر آسان ہو جاتا تھا، یہ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ جھنڈا ایک دیوتا نے اپنے ہاتھوں یہاں لگایا تھا، یہ بھی مشہور تھا کہ اس جھنڈے کی وجہ سے دیبل ناقابل تسخیر شہر ہے اور جو کوئی اسے فتح کرنے کی نیت سے آئے گا وہ زندہ نہیں رہے گا اور اس کی فوج تباہ ہوجائے گی، وہ مسلمان سالار عبداللہ بن نبہان اور بدیل بن طہفہ دبیل سے پرے ہی شہید ہوگئے تھے اور دونوں کی فوجوں کو بہت بڑا نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا تھا ،اس سے ہندوؤں نے اس حکایت کو عقیدہ بنا لیا تھا کہ دیبل کو کوئی فتح نہیں کرسکتا اور یہ بھی کہ دیبل کی حفاظت دیوتا کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم کو ہندوؤں کے ان عقیدوں کا علم نہ تھا وہ اسے ایک مندر ہی سمجھ رہا تھا۔ اسلامی فوج کی یہ توقع ہزار کوشش کے باوجود پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ دیوار کو کہیں سے توڑ لیا جائے گا ،زمین سے دیوار کئی گز چوڑی تھی اور اوپر جاکر یہ تنگ ہوجاتی تھی، پھر بھی یہ اتنی چوڑی تھی کہ تین گھوڑے پہلو بہ پہلو اس پر چل سکتے تھے۔
کئی دن گزر گئے تو ہندوؤں نے دیوار پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔۔۔ جدھر سے آئے ہو ادھر ہی چلے جاؤ۔۔۔ دیوار کے اوپر سے ایک للکار سنائی دینے لگی۔۔۔ اپنے پہلے دو سالاروں کی موت اور ان کی فوجوں کے انجام سے عبرت حاصل کرو یہ دیوتاؤں کا شہر ہے ان کے قہر سے بچو۔
یہ للکار بار بار سنائی دیتی تھی مسلمان مرعوب تو نہ ہوئے لیکن انہیں یہ خیال ضرور آیا کہ یہ قلعہ جانوں کی بہت بڑی قربانی دے کر ہی سر کیا جا سکے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کا وقت تھا ڈراؤنا سا سکوت طاری ہو گیا تھا کوئی زخمی کراہتا تھا تو سکوت میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوتا، اور رات پھر خاموش ہو جاتی تھی۔ اس دور کے رواج کے مطابق کئی عہدیدار اور سپاہی اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لائے تھے عورتیں اور بچے خیمہ گاہ میں تھے عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیماداری کر رہی تھیں دن کے وقت مجاہدین اپنے زخمی ساتھیوں کو محاصرے سے ذرا پیچھے تک پہنچادیتے اور عورتیں انہیں اٹھا کر خیمہ گاہ میں لے جاتی تھیں۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو اپنے خیمے میں بلایا ہوا تھا اور سب ملکر قلعہ سر کرنے کا پلان بنا رہے تھے، محمد بن قاسم کا ایک محافظ خیمے میں داخل ہوا اس نے بتایا کہ ایک ہندو رشی کو پکڑ کر لائے ہیں ،وہ محاصرے کے اردگرد گھومتا پھر رہا تھا اسے پکڑا گیا تو اس نے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتا ہے ۔
وہ جاسوس ہی ہوسکتا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔۔ اسے اندر لے آؤ اور ترجمان کو بلاؤ خیمے میں ایک آدمی داخل ہوا وہ کوئی پنڈت یا رشی تھا۔
اس سے پوچھو کہ یہ یہاں کیا کررہا تھا ؟،،،،محمد بن قاسم نے ترجمان سے کہا۔
آپ پر اللہ کی رحمت ہو اس پنڈت نے عربی زبان میں کہا۔۔۔ اور ہنس پڑا کہنے لگا ۔۔۔میں عرب ہوں اور مجھے اپنے سردار حارث علافی نے بھیجا ہے۔
پھر یہ بہروپ کیوں؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
یہ اس لئے کہ میں دن کو سفر پر تھا اس نے جواب دیا۔۔۔ اور مجھے یہاں آنا تھا اگر میں اس بہروپ کے بغیر آتا تو دن کو کوئی ہندو مجھے پہچان لیتا اور راجہ داہر تک یہ اطلاع بھیج دیتا کہ جن مسلمانوں کو اس نے پناہ دے رکھی ہے وہ درپردہ محمد بن قاسم کے پاس جاتے ہیں، تو راجہ ہمارے لئے کوئی مشکل پیدا کرسکتا تھا ۔
کوئی پیغام لائے ہو؟
ہاں سالار اعلی !،،،،،اس آدمی نے کہا۔۔۔ سردارعلافی نے کہا ہے کہ مندر کے اوپر جو جھنڈا لہرا رہا ہے اسے گرانے کی کوئی ترکیب کریں ،سنا ہے آپ کے پاس ایک بہت بڑی منجیق ہے اس کا پھینکا ہوا پتھر مندر کے بڑے گنبد تک پہنچ سکتا ہے، لیکن گنبد اتنا کچا نہیں کہ وہ تین پتھروں سے ٹوٹ جائے گا پتھر پھینکتے رہیں، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ،،،،میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اللہ آپ کو فتح و نصرت عطا فرمائے، مجھے جلدی چلے جانا چاہیے، جھنڈا گر پڑا تو دیبل آپ کا ہے ،،،،وہ خیمے سے نکل گیا۔
تاریخ سندھ میں چچ نامہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دیبل شہر سے ایک برہمن باہر آیا اور اس نے محمد بن قاسم سے کہا کہ مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے جائیں اور جھنڈے کو گرایا جائے اور اس شہر کی فتح کا یہی راز ہے۔
اس روایت پر یقین نہیں کیا جاسکتا ،سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ قلعے کے بند دروازوں سے ایک برہمن باہر کس طرح آ گیا ،دوسرے یہ بھی غور طلب ہے کہ ایک برہمن نے اپنے مندر پر پتھر پھینکنے کو کیوں کہا ہوگا ،برہمن تو مذہب کے ٹھیکے دار تھے اور وہ اپنے آپ کو مذہبی پیشوا کہلاتے تھے، کسی برہمن سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ مندر کو توڑ دے، قابل یقین یہی ہے کہ محمد بن قاسم کو یہ مشورہ حارث علافی نے دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح ہوتے ہی محمد بن قاسم نے اپنی فوج کے ایک آدمی جعونہ سلمی کو بلایا، یہ شخص منجیق سے صحیح نشانے پر پتھر پھینکنے کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا، محمد بن قاسم کے حکم پر وہ فوراً اپنے سپہ سالار کے پاس پہنچا محمد بن قاسم اسے باہر لے گیا اور مندر کے جھنڈے کی طرف اشارہ کیا۔
جعونہ اسلمی !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مندر کے اوپر وہ جھنڈا دیکھ رہے ہو اسے گرانا ہے اور اسے گرانے کے لئے گنبد کو توڑنا ضروری ہے ،میں یہ جانتا ہوں اس گنبد کو بڑے پتھروں سے توڑا جاسکتا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ تم پتھر نشانے پر پھینک سکو گے یا نہیں۔
بڑی منجیق سے پتھر پھینکنے کے لئے پانچ سو آدمی اسے کھینچ کر پیچھے کرتے تھے، اس کا نام عروس تھا اور جعونہ اسلمی واحد آدمی تھا جو اتنی بڑی منجیق سے بہت بڑا پتھر نشانے پر پھینکا کرتا تھا، وہ شامی تھا۔ سالاراعلی کی عمر دراز ہو ۔۔۔جعونہ اسلمی نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔اللہ ہم سب کا حامی و مدد گار ہوں میں تین پتھروں سے اس گنبد کو توڑ دوں گا، ایک بھی پتھر نشانے سے نہیں ہٹے گا۔
اگر تو اس گنبد کو توڑ کر جھنڈا گرا دے تو میں تجھے دس ہزار درہم انعام دوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
اور اگر میں تین پتھروں سے گنبد کو توڑ نہ سکا تو سالار اعلی میرے دونوں ہاتھ کاٹ دیں۔ خدا کی قسم مجھے تم جیسے مجاہدوں کی ضرورت ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تیں پتھروں کی شرط نہیں گنبد توڑو جھنڈا گراؤ اور انعام لو۔
بڑی منجیق عروس کو محمد بن قاسم کے حکم سے قلعے کے مشرق کی طرف لے گئے کیونکہ سورج طلوع ہو رہا تھا اور اسی طرف سے گنبد زیادہ صاف نظر آتا تھا، بڑے بڑے وزنی پتھر اکٹھے کر لیے گئے تھے۔
جعونہ اسلمی نے بسم اللہ پڑھی اور منجیق کی پوزیشن درست کی ،فاصلے کا اندازہ کیا پھر اس نے منجیق کے پیچھے تھوڑی سی زمین کھدوا کر منجیق کو پیچھے کرایا ، پچھلا حصہ کھودی ہوئی جگہ میں اتر گیا تو منجیق آگے سے اٹھ گئی ،منجیق کو اس پوزیشن میں وہ اس لیے لایا تھا کہ پتھر زیادہ اوپر اور آگے کی طرف دور تک جائے۔
شام کے رہنے والے اس نشانہ باز کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پھینکے ہوئے پتھر اس ملک کی تاریخ بدل ڈالیں گے اور وقت کا دھارا رخ موڑ لے گا۔
اس نے پہلا پتھر منجیق میں رکھوایا اس کے اشارے پر پانچ سو کے لگ بھگ مجاہدین نے رسّے کھینچے منجیق کا پتھر پھینکنے والا حصہ پیچھے ہٹتے ہٹتے آخر حد تک پہنچ گیا ،جعونہ اسلمی کے اشارے پر رسّے بیک وقت چھوڑ دیے گئے ،بڑا ہی وزنی پتھر اُڑا اور اوپر اور آگے کو اڑتا گیا قلعے کی دیوار سے آگے نکل گیا اور سیدھا گنبد کے اوپر والے حصے میں لگا ،دھماکہ دور دور تک سنائی دیا اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
جعونہ اسلمی نے دوسرا پتھر رکھوایا جب یہ پتھر چھوڑا گیا تو جعونہ اسلمی نے کہا ۔۔۔گنبد کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ پتھر نشانے پر لگا اور یہ پتھر نیچے کو آنے کی بجائے گنبد میں ہی غائب ہوگیا جیسے اسے گنبد نے نگل لیا ہو، وہاں بہت بڑا سوراخ ہو گیا تھا جھنڈے کا بانس جھک گیا۔
تیسرے پتھر کے لئے جعونہ اسلمی نے منجیق کی پوزیشن ذرا سی بدلی پتھر رکھوایا رسّے کھینچے گئے، اور جب رسّے چھوڑے گئے تو جعونہ اسلمی نے پتھر کی اڑان دیکھ کر نعرہ لگایا ۔۔۔جھنڈا کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ پتھر، پہلے پتھر کے بنائے شگاف سے ذرا اوپر لگا، یہ اس مخروطی گنبد کی چوٹی تھی اور اس نے بانس کو پکڑ رکھا تھا یہ حصہ اڑ گیا، یہ پتھر بھی گنبد کے اندر چلا گیا ،بانس آہستہ آہستہ ٹیڑھا ہوا اور گنبد کے اوپر گرا وہاں سے پھسلتا جھنڈے کو اپنے ساتھ لیے ہوئے نیچے چلا گیا ۔۔۔محمد بن قاسم کے مجاہدین نے جو نعرہ تکبیر بلند کیا وہ رعد کی کڑک کی مانند تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
گنبد پر پہلا پتھر لگا ہی تھا کہ شہر کے لوگ باہر نکل آئے اور مندر کی طرف اٹھ دوڑے تھے، دوسرا پتھر گنبد کے اندر چلا گیا اور گنبد کے پتھر بھی اندر گرے تو اندر جو پنڈت اور دوسرے لوگ عبادت میں مصروف تھے دوڑتے باہر کو آئے اور جب جھنڈا گرا تو لوگوں میں بھگدڑ بپا ہو گئی، ان کے لئے یہ قیامت کی نشانی تھی عورتوں نے رونا اور چلانا شروع کردیا۔
قلعے کی فوج نے شہر کے دروازے کھولے اور فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح باہر آ گئی ،شہر کے لوگ بھی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے لئے اپنی فوج کے ساتھ باہر آگئے، اور ان سب نے اسلامی فوج پر ہلہ بول دیا ،مجاہدین آمنے سامنے کی لڑائی کے لیے تیار تھے ہندو پاگلوں کی طرح آئے تھے ان کی کوئی ترتیب نہیں تھی مجاہدین نے پیچھے ہٹ کر جوابی ہلہ بولا تو ہندو فوج قلعے کے اندر چلی گئی اور دروازے بند ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget