اکتوبر 2010
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 تعارف سورة حم السجدۃ  / سورة فصلت 


یہ سورت اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جسے حوامیم کہا جاتا ہے، اور جس کا تعارف پیچھے سورة مومن کے شروع میں گزرچکا ہے، اس سورت کے مضامین بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے اثبات اور مشرکین کی تردید پر مشتمل ہیں، اس سورت کی آیت نمبر : ٣٨ آیت سجدہ ہے، یعنی اس کے پڑھنے اور سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے، اس لئے اس کو حم السجدہ کہا جاتا ہے، اس کا دوسرا نام فصلت بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے، نیز اسے سورة المصابیح اور سورة الاقوات بھی کہا جاتا ہے۔ ( روح المعانی) ۔


 تعارف سورة ال مومن /سورة الغافر 


یہاں سے سورة احقاف تک ہر سورت حٰمٓ کے حروف مقطعات سے شروع ہورہی ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا ان حروف کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چونکہ یہ سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہورہی ہیں اس لئے ان کو حوامیم کہا جاتا ہے، اور ان کے اسلوب میں عربی بلاغت کے لحاظ سے جو ادبی حسن ہے اس کی وجہ سے انہیں عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کا لقب بھی دیا گیا ہے، یہ تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین پر زور دیا گیا ہے، کفار کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور کفر کے برے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے، اور بعض انبیائے کرام کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس پہلی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آیت ٢٨ سے ٣٥ تک فرعون کی قوم کے ایک ایسے مرد مومن کی تقریر نقل فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنا ایمان تک چھپایا ہوا تھا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور ان کے رفقاء پر فرعون کے مظالم بڑھنے کا اندیشہ ہوا، اور فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے فرعون کے دربار میں یہ موثر تقریر فرمائی، اسی مرد مومن کے حوالے سے اس سورت کا نام بھی مومن ہے اور اسے سورة غافر بھی کہتے ہیں غافر کے معنی ہیں معاف کرنے والا، اس سورت کی ابتدائی آیت میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے سورت کی پہچان کے لئے اس کا ایک نام غافر بھی رکھا گیا۔


  تعارف سورة الزمر 


یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، اور اس میں مشرکین کے مختلف باطل عقیدوں کی تردید فرمائی گئی ہے، یہ مشرکین مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن انہوں نے مختلف دیوتا گھڑ کر یہ مانا ہوا تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے، اور بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا ہوا تھا، اس سورت میں ان محتلف عقائد کی تردید کرکے انہیں توحید کی دعوت دی گئی ہے، یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے خطے کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں وہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں، نیز کافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی معاندانہ روش نہ چھوڑی تو انہیں بدترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سورت کے آخر میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کس طرح گروہوں کی شکل میں دوزخ تک لے جائے جائیں گے، اور مسلمانوں کو کس طرح گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، گروہوں کے لئے عربی لفظ زمر استعمال کیا گیا ہے اور وہی اس سورت کا نام ہے۔


  تعارف سورة صٓ 


اس سورت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اپنی رشتہ داری کے حق کو نبھانے کے لئے آپ کی مدد بہت کرتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابوطالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے اور کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑدیں تو ہم انہیں ان کے اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلاکر آپ ک سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے، ابوطالب نے پوچھا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے، اور یہ پورے عجم کے مالک ہوجائیں، اس کے بعد آپ نے کلمہ توحید پڑھا، یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے کہ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کرلیں، یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اس موقع پر سورة صٓ کی آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ اس سورت میں مختلف پیغمبروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں حضرت داؤو اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔


 تعارف سورة الصافات 


مکی سورتوں میں زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زوردیا گیا ہے، اس سورت کا مرکزی موضوع بھی یہی ہے، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے، کفار کو کفر کے ہولناک انجام سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آکر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ ، حضرت الیاس اور حضرت یونس (علیہم السلام) کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے مؤثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے، سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔


 تعارف  سورۃ یٰسٓ 


اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو نہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لئے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی، اس لئے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انہیں دوسری زندگی عطا فرمائے، اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر ١٣ سے ٢٩ تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا ؛ بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے ؛ چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، اس لئے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔


تعارف  سورة فاطر 

اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انہیں انعامات سے نوازا جائے، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے، جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لئے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا، اسی سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورة ملائکہ بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔ 


 تعارف                سورة سبا 


اس سورت کا بنیادی موضوع اہل مکہ اور دوسرے مشرکین کو اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت دینا ہے، اس سلسلے میں ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے، اور ان کو نافرمانی کے برے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے، اسی مناسبت سے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی اور دوسری طرف قوم سبا کی عظیم الشان حکومتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو ایسی زبردست سلطنت سے نوازا گیا جس کی کوئی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں کو کبھی اس سلطنت پر ذرہ برابر غرور نہیں ہوا، اور وہ اس سلطنت کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے رہے، اور اپنی حکومت کو نیکی کی ترویج اور بندوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں استعمال کیا، چنانچہ وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے، اور آخرت میں بھی اونچا مقام پایا، دوسری طرف قوم سبا کو جو یمن میں آباد تھی، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا ؛ لیکن انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی، اور کفر وشرک کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، اور ان کی خوشحالی ایک قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئی، ان دونوں واقعات کا ذکر فرما کر سبق یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اقتدار حاصل ہو یا دنیوی خوشحالی نصیب ہو تو اس میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھنا تباہی کو دعوت دینا ہے، اس سے مشرکین کے ان سرداروں کو متنبہ کیا گیا ہے جو اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دین حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔


 تعارف              سورة الاحزاب 


یہ سورت حضور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی ہے، اس کے پس منظر میں چار واقعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا حوالہ اس سورت میں آیا ہے، ان چار واقعات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے، تفصیلات انشاء اللہ متعلقہ آیتوں کی تشریح میں آگے آئیں گے۔ پہلا واقعہ جنگ احزاب کا ہے، جس کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے، بدر واحد کی ناکامیوں کے بعد قریش کے لوگوں نے عرب کے دوسرے قبائل کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اکسایا، اور ان کا ایک متحدہ محاذ بناکر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر مدینہ منورہ کے دفاع کے لئے شہر کے گرد ایک حندق کھودی تاکہ دشمن اسے عبور کرکے شہر تک نہ پہنچ سکے، اسی لئے اس جنگ کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے، اس جنگ کے اہم واقعات اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس موقع پر مسلمانوں کو جس شدید آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ جنگ قریظہ کا ہے، قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد ان سے امن کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے، لیکن قریظہ کے یہودیوں نے معاہدے کی دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ جنگ احزاب کے نازک موقع پر خفیہ ساز باز کرکے پیچھے سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنا چاہا، اس لئے جنگ احزاب سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ فوراً قریظہ پر حملہ کرکے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع فرمائیں، چنانچہ آپ نے ان کا محاصرہ فرمایا، جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے گرفتار، اس واقعے کی بھی تفصیل اس سورت میں آئی ہے۔ تیسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اہل عرب جب کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیتے تو اسے ہر معاملے میں سگے بیٹے کا درجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ میراث بھی پاتا تھا، اور اس کے منہ بولے باپ کے لئے جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے نکاح کرے، بلکہ اس کو بدترین معیوب عمل سمجھا جاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، عرب کی یہ جاہلانہ رسمیں دلوں میں ایسا گھر کرگئی تھیں کہ ان کا خاتمہ صرف زبانی نصیحت سے نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی رسموں کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے خود علی الاعلان ان رسموں کے خلاف عمل فرمایا تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اگر اس کام میں ذرا بھی کوئی خرابی ہوتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس بھی نہ جاتے، اس کی بہت سی مثالیں آپ کی سیرت طیبہ میں موجود ہیں، منہ بولے بیٹے کے بارے میں جو رسم تھی، اس کے سد باب کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنے ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی مطلقہ بیوی حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح فرمائیں، واضح رہے کہ حضرت زینب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپی کی بیٹی تھیں، اور حضرت زید (رض) سے ان کا نکاح خود آپ نے کروایا تھا، اس لئے اگرچہ اب ان سے نکاح کرنا آپ کے لئے صبر آزما عمل تھا ؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور دینی مصلحت کے آگے سر جھکادیا، اور ان سے نکاح کرلیا، اسی نکاح کے ولیمے میں حجاب (پردے) کے احکام پر مشتمل آیات نازل ہوئیں جو اس سورت کا حصہ ہیں۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے اگرچہ ہر طرح کے سرد گرم حالات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب آپ کے پاس مختلف فتوحات کے نتیجے میں مالی طور پر وسعت ہوئی تو انہوں نے اپنے نفقے میں اضافے کا مطالبہ کردیا، یہ مطالبہ عام حالات میں کسی بھی طرح کوئی ناجائز مطالبہ نہیں تھا لیکن پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف رکھنے والی ان مقدس خواتین کا مقام بلند اس قسم کے مطالبات سے بالاتر تھا۔ اس لئے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اعزاز واکرام کے ساتھ علیحدہ کرنے کو تیار ہیں، اور اگر وہ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کی ساتھی ہیں اور آخرت کے انعامات کی طلب گار ہیں تو پھر اس قسم کے مطالبے ان کو زیب نہیں دیتے۔ چونکہ حضرت زینب (رض) سے نکاح کے واقعے پر کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف اعتراضات کئے تھے، اس لئے اسی سورت میں حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند بتایا گیا ہے، اور آپ کی تعظیم و تکریم اور اطاعت کا حکم دے کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت پر نادانوں کے یہ اعتراضات آپ کے مقام بلند میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے، اس کے علاوہ ازواج مطہرات (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل اور اس سے متعلق بعض تفصیلات بھی اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔


 تعارف            سورة السجدۃ 


اس سورت کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، نیز جو کفار عرب ان عقائد کی مخالفت کرتے تھے، اس سورت میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ان کا انجام بھی بتایا گیا ہے، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر : ١٥، سجدے کی آیت ہے، یعنی جو شخص بھی اس کی تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدہ ٔ تلاوت واجب ہے، اس لئے اس کا نام تنزیل السجدہ یا الم سجدہ یا صرف سورة سجدہ رکھا گیا ہے، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں بکثرت یہ سورت پڑھا کرتے تھے، اور مسند احمد (٣: ٣٤) کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ رات کو سونے سے پہلے دو سورتوں کی تلاوت ضرور فرماتے تھے، ایک سورة تنزیل السجدہ اور دوسری سورة ملک۔


 تعارف           سورہ لقمٰن 


یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر و اشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے، قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر و شاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع (آیت نمبر : ٦) میں کیا گیا ہے، حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل و حکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید اور نیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے، اور اگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے، اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ( آیات نمبر : ١٤، ١٥ میں) اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورة عنکبوت (٨: ٢٩) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اور آخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget