2010
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 تعارف سورة حم السجدۃ  / سورة فصلت 


یہ سورت اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جسے حوامیم کہا جاتا ہے، اور جس کا تعارف پیچھے سورة مومن کے شروع میں گزرچکا ہے، اس سورت کے مضامین بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے اثبات اور مشرکین کی تردید پر مشتمل ہیں، اس سورت کی آیت نمبر : ٣٨ آیت سجدہ ہے، یعنی اس کے پڑھنے اور سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے، اس لئے اس کو حم السجدہ کہا جاتا ہے، اس کا دوسرا نام فصلت بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے، نیز اسے سورة المصابیح اور سورة الاقوات بھی کہا جاتا ہے۔ ( روح المعانی) ۔


 تعارف سورة ال مومن /سورة الغافر 


یہاں سے سورة احقاف تک ہر سورت حٰمٓ کے حروف مقطعات سے شروع ہورہی ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا ان حروف کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چونکہ یہ سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہورہی ہیں اس لئے ان کو حوامیم کہا جاتا ہے، اور ان کے اسلوب میں عربی بلاغت کے لحاظ سے جو ادبی حسن ہے اس کی وجہ سے انہیں عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کا لقب بھی دیا گیا ہے، یہ تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین پر زور دیا گیا ہے، کفار کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور کفر کے برے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے، اور بعض انبیائے کرام کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس پہلی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آیت ٢٨ سے ٣٥ تک فرعون کی قوم کے ایک ایسے مرد مومن کی تقریر نقل فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنا ایمان تک چھپایا ہوا تھا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور ان کے رفقاء پر فرعون کے مظالم بڑھنے کا اندیشہ ہوا، اور فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے فرعون کے دربار میں یہ موثر تقریر فرمائی، اسی مرد مومن کے حوالے سے اس سورت کا نام بھی مومن ہے اور اسے سورة غافر بھی کہتے ہیں غافر کے معنی ہیں معاف کرنے والا، اس سورت کی ابتدائی آیت میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے سورت کی پہچان کے لئے اس کا ایک نام غافر بھی رکھا گیا۔


  تعارف سورة الزمر 


یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، اور اس میں مشرکین کے مختلف باطل عقیدوں کی تردید فرمائی گئی ہے، یہ مشرکین مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن انہوں نے مختلف دیوتا گھڑ کر یہ مانا ہوا تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے، اور بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا ہوا تھا، اس سورت میں ان محتلف عقائد کی تردید کرکے انہیں توحید کی دعوت دی گئی ہے، یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے خطے کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں وہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں، نیز کافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی معاندانہ روش نہ چھوڑی تو انہیں بدترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سورت کے آخر میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کس طرح گروہوں کی شکل میں دوزخ تک لے جائے جائیں گے، اور مسلمانوں کو کس طرح گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، گروہوں کے لئے عربی لفظ زمر استعمال کیا گیا ہے اور وہی اس سورت کا نام ہے۔


  تعارف سورة صٓ 


اس سورت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اپنی رشتہ داری کے حق کو نبھانے کے لئے آپ کی مدد بہت کرتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابوطالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے اور کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑدیں تو ہم انہیں ان کے اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلاکر آپ ک سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے، ابوطالب نے پوچھا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے، اور یہ پورے عجم کے مالک ہوجائیں، اس کے بعد آپ نے کلمہ توحید پڑھا، یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے کہ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کرلیں، یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اس موقع پر سورة صٓ کی آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ اس سورت میں مختلف پیغمبروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں حضرت داؤو اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔


 تعارف سورة الصافات 


مکی سورتوں میں زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زوردیا گیا ہے، اس سورت کا مرکزی موضوع بھی یہی ہے، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے، کفار کو کفر کے ہولناک انجام سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آکر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ ، حضرت الیاس اور حضرت یونس (علیہم السلام) کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے مؤثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے، سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔


 تعارف  سورۃ یٰسٓ 


اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو نہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لئے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی، اس لئے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انہیں دوسری زندگی عطا فرمائے، اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر ١٣ سے ٢٩ تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا ؛ بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے ؛ چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، اس لئے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔


تعارف  سورة فاطر 

اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انہیں انعامات سے نوازا جائے، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے، جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لئے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا، اسی سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورة ملائکہ بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔ 


 تعارف                سورة سبا 


اس سورت کا بنیادی موضوع اہل مکہ اور دوسرے مشرکین کو اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت دینا ہے، اس سلسلے میں ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے، اور ان کو نافرمانی کے برے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے، اسی مناسبت سے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی اور دوسری طرف قوم سبا کی عظیم الشان حکومتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو ایسی زبردست سلطنت سے نوازا گیا جس کی کوئی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں کو کبھی اس سلطنت پر ذرہ برابر غرور نہیں ہوا، اور وہ اس سلطنت کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے رہے، اور اپنی حکومت کو نیکی کی ترویج اور بندوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں استعمال کیا، چنانچہ وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے، اور آخرت میں بھی اونچا مقام پایا، دوسری طرف قوم سبا کو جو یمن میں آباد تھی، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا ؛ لیکن انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی، اور کفر وشرک کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، اور ان کی خوشحالی ایک قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئی، ان دونوں واقعات کا ذکر فرما کر سبق یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اقتدار حاصل ہو یا دنیوی خوشحالی نصیب ہو تو اس میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھنا تباہی کو دعوت دینا ہے، اس سے مشرکین کے ان سرداروں کو متنبہ کیا گیا ہے جو اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دین حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔


 تعارف              سورة الاحزاب 


یہ سورت حضور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی ہے، اس کے پس منظر میں چار واقعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا حوالہ اس سورت میں آیا ہے، ان چار واقعات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے، تفصیلات انشاء اللہ متعلقہ آیتوں کی تشریح میں آگے آئیں گے۔ پہلا واقعہ جنگ احزاب کا ہے، جس کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے، بدر واحد کی ناکامیوں کے بعد قریش کے لوگوں نے عرب کے دوسرے قبائل کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اکسایا، اور ان کا ایک متحدہ محاذ بناکر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر مدینہ منورہ کے دفاع کے لئے شہر کے گرد ایک حندق کھودی تاکہ دشمن اسے عبور کرکے شہر تک نہ پہنچ سکے، اسی لئے اس جنگ کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے، اس جنگ کے اہم واقعات اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس موقع پر مسلمانوں کو جس شدید آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ جنگ قریظہ کا ہے، قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد ان سے امن کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے، لیکن قریظہ کے یہودیوں نے معاہدے کی دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ جنگ احزاب کے نازک موقع پر خفیہ ساز باز کرکے پیچھے سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنا چاہا، اس لئے جنگ احزاب سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ فوراً قریظہ پر حملہ کرکے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع فرمائیں، چنانچہ آپ نے ان کا محاصرہ فرمایا، جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے گرفتار، اس واقعے کی بھی تفصیل اس سورت میں آئی ہے۔ تیسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اہل عرب جب کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیتے تو اسے ہر معاملے میں سگے بیٹے کا درجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ میراث بھی پاتا تھا، اور اس کے منہ بولے باپ کے لئے جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے نکاح کرے، بلکہ اس کو بدترین معیوب عمل سمجھا جاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، عرب کی یہ جاہلانہ رسمیں دلوں میں ایسا گھر کرگئی تھیں کہ ان کا خاتمہ صرف زبانی نصیحت سے نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی رسموں کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے خود علی الاعلان ان رسموں کے خلاف عمل فرمایا تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اگر اس کام میں ذرا بھی کوئی خرابی ہوتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس بھی نہ جاتے، اس کی بہت سی مثالیں آپ کی سیرت طیبہ میں موجود ہیں، منہ بولے بیٹے کے بارے میں جو رسم تھی، اس کے سد باب کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنے ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی مطلقہ بیوی حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح فرمائیں، واضح رہے کہ حضرت زینب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپی کی بیٹی تھیں، اور حضرت زید (رض) سے ان کا نکاح خود آپ نے کروایا تھا، اس لئے اگرچہ اب ان سے نکاح کرنا آپ کے لئے صبر آزما عمل تھا ؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور دینی مصلحت کے آگے سر جھکادیا، اور ان سے نکاح کرلیا، اسی نکاح کے ولیمے میں حجاب (پردے) کے احکام پر مشتمل آیات نازل ہوئیں جو اس سورت کا حصہ ہیں۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے اگرچہ ہر طرح کے سرد گرم حالات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب آپ کے پاس مختلف فتوحات کے نتیجے میں مالی طور پر وسعت ہوئی تو انہوں نے اپنے نفقے میں اضافے کا مطالبہ کردیا، یہ مطالبہ عام حالات میں کسی بھی طرح کوئی ناجائز مطالبہ نہیں تھا لیکن پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف رکھنے والی ان مقدس خواتین کا مقام بلند اس قسم کے مطالبات سے بالاتر تھا۔ اس لئے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اعزاز واکرام کے ساتھ علیحدہ کرنے کو تیار ہیں، اور اگر وہ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کی ساتھی ہیں اور آخرت کے انعامات کی طلب گار ہیں تو پھر اس قسم کے مطالبے ان کو زیب نہیں دیتے۔ چونکہ حضرت زینب (رض) سے نکاح کے واقعے پر کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف اعتراضات کئے تھے، اس لئے اسی سورت میں حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند بتایا گیا ہے، اور آپ کی تعظیم و تکریم اور اطاعت کا حکم دے کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت پر نادانوں کے یہ اعتراضات آپ کے مقام بلند میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے، اس کے علاوہ ازواج مطہرات (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل اور اس سے متعلق بعض تفصیلات بھی اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔


 تعارف            سورة السجدۃ 


اس سورت کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، نیز جو کفار عرب ان عقائد کی مخالفت کرتے تھے، اس سورت میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ان کا انجام بھی بتایا گیا ہے، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر : ١٥، سجدے کی آیت ہے، یعنی جو شخص بھی اس کی تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدہ ٔ تلاوت واجب ہے، اس لئے اس کا نام تنزیل السجدہ یا الم سجدہ یا صرف سورة سجدہ رکھا گیا ہے، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں بکثرت یہ سورت پڑھا کرتے تھے، اور مسند احمد (٣: ٣٤) کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ رات کو سونے سے پہلے دو سورتوں کی تلاوت ضرور فرماتے تھے، ایک سورة تنزیل السجدہ اور دوسری سورة ملک۔


 تعارف           سورہ لقمٰن 


یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر و اشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے، قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر و شاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع (آیت نمبر : ٦) میں کیا گیا ہے، حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل و حکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید اور نیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے، اور اگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے، اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ( آیات نمبر : ١٤، ١٥ میں) اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورة عنکبوت (٨: ٢٩) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اور آخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔


 تعارف          سورة الروم 


اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے، جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے دھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں، ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشینگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشینگوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشینگوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے : Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire, chapter 46, Volume 2, P.125, Great Books, V.38, University of Chicago, 1990 چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشینگوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے تو وہ حضرت ابوبکر کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا) ، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایہ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انہوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا لیکن اسکے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا، ہرقل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، اس وقت ابی بن خلف جس نے حضرت ابوبکر (رض) سے شرط لگائی تھی مرچکا تھا، لیکن اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق سو اونٹ حضرت ابوبکر (رض) کو ادا کئے، اور چونکہ اس وقت جوے کی حرمت آچکی تھی اور دو طرفہ شرط جوے ہی کی ایک شکل ہے، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو حکم دیا کے وہ یہ اونٹ خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کردیں۔ اس پیشینگوئی کے علاوہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد تو حید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور مخالفین کی تردید کی گئی ہے۔


 تعارف        سورہ العنکبوت 


یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو جنت تیار فرمائی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخرکار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں پچھلے انبیائے کرام (علیہم السلام) کے واقعات سنائے ہیں جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا ہے کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو برباد کیا اور مظلوم مومنوں کو فتح عطا فرمائی۔ مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے، اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مزہب کے معاملے میں بھی ان کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اس سورت کی آیت نمبر ٨ میں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے، لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جن مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم و ستم ناقابل برداشت ہورہا تھا، ان کو اس سورت میں نہ صرف اجازت، بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو ، اور اگر اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے۔ اس سورت کی آیات ١٢ و ١٣ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر ٤١ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لیے اس سورت کا نام سورة عنکبوت ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں انہتر آیتیں اور سات رکوع ہیں


 تعارف       سورہ القصص 


حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت سورة نمل (سورت نمبر ٢٧) کے بعد نازل ہوئی تھی، اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، کیونکہ اس کی آیت نمبر ٨٥ اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کی غرض سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ سورت کا مرکزی موضوع حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔ سورت کی پہلی ٤٣ آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات ٤٤ تا ٤٧ میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرما رہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ کفار مکہ کی طرف سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے، ان کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیا گیا ہے، اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر کفار مکہ جن جھوٹے خداؤں پر ایمان رکھتے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ ان کی عبرت کے لیے آیات ٧٦ تا ٨٢ میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا، لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچا سکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اس پر آکر رہی۔ سورت کے آخر میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بےسروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں اٹھاسی آیتیں اور نو رکوع ہیں


 تعارف      سورہ النمل 


حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت پچھلی سورت یعنی سورة شعراء کے فورا بعد نازل ہوئی تھی۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور کفر کے برے نتائج کا بیان ہے۔ حضرت موسیٰ، اور حضرت صالح (علیہما السلام) کے واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے اس بنا پر ان کی بات نہیں مانی کہ انہیں اپنی دولت اور اپنے سماجی رتبے پر گھمنڈ تھا۔ اسی طرح کفار مکہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کررہے تھے۔ دوسری طرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی دولت اور بےنظیر بادشاہت سے نوازا تھا، لیکن یہ دولت اور بادشاہت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوئی۔ اسی طرح سبا کی ملکہ بلقیس بھی بہت دولت مند تھی، لیکن حق واضح ہونے کے بعد اس نے اس کو فورا قبول کرلیا۔ اس سیاق میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور سبا کی ملکہ کا واقعہ اس سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بعد کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کو بڑے موثر انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔ نمل کے معنی عربی میں چیونٹی کے ہوتے ہیں، اور چونکہ اس سورت کی آیت نمبر ١٨ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے گزرے تھے، اس لیے اس کا نام سورة نمل رکھا گیا ہے۔


 تعارف     سورہ الشعراء 


حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورة واقعہ ( سورة نمبر ٥٦) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سورت کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے، اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں اس توحید کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرام (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں کہ ان کی قوموں نے جو معجزات مانگے تھے، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید و رسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں، اور ہلاکت سے بچ جائیں۔ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن کہتے تھے، کبھی جادو گر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے۔ سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہیں پائی جاتی۔ اسی ضمن میں آیت ٢٢٤ تا ٢٢٧ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔ 


 تعارف    سورہ الفرقان 


یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کے بارے میں کفار مکہ کے مختلف اعتراضات کا جواب دینا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کے لیے جو بیشمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں، انہیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اس کی توحید کے اقرار اور شرک سے علیحدگی کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں، اور ان کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں جو اجر وثواب رکھا ہے، اس کا بیان فرمایا گیا ہے۔


 تعارف   سورہ النور 


اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بےحیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہدایات اور احکام دینا ہے۔ پچھلی سورت کے شروع میں مومنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی باعفت زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس سورت میں باعفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اسی طرح کسی بےگناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے خلاف بڑی کمینگی کے ساتھ ایک بےبنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے۔ اس سورت کی آیات : ١١ تا ٢٠ حضرت عائشہ کی براءت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں۔ نیز عفت وعصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دیے گئے ہیں، اور دوسروں کے گھر جانے کے لیے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔


 تعارف  سورہ المؤمنون 


اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر (رض) کے حوالے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی لیے اس سورت کا نام مومنون ہے۔ یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ (رض) نے سورة مومنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے۔ سورت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غوروفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اور بالاخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے، اس میں انسان کا نجام کیا ہوگا ؟ اس کے علاوہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں، تاکہ یہ بات واضح ہو کہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی، اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے، اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزاء وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ الحج 


اس سورت کا کچھ حصہ مدنی ہے، اور کچھ مکی۔ مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شروع ہوچکا تھا، اور تکمیل ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اسی سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی عبادت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں کس طرح شرو ع ہوئی، اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں ؟ اسی وجہ سے اس کا نام سورة حج ہے۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا، وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی، لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد اسی سورت میں پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا، بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو انشاء اللہ فتح نصیب ہوگی۔ اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ الانبیآء 


اس سورت کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، اور ان عقائد کے خلاف کفار مکہ جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے، سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک ہم جیسے انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجنا مناسب تھا، اور اس ضمن میں بہت سے پچھلے پیغمبروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ سب انسان ہی تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو انہی عقائد کی تعلیم دی تھی جو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقائد ہیں۔ انبیائے کرام کے اسی حوالے کی بنا پر اس سورت کا نام سورة الانبیاء رکھا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ طٰہٰ 


یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر (رض) اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ اور ان کے بہنوئی حضرت سعید بن زید (رض) ان سے پہلے خفیہ طور پر اسلام لاچکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا۔ ایک روز وہ گھر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملے، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارت سے سورة طہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورة طہ لکھی ہوئی تھی، کہیں چھپا دیا، لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو، اور یہ کہہ کر بہن اور بہنوئی دونوں کو بہت مارا۔ اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں، ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، وہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے بھی دکھاؤ، وہ کیسا کلام ہے۔ بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورة طہ لکھی ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر حضرت عمر (رض) مبہوت رہ گئے، اور انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حضرت خباب (رض) نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی، اور بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرمادے۔ چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا۔ جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی، وہ مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا۔ کفار مکہ نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس لیے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق کے علمبرداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں، لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوا ہے جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں، یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔


 تعارف  سورہ مریم 


 اس سورت کا بنیادی مقصد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اور ان کے بارے میں عیسائیوں کی تردید ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی، لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کی تردید کے لیے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے جہاں عیسائی مذہب ہی کی حکمرانی تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ، حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحی (علیہم السلام) کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں۔ چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق وسباق میں بیان ہوئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے نہیں ہیں، جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ وہ انبیائے کرام ہی کے مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس لیے بعض دوسرے انبیائے کرام (علیہم السلام) کا بھی مختصر تذکرہ اس سورت میں آیا ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت اور اس وقت حضرت مریم (علیہا السلام) کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوئی ہیں، اس لیے اس کا نام سورة مریم رکھا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ الکہف 


حافظ ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس سورت کا شان نزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کا نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجوانوں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔ دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ تیسرے ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تین سوال پوچھے۔ تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (٨٥: ١٧) میں آچکا ہے۔ اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحاب کہف کے معنی ہوئے غار والے اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورة الکہف کہا جاتا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں نے مشرق ومغرب کا سفر کیا تھا۔ اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا۔ یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں۔ ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ سورة کہف کی تلاوت کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لیے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔


 تعارف  سورہ الاسراء 


اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے، لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے باز آجائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے۔ ( آیت نمبر ٩) پھر آیت نمبر ٢٢ سے ٣٨ تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔ چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے سورت کا نام سورة بنی اسرائیل ہے۔ اور اس کا دوسرا نام سورة الاسراء بھی ہے۔ اسراء سفر معراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے، اس لیے اس کو سورة الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔


 تعارف  سورہ النحل 


اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورة النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے تھے۔ آیت نمبر ٤١ و ٤٢ میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر وثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہیئں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر ٦٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ الحجر 


اس سورت کی آیت نمبر ٩٤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر ١٧ اور ١٨ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر ٢٦ تا ٤٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح (علیہم السلام) کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ٨٠ میں آیا ہے۔


تعارف  سورہ ابراھیم 

دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے۔ چونکہ عرب کے مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے تھے، اس لیے سورت کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورة ابراہیم ہے۔ 


 تعارف  سورہ الرعد 


یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ پچھلی سورت یعنی سورة یوسف کے آخر ( آیت نمبر ١٠٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے، اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بےمقصد پیدا نہیں کردیا۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کیے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے۔ اس سے خودبخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے ل یے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں۔ ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ١٣ میں آیا ہے۔ عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے۔ اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔


 تعارف  سورہ یوسف 


یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنو اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے، مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے ؟ ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذ اللہ) سچے نبی نہیں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورة یوسف نازل فرما دی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کے بارہ صاحبزادے تھے، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک کنویں میں ڈال دیا، جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے، لیکن اس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے، اس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا، اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دیے۔ اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سورة یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور تقریبا پوری سورت اسی کے لیے وقف ہے، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لیے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہی کو عزت، شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا، ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے، اور حق غالب ہو کر رہے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لیے بہت سے سبق ہیں، اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔


 تعارف  سورہ ھود 


یہ سورت بھی مکی ہے، اور اس کے مضامین پچھلی سورت کے مضامین سے ملتے جلتے ہیں، البتہ سورة یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے، اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور موثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بڑی بڑی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے، اور جب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو چاہے وہ کتنے بڑے پیغمبر سے قریبی رشتہ رکھتا ہو، اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا، جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو نہیں بچا سکا۔ اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کو اپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔


 تعارف  سورہ یونس 


یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ بعض مفسرین نے اس کو تین آیتوں ( آیت نمبر ٤٠ اور ٩٤ اور ٩٥) کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مدیننہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اس کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔ سورت کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا حوالہ آیت نمبر ٩٨ میں آیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں سب سے اہم مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنا تھا، اس لئے اکثر مکی سورتوں میں بنیادی زور توحید، رسالت اور آخرت کے مضامین پر دیا گیا ہے۔ اس سورت کے بھی مرکزی موضوعات یہی ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام پر مشرکین عرب کے اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں اور ان کے غلط طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے، اور انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ضد جاری رکھی دنیا اور آخرت دونوں میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں پچھلے انبیائے کرام میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کے نتیجے میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اور حضرت نوح اور حضرت یونس (علیہما السلام) کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان میں کافروں کے لئے تو یہ کہ انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس کے نتیجے میں ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے یہ تسلی کا سامان بھی ہے کہ ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخری انجام انشاء اللہ انہی کے حق میں ہوگا۔


 تعارف  سورہ التوبۃ 


یہ بھی مدنی سورت ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورة انفال کا تکملہ ہے۔ غالبا اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی، نہ لکھی گئی۔ اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورة انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو، اسے یہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص اسی سورت سے تلاوت شروع کر رہا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ اور جملے پڑھنے کے لیے بنا رکھے ہیں، وہ بےبنیاد ہیں۔ اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے، وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ،۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا، اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا۔ اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، البتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی، اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی۔ اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے، یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے، ان کے دل سے اسلام کے خلاف ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہی تھی کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : ٦ ص : ٥٧٢) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دئیے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر ٢٩ کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے۔ اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ منافقین کی معاندانہ کاروائیاں مسلسل جاری تھی، اس سورت میں ان کی بدعنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس سورت کو سورة توبہ بھی کہا جاتا ہے، اور سورة برائت بھی۔ برائت اس لیے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برائت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے، اور توبہ اس لیے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔ ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرہ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرہ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرہ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے، ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں : (الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرہ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں تو ان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : ٨٧١) ۔ (ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔ (ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : ٥ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرہ عرب سے باہر جائیں تو ان کو قتل کردیا جائے گا۔ (د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی ایسے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : ٤ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔ ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔


 تعارف  سورہ الانفال 


یہ سورت تقریبا سن ٢ ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس کے بیشتر مضامین جنگ بدر اور اس کے واقعات اور مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان پہلے باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی ہے اور قریش مکہ کو ذلت آمیز شکست سے دور چار کیا۔ چنانچہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات بھی یاد دلائے ہیں، اور مسلمانوں نے جس جاں نثاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی اس کی ہمت افزائی کے ساتھ بعض ان کمزوریوں کی بھی نشان دہی فرمائی ہے جو اس جنگ میں سامنے آئیں۔ اور آئندہ کے لیے وہ ہدایات بھی دی گئی ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کامیابی اور فتح و نصرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بھی بیان ہوئے ہیں اور چونکہ جنگ بدر اصل میں کفار کے ظلم و ستم کے پس منظر میں پیش آئی تھی، اس لیے ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔ نیز جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجائیں۔ ہجرت کی وجہ سے میراث کی تقسیم سے متعلق کچھ احکام عارضی طور پر نافذ کیے گئے تھے۔ سورت کے آخر میں اسی وجہ سے میراث کے کچھ مستقل احکام دئیے گئے ہیں۔ جنگ بدر چونکہ اس سورت کے بہت سے مضامین جنگ بدر کے مختلف واقعات سے متعلق ہیں، اس لیے ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے اس جنگ کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات یہاں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، تاکہ اس سے متعلق آیات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھا جاسکے۔ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے بعد تیرہ سال مقیم رہے۔ اس دوران مکہ مکرمہ کے کفار نے آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو طرح طرح سے ستانے اور ناقابل برداشت تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ ہجرت سے ذرا پہلے آپ کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو کفار مکہ مسلسل اس فکر میں رہے کہ آپ کو وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا جائے۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی کو مدینہ منورہ میں خط لکھا کہ تم لوگوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے، اب یا تو تم انہیں پناہ دینے سے ہاتھ اٹھا لو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے۔ (دیکھے سنن ابو داؤد، کتاب الخراج، باب ٢٣، حدیث نمبر ٣٠٠٤) انصار میں سے اوس کے قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گئے تو عین طواف کے دوران ابو جہل نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے، اور اگر تم ہمارے ایک سردار کی پناہ میں نہ ہوتے تو زندہ واپس نہیں جاسکتے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ اگر مدینہ منوہ کا کوئی آدمی مکہ مکرمہ آئے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ حضرت سعد بن معاذ (رض) نے اس کے جواب میں ابو جہل سے کہہ دیا کہ اگر تم ہمارے آدمیوں کو مکہ مکرمہ آنے سے روکو گے تو ہم تمہارے لیے اس سے بھی بڑی رکاوٹ کھڑی کردیں گے، یعنی تم تجارتی قافلے لے کر جب شام جاتے ہو تو تمہارا راستہ مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ اب ہم تمہارے قافلوں کو روکنے اور ان پر حملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ (دیکھئے، صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ٢، حدیث نمبر ٣٩٥٠) اس کے بعد کفار مکہ کے کچھ دستے مدینہ منورہ کے آس پاس آئے، اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کرلے گئے۔ حالات کے اس پس منظر میں ابو سفیان (جو اس وقت کفار مکہ کا سردار تھا) ایک بڑا بھاری تجارتی قافلہ لے کر شام گیا۔ اس قافلے میں مکہ مکرمہ کے ہر مرد و عورت نے سونا چاندی جمع کر کے تجارت میں شرکت کی غرض سے بھیجا تھا۔ یہ قافلہ شام سے سوفیصد نفع کما کر واپس آرہا تھا۔ یہ قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا، اور پچاس ہزار دینار (گنیوں) کا سامان لارہا تھا، اور اس کے ساتھ چالیس مسلح افراد اس کی حفاظت پر متعین تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قافلے کی واپسی کا پتہ چلا تو حضرت سعد بن معاذ کے چیلنج کے مطابق آپ نے اس قافلے پر حمہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے لیے باقاعدہ سپاہیوں کی بھرتی کا موقع نہیں تھا، اس لیے وقت پر جتنے صحابہ تیار ہوسکے، ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی، کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے، ساٹھ زرہیں تھیں، اس مختصر سامان کے ساتھ آپ مدینہ منورہ سے نکلے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے اس واقعے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہمارے زمانے کے بعض مسلمان مصنفین نے اس اعتراض سے مرعوب ہو کر یہ دعوی کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قافلے پر حملہ کرنے کا نہیں تھا، بلکہ ابو سفیان نے اپنے طور پر خطرہ محسوس کر کے ابوجہل کے لشکر کو دعوت دی تھی، لیکن واقعے کی یہ تشریح صحیح احادیث اور قرآن کے ارشادات کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ درحقیقت یہ اعتراض اس وقت کے حالات اور اس دور کے سیاسی، دفاعی اور معاشرتی ڈھانچے سے بیخبر ی پر مبنی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو واقعات ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں فریقین کے درمیان ایک مسلسل جنگ کی حالت موجود تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف چیلنج دے رکھے تھے، بلکہ کفار کی طرف سے عملی طور پر چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہوچکی تھی۔ دوسرے حضرت سعد بن معاذ پہلے سے انہیں متنبہ کر آئے تھے کہ وہ ان کے قافلوں پر حملہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ تیسرے اس دور میں شہری اور فوجی افراد کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ کسی معاشرے کے تمام بالغ مرد مقاتلہ یعنی لڑنے والے کہلاتے تھے۔ چنانچہ قافلے کی سر کردگی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا دشمن تھا، اور اس کے ساتھ چالیس افراد میں سے ہر ایک قریش کے ان لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں کو ستانے میں پیش پیش رہے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے تھے، اور یہ قافلہ بھی اگر کامیابی سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتا تو قریش کی جنگی طاقت میں بڑے اضافے کا سبب بنتا۔ ان حالات میں اس کو ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ قرار دینا اس وقت کے حالات سے ناواقفیت یا محض عناد کا کرشمہ ہے، اور اس کی وجہ سے ان واقعات کا انکار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ بہرحال ! جب ابو سفیان کو آپ کے ارادے کا اندازہ ہوا تو اس نے ایک طرف تو ایک تیز رفتار ایلچی ابو جہل کے پاس بھیج کر اس واقعے کی اطلاع کی، اور اسے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ آپ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا، اور دوسری طرف اپنے قافلے کا راستہ بدل کر بحر احمر کے ساحل کی طرف نکل گیا تاکہ وہاں سے چکر کاٹ کر مکہ مکرمہ پہنچ سکے۔ ابو جہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک بڑا لشکر تیار کیا اور لوہے میں غرق ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب پتہ چلا کہ ابو سفیان تو قافلہ لے کر نکل چکا ہے اور ابو جہل کا لشکر آرہا ہے تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ سب نے یہی رائے دی کہ اب ابو جہل سے ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجانا چاہیے۔ چنانچہ بدر کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کی تعداد اور سازو سامان ابو جہل کے لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ ابوجہل سمیت قریش کے ستر سردار جو مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش تھے مارے گئے، اور دوسرے ستر افراد گرفتار ہوئے اور باقی لوگ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget