🕌⭐🌴 تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
احساسِ کربلا
# حسینیت:
حسینیت حق کی خاطر ڈٹ جاناہے۔ کسی بھی طرح کے حالات میں کتنے ہی مصائب و آلام میں حق اور سچ کے لیے کھڑے رہنا اور نہ صرف کھڑے رہنا بلکہ جو کچھ اور جتنا ہو سکے قربان کر دینا....صرف اس احساس کے تحت کہ اللہ ہم سے راضی و خوش ہو گا.... یہ حسینیت ہے۔
# یزیدیت:
یزیدیت اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں ہے کیونکہ اسلام کا کھلم کھلا انکار کر تے تو ابو جہلی یا ابولہبی کہلاتی۔
یزیدیت یہ ہے کہ..... اسلام کا نام بھی لیا جائے.... اور اسلام سے دھوکا بھی کیا جائے ۔
اسلام کا نام لینے والے بن کر ہی اس امانت میں خیانت کی جائے۔
اسلام کا نام بھی لیا جائے... اور آمر اور سخت گیر، ظالم حاکم بن کر لوگوں پر مسلط ہوا جائے۔
اسلام کا نام بھی لیا جائے... اور کسی بھی سطح پر اختلاف کرنے والوں کو پیار سے قائل کرنے کی بجائے ظلم و جبر سے ان کو کچلا جائے۔
یزیدیت درپردہ اسلامی نظام کے خلاف ہے اور اس کے ساتھ دھوکا ہے۔
یہ لوگوں کے حقوق غصب کرنااور ہر غلط راہ اختیار کر کے صرف خود کو اقتدار اور طاقت میں رکھنا ہے۔
ظالم کا ظلم اور کمزور و بے بس پر حکومت جمائے رکھنا یزیدیت ہے۔
# معرکہٴ حق و باطل کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی ۔یہ فرائض سے انکار کی جنگ بھی نہیں تھی کیونکہ اس وقت ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
یہ واقعہ اس لیے ہوا کہ پسند صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے اور رہے گی۔ یہاں مخالف بھی اللہ کو ماننے والے تھے۔ اور فرائض کو ادا کرنے والے لو گ تھے۔ یہ معاملہ صرف اتنا تھا کہ کسی بندے کا حکم نہیں چلے گا۔ صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہی چلے گا۔ کسی شخص کی ذاتی خواہش کو اللہ کے حکم پر فوقیت نہیں دی جائیگی کیونکہ یہ آنے والی امتیوں کی ہدایت و نجات کا معاملہ تھا۔
یہ انسانیت کے حقوق کا معاملہ تھا ۔اور ان حقوق کو غصب ہونے سے بچانے کی قیمت امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓنے ادا کی۔
# اس و اقعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس کے حکم کے تابع رہنا چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے یا ایک ایسے شخص کے حکم کے تابع جو علی اعلان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو نا پسند کر کے اپنی مرضی چلا رہا ہے۔
امام عالی مقام حضرت امام حسین کے یزید کی بیعت کرنے سے یہ ثابت ہو جا تا کہ ایک شخص کے ڈر سے امام عالی مقامؓ سبط رسولﷺ نے اللہ کے تابع رہنے کی بجائے خود کو ایک شخص کے تابع رہنے کے لیے راضی کر لیا۔ حضرت امام حسینؓ اللہ کے اور اس کے رسولﷺ کے ہر حکم کو اس کی اصلی حالت میں نافذ رکھنے اور خود کو اسی کے تابع رہنے کا پابند بنائے رکھنے کے لیے یہ سب کر گزرے کہ وہ احکام نافذ العمل رہیں جو اللہ اور رسول کے ہیں۔
یہ نہ ہو کہ کوئی حکمران اپنی طاقت ، اقتدار اور دولت کو اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کے لیے استعمال کرے۔ بلکہ اللہ اور رسول کی پسند اور مرضی پر عمل کرنے اور کرانے کے لیے یہ سب استعمال ہو۔
# اللہ نے پہلے ہی جو عزت و مرتبہ، پیار اور عظمت و بزرگی آل ِنبیﷺ کو عطاکی تھی تو انہوں نے اسکو ثابت بھی کر دکھایا کہ اگر ان عطاؤں سے نواز ا گیا تووہ واقعی ان مقامات کی لاج رکھنے والے ہی ہیں۔
ٌٌٌ# کربلا میں حضرت امام حسینؓ نے عشق کے راستے پر چلنے والوں کے لیے ایک ایسا معیار بنا کر دکھایا کہ چاہے اب کوئی کتنے اور کیسے ہی کارنامے کر گزرنے والا آتا رہے وہ اپنے ہر کار نامے اور قربانی کو انتہائی کم سمجھے اور عشق میں اپنا امام ...حضرت امام حسینؓ کو ہی بنائے رکھے۔
# کربلا میں یہ دکھا یا گیا کہ ان ہستیوں کی زندگی میں ان سے کرامات کا ظہور ہو تا رہا ۔
پر جب جب اپنی ذات کے حوالے سے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی آزمائش سے گزرنا تھا تو اپنے لیے کچھ نہ مانگا...بس راضی رہے اس فیصلے پر جو اللہ کی طرف سے ان کے لیے تھا۔ دکھا یا گیا کہ اپنی ذات کی خواہشوں اور مرضیوں سے کیسے نکلا جاتا ہے۔ او ر اس کے لیئے کیا کچھ کر دیا جا تا ہے۔ اور ساتھ ہی اس حد تک اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف سے اگر قربانی مانگی گئی تو قربانی دے کر بھی کس انتہا تک شکر گزار رہا جا تا ہے۔
# میدان جنگ میں حضرت امام حسینؓ جب باطل سے پر سرپیکار ہوئے آپ ؓنے ثابت کر دکھا یا کہ اسلام کو پھیلا نے والے پیغامبرﷺ کے جگر گو شے ہیں۔ اللہ کے سچے دین کو پھیلانے والے رسولﷺکے بیٹے ہیں۔ آپ ابنِ رسول ﷺکہلاتے تھے۔ اور ابن رسولﷺ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اور اپنے نانا ﷺکے حق کے پیغام کو اسی حالت میں قائم رکھنے کے لیے نہ صرف اپنا سب کچھ لگا دیابلکہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان تک کی قربانی پیش کر دی۔
# کہتے ہیں کہ جو شخص جس حال میں اس دنیا سے جاتا ہے وہ ہمیشہ ویسی ہی حالت میں رہتا ہے، روزہ دار، حاجی یا نمازی۔حضرت امام حسینؓ نے تو کربلا میں سجدہ میں جان دے دی اور آج تک بندگی کے اعلیٰ مقام پر ہی فائز ہیں۔
# گو کہ بظاہر باطل قوتوں نے فتح حاصل کی مگر انہی باطل قوتوں نے امام حسین ؓ کے سر مبارک کو خود بلند کیا اور اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ ہمیشہ حق پر رہنے والے ہی سر بلند رہے ہیں اور رہیں گے۔
چاہے باطل قوتیں کیسی ہی فتح حاصل کر لیں۔
# معرکہ کربلا نے سیکھا دیا کہ ایک فرد کا اپنے چند جان نثاروں کے ساتھ ہونا جس کے سامنے ہزاروں افراد اپنے تمام ساز و سامانِ جنگ سے لیس ہوں تو بھی ہرصورت میں حق.... حق ہی رہے گا۔ اور حق کو تب بھی حق ہی کہنا چاہیے۔ اس بات کا مظاہرہ کر بلا میں حضرت امام حسین ؓ نے کر دکھایا۔
# کربلا میں حضرت امام حسین ؓیہ سکھا گئے کہ باطل کو مٹانے کے لیے اور اس کی ظلمت کے اندھیرے دور کرنے کے لیے دل کانورِ ایمانی.... قوت کا کام کر تا ہے اور صرف اس سے ہی باطل کو مٹایا جا سکتا ہے۔ حق والوں کی قوتِ ایمانی ہی باطل کو مٹا سکتی ہے کیونکہ اندھیرے کو روشنی ہی دور کر تی ہے۔
# معرکہ کربلا میں حضرت امام حسین ؓنے کر دکھایا کہ حق کو مٹانے کے لیے اگر مرتبہ ،دولت یا دنیا کی کوئی بھی طاقت استعمال کی جائے تو وہ لا حاصل ہی رہے گی جب تک کہ دلوں میں ایمان کی قوت نہ ہو۔
# معرکہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سنگین ہو جائیں کسی بھی حال میں شکوہ نہیں کرنا بس شکر اور رضا پر کھڑے رہنے کی کوشش کرنی ہے۔
کر بلا میں یزیدی فوجوں کے ساتھ نبرد آزما اہل بیت اطہار سکھا گئے کہ عشق کے سفر میں اگر عظمت و بلندی، اللہ اور رسولﷺکی قربت کی صورت میں چاہتے ہو تو ہر طرح کے کر ب وبلا میں بھی بس عاجزی سے سر اللہ کے حضور جھکے رہیں۔
یہ جھکنا ہی کرب و بلا میں پار گذروا جانے کا باعث بن جاتا ہے۔
# حضرت امام حسین ؓنے حق کی سر بلندی کے لیے اپنی جبین نیاز کو کربلا کی تپتی ریت پر سجدے میں جھکا یا۔ کوئی بھی شعور و آگہی رکھنے والا اگر ذرا بھی سوچے تو اس سجدے سے اس راز کو سمجھ جائے گا کہ کر بلا میں سجدہ کیا سِکھا گیا ہے۔
# کر بلا کے میدان میں باطل کا بظاہر غلبہ ہو نے کے با وجود آج تک حق اور حق والوں کے علم کی سربلندی اس بات پر ہمارے یقین اور مضبوط کر گئی کہ باطل غالب نہیں رہ سکتا ۔
چاہے اس کے پاس کتنا ہی مرتبہ ،دولت اور دنیا کی طاقت ہو۔ باطل نے مغلوب ہونا ہی ہو تا ہے۔ اسکی طاقت ایک بلبلے کی طرح ہو تی ہے۔
# کسی بھی واقعہ ...چاہے وہ اچھا ہو یا برا ...میں ملوث یا اس سے متاثر ہ اور متعلقہ لوگوں کے بارے میں جب ہمیں علم ہوتا ہے تو ہم پہلا سوال کر تے ہیں کہ کس گھرانے کا تھا ۔ باپ بھائی کو ن تھے۔
کس کا بیٹا تھا ۔اور اس حوالے کے معلوم ہونے سے ہی ہمارے دل میں اسکی اہمیت جاگزین ہو جاتی ہے۔واقعہ کر بلا میں اگر دیکھا جا ئے تو سب گھرانوں سے اعلیٰ گھرانے کے افراد بنی آخرالزماںﷺ کی آل، نبی کے بیٹے ، علی ؓکے لعل، فاطمہ کے خون نے بے مثل و بے نظیر قربانی دی۔
کیا یہ سب ہمارے دلوں میں احساس بیدار کر نے کے لیے کافی نہیں.....؟
کیا ابھی بھی یہ شہادت باقی سب سے منفرد و اعلیٰ نہ سمجھی جائے....؟؟
# کسی بھی واقعہ کا علم ہوتا ہے تو ہم پر اس کا اثر اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے مقصد کیا تھا ۔
واقعہ کر بلا میں یزید کا مقصد صرف دنیا کا اقتدار و طاقت حاصل ہونے پر عیاشی کرناتھا اور حضرت امام حسین ؓکا مقصد صرف نانا حضرت محمدمصطفی ﷺکے دین کو بچانا تھا تاکہ قیامت تک آنے والے لوگ اپنے لیے بھلائی کی راہ پکڑ سکیں۔ اپنی دنیاو آخرت کو سنوار سکیں۔
# باطل چاہے کتنا ہی مضبوط ہو او ر ہم کو ہر طرف سے گھیر کے ہمیں جھکانا چاہتا ہو ۔
لیکن یاد رہے کہ وہ جھکنا اگر اللہ کے سامنے دل سے سجدہ ریز ہونے کی صورت میں ہو گا تو باطل کی ساری مضبوطی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
# جیسے کسی فیملی فوٹو میں خاندان کے سربراہ بیچ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور باقی خاندان کے لوگ ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی اگرتصور کی آنکھ سے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی خاندانی تصویر میں جس جس کو دیکھیں تو وہ تیر، تلوار اور نیزوں سے زخمی نظر آئے گا۔
کیا ہم پیارے آقائے دو جہاںﷺ کے اس درد کو محسوس کرتے ہیں؟
اگر نہیں ...تو کیا ہم عاشق کہلانے کے حق دار ہیں…؟؟؟
# ہر وہ دل جس میں اللہ کا احساس آشنائی بیدار ہوتا جا رہا ہوتا ہے.... تووہ اتنا ہی حق و باطل کی پہچان کرنے لگ جاتاہے۔ اور جتنا وہ یہ پہچان پاتا ہے.... وہ اتنا ہی حضرت امام حسین ؓسے محبت میں جھکتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔
# کوئی بھی حق کا راہی اگر اعلیٰ منازل کی قربت پانا چاہے گا تو اس کو حضرت امام حسین ؓکی صورت میں ایک ایسا آئیڈیل عطا کیا گیا ہے جن کی راہ پکڑنے سے اسے کسی بھی اعلیٰ مقام تک کے سفر میں ہر طرح کی مدد ملتی ہے۔
# لوگ کہتے ہیں اسلام کی خاطر شہید تو بہت ہو تے ہیں پھر شہدائے کر بلا کے حوالے سے اتنا و اویلا کیوں کیا جا تاہے۔
اسلام کے سب شہیدوں کو ہمارا سلام...! پر کیا ہر انسان اور آل نبی برابر ہیں... ؟
کیا ہر بہنے والا خون اس خون کی برابری کر سکتا ہے جو آل نبیﷺ کا بہایا گیا...؟
کیا ہر ایک ماں کی کو کھ اور خاتونِ جنت طیبہ طاہر ہ کی کوکھ ایک جیسی ہے اور اس میں پرورش پانیوالے بچے میں اور ایک عام بچے میں کوئی فرق نہیں...؟
خدا کے لیے سمجھواس فرق کو...!
تو پتہ چلے گا کہ کر بلا میں بہنے والا زہرہ کے ناز پالوں کا خون جو بہایا گیا اتنا ارزاں نہیں کہ اسے بھلا دیا جائے۔
وہ خون جس نے اسلام کے مر جھائے ہو ئے پودے کو اپنا اور اپنے پیاروں کا خونِ جگر دے کر اس کرب وبلا کے عالم میں بھی سنیچا....!
اور اپنے خون سے اسلام کے گلشن کو سجا یا اور کھلایا...! وہ خون جو نہ صرف ہاشمی نصب کا ہے بلکہ وہ خاص شیر خدا اور محبوب رسول خدا ، حضرت علیؓ کا ہے۔
# قرآن پاک میں ہے کہ حق کی خاطر ڈٹ جاؤ۔ اور حق بات کے لیے جو کہو یا کرو تو اس کی وجہ سے آنے والے مصائب و آلام پر صبر کرو اور برداشت کرو۔ کر بلا میں حضرت امام حسین ؓنے ثابت کر دکھایا کہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور مصائب و آلام پر صبر و برداشت کیسے ہوتا ہے۔
# اللہ کہتا ہے کہ جو اس دنیا میں ہر طرح کے حالات میں مجھ سے راضی رہے گا... میں قیامت کے روز اس سے کہوں گا... کہ دنیا میں تو میری رضا کا طالب رہا.........تو اب میں یہاں تیری رضا پوچھتا ہوں کہ بتا اب تو کس طرح راضی ہو گا۔
آل رسولﷺ نے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی وہ عالی شان مثال قائم کی کیونکہ ان کو بھی اپنے نانا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امت سے محبت اور پیار تھا۔
وہ روزِ محشر اس رضا کے بدلے میں اللہ سے اپنے نانا ﷺکی امت کی بخشش کا سوال کریں گے .....جب اللہ یہ پوچھے گا کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔
# بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں کہ سلام پیش نہ کیا جائے۔
جبکہ ایک زمیں کے ٹکڑے اور اس پر رہنے والوں کے نظریات کی حفاظت کرنیوالے اگر شہید ہو جائیں تو ان کو ہر سال سلامی پیش کی جا تی ہے۔ اور ہمارے دین کے لیے لڑنے اور شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرنے سے سب کو پریشانی کیوں ہو تی ہے...؟
# وطن اور قوم کے لیے لڑنے والوں اور جان دینے والوں کو یاد رکھا جا تا ہے اور قوم کے لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو وہ کارنامے سنا تے ہیں۔
اور انکی یاد میں ہر سال خاص دن منائے جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنے پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة السلام کے دین کی اور شریعت کی حفاظت کر نے اور اس کو بچانے والوں یعنی ان کی آل کے ایمان کی مضبوطی اور حق پر کھڑے رہنے کی یاد میں دن منائے اور کارنامے سنائے تو لوگ کسی خاص فرقہ کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ آخر کیوں...؟ کیا ہم کسی لیبل لگنے کے ڈر سے ان سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔
# ہم امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ایسے ہی باقی تمام آئمین کا انتہائی عقیدت ، محبت اور تعظیم سے نام لیتے اور ذکر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے...
لیکن حضرت امام حسین ؓ جو کہ امام عالی مقام ہیں ان کا ذکر کر تے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں.....؟؟؟
# کر بلا میں حضرت امام حسین ؓ نے سیکھا دیا کہ اللہ کی محبت اور اللہ کے حبیب کی پیروی میں کیسے ہر حال میں شکوہ کیے بنا صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھنا ہو تا ہے۔
کیونکہ مومن کی مثال ہے صبر اور شکرکا پیکر اورامام عالی مقامؓ نے ان دونوں کو اپنی انتہاؤں پر تھامے رکھا۔
# اللہ خود قرآن میں بیان کر رہا ہے کئی جگہ پر ماں اور باپ کا اپنی اولاد کے لیے دکھ محسوس کرنا تو کیاآل رسول کے جدا مجد اس دکھ کو محسوس نہیں کر رہے ہوں گے۔ اور اگر وہ کر رہے ہیں تو کیا ہمارے دل اتنے پتھر ہیں کہ اپنے پیارے اور مہربان آقاﷺ کے دکھ میں شریک نہ بنیں۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے صرف ایک بیٹے حضرت اسمٰعیل کی قربانی کی یاد ہر سال تازہ کی جا تی ہے اور حضرت محمدﷺکے بیٹے حسینؓ اور آل محمدﷺ کی قربانی کی یاد تازہ نہ کی جائے۔ آخر کیوں...؟
# جب ہم معرکہ کربلا کا ذکر سنتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں مگر کیا ہم ان کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں...؟
کبھی ذکر سنتے ہوئے ان کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرنا اور ذرا سوچنا… اس بات کو کہ ہماری انگلی پر جب چھری چلتی ہے تو کیا ہوتا ہے اور جب کربلا میں ان کے بازو کٹے ہوں گے تو کیا ہوا ہو گا۔
ذرا اس بات کا احساس کرنا... او ر ان کے درد کو محسوس کرنا... ان کی باتیں سننے کو ہم سن لیتے ہیں مگر جب سر تن سے جدا ہوتا ہے تو خبر ہوتی ہے... ہمارے کسی اپنے کے ساتھ ایسا ہو تو ہمیں خبر ہو... مگر ہمیں ”وہ“ اپنے لگیں تو ہی ہم ان کا درد بھی محسوس کر سکتے ہیں... اپنی ایک انگلی کی تکلیف کو ہم بہت اچھی طرح محسوس کر تے ہیں۔ اس کا درد ہمیں بے چین رکھتا ہے... کچھ دل کو نہیں بھاتا... سوچو...کہ ان کے گلے پہ خنجر چل گیا اور ہمیں ان کے درد کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا... ہم نے تو ان کے درد کو اتنا بھی محسوس نہیں کیا جتنا ہم نے اپنی انگلی کے کٹنے کے درد کو محسوس کیا... کہنے کو تو ہم کہتے رہتے ہیں کہ ہم غلام ہیں ...رسول ﷺ کے غلام ہیں۔
مگر ان کی کوئی بھی بات... کوئی بھی درد ہمارے دل کو نہیں لگتا۔ شاید ہمارے دل پتھر کے ہو گئے ہیں۔ جو کلمہ ہمیں پڑھایا گیا وہ ہمارے دل تک تو اترتا نہیں۔ اس کلمے کو ہم نے دل میں اتارا ہوتا تو اس سے ہمارے دلوں کی زمین زرخیز ہوئی ہوتی... دل نرم ہوا ہوتا۔ لیکن ہمارا دل بھی نرم نہیں ہوتا اس لیے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیسے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے آقاؓ پر قربان ہونے کو گئے ہوں گے۔
کیا ہم اپنے بچوں کے حوالے سے ایسے کبھی سوچتے ہیں۔ کیسے ان بی بیوں نے بیٹھ کر یہ سب منظر دیکھے اپنی اولاد کو اپنے سامنے بلکتا دیکھا ۔ اگر دو دن بیٹھ کر اس سارے منظر اور ان کے درد کے احساس کو ہم دل میں اتار لیں تو ہم بھی محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں کہ کربلا میں سب پیاروں پر کیا گزری۔ ہم تو دو دن کے لیے آرام دہ سہل اور ہر سہولت سے مزین سفر بھی کر لیں تو ہماری مظلومیت کا احساس ختم نہیں ہوتا۔
وہ عورتیں ، بچے، مرد کیسے کیسے سفر کرتے رہے۔ ہم سب اپنی دل پر چھریاں، خنجر نہ چلائیں ...لیکن ایک بھائی، ماں ،باپ کے درد کودل سے آپ محسوس کر کے دیکھیں کہ... ہمارے دل پر بھی وہ خنجر چلیں ہم بھی محسوس کریں۔
اگر تھوڑا سا دل میں احساس اتاریں تو سمجھ آتا ہے کیا بیتی ہو گی!...
سوچیں.....!!!وہ کیا منظر ہو گا ....جس میں معرکہ ختم ہو نے کے بعد یزیدی فوجی... حسینی قافلے کے باقی افراد کو لے کر چلے ہوں گے... کس طرح سے سر مبارک کوساتھ لیا ہو گااور بی بیوں نے دیکھا ہو گا ... اوربہنوں نے دیکھا ہو گا .... اور تن مبارک کو چھوڑ دیا ہو گا ......!
ذرا غور کریں کہ.....!!! آخر ہمارے دل ان کے درد کو اس طرح سے محسوس کیوں نہیں کرتے......؟؟؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*