🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ دوازدہم 🌴


🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ دوازدہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴کوفیوں سے حر کا خطاب🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت امام حسین  سے خطا معاف کروانے کے بعد حر فوراََ میدان میں آ گیا ۔اور پہلے نرم الفاظ میں کوفیوں سے کہا : ”اے لوگو !حسین  جو تین باتیں پیش کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو تم کیوں نہیں منظور کر لیتے تاکہ خدائے تعالی تم کو ان کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہونے سے بچا لے ۔
کوفیوں نے کہا ہمارا سپہ سالار عمر بن سعد موجود ہے اس سے بات کرو۔ابن ِ سعد نے کہا اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں ضرور منظور کر لیتا ۔یہ سن کر حر کو غصہ آ گیا اور کہا اے کوفہ والو!خدائے تعالی تم کو غرق کرے کہ تم نے نواسہٴ رسول ﷺ کو بلایا اور جب وہ آ گئے تو تم نے انہیں دشمن کے حوالے کر دیا ۔تم کہتے تھے کہ ہم ان پر اپنی جان قربان کریں گے ۔
اور اب قتل کرنے کے لیے انہی پر حملہ کر رہے ہو۔انکو تم نے گرفتا ر کر لیا۔ چاروں طرف سے ان کوگھیر لیا ۔تم نے ان پر خدا کی لمبی چوڑ ی زمین میں جدھر امان کا رستہ پائیں ادھر جانے سے روک دیا اور اب وہ تمہارے ہاتھ قیدی کی طرح ہو گئے ہیں ۔تم نے انکو اور ان کے اہل حرم کو ان کے بچوں کو اور ان کے ساتھیوں کو دریا ِ ئے فرات کے اس بہتے پانی سے روک دیا جسے یہودی ، نصرانی، مجوسی تک پیتے ہیں بلکہ کتے اور سور بھی اس میں لوٹتے ہیں۔
تم نے رسول ِ خدا ﷺ کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے؟اگر آج تم اسی دم توبہ نہیں کرو گے اور اپنے ارادے سے باز نہیں آؤ گے تو قیامت کے دن خدائے تعالی تمہیں بھی پیاس سے تڑپائے گا “
کوفیوں کے پاس چونکہ اس تقریر کا کوئی جواب نہ تھا اسی لیے وہ حر پر تیر برسانے لگے۔حر نے یہ دیکھا تو تقریر بند کر دی اور چونکہ ابھی باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ واپس آ کر امام ِحسین  کے پاس کھڑے ہو گئے۔
(طبری)
جنگ کا آغاز
حر کے واپس آنے کے بعد عمر بن سعد فوج کو آگے بڑھایا اور اپنے غلام ذوید کو جو علم بردارِ لشکر تھا آواز دی کہ جھنڈا میرے قریب لاؤ۔وہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ ابنِ سعد نے کمان میں تیر جوڑ کر حسینی لشکر کی طرف پھینکا ۔اور اپنی فوج کو پکار کر کہا کہ گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے مارا ہے۔
سپہ سالار کے ان الفاظ کو سن کر لشکر میں جوش و خروش پیدا ہو گیا تو وہ بھی تیر برسانے لگے۔اس طرح جنگ شروع ہو گئی اور اب دونوں طرف کے سپاہی نکل نکل کے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے لگے۔
سب سے پہلے یسار اور سالم جو زیاد اور ابن زیاد کے آزاد کردہ غلام تھے کوفیوں کی طرف سے نکل کر میدان میں آئے اور مقابلے کے لیے بلایا۔
امام عالی مقام  کے دو جانثار ساتھی حبیب بن مظاہر اور بریر بن حضیر اٹھ کھڑے ہوئے مگر امام ِ عالی مقام نے انہیں روک دیا ۔یہ دیکھ کر عبد اللہ بن عمیرکلبی جو اپنی بیوی امِ وہب کے ساتھ امام کی مدد کے لیے آ گئے تھے کھڑے ہو گئے اور جنگ کی اجازت طلب کی ۔حضرت امامِ حسین  نے سر پھیر ان پر نگاہ ڈالی کہ جوان قوی ہیکل ہے۔فرمایا کہ اگر تمہارا دل چاہتا ہے تو جاؤ۔
یہ تنہا دونوں کے مقابل ہو گئے انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ عبد اللہ  نے اپنا نام و نسب بیان کیا ۔انہوں نے کہا ہم تمہیں نہیں جانتے۔ ہمارے مقابلے میں زہیر بن قیس، حبیب بن مظاہر یا بریر بن حضیر کو آنا چاہیے تھا ۔یسار اس وقت سالم سے آگے بڑھا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے کہا او فاحشہ کے بیٹے! تو مجھ سے لڑنے میں اپنی بے عزتی سمجھتا ہے؟یہ کہتے ہوئے یسار پر حملہ کیا اور تلوار کی ایسی ضرب لگی کہ وہ ایک ہی وار میں ٹھنڈا ہو گیا ۔
سالم نے ایک دم جھپٹ کر حملہ کر دیا اور عبد اللہ نے اس کی تلوار کو بائیں ہاتھ پر روکا ۔انگلیاں کٹ گئیں۔مگر دائیں ہاتھ سے اس پر ایسا وار کیا کہ اسے بھی ڈھیر کر دیا۔اور جوش میں آ کر شعر پڑھنے لگا۔جس کامطلب یہ ہے کہ اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو پہچان لو میں خاندانِ کلب کا ایک فرزند ہوں۔میرے حسب و نسب کے لیے اتنا کافی ہے کہ قبیلہٴ علیم میرا گھرانہ ہے۔
میں بڑی قوت والا ہوں ۔اور مصیبت کے وقت پست ہمتی سے کام لینے والا نہیں ہوں ۔
عبد اللہ کی بیوی کو اپنے شوہر کی بہادری دیکھ کر جوش آ گیا اور خیمے کی چوب ہاتھ میں لی اور آگے بڑھ کے کہامیرے ماں باپ تم پر قربان ..نواسہٴ رسو لﷺ کی طرف سے لڑتے جاؤ۔وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور چاہا کہ انہیں خیمے میں پہنچا دیں ۔مگر وہ ماننے والی نہیں تھیں۔
عبد اللہ کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی جس میں سے دشمن کا خون ٹپک رہا تھا ۔اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں تھیں جس سے لہو بہہ رہا تھا ۔پھر بھی انہوں نے پوری قوت سے اپنی بیوی کو واپس کرنا چاہا۔مگر جوش میں بھری ہوئی اس نئی نویلی دلہن نے جس کی شادی کو پندرہ دن یا سترہ دن ہوئے تھے اپنے ہاتھ عبد اللہ سے چھڑا لیے اور کہا میں تمہارا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑوں گی۔
تمہارے ساتھ میں جان دوں گی۔امام ِ عالی مقام  نے آواز د ی خدائے تعالی تم دونوں کو اہل ِ بیت ِ رسالت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔بی بی تم واپس آ جاؤ کہ عورتوں پر قتال واجب نہیں۔امام ِ عالی مقام  کا حکم سن کر وہ واپس آ گئیں ۔
وہب بپھرے ہوئے شیر کی طرح میدان میں اترا۔یزیدی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔وہب کی ہیبت اس قدر تھی کہ یزیدی گھبرا کر بولے اے حسین !تو ہمارے مقابلے میں خود کیوں نہیں اترتا؟ حسین  کے اس سچے غلام نے کہا سنو کوفیو! میں حسین کا سچا غلام ہوں ۔
میرے ہوتے ہوئے میرے آقا تمھارے سامنے کیوں آئیں؟تم میرا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ان کاکیا کرو گے۔ایک یزیدی کے تین بیٹے تھے۔ وہ باری باری آتے گئے اور جہنم رسید ہوتے گئے۔پہلا آیا تو اس کو اٹھا کر زمین پر مارا اس کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں ۔دوسرے کی کمر پہ ہاتھ رکھا اسے اٹھا کر پھینکا تو اس کی گردن توڑ دی۔تیسرا بھاگنے لگا اسے بھی پکڑ ا منہ کے بل دھکا دیا اور اس کے سارے دانت توڑ دیے۔وہب کی ماں یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اور بیوی مصلے پر سجدے میں تھی۔آخر دشمن نے اجتماعی حملہ کیا ۔وہب کے جسم پر بہت زیادہ تیروں اور نیزوں کے زخم لگے ۔نڈھال ہو کر امام ِ عالی مقام  کے قدموں میں آ گرے ا اور وہیں جان دے دی۔

امام عالی مقام کے ساتھیوں کی شجاعت اور شہادت 
کوفی لشکر سے یزید بن معقل نکلا ۔امام ِ عالی مقام  کی طرف سے بریر بن حضیر  نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ ڈھیر ہو گیا۔اتنے میں رضی بریر سے لپٹ گیا اور دونوں میں کشتی ہونے لگی ۔آخر بریر، رضی کو گرا کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے۔رضی چلایا تو کعب نے دوڑ کر بریر کی پیٹھ میں نیزہ مارا اور وہ شہید ہو گئے۔

پھر امام ِ عالی مقام  کی طرف سے حر نکلا ۔ان کے مقابلے کے لیے یزید بن سفیان آیا۔ حر نے ایک ہی وار میں اسے ڈھیر کر دیا۔ حر کے بعد نافع بن بلال آگے بڑھا ان کے مقابلے میں مزاحم بن حریث آیا۔نافع نے اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔کافی دیر ایسے ہی انداز سے لڑائی چلتی رہی کہ دونوں طرف سے ایک ایک جوان میدان میںآ تے لیکن کوفیوں کی طرف سے جو بھی آتا بچ کر نہ جاتا۔
یہ حال دیکھ کر عمر بن حجاج چلایا اے بیوقوف کوفیو!تمہیں نہیں معلوم تم کن لوگوں سے لڑ رہے ہو۔یہ سب موت کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ایک ایک کر کے ہرگز نہ جاؤ۔عمر بن سعد نے اس کی رائے کو پسند کیا۔ پھر عمر بن حجاج نے فوج کے ایک دستہ کے ساتھ امام ِ عالی مقام  کے میمنہ پر عام حملہ کر دیا۔کچھ دیر جنگ ہوئی اور جس میں حضرت امامِ حسین  کے ایک جانثار ساتھی مسلم بن عوسجہ شہید ہو گئے۔
اس کے بعد شمر ایک بڑی جماعت کے ساتھ امام ِ عالی مقام  پر حملہ آور ہوا۔اور اس حملے کے ساتھ ہی یزیدی لشکر چاروں طرف سے امام  کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا ۔بڑی زبردست جنگ ہوئی۔امام  کے ساتھیوں کے کل چھتیس سوار تھے لیکن جدھر وہ رخ کرتے تھے کوفیوں کی صفوں کو درہم برہم کر دیتے تھے۔یہاں تک کہ یزیدی لشکر میں بھگڈر مچ گئی۔
ابن ِ سعد نے فورا پانچ سو تیر اندازوں کو بھیجا۔انہوں نے پہنچ کر حسینی لشکر پر تیروں کی بارش کر دی۔جس سے تمام گھوڑے زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔لیکن امام  کے جانثار ہمت نہ ہارے گھوڑوں سے اتر پڑے ۔بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ لڑتے رہے اور کوفیوں کے چھکے چھڑادیئے۔
ایوب بن مشرح کہتا تھا کہ خدا کی قسم !حر بن یزید کے گھوڑے کو میں نے تیر مارا جو اس کے حلق میں اتر گیا۔
اور وہ گرپڑا اور اس کی پیٹ پر سے حر اس طرح کود پرا جیسے شیر ۔پھر وہ تلوار کھینچ کر میدان میں آ گیا ۔اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا ،اگر تم نے میرے گھوڑے کو بیکار کر دیا تو کیا ہوا...میں حر...شیر ببر سے زیادہ بہادر اور شریف ہوں۔اور وہی ابن ِ مشرح یہ بھی کہتا تھا کہ حر کی طرح تلوار چلاتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ۔(طبری)
جب ظہر کا اول وقت ہو گیا تو امام ِ عالی مقام  نے فرمایا کہ کوفیوں سے کہوکہ نماز پڑھنے کی مہلت دیں۔
اس پر بدبخت حصین بن نمیر نے کہا تمہاری نماز قبول نہیں ہو گی۔اس پر حبیب ا بن مظاہر  نے جواب دیا اوہ گدھے! تم سمجھتے ہو کہ فرزند ِ رسول ﷺ کی نماز قبول نہیں ہو گی اور تیری قبول ہو گی۔یہ سن کر ابن نمیر آگ بگولہ ہوا ۔اس نے حبیب  پر حملہ کر دیا۔حبیب  نے اپنے آپ کو بچا لیا اور جھپٹ کر تلوار سے اس کے گھوڑے کے منہ پر ایسا وار کیا کہ وہ آگے کے دونوں پاؤں اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔
اور ابن نمیر اس کی پیٹھ سے نیچے گر گیا۔لیکن کوفیوں نے حبیب کو گھیر لیا اور وہ دیر تک بہت بہادری سے لڑتے رہے۔ لیکن تنہا ایک بڑی جماعت سے مقابلہ کرتے جب تھکے تو ایک تمیمی نے آپ پر نیزے سے وار کیا ۔آپ گر گئے اور ابھی اٹھ ہی رہے تھے کہ ابنِ نمیر نے آپ پر تلوار ماری۔آپ  پھر گر گئے ۔اور تمیمی نے گھوڑے سے اتر کر آپ کا سر کاٹ لیا۔حبیب  کی شہادت سے امامِ عالی مقام  کے دل پرزبردست اثر پڑا۔
آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کو خدائے تعالی کے سپرد کیا۔
حر نے جب آپ  کو رنجیدہ دیکھا تو رجز پڑھتے ہوئے میدان سے نکلا۔ساتھ زہیر بن قیس بھی تھے ۔دونوں نے لڑائی کی۔ ان میں سے ایک حملہ کرتا اور جب دشمنوں میں گھر جاتا تو دوسرا حملہ کر کے اسے بچاتا۔اس طرح دیر تک یہ دونوں شمشیر زنی کرتے رہے۔
آخر میں بہت بڑی فوج نے حر کو گھیر لیا اور وہ شہید ہو گئے۔اب زہیر تنہا رہ گئے اور دیر تک دشمنوں کا مقابلہ کیا اور پھر تلوار چلاتے ہوئے وہ بھی شہید ہو گئے۔(انا للہ وا ناالیہ راجعون)
ہاشمی جوانوں کی بے مثال بہادری اور شہادت
کربلا میں امام ِ عالی مقام  کے ساتھیوں کی وفاداری کا ایک یہ بھی بہت بڑا کارنامہ رہا کہ جب تک ان میں سے ایک بھی باقی رہا تو امام ِ عالی مقام  کے بھائی ، بیٹے، بھتیجے وغیرہ میں سے کسی بھی بنی ِ ہاشم کو لڑنے کے لیے انہوں نے میدان میں نہ جانے دیا ۔
بلکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی گزند نہیں پہنچنے دیا۔حالانکہ اس دوران میں کوفیوں کی طرف سے زبردست تیروں کی بارش بھی ہوئی ۔مگر اس کے باوجود ایک بھی زخم ہاشمی جوان ،بچے کو لگنے کا تاریخ میں کہیں پتہ نہیں چلتا۔ان سب کی شہادت کے بعد اسد اللہ الغالب کے شیروں ، فاطمة الزہرہ  کے دلاروں اور سید الا انبیا ء ﷺ کے پیاروں کے لڑنے کی باری آئی تو ان کے میدان میں آتے ہی بڑے بڑے بہادروں کے دل سینوں میں لرزنے لگے۔
اور ان کی اسد اللہی تلواروں کے حملوں سے سخت دل بہادر بھی چیخ اٹھے۔انہوں نے ضرب و حرب کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمنوں کے خون سے پوری زمین ِ کربلا رنگین ہو گئی۔اور کوفیوں کو ماننا پڑا کہ اگر ان لوگوں پر تین دن پہلے پانی بند نہ کیا جاتا تو ہاشمی خاندان کا ایک ایک جوان پورے لشکر کو تباہ و برباد کر دیتا۔

خیموں میں آتش زدگی
حضرت امامِ حسین  نے اپنے خیموں کو اس طرح سے باندھا تھا کہ کوفی ایک رخ کے سوا کسی طرف سے حملہ نہیں کر سکتے۔ابنِ سعد نے اس خیال کے تحت کہ ہر طرف سے حملہ کیا جا سکے حکم دیا کہ خیمے اکھاڑ دیے جائیں ۔کوفی جب خیمے اکھاڑنے کے لیے آگے بڑھے تو امام ِعالی مقام  کے کچھ جانثار خیموں کے اندر آ گئے اورخیموں کی طرف آنے والوں،اکھاڑنے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں کو تلوار اور تیروں سے ہلاک کرنا شروع کر دیا۔
ابن سعد نے جب اپنے ساتھیوں کی ہلاکت اور ناکامی دیکھی تو حکم دیا کہ خیموں کو جلا دیا جائے۔چنانچہ خیموں کو آگ لگا دی گئی ۔اور وہ جلنے لگے۔حضرت امامِ حسین  نے دیکھا تو فرمایا کہ ان کو خیمے جلانے دو تب بھی وہ چاروں طرف سے حملہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ پہلے خیمے حائل تھے اب آگ حائل ہے ۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔یزیدی لشکر آگ کے حائل ہونے کی وجہ سے پشت سے حملہ نہ کر سکا۔

شمر نے حضرت امامِ حسین  کے خیمے میں جو کہ دوسرے خیموں سے ذرا الگ تھا اور جس میں خواتین اور بچے تھے ۔نیزہ مارا اور ساتھیوں سے کہا کہ اس خیمے کو آگ لگا دو۔اور جو اس خیمے میں موجود ہیں ان کوبھی جلا دو۔حضرت امام ِ حسین  نے جب یہ دیکھا تو پکار کر کہا:
او ذی الجوشن کے بیٹے !تو میرے اہل ِ بیت کو آگ میں جلانا چاہتا ہے۔
خدا تمہیں آگ میں جلائے ۔
شمر کے ساتھیوں میں حمید بن مسلم نے شمر کو روکا اور غیرت دلائی کہ تیرے جیسے بہادروں کا عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا نہایت شرمناک ہے۔خدا کی قسم تمہارا مردوں کو قتل کر دینا بھی تمہارے امیر کو خوش کرنے کے لیے کافی ہے۔مگر شمر نہ مانا اور پھر جب اسے شیث بن ربعی نے روکا تو وہ اپنے ارادہ سے باز آیا۔
اولادِ عقیل کی شہادت
حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل نے امام ِ عالی مقام  سے راہ ِ حق میں سر کٹانے کی اجازت طلب کی۔آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔فرمایا بیٹا میں تمہیں کیسے اجازت دے دوں ابھی تمہارے باپ کی جدائی کا داغ میرے دل سے نہیں مٹا۔عرض کیا میں اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے بیقرار ہوں ۔
حضرت امام ِ حسین  نے ان کاشوق ِ شہادت دیکھ کر ان کواجازت دے دی۔ہاشمی نوجوان نے میدان میں آ کر مقابلے کے لیے پکارا۔کوفی لشکر سے قدامہ بن اسد جو بڑا بہادر سمجھا جاتا تھا آپ سے لڑنے کے لیے آیا۔تھوڑی دیر تک دونوں میں تلوار چلتی رہی۔آخر عبد اللہ نے تلوار کا ایسا وار کیا اور وہ کھیرے کی طرح کٹ کر زمین پر ا گرا۔پھر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ تنہا آپ  کے مقابلے میں آتا۔
آپ شیر ببر کی طرح ان پر حملہ آور ہوئے۔صفوں کو درہم برہم کرتے ہوئے گھستے چلے گئے۔ بہت سوں کو زخمی کیا اور کئی ایک کو جہنم میں پہنچایا۔آخر نوفل بن مظاحم حمیری نے آپ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا۔
حضرت جعفر بن عقیل  اپنے بھتیجے حضرت عبد اللہ بن مسلم  کی شہادت کے بعد اشکبار آنکھوں کے ساتھ میدان میں آئے۔
اور یہ رجزپڑھی کہ میں مکہ کا رہنے والا ہوں۔ہاشمی نسل اورغالب گھرانے کا ہوں۔بیشک ہم سارے قبیلوں کے سردار ہیں۔اور حسین  تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں۔پھر آپ  نے لڑنا شروع کیا بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ بہت سے یزیدیوں کو جہنم رسید کیا ۔اور خاک میں ملا دیا۔دشمن جب ان کامقابلہ تلواروں سے نہ کر سکے تو چاروں طرف سے گھیرکر تیروں کی بارش شروع کر دی۔
آخر عبد اللہ بن عزرہ کے تیر سے شہید ہو کر آپ  بہشت ِ بریں میں جا پہنچے۔
حضرت عبد الرحمن عقیل  اپنے بھائی کو خون و خون میں لت پت دیکھ کر بے چین ہو گئے اور بھوکے شیر کی طرح کوفیوں پر جھپٹ پڑے۔صفوں کو درہم برہم کر دیا اور دشمنوں کے میدان کو خون سے لالہ زار بنا دیا۔آخر عثمان بن خالد جہنی اور بشر بن سوط ہمدانی نے مل کر آپ کو شہید کر دیا۔
دونوں بھائیوں کی شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن عقیل  شیر ببر کی طرح میدان میں کود پڑے ۔اور شمشیر زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے بہادروں کے دانت کھٹے کر دیے۔اور بہت سے کوفیوں کو جہنم میں پہنچا دیا۔آخر میں عثمان بن خالد جہنی اور بشر بن سوط ہمدانی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
فرزندانِ علی کی شہادت
اولادِ حضرت عقیل  کی شہادت کے بعدحضرت علی مشکل کشا کے فرزندوں کی باری آئی۔
حضرت محمد بن علی  جواسماء بنتِ خصیمہ کے بطن سے تھے ۔امامِ عالی مقام  سے اجازت لے کر میدان میں آئے ۔اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا۔آخر قبیلہ بنی ابان کے ایک آدمی نے آپ کو زخمی کیا اور جب آپ  زمین پر گر گئے تو اس نے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اب حضرت عثمان بن علی  ،حضرت عبد اللہ بن علی اور حضرت جعفر بن علی کھڑے ہوئے۔
حضرت علی  کے یہ تینوں فرزند ام البنین کے بطن سے تھے۔امام ِ عالی مقام  کے ایسے وفادار جانثار تھے کہ جب شمر عبید اللہ ابن ِ زیاد کا خط لے کر کربلا کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو عبید اللہ بن ابی محل جو ام البنین کا بھتیجا تھا۔اس نے ابن زیاد سے کہا کہ ہمارے خاندان کی ایک لڑکی کے فرزندامام ِ حسین  کے ساتھ ہیں۔آپ  ان کے لیے امان نامہ لکھ دیجیئے۔
ابن ِ زیاد نے ام ِالبنین کے چاروں فرزند حضرت عباس  اور ان تینوں حضرات  کے امان نامہ لے کر ان تینوں حضرات کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ  کے ماموں زاد بھائی نے آپ  کے لیئے ابن ِ زیاد سے امان نامہ لکھ کر بھیجا ہے۔ان چاروں غیرت والے بہادر جوانوں نے بیک زبان کہاہمارے بھائی کو ہماری طرف سے سلام کہہ دینا اور کہنا کہ ہم کو ابن ِ زیاد کی امان کی ضرورت نہیں۔
خدا ئے تعالی کی امان ہمارے لیے کافی ہے۔شمرذی الجوشن، ام البنین کے خاندان کا ہی آدمی تھا۔ابنِ زیاد کے خط عمر وبن سعد تک پہنچانے کے بعد اس نے بھی جماعتِ حسینی کی طرف کھڑے ہو کر آواز دی کہ ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں ؟انہوں نے کہا ہم سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کے لیے امان ہے۔ان جوانوں نے جواب دیا۔خدا کی پھٹکار ہو تجھ پر اور تیری امان پر کہ تیری امان ہمارے لیے ہے اور فرزند ِ رسول ﷺ کے لیے نہیں ہے۔
(طبری)
پھر حضرت عباس  کے یہ تینوں بھائی ایک ایک کر کے میدان میں جاتے ہیں اور ہر ایک سینکڑوں کوفیوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ حیدری طاقت سے یزیدی لشکروں کی صفوں کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔اور آخر کار بہت سے یزیدیوں کو قتل اور زخمی کرنے بعد فرزند ِ رسول ﷺ پر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی