🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ یازدہم 🌴


🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ یازدہم 🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴امامِ عالی مقام اور ابنِ سعد کے درمیان ملاقات🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت امامِ حسین نے ابنِ سعد کو پیغام بھیجا کہ آج رات میں ہم تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابنِ سعد نے آپ کی یہ بات مان لی اور رات کے وقت بیس سواروں کے ساتھ دونوں لشکروں کے بیچ میں آیا۔آپ بھی بیس سواروں کے ساتھ تشریف لائے۔پھر دونوں نے اپنے ساتھیوں کوعلیحدہ کیا اور تنہائی میں دیرتک گفتگو کرتے رہے۔

آخر میں حضرت امامِ حسین  نے فرمایا کہ میں تین باتیں پیش کرتا ہوں اس میں سے تم جسے چاہو میرے لیے منظور کرو۔
 1 ۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس جانے دو۔
2 ۔ مجھے کسی سرحدی مقام پہ لے چلو میں وہاں رہ لوں گا۔
3 ۔ مجھے سیدھا یزید کے پاس دمشق میں جانے دو۔
اطمینان کے لیے تم بھی میرے پیچھے چل سکتے ہو۔میں یزید کے پاس جا کر اس سے براہ ِ راست اپنا معاملہ طے کر لوں گا۔جیسے کہ میرے بھائی حضرت حسن  نے امیر المومنین سے طے کیا تھا۔
حضرت امامِ حسین کا رویہ اتنا نرم اور سلجھا ہوا تھا کہ عمر بن سعد نے اقرار کیا کہ حضرت امامِ حسین صلح کے راستے پہ ہیں۔اور اس نے بہت خوش ہو کر ابنِ زیاد کو لکھا کہ خدائے تعالی نے آگ کا شعلہ بجھا دیا اور اتفاق کی صورت پیدا کر دی۔
اور امت کے معاملے کو سلجھا دیا۔پھر حضرت امامِ حسین کی پیش کش کی ہوئی تینوں باتیں تحریر کیں۔اور آ خر میں اپنی رائے بھی لکھی کہ اب اختلاف کوئی وجہ نہیں ہے۔اور اب اس معاملے کو ختم ہونا چاہیے۔ابنِ زیاد نے خط پڑھ کر کہا کہ یہ تحریر ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے امیر کا خیر خواہ اور اپنی قوم کا شفیق ہے۔اچھا میں نے منظور کر لیا کہ ان تینوں میں سے ایک بات مان لی جائے۔
اس وقت ابنِ زیاد کے پاس شمر بن زی الجوشن بھی بیٹھا تھا۔ وہ بدبخت کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم حسین کی ان شرطوں کو قبول کرتے ہو حالانکہ اس وقت وہ تمہاری گرفت میں ہے۔خدا کی قسم !اگر وہ تمہاری اطاعت کیے بغیر یہاں سے چلا گیا تو یہ اس کے غا لب و قوی اور تمہارے کمزور اور مغلوب ہونے کا باعث ہوگا۔اس کو ایسا موقع ہرگز نہ دو اس میں سراسر تمہاری ذلت ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اور اس کے ساتھی تمہارے حکم پر گردنیں جھکا دیں۔پھر اگر آپ انہیں سزا دیں تو آپ کو حق ہے اور اگر معاف کر دیں تو اس کا بھی اختیار ہے تمہیں ۔اور رہی ابن ِ سعد کی بات تو خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حسین  اور ابنِ سعد اپنے لشکروں کے درمیان رات رات بھر بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں۔شمر خبیث کی ان باتوں سے ابن ِ زیاد کی رائے بدل گئی اور اس نے کہا کہ تم نے بہترین مشورہ دیا ہے۔
پھر ابنِ سعد کو لکھا کہ میں نے تم کو اس لیے نہیں بھیجا کہ تم حسین  کو بچانے کی فکر کرواور سفارشی بن کر ان کی سلامتی چاہو۔ 
ابن ِ زیاد نے شمر زی الجوشن کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اگرحسین  اور اس کے رفقا ء میرے حکم کی تعمیل کریں گے تو بہتر ورنہ عمر بن سعد کو حکم دو کہ وہ حسین  اور ان کے رفقاء پر حملہ کر دے۔اور اگر عمر بن سعد اس پر عمل نہ کرے تو اسے قتل کر دو۔
اور خوارج کی کمان خود سنبھال لو۔قتلِ حسین پر سستی کرنے پر ابن ِ زیاد نے عمر بن سعد کو ایک تہدید آمیزخط لکھاکہ اگر حسین  اور ان کے رفقا ء اطاعت قبول نہ کریں تو ان سے جنگ کرو کیوں کہ وہ باغی ہیں ۔ (البدایہ و النہایہ)
یہ خط اس نے شمر کے سپرد کیا اور زبانی کہہ دیا کہ اگر ابن ِ سعد میرے حکم پر عمل نہ کرے تو پہلے تم اس کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دینا۔
(طبری)
ابنِ سعد نے جب یہ خط پڑھا تو شمر سے کہا کہ کمبخت تم نے یہ کیا ۔ خدا تجھے غارت کرے۔تو یہ کیا میرے پاس لایا ہے۔خدا کی قسم !میں سمجھتا ہوں کہ ابنِ زیاد کو تو نے ہی میرے مشورے پر عمل کرنے سے روک دیا اور اس بات کو بگاڑ دیاجس کے بننے کی امید تھی۔خدا کی قسم ! حسین  کبھی بھی ابنِ زیاد کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے۔
شمر نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ دشمن کو قتل کرو گے یالشکر کو میرے سپرد کرو گے؟ ابنِ سعد جو دنیا پر جان دینے والا اور ازلی بدبخت تھا ۔اس نے کہا کہ میں لشکر تمہارے حوالے نہیں کروں گابلکہ یہ مہم میں خود کروں گا۔چنانچہ اس نے فوراََ حملے کا حکم دے دیا۔یہ محرم کی ۹ تاریخ تھی جمعرات کا دن اور شام کا وقت تھا۔
ایک رات کی مہلت
حضرت امامِ حسین نماز ِ عصر کے بعد خیمے کے دروازے پر تلوار کا سہارا لے کر سر جھکائے بیٹھے تھے کہ اسی دوران آپ پر غنودگی طاری ہو گئی۔
ادھر ابن ِ سعد نے اپنے لشکر کو پکارا کہ اے اللہ کے سپاہییوسوار ہو جاؤ اور فتح اور کامرانی کی خوشی مناؤ۔ اس پر تمام یزیدی لشکر نماز ِ عصر کے بعد حملہ کرنے کے لیے امامِ عالی مقام ؓ کے قریب پہنچ گئے۔یزیدی فوج کا شور و غل سن کر آپ کی ہمشیرہآپ  کے پاس آئیں اور آپ کو بیدار کیا۔اور کہاکہ دیکھیئے د شمن فوج کی آواز بہت نزدیک سے آ رہی ہے۔
ا ٓپ  نے سر اٹھا کر فرمایامیں نے ابھی خواب میں رسولِ پاک ﷺ کی زیارت کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔حضرت زینب  یہ سن کر بیقرار ہو گئیں اور روتے ہوئے کہا کہ ہائے مصیبت۔ آپ  نے فرمایااے بہن! افسوس نہ کر صبر کرکہ اللہ تم پر رحم کرے۔
پھر امام ِ عالی مقام  نے حضرت عباس  سے فرمایاپوچھو اس وقت حملے کا سبب کیا ہے؟ حضرت عباس  فوج کے سامنے آئے اور پوچھا ۔
جواب ملا کہ ابنِ زیاد کا حکم ہے کہ آپ ان کی اطاعت قبول کر لیں ورنہ ہم آپ کے ساتھ جنگ کریں گے۔ حضرت عباس  نے کہا کہ ٹھہرو میں حضرت امام حسین کو یہ اطلاع دیتا ہوں۔یہ کہہ کر حضرت عباس  اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے اور جا کر حضرت امامِ حسین کو تمام صورت ِ حال سے آگاہ کیا۔ حضرت امامِ حسین  نے فرمایا کہ ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دیں تاکہ اس آخری رات میں ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں۔
دعا مانگ لیں اور توبہ و استغفار کر لیں۔اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے۔حضرت عباس  نے ابن ِسعد کے دستے سے کہا کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دو تاکہ ہم رات کو کچھ عبادت کر لیں۔اور اس معاملے میں مزید غور کر لیں پھر جو فیصلہ ہوگا صبح تم لوگوں کو بتا دیں گے۔ ابنِ سعد کے دستے نے یہ بات مان لی۔

رفقا ء سے حضرت امام حسینکا خطاب 
ابن ِ سعد کے دستے کے واپس لوٹ جانے کے بعد حضرت امامِ حسین  نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ آپ  کے فرزند سیدنا زین العابدین  فرماتے ہیں کہ میں بیماری کی حالت میں بھی اپنے والدِ گرامی کے قریب جا بیٹھا تاکہ سنوں کہ وہ کیا فرماتے ہیں ۔اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ پر درود و سلام کے بعد آپ  نے نہایت ہی فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنے احباب سے فرمایا کہ:
” میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہترین نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل ِ بیت کو اپنے اہل ِ بیت سے نیکو کار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔
اللہ تعالی تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا کل کا دن دشمنوں سے مقابلے کا دن ہوگا۔میں تم سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ رات کی اس تاریکی میں چلے جاؤ۔ میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہو گی۔ایک ایک اونٹ لے لو اور تمہارا ایک ایک آدمی میرے اہل ِ بیت کے ایک ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لے۔ اللہ تعالی تم سب کو جزائے خیر دے۔

پھر تم سب اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں منتشرہو جاؤ۔یہاں تک کہ اللہ تعالی یہ مصیبت ٹال دے۔بیشک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں۔جب یہ مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو کوئی طلب نہ ہو گی“
آپ  کے بھائیوں ، بیٹوں اور بھتیجوں نے عرض کیا کہ آپ  کے بعد ہماری زندگی بیکار ہے۔اللہ تعالی آپ  کے بارے میں ایسا بُرا دن کبھی نہ دکھائے کہ آپ  موجودنہ ہوں اور ہم ہوں۔
آپ  نے باقی بنی عقیل سے فرمایا”اے اولاد ِ عقیل! تمہارے لیے تمہارے بھائی مسلمکا خون بہا ہی کافی ہے۔تم واپس چلے جاؤمیں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ “باہمت اور غیرت مند بھائیوں نے کہالوگ کیا کہیں گے ہم نے عشرت ِدنیاکی خاطر شیخ سردار اور اپنے بہترین بھائی کا ساتھ چھوڑ دیا۔نہ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا ،نہ تلوار چلائی، فقط اس دنیا کی زندگی کی خاطر! ہرگز نہیں! خدا کی قسم!ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ اپنے جانوں ، مالوں اور اپنے اہل ِ عیال کو آپ  پر قربان کر دیں گے۔
آپ کی ہمراہی میں جنگ کریں گے اور جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا ہو گا۔آپ  کے بعد زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں۔آپ  کے دوسرے احباب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا اور کسی نے بھی آپ کواس حالت میں چھوڑ کر جانے کی رضامندی ظاہر نہ کی اور کہا کہ خدا کی قسم! ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہم آپ  پر اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔
ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں، ہاتھوں اور اپنے جسموں سے آپ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
سعید بن عبداللہ  نے عرض کیا اگر مجھے یقین ہو جائے کہ ستر بار مارا جاؤں گا اور ہر بارمیری خاک بھی اڑا دی جائے گی تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔دوسرے ساتھی مسلم بن عوسجہ نے کہا کہ باخدااگر میرے پاس ہتھیار نہ بھی ہوں تو پتھروں سے یزیدیوں کا مقابلہ کروں گا اور آپ  پر فدا ہو جاؤں گا ۔
زہیر بن قیس نے عرض کیا کہ اگر مجھے ہزار بار بھی آرے سے چیرا جائے تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ۔اگر آج ان درندوں کے سامنے آپ کو چھوڑکر چلے گئے تو کل آپ  کے نانا ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے اور کس منہ سے انﷺ سے شفاعت کی بھیک مانگیں گے۔
روایت میں آتا ہے کہ آپ  بار بار چراغ بجھاتے اور ساتھیوں سے فرماتے کہ جس نے جانا ہے اندھیرے میں چلا جائے۔
اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں ۔میں خود اجازت دے رہا ہوں تو اس پر ایک بوڑھے ساتھی نے کہا حسین  آپ  ہزار بار بھی چراغ بجھائیں تو بھی آپ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے۔اپنے ساتھیوں اور اپنے اہل و عیال کے ان جذبات کو دیکھ کر حکم دیا کہ تمام رات خیمے قریب قریب کر دوحتیٰ کہ ان کی طنابیں ایک دوسرے میں گڑھی ہوئی ہوں تاکہ دشمن ہم تک صرف ایک جانب سے آ سکے۔
ہمارے دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب خیمے ہوں ۔حضرت امامِ حسین  کے حکم کو پورا کرنے کے بعد آپ  کے رفقاء آپ  کے ساتھ ساری رات نوافل پڑھتے رہے اورعاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے۔
دسویں محرم کی صبح
دس محرم ، اکسٹھ ہجری کا سورج طلوع ہوا اور عاشورہ کی رات ختم ہوئی ۔امام ِ عالی مقام  نے اہلِ بیت اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فجر کی نماز ادا کی۔
عمر بن سعدنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی تو قتال کے لیے تیار ہو گیا۔حضرت امام ِ حسین  اور ان کے ساتھی تین دن سے بھوکے پیاسے اور ایسے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے بائیس ہزار کا تازہ دم لشکر موجود ہے۔حسینی فوج کے 72جان نثار 32 گھڑ سوار اور 40پیدل پر مشتمل تھے ۔آپ  نے میمنہ پر زہیر بن قیس اور میسرہ پر حبیب ابن مظا ہر کو مقرر فرمایا۔
علم اپنے بھائی حضرت عباس بن علی  کے سپرد فرمایا اور عورتوں کے خیمے کی طرف پشت کر لی۔
حضرت امام ِ حسین  کے حکم پر آپ  کے ساتھیوں نے راتوں رات خیموں کے عقب میں خندق کھود لی تھی۔اور اسے لکڑیوں سے بھر دیا۔آپ  کے حکم پر خندق میں ڈالی گئی لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ عقب میں سے کوئی خیموں میں داخل نہ ہو سکے ۔
حضرت امام ِ حسین  خود گھوڑے پر سوار ہوئے ۔قران ِ مجید منگوا کر سامنے رکھا اور دونوں ہا تھ اٹھا کر بارگا ہ ِ خدا وند میں یوں دعا کی :
”اے باری ِ تعالی !ہر مصیبت میں تو ہی میرا سہارا اور ہر تکلیف میں تو ہی میری امید ہے۔تمام حوادث میں تو ہی میرا مدد گار ہے اور ڈھارس ہے۔بہت سے غم ایسے ہوتے ہیں جن میں دل بیٹھ جاتا ہے اور ان غموں سے رہائی کی تدبیریں کم ہو جاتی ہیں ۔دوست اس میں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور دشمن اس سے خوش ہوتے ہیں ۔لیکن میں نے ایسے تمام اوقات میں صرف تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تجھ ہی سے اپنا درد ِ دل بیان کیا ہے۔تیرے سوا کسی اور سے کہنے کا دل نہیں چاہا۔تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہر بھلائی کا مالک اور ہر خواہش کا منتہی ہے“

اتمامِ حجت
حضرت امامِ حسین  یزیدی لشکر کے قریب آئے اور بلند آواز کے ساتھ فرمایا:
”اے لوگو!میں تمہیں نصیحت کرنے والا ہوں اسے غور سے سنو“
اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے۔آپ  نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
اے لوگو!اگر تم میراعذر قبول کر لو ۔
میرے ساتھ انصاف کرو تو یہ تمہارے لیے باعث ِ سعادت ہے اور تمہارے پاس مجھ سے زیادتی کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔اگر تم میرا عذر قبول نہیں کرتے (پھر آپ  نے یہ آیات پڑھیں)”پس تم اور تمہارے شریک سب مل کر اپنی ایک بات ٹھہرا لو تاکہ تمہیں وہ بات تم میں سے کسی پر مخفی نہ رہے۔پھر میرے خلاف اپنے فیصلے پر عمل کر گزرواور مجھے کوئی مہلت نہ دو“(سورة یونس 71:10 )
بیشک میرا مدد گار اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی صالحین کا مدد گارہوتا ہے۔
( سورة الاعراف 196:7 )
جب خیموں میں موجود آپ  کی بہنوں اور بیٹیوں نے تقریر سنی تو ان کی رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس پر آپ  نے فرمایا خدا ابن ِ عباس کی عمر دراز کرے انہوں نے کہا تھا کہ جب تک راہ ہموار نہ ہو جائے عورتوں کو ساتھ نہ لے جائیں بلکہ مکہ میں ہی چھوڑ دیں۔پھر آپ  نے اپنے بھائی حضرت عباس بن علی  کو بھیجا انہوں نے جا کر عورتوں کو خاموش کروایا۔
عورتوں کے خاموش ہونے پر آپ  لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے فضل و عظمت ، حسب و نسب اعلی قدری کا ذکر کیا ۔آپ  نے فرمایا:
”اے لوگو!اپنے گریبانوں میں جھانکو اور محاسبہ کرو کہ کیا میرے جیسے آدمی کا قتل درست ہے؟ میں تمہارے نبی ﷺ کی بیٹی کا فرزند ہوں ۔میرے سوا نبی ﷺ کا کوئی نواسہ تمام روئے زمین پر موجود نہیں ۔
علی ؓ میرے والد ہیں ۔جعفر ذوالجناحین میرے چچا ہیں ۔سیدا لشہداء حضرت امیر حمزہ  میرے والد کے چچا ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا یہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔اگر تم میری بات کو سچ سمجھتے ہو اور وہ جو کہ حقیقت میں سچ ہے اس لیے کہ میں جھوٹ کبھی نہیں بولتا۔ اور اگر تم میری بات جھوٹی سمجھتے ہو تو ابھی بھی رسول اللہ ﷺ کے صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری، ابو سعید خدری اور انس بن مالک  وغیرہ موجود ہیں ان سے پوچھ لو۔
کیا یہ حدیث تمہیں میرا خون بہانے سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
شمر بدبخت نے آپ کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے کچھ بدتمیزی کی تو حبیب ابن مظاہر نے اسے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے تیرے دل پر مہر لگا دی ہے اس لیے تو نہیں سمجھ رہا کہ کہ حضرت امام حسین  کیا فرما رہے ہیں ۔
حضرت امام حسین  نے پھر فرمایا” اے لوگومیرا رستہ چھوڑ دو۔
میں کسی محفوظ مقام کی طرف چلا جاتا ہوں “
انہوں نے کہا کہ آپ کو ابن زیاد کا حکم ماننے میں کیا امر مانع ہے۔
آپ نے فرمایا”معاذ اللہ“ اور یہ آیت پڑھی:
(سورة المومن۔27:40 )میں ہر اس متکبر سے جو یوم ِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا ،اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں ۔
پھر آپ  نے اپنی سواری کو بٹھایا اور مخالفین سے فرمایا کہ بتاؤ کیا تم مجھ سے کسی خون کا بدلہ لینا چاہتے ہو یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے یا کسی کو زخمی کیا ہے۔جس کاتم مجھ سے بدلہ چکانے آئے ہو؟لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔
اس کے بعد آپ  نے پکار پکار کر فرمایا:
اے شیث بن ربعی ! اے حجاز بن الجبر!اے قیس بن عشث !اے زید بن حارث !کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھاکہ پھل پک چکے ہیں اور باغات سر سبز ہیں۔
آپ  ہمارے پاس تشریف لائیں۔ آپ  ایک مضبوط فوج کے پاس آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی کو خط نہیں لکھا۔ آپ  نے فرمایا ”سبحان اللہ تم نے یقینا لکھے ہیں“
پھر آپ  نے فرمایا اے لوگو !جب تم مجھ سے بیزار ہو تو میرا راستہ چھوڑ دو۔میں تم سے کہیں دور چلا جاتاہوں ۔اس پر قیس بن اشعث نے کہا کہ آپ  اپنے قرابت دار یعنی ابن ِ زیاد کا حکم کیوں نہیں مان لیتے ؟وہ آپ  کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔
اور آپ  سے وہی معاملہ کرے گا جو آپ  چاہتے ہیں ۔آپ  نے جواب دیا کہ تو اپنے بھائی کا بھائی ہی تو ہے (جب اہلِ کوفہ نے حضرت مسلم بن عقیل  سے غداری کی تو انہوں نے ایک بڑھیا طوعہ کے گھر پناہ لی۔اس بڑھیا کے بیٹے بلال نے مخبری کر دی ۔یہ مخبری محمد بن اشعث جو کہ قیس بن اشعث کا بھائی تھا اس کی معرفت ہوئی تھی۔ابن ِ زیاد نے سپاہیوں کے ایک دستے کے ہمراہ محمد بن اشعث کو بھیجا تاکہ وہ مسلم بن عقیل  کو گرفتار کریں ۔جب امام مسلم نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور انہوں نے دیکھا کہ آپ کو گرفتار کرنا آسان نہیں تو محمد بن اشعث نے امام مسلمکو امان دینے کا چکمہ دے کر گرفتار کرایا تھا۔حضرت امام ِ حسین  کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح تیرے بھائی نے مسلم بن عقیل کو دھوکے سے گرفتار کرایا تھا۔ تم اسی طرح مجھے بھی گرفتار کرانا چاہتے ہو)کیا تو چاہتا ہے کہ بنو ہاشم تم سے مسلم بن عقیل کے علاوہ کچھ اور مقتولین کا بدلہ بھی طلب کریں ؟ نہیں خدا کی قسم! میں ذلت کے ساتھ اپنے آپ کو حوالے نہ کروں گا اور نہ غلاموں کی طرح اپنے ناکردہ جرم کا اعتراف کروں گا۔
(البدایہ و النہایہ ، ابن اثیر)
حرُ کا شوقِ شہادت
جب عمر بن سعد جنگ شروع کرنے کے لیے آگے بڑھا تو حر بن یزید نے اس سے کہا کہ خدا تیرا بھلا کرے کیا تو واقعی ان سے جنگ کرے گا ؟ ابن ِ سعد نے کہا ہاں،خدا کی قسم اور ایسی جنگ کہ جس میں سروں کی بارش ہو گی اور ہاتھ قلم ہو کر زمین پر گریں گے ۔
حر نے کہا ان کی پیش کی ہوئی باتوں میں سے کوئی بات بھی تم لوگوں کو منظور نہیں؟ ابن ِ سعد نے کہا خدا کی قسم اگر یہ معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں ضرور ایسا ہی کرتا لیکن کیا کروں تمہارا امیر نہیں مانتا ۔یہ سن کر حر وہاں سے ہٹ گیا۔اور نواسہٴ رسول ﷺ سے جنگ کرنے کے تصور نے اس کے بدن پر کپکپی طاری کر دی اور چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے تو اس کے قبیلے کا ایک شخص مہاجر بن اوس کہنے لگا۔
حر یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ تم پر اس قدر خوف و ہراس کیوں طاری ہے؟
 مجھ سے تو جب بھی پوچھا جاتا کہ کوفہ میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے تو میں تمہارے سوا کسی کا نام نہ لیتا۔اس وقت تمہاری عجیب حالت دیکھ رہا ہوں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حر نے کہا کہ یہ نواسہٴ رسول ﷺ سے جنگ ہے، اپنی عاقبت سے لڑائی ہے۔میں اس وقت جنت اور دوزخ کے درمیان میں ہوں مگر میں جنت کو کسی چیز کے بدلے نہیں چھوڑوں گا ۔
چاہے میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر کے آگ میں جلا دیا جائے۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام ِ عالی مقام  کی خدمت میں پہنچ گیا۔عرض کیا فرزند ِ رسول ﷺ میری جان آپ  پر قربان !میں وہی گناہ گار ہوں جس نے آپ کو واپس جانے سے روکا ۔راستے میں آپ  کے ساتھ ساتھ رہا۔اور اس جگہ ٹھہرنے پہ مجبور کیا ۔قسم ہے اس خدائے پاک کی جس کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں۔
میں یہ ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ آپ  کی پیش کی ہوئی باتوں میں یہ کسی ایک کو بھی نہیں مانیں گے۔اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی۔واللہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ آپ  کی بات نہیں قبول کریں گے تو میں ہرگز ان کا ساتھ نہ دیتا ۔اب میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔ خدائے تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور اپنی جان آپ  کے قدموں پر قربان کرنے کے لیے حاضر ہوں ۔
کیا اس طرح میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ حضرت امام حسین  نے فرمایا ہاں اللہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا۔مبارک ہو تم دنیا و آخرت میں حر (آزاد ) ہو۔گھوڑے سے اترو۔عرض کیا کہ آپ کی مدد کے لیے میرا گھوڑے پر رہنا اترنے سے بہتر ہے۔اب میں آخری وقت میں ہی شہید ہو کر گھوڑے سے اتروں گا۔ حضرت نے فرمایااچھا جو تمہارا جی چاہے وہی کرو ۔خدائے تعالی تم پر رحم فرمائے۔(طبری ج ۲ ص ۲۶)
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی