علم اپنی غلطی مانتا ہے




 

🔹 تشریح: علم اپنی غلطی مانتا ہے، جہالت نہیں مانتی

1. قرآن کا نظریہ: علم کا اعترافِ حقیقت

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر علم و شعور کی اہمیت اور عاجزی کی تلقین کی گئی ہے:

وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
"اور تمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔" (الاسراء: 85)

یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ علم کا پہلا قدم اپنی محدودیت کو تسلیم کرنا ہے۔
جو شخص علم رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ سب کچھ نہیں جانتا۔


2. نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ: غلطی تسلیم کرنا

حضور ﷺ معصوم تھے، لیکن آپ نے اپنی امت کو سکھایا کہ غلطی پر نادم ہونا اور اصلاح کرنا کیسا ہوتا ہے۔

📌 غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رائے کا معاملہ (سورہ انفال: 67–68) میں اللہ تعالیٰ نے نرمی کے فیصلے پر تنبیہ فرمائی، اور نبی ﷺ نے اس کو بصدر رحمت قبول کیا۔

یہی تو علمی شعور ہے: جب رب کی طرف سے تصحیح آئے، تو اسے خوشی سے قبول کیا جائے، نہ کہ انا سے رد۔


3. صحابہ کرامؓ کی سیرت: علم، عاجزی اور اصلاح

حضرت عمر بن خطابؓ جیسی باوقار شخصیت کو دیکھیے:

ایک موقع پر ایک عورت نے ان کی رائے کو چیلنج کیا اور قرآن سے دلیل دی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:

"عورت نے عمر کو غلط پایا اور عمر نے مان لیا۔"

یہ وہ مقام ہے جہاں علم کی اصل جھلکتی ہے:
حق تسلیم کر لینا، حتیٰ کہ وہ کسی کم علم سے بھی آئے۔


4. جہالت کی ضد اور انکار کا مرض

جہالت صرف لاعلمی کا نام نہیں، بلکہ بعض اوقات ایک انکار کا رویہ ہے۔

وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ
"انہوں نے دل سے پہچان لینے کے باوجود اس کا انکار کیا." (النمل: 14)

یہ آیت فرعون اور اس کے سرداروں کے بارے میں ہے۔
انہیں موسیٰؑ کی نشانیاں سچ معلوم تھیں، مگر وہ اپنی ضد اور انا کی وجہ سے تسلیم نہ کر سکے۔

یہی تو جہالت ہے:
حق واضح ہو، دلیل موجود ہو، مگر "میں کیوں مانوں؟" کا رویہ غالب رہے۔


5. تاریخی مثال: امام شافعیؒ اور علمی عاجزی

امام شافعیؒ کے شاگرد روایت کرتے ہیں:

"میں نے امام شافعیؒ کو کبھی کسی علمی مسئلے میں اپنی رائے پر اصرار کرتے نہیں دیکھا۔ اگر دلیل سامنے آتی، وہ اپنی رائے چھوڑ دیتے تھے۔"

جب علم کے پہاڑ بھی غلطی تسلیم کریں، تو یہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ علم کا زیور صرف معلومات نہیں بلکہ عاجزی بھی ہے۔


6. نفسیاتی پہلو: علم انسان کو کھولتا ہے، جہالت بند کرتی ہے

علم ایک روشن کمرہ ہے۔
جب روشنی ہو، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں ٹھوکر کھا رہے ہیں۔

لیکن جہالت ایک اندھیری کوٹھڑی ہے—جس میں انسان ٹھوکر تو کھاتا ہے، مگر کہتا ہے:
"مجھے کوئی ٹھوکر نہیں لگی!"

یہی انکارِ حقیقت ہے۔


7. علمی مجالس کا اصول: "اصابتُ، وأخطأتُ"

اہل علم کی مجلسوں میں ایک اصطلاح رائج تھی:

"رائے میری ہے، ممکن ہے درست ہو، لیکن ممکن ہے غلط ہو۔"
"دوسرے کی رائے غلط ہے، لیکن ممکن ہے درست ہو۔"

یہی ہے علم کی خوشبو—گفتگو کا ماحول، اختلاف کی گنجائش، اور اعترافِ خطا کی ہمت۔


8. اہل جہالت کا رویہ: "میں ہی ٹھیک ہوں!"

جہالت زدہ فرد کا المیہ یہ ہے کہ وہ:

  • صرف خود کو عقل مند سمجھتا ہے

  • دوسرے کی بات سنے بغیر رد کرتا ہے

  • دلیل کو دشمنی سمجھتا ہے

  • اور اپنی ناکامی کو بھی کسی اور کی سازش قرار دیتا ہے

یہی وہ خول ہے جس میں عقل دم گھٹ کر مر جاتی ہے۔


9. موجودہ دور کا المیہ: علم کا زوال، انا کا عروج

آج سوشل میڈیا ہو یا تعلیمی ادارے، ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سیکھنے سے زیادہ "بحث جیتنے" پر زور دیتے ہیں۔

جو زیادہ چیخے وہ جیت گیا، جو مان گیا وہ کمزور سمجھا گیا۔
یہ وہ ماحول ہے جہاں علم کی قدر کم اور انا کی پوجا زیادہ ہو گئی ہے۔


🔸 نتیجہ: علم کی اصل، عاجزی ہے

علم کا ثبوت صرف معلومات نہیں، بلکہ رویہ ہے۔
جو شخص اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے، وہ علم سے فیض پا چکا ہوتا ہے۔
اور جو غلطی پر اڑ جائے، وہ جہالت کے اندھیرے میں ہے، خواہ اس کے پاس ہزار ڈگریاں ہوں۔


🌱 آج کی بصیرت:

"سیکھنا چاہتے ہو؟
تو اپنی انا کو علم کے قدموں میں رکھو۔
کیونکہ علم وہ چراغ ہے جو خود کو جلانے سے نہیں ڈرتا۔"

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی