🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ چہارم🌴
تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم
🕌⭐🌴مدینہ سے روانگی🌴⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰
https://bit.ly/Haq-O-Batil03
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت عبد اللہ بن زبیر طرح طرح سے ولید کے قاصد کو ٹالتے رہے۔اور ولید کے پاس نہ گئے۔دوسرے دن وہ اپنے بھائی جعفر کے ساتھ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے ۔ولید کے عملہ نے انہیں بڑا تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے۔حضرت عبد اللہ بن زبیر کے مکہ روانہ ہونے کے ایک دن بعد حضرت امام حسین نے اپنے عزیز و اقارب اور اہل و اعیال کو جمع کیا اور مدینہ منورہ کی حرمت کی خاطر یہاں سے مکہ مکرمہ منتقل ہو جانے کا ارادہ فرما لیا ۔
گھر والوں کو تیاری کا حکم دے کر آپ مسجد ِ نبوی ﷺ میں اپنے نانا جانﷺ کے روضئہ اقدس پر حاضر ہوئے ۔نوافل ادا کئے اور دست بدستہ سلام عرض کیا ۔آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔
گنبد ِ خضریٰ کے مکیں ﷺسے جدائی کے خیال نے آپ پر رقت طاری کر دی۔اس شہر مبارک میں آپ نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ گزارا ۔اس شہر کی معطر اور پرنور فضاؤں میں آپ اپنے بچپن سے لے کر اب تک سانس لیتے آ رہے تھے۔
مدینہ منورہ سے دوری آپ کے لیے بہت مشکل تھی۔یہ واقعہ چار شعبان ساٹھ ہجری کا ہے کہ جس وقت آپ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت محمد بن حنفیہ کا مشورہ
حضرت محمد بن حنفیہ کے سوا تمام خاندان نے آپ کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ ہجرت فرمائی۔حضرت محمد بن حنفیہ نے آپ سے کہا کہ بھائی ! آپ تمام اہل ِ زمین سے بڑھ کر مجھے عزیز ہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ شہروں میں سے کسی ایسے شہر میں قیام نہ کریں۔ دیہات اور ریگستانوں میں قیام فرمائیں ۔لوگوں کے پاس اپنے قاصد بھیج کر انہیں اپنی بیعت کی دعوت دیں۔ اگر وہ آپ کی بیعت کر لیں تو آپ اللہ کا شکر اد اکریں اور اگر وہ کسی اور شخص پر متفق ہو جائیں تو اس سے آپ کے اوصاف وکمالات اور فضیلت میں کچھ کمی نہیں آئے گی۔مجھے خوف ہے کہ آپ مخصوص شہر یا کسی مخصوص گروہ ، جماعت کے پا س جائیں گے تو ان میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔
ایک گروہ آپ کے ساتھ ہو گا اور دوسرا مخالف۔اور ان دونوں میں جنگ و جدل کی نوعیت پیدا ہو جائے گی۔تو سب سے پہلے آپ ان کے تیروں کانشانہ بنیں گے۔ایسی صورت میں ایک معزز اور شریف ترین شخص جو کہ حسب و نسب کے اعتبار سے ساری امت سے بہتر ہے ۔اس کا خون سب سے ارزاں ہو جائے گا ۔اور اس کے اہل و عیال کو ذلیل کیا جائے گا۔یہ سن کر حضرت امام حسین نے فرمایا کہ بھائی پھر میں کہاں جاؤں ؟ تو محمد بن حنفیہ نے کہا کہ آپ مکہ چلے جائیں۔
اگر وہاں آپ کو اطمینان ہو جائے تو ٹھیک اور اگر اطمینان نہ ہو تو پھر آپ ریگستانوں کی طرف نکل جائیں ۔ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے رہیں ۔اور لوگوں کے بدلتے ہوئے حالات دیکھتے رہیں ۔آپ کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔کیوں کہ جب واقعات سامنے آتے ہیں تو رائے بھی صحیح ہو جاتی ہے۔آپ نے فرمایا بھائی تم نے خیر خواہی اور شفقت فرمائی ہے۔
انشاء اللہ تمہاری رائے درست اور موافق ثابت ہو گی۔(الطبری ۶:۶۴ ۔ ابن اثیر ۴:۱۶،۱۷ )
حضرت امام حسین جب اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ منورہ سے نکلے تو آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے۔
ترجمہ: ” اور وہ اس شہر سے نکلا ڈرتا ہوا ...اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے ۔ کہا: اے میرے رب ! مجھے ظالم فوج سے نجات عطا فرما “(القصص ۲۸:۲۱ )
اور جب آپ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔
ترجمہ : ” اور جب مدینے کی طرف متوجہ ہوئے کہا ، اللہ ہی میرا رب مجھے سیدھی راہ پر چلائے گا “
(القصص ۲۸:۲۱،۲۲ )
جب آپ مکہ معظمہ پہنچے اس وقت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر مکہ میں اپنے کئی حامیوں کو تیار کر چکے تھے۔
یزید نے رمضان ساٹھ ہجری میں ولید بن عقبہ کو معزول کر دیا ۔
اور اس کی جگہ عمرو بن سعد کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔عمرو بن سعد نے، اور ایک روایت کے مطابق خود یزید نے مکہ معظمہ کامحاصرہ کر لیا۔حضرت عبد اللہ بن زبیر کو گرفتار کرنے کے لیے بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکر مکہ کو روانہ کیا ۔لشکر نے مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر نے موثر دفاع کیا۔ اس کارروائی کے دوران یزید کے لشکر کا سپہ سالار مارا گیا ۔
اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کو فتح ہوئی۔حضرت امام حسین اس معرکے میں حرمتِ کعبہ کے پیش ِ نظر شریک نہ ہوئے اور الگ تھلگ رہے۔کیونکہ جب آپ مکہ پہنچے اور وہاں کے لوگوں کو آپ کی تشریف آوری کی خبر ہوئی تو جوق درجوق لوگ آپ کی خدمت میں آنے لگے او ر زیارت کا شرف حاصل کرنے لگے۔آپ مکہ میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم رہے۔نہ ہی اس دوران آپ نے یزید کے خلاف کسی سے بیعت لی اور نہ ہی اپنی موافقت میں کوئی لشکری طاقت فراہم کی۔
اہلِ کوفہ کی مشاورت اور امامِ عالی مقام کو دعوت دینا
حضرت علی کے زمانے سے ہی کوفہ آپ کے صحابوں اور محبوں کا مرکز تھا ۔وہاں کے لوگ حضرت امیر معاویہ کے دورِ خلافت میں ہی حضرت امامِ حسین کی خدمت میں تشریف آوری کے لیے عرضیاں بھیج چکے تھے۔مگر آپ نے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب جب انہیں یہ پتا چلا کہ امیر معاویہ کا انتقال ہو گیا ہے۔
اور حضرت امام حسین ،حضرت عبد اللہ بن زبیر ، اور حضر ت عبد اللہ بن عمر نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے ۔ مکہ کا پہلا معرکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے سر کر لیا ہے ۔اور اس میں یزیدی لشکر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور یہ کہ حضرت امامِ حسین بھی مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ چلے گئے ہیں ۔
اس سے محبان ِ علی کے حوصلے بلند ہوئے ۔
انہوں نے ایک شخص سلمان بن صرد الخزامی کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس کے گھر ایک مجلس ِ مشاورت طلب کی۔تمام صحابہ سلمان بن صرد کے گھر جمع ہو ئے اور امیر معاویہ کے مرنے کا ذکر کر کے سب نے اللہ کا شکر ادا کیا ،پھر سلمان بن صرد نے سب سے کہا کہ معاویہ ہلاک ہو گیا ہے اور امامِ حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے اور مکہ چلے گئے ہیں۔
تم لوگ ان کے اور ان کے باپ کے صحابی ہو ۔بس تم خوب جان لو کہ اگر تم ان کے مدد گار بن سکتے ہو اور دشمنوں سے جہاد کر سکتے ہو تو ان کو لکھو۔ اور اگر تمہیں اپنی کمزوری اور بزدلی کا اندیشہ ہو تو ان کو دھوکہ نہ دو۔سب نے کہا کہ ہم ان کو دھوکہ نہیں دیں گے۔بلکہ ہم ان کے دشمنوں سے جنگ کریں گے۔اور ان پر اپنی جان نثار کریں گے۔سلمان نے کہا پھر تم انہیں لکھو۔
جس پر انہوں نے آپ کی طرف کثرت سے خطوط لکھے اور پھر بعد میں وفود کا سلسلہ بندھ گیا۔(الطبری ۶:۲۵)
پہلا خط عبد اللہ بن سبیع ہمدانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ روانہ کیا گیا ۔جو امام ِ عالی مقام کی خدمت میں۱۰ رمضان ۶۰ ہجری کو مکہ معظمہ پہنچا۔اس خط کی روانگی کے دو ہی دن کے عرصے میں53 عرضیاں اور تیار ہو گئیں ۔
جو ایک، دو ،تین اور چار آدمیوں کے دستخط سے تھیں ۔یہ سارے خطوط تین آدمیوں کے ہاتھ ارسال کئے گئے۔اس کے بعد پھر کچھ مخصوص لوگوں نے عرضیاں بھیجیں ۔اور یہ سب یکے بعد دیگرے تھوڑے تھوڑے وقفے سے حضرت امام ِ حسین کی خدمت میں پہنچیں ۔(طبری ۷۷ ۱ ج ۲)
خطوط زیادہ تر ان مضمون کے ہوتے تھے کہ آپ جلد از جلد کوفہ تشریف لائیں ۔
مسند ِ خلافت آپ کے لیے خالی پڑی ہے۔آپ کے لیئے حاضر ہیں۔ سب آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔ اور آپ کی دید کے مشتاق ہیں ۔آپ کے سوا کوئی ہمارا پیشوا اور امام نہیں ۔آپ کی مدد کے لیے لشکر موجود ہے۔کوفہ کا حاکم نعمان بن بشیر یہاں موجود ہے مگر ہم اس کے ساتھ نماز ِ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے۔اور نہ ہی اس کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیں جب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو ہم اس کو یہاں سے نکال کر ملک شام جانے پر مجبور کر دیں گے۔
(الطبری)
آخری خط جو ہانی بن ہا نی سبیعی اور سعید بن عبد اللہ حنفی کے ہاتھ حضرت امامِ حسین کے پا س پہنچا ۔اس کے بعد آپ نے کوفہ والوں کو لکھا کہ تم لوگوں کے بہت سے خطوط ہم تک پہنچے جن کے مضامین سے ہم مطلع ہوئے ۔تم لوگوں کے جذبات اور شدتِ غم کا لحاظ کرتے ہوئے اس وقت ہم اپنے بھائی ، چچا کے بیٹے اور معتمدِ خاص مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیج رہے ہیں ۔
اگر انہوں نے لکھا کہ کوفہ کے حالات ساز گار ہیں تو انشاء اللہ میں بھی تم لوگوں کے پاس جلد آ جاؤں گا۔
(طبری ۱۷۸ ج ۶ )
حضرت امامِ حسین کا فیصلہ
حضرت امامِ حسین کے پاس جب یہ خطوط پہنچے تو آپ کی ہمت اور غیرت دینی جوش میں آ گئی ۔آپ نے امر با لمعروف اور نہی عن المنکرکے لیے علم ِ جہاد بلند کرنا اپنا فرض سمجھ لیا ۔
اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس آپ کے دیگر عزیزو اقارب اور کئی جلیل القدر صحابی اور تابیعین نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت آپ کوفہ تشریف نہ لے جائیں۔کوفہ کے لوگ بے وفا ہیں، جفاکار ہیں۔ انہوں نے آپ کے والدِ محترم سے بھی بے وفائی کی تھی۔ انہیں غربت، پردیس اور کسمپرسی کی حالت میں شہادت کے انجام تک پہنچایا تھا ۔اور پھر یہ لوگ وہ ہیں جو اپنے ظالم امیر کو تخت سے ہٹا کر دعوت نہیں دے رہے بلکہ تاحال اس کی اطاعت میں رہ رہے ہیں ۔
پھر بھی آپ کو بلائے جا رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح آپ سے بے وفائی کر جائیں۔
امامِ عالی مقام نے یہ سب سنا اور فرمایا کہ:
” امر با لمعروف اور نہی عن المنکراور دعوت ِ حق کی خاطر جہاد کرنا فرض ہو چکا ہے۔ وہ لوگ بے وفا و نادان ہیں اس بات سے مجھے کوئی سرو کار نہیں ۔میں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اس سوال سے ڈرتا ہوں کہ تجھے دعوتِ حق ایسے وقت میں دی گئی جب ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا ۔
اور سنت ِ نبوی ﷺ کے خلاف سرکشی ہو رہی تھی۔دین ِ اسلام میں بدعت اور خرافات کورواج دیا جا رہا تھا ۔لوگوں کے حقوق سلب ہو رہے تھے ۔آزادیاں چھینی جا رہی تھیں۔ اسلامی شعار کو نشا نہٴ تضحیک بنایا جا رہا تھا ۔اسلامی حقوق اور قانون کا تصور مذاق بن کر رہ گیا تھا۔حسین ...!! اس وقت تو نے اس بغاوت کے خلاف جہاد کاعلم کیوں نہ بلند کیا ؟ پھر یہ بھی بتاؤ اس وقت میں کیا جواب دوں گا جب کوفیوں نے قیامت کے روز بارگاہ ِ الٰہی میں کہا کہ ہم نے تو بہت کوشش کی تھی مگر امام بیعت کے لیے راضی نہ ہوئے تھے۔
لہذا ہمیں یزید کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اس کی بیعت کرنی پڑی۔اگر امام ہاتھ بڑھاتے تو ہم تو اپنی جانیں فدا کرنے کے لیے تیار تھے“
بہرحال یہ مسئلہ ایسا تھا کہ اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہ تھاکہ حضرت امام حسین کوفیوں کی آواز پر لبیک فرمائیں۔ باوجود اس کے کہ جلیل القدر صحابہ کرام آپ کی اس رائے سے متفق نہ تھے۔
اور امام کی محبت اور شہادت کی شہرت ان کے دلوں میں پریشانی پیدا کر رہی تھی۔ اور امامِ عالی مقام کو بھی جلیل القدر صحابہ ِ کرام کے شدید اصرار کالحاظ تھا۔مگر اہل ِ کوفہ کی درخواست کو رد فرمانے کے لیئے کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ تاہم آپ نے اتنا ضرور کیا کہ جب آپ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ نے ضرور ہی جانا ہے تو پہلے وہاں کسی کو حالات کی آگاہی کے لیے بھیج دیں۔
اگرحالات ساز گار ہوں تو آپ تشریف لے جائیں ورنہ یہاں پر ہی جلوہ گر رہیں۔اس پر امام ِ عالی مقام نے سوچ کرکہ پہلے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ سفارت کے خیال سے بھیجا جائے۔اگر کوفیوں نے بدعہدی اور بے وفائی کی تو عذر ِ شرعی مل جائے گا اور اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہے تو صحابہ کرام کو تسلی دی جا سکے گی۔آپ نے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ سفارت کے خیال سے بھیجا اور فرمایا کہ :
” اے میرے بھائی !کوفہ جا کر حالات کا جائزہ لو۔
وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے خط لکھو اور مشورہ دو کہ آیا میرا وہاں آنا مناسب بھی ہے یا نہیں ؟ آپ نے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفیوں کے خطوط کا جواب لکھ کر دیا کہ جو کچھ تم نے مجھ سے بیان کیا ہے وہ تمام میں نے جان لیا ہے ۔میں نے تمہارے پاس اہل ِ بیت میں سے اپنے قابل چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا ہے۔اور انہیں کہا ہے کہ وہ تمہارے حال کے بارے میں مجھے لکھیں ۔اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے وہ عقل مند اور بزرگان ِ قوم کے مشورے سے لکھا ہے تو میں انشاء اللہ بہت جلد تمہارے پا س پہنچ جاؤں گا۔ اور میں اپنی جا ن کی قسم اٹھاتا ہوں کہ امام وہی ہے جو کتاب اللہ پر عمل کرنے والا ہو۔ والسلام “(ابن اثیر ۴: ۲۱ )
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::>
https://bit.ly/Haq-O-Batil05