ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ یوسف آیت نمبر 55🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآئِنِ الْاَرْضِ١ۚ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
قَالَ : اس نے کہا اجْعَلْنِيْ : مجھے کردے عَلٰي : پر خَزَآئِنِ : خزانے الْاَرْضِ : زمین (ملک) اِنِّىْ : بشیک میں حَفِيْظٌ : حفاظت کرنیوالا عَلِيْمٌ : علم والا
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
یوسف نے کہا کہ : آپ مجھے ملک کے خزانوں (کے انتظام) پر مقرر کردیجیے۔ یقین رکھیے کہ مجھے حفاظت کرنا خوب آتا ہے (اور) میں (اس کام کا) پورا علم رکھتا ہوں۔ (35)
ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
35: عام حالات میں حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے، اور آنحضرت ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ؛ لیکن جب کسی سرکاری عہدہ کے نااہلوں کے سپرد ہونے کی وجہ سے خلق خدا کی پریشانی کا قوی خطرہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں کسی نیک پارسا اور متقی آدمی کے لئے عہدے کا طلب کرنا جائز ہے، یہاں حضرت یوسف ؑ کو اندیشہ تھا کہ قحط کا جو زمانہ آنے والا ہے اس میں لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوں گی، اس کے علاوہ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون جاری کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ حضرت یوسف ؑ خود یہ ذمہ داری قبول فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ فرمائیں، اس لئے آپ نے ملک کے خزانوں کا انتظام اپنے سر لے لیا، پھر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ بادشاہ نے حکومت کے سارے اختیارات انہی کے سپرد کردئے تھے اور وہ پورے ملک کے حکمران بن گئے تھے اور حضرت مجاہد ؒ کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ ان کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہوگیا تھا، لہذا حضرت یوسف ؑ کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا پورے ملک پر اللہ تعالیٰ کا قانون انصاف نافذ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔