گواہی زلیخا کے خاندان کے ایک چھوٹے سے بچے نے دی تھی


  ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ یوسف آیت نمبر 26-27 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

قَالَ : اس نے کہا هِىَ : اس رَاوَدَتْنِيْ : مجھے پھسلایا عَنْ : سے نَّفْسِيْ : میرا نفس وَشَهِدَ : اور گواہی دی شَاهِدٌ : ایک گواہ مِّنْ : سے اَهْلِهَا : اس کے لوگ اِنْ : اگر كَانَ : ہے قَمِيْصُهٗ : اس کی قمیص قُدَّ : پھٹی ہوئی مِنْ قُبُلٍ : آگے سے فَصَدَقَتْ : تو وہ سچی وَهُوَ : اور وہ مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے قَمِيْصُهٗ : اس کی قمیص قُدَّ : پھٹی ہوئی مِنْ دُبُرٍ : پیچھے سے فَكَذَبَتْ : تو وہ جھوٹی وَهُوَ : اور وہ مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
یوسف نے کہا : یہ خود تھیں جو مجھے ورغلا رہی تھیں، اور اس عورت کے خاندان ہی میں سے ایک گواہی دینے والے نے یہ گواہی دی کہ : اگر یوسف کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے، اور وہ جھوٹے ہیں۔ 
اور اگر ان کی قمیص پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹ بولتی ہے، اور یہ سچے ہیں۔ (18)

ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

18: اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی بےگناہی عزیز مصر پر واضح کرنے کے لیے یہ انتظام فرمایا کہ خود زلیخا کے خاندان کے ایک شخص نے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ایسی علامت بتائی جس کی معقولیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اگر حضرت یوسف ؑ کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ عورت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے۔ عورت نے اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور اس کشمکش میں ان کی قمیص پھٹ گئی۔ لیکن اگر وہ پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آگے بھاگ رہے تھے، زلیخا ان کا پیچھا کر کے انہیں روکنا چاہتی تھی اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کی وجہ سے قمیص پھٹ گئی۔ اول تو یہ بات ہی نہایت معقول تھی دوسرے بعض مستند احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گواہی زلیخا کے خاندان کے ایک چھوٹے سے بچے نے دی تھی جو ابھی بولنے کے قابل نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے اسے بولنے کی طاقت اسی طرح عطا فرما دی تھی جیسے حضرت عیسیٰ ؑ کو عطا فرمائی تھی۔ غرض اس ناقابل انکار ثبوت کے بعد عزیز مصر کو یقین ہوگیا کہ سارا قصور اس کی بیوی کا ہے اور حضرت یوسف ؑ بالکل بےگناہ ہیں۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی