🌻 *رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ان کا مقصد*
📿 *قرآنی آیت کی رو سے ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ان کا مقصود:*
رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ان کے مقصد سے متعلق ایک قرآنی آیت کا مفہوم سمجھ لیجیے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.
(سورۃ البقرۃ آیت: 183)
▪️ *ترجمہ:* اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔
🌼 *ہدایات ونکات:*
1️⃣ مذکورہ آیت میں تین باتیں بیان کرنا مقصود ہیں: روزے کی فرضیت، امت مسلمہ کی تسلی اور دلجوئی، روزے کا مقصد۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
2️⃣ ’’ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ‘‘ میں رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کا ذکر ہے، نیز احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزہ دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: ۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ۲۔ نماز قائم کرنا۔ ۳۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ ۴۔ حج کرنا۔ ۵۔ رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
8- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلٰى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ».
(صحیح البخاري: كِتَاب الْإِيْمَانِ، بابٌ: دُعَاؤُكُمْ إِيمَانُكُمْ)
3️⃣ روزے کو عربی میں’’صَوْم‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں: روکنا۔ جبکہ شریعت کی اصطلاح میں طلوعِ فجر سے لے کر مغرب کا وقت داخل ہونے تک اپنے آپ کو کھانے پینے اور جنسی خواہش سے روکنے کا نام روزہ ہے۔
4️⃣ ’’ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ‘‘ سے ایک تو یہ بات واضح ہورہی ہے کہ روزوں کی فرضیت صرف امت مسلمہ کی خصوصیت نہیں، بلکہ یہ گذشتہ تمام امتوں پربھی فرض کیے گئے تھے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ گذشتہ امتوں اور امت مسلمہ کے روزوں میں ایام، اوقات اور احکام میں فرق موجود ہے، لیکن نفسِ روزے سب پر فرض رہے ہیں، گویا کہ دیگر امتوں کے روزوں کے ساتھ تشبیہ نفسِ روزوں میں ہے۔ دوسرا اس سے امت مسلمہ کو تسلی دینا اور ان کی دلجوئی کرنا بھی مقصود ہے کہ یہ روزے رکھنا اگرچہ مشقت والا کام ہے لیکن اس قدر مشکل بھی نہیں کہ تم نہ رکھ سکو، بلکہ تم سے پہلے بھی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے جنھوں نے روزے رکھنے کا اہتمام کیا اور یہ مشقت برداشت کی ہے، سو امت مسلمہ کو بھی روزے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
5️⃣ ’’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ سے روزوں کے مقصد کی طرف اشارہ ہے کہ روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم میں تقوی اور پرہیز گاری یعنی گناہوں سے بچنے کی صلاحیت اور جذبہ پیدا ہو کہ روزے میں جب آدمی اپنی جائز خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے اندر یہ جذبہ، ملکہ اور صلاحیت پیدا کرنی ہے کہ وہ حرام اور ناجائز بھی چھوڑ دے، گویا کہ روزے کی حالت میں اللہ کے لیے حلال اور جائز ترک کرانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کے لیے حرام اور گناہ ترک کرنے والے بن جائیں۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی