🌻 *’’اگر فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں‘‘ کہنے کا حکم*
📿 *’’اگر فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں‘‘ کہنے کا شرعی حکم:*
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ: ’’اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں‘‘ تو فقط اتنا کہنے سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، اسی طرح اگر وہ فلاں کام کر بھی لے تب بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لیکن یہ قسم کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے وہ اس کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قسم کا کفارہ ادا کرے گا، البتہ اگر ان الفاظ سے اس کی نیت یہ ہو کہ فلاں کام کرلینے کے بعد میں واقعی کافر ہوجاؤں گا یعنی کفر اختیار کرلوں گا تب تو وہ خلاف ورزی کرتے ہی کافر ہوجائے گا۔ (فتاوٰی عثمانی، رد المحتار) یاد رہے کہ ایک مسلمان کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے بہر صورت حد درجہ اجتناب کرنا ضروری ہے۔
☀ الدر المختار:
(وَ) الْقَسَمُ أَيْضًا بِقَوْلِهِ (إنْ فَعَلَ كَذَا فَهُوَ) يَهُودِيٌّ أَوْ نَصْرَانِيٌّ أَوْ فَاشْهَدُوا عَلَيَّ بِالنَّصْرَانِيَّةِ أَوْ شَرِيكٌ لِلْكُفَّارِ أَوْ (كَافِرٌ) فَيُكَفِّرُ بِحِنْثِهِ لَوْ فِي الْمُسْتَقْبَلِ، أَمَّا الْمَاضِي عَالِمًا بِخِلَافِهِ فَغَمُوسٌ. وَاخْتُلِفَ فِي كُفْرِهِ (وَ) الْأَصَحُّ أَنَّ الْحَالِفَ (لَمْ يَكْفُرْ) سَوَاءٌ (عَلَّقَهُ بِمَاضٍ أَوْ آتٍ) إنْ كَانَ عِنْدَهُ فِي اعْتِقَادِهِ أَنَّهُ (يَمِينٌ وَإِنْ كَانَ) جَاهِلًا. وَ (عِنْدَهُ أَنَّهُ يَكْفُرُ فِي الْحَلِفِ) بِالْغَمُوسِ وَبِمُبَاشَرَةِ الشَّرْطِ فِي الْمُسْتَقْبَلِ (يَكْفُرُ فِيهِمَا) لِرِضَاهُ بِالْكُفْرِ، بِخِلَافِ الْكَافِرِ.
(كِتَابُ الْأَيْمَانِ)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی