میری زندگی کی سب سے پہلی ای میل
(ڈاکٹر کے بلاگ سے)
پڑھتی آنکھوں اور چڑھتی سانسوں کو ڈاکٹر کا سلام!
دوستو! آج آپ کی خدمت میں اپنی زندگی کا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ پیش کرنے جارہا ہوں امید ہے آپ سب کو پسند آئے گا۔
یہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے ابتدائی دنوں کی بات تھی۔ یعنی انٹرنیٹ اتنا زیادہ عام نہیں تھا کچھ کچھ افراد کی ہی انٹرنیٹ تک رسائی ہوا کرتی تھی۔ انٹرنیٹ کی کمیابی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اُن دنوں میں نے ایک انٹرنیشنل پرنٹڈ میگزین کی سبسکرپشن کے لئے فارم بھرا تو اس میں ایک سوال یہ تھا کہ آپ ویکلی کتنا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور جواب کے آپشن تھے ایک گھنٹہ، پانچ گھنٹے، دس گھنٹے یا اس سے زیادہ۔
خیر تو بات ہو رہی تھی پاکستان میں انٹرنیٹ کی ابتداء کی۔ میں اُن دنوں ملتان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں کے پی او بہ الفاظ دیگر ای ڈی پی سیکشن انچارج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کراچی واپس آگیا۔ ملتان میں ایک اور سینئر کے پی او سے میری بہت اچھی دعا سلام بلکہ بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی اور بہت اچھا تعلق بن گیا تھا، کراچی آکر بھی اُس دوست سے رابطہ رہتا تھا۔ اس دوست کا انٹرنیٹ سے کچھ کچھ تعلق رہتا تھا اور کچھ کچھ گن سن مجھے بھی انٹرنیٹ کے بارے میں ملتی رہتی تھی لیکن اُس وقت تک کبھی انٹرنیٹ استعمال نہیں کیا تھا۔ ایک بار فون پر بات ہورہی تھی تو میں نے اُس دوست سے کہا کہ مجھے ایک ای میل ایڈریس بنانا ہے لیکن مجھے طریقہ نہیں معلوم تو آپ مجھے ایک ای میل ایڈریس بنادیں۔ دوست نے حامی بھر لی اور کچھ ہی دنوں بعد مجھے اُس دوست کا خط ملا جس میں ای میل ایڈریس اور اسکا پاسورڈ اور سروس پروائر کا لنک درج تھا اور مختصر طریقہ بھی تھا کہ کس طرح لنک براؤزر میں پیسٹ کرنا ہے اور پھر ای میل ایڈریس لکھا ہے اور پھر پاسورڈ وغیرہ اور پھر میں نے ایک ای میل بھی بھیج دی ہے وہ بھی دیکھ لینا۔
ایک دو دن بعد میں گھر کے قریب واقع ایک انٹرنیٹ کیفے پہنچا اور نیٹ کیفے والے سے کہا کہ مجھے نیٹ استعمال کرنا ہے۔ نیٹ والے نے مجھے ایک کمپیوٹر دے دیا۔ یہ میرا انٹرنیٹ سے پہلا آمنا سامنا تھا تو ہلکی ہلکی گھبراہٹ سی بھی ہو رہی تھی اور کچھ کچھ ہیجانی سی کیفیت بھی تھی کہ آج اُس دنیا میں قدم رکھنے جارہا تھا کہ جس کے بارے میں پہلے صرف باتیں ہی سنی تھیں۔ کمپیوٹر آن کیا تو کچھ دیر بعد کمپیوٹر ریڈی حالت میں آگیا اب ڈسک ٹاپ پر ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی تاکہ نیٹ براؤزر تلاش کرسکوں۔ اُس وقت کا مشہور براؤزر نیٹ اسکیپ کمیونیکیٹر ہوا کرتا تھا غالباً انٹرنیٹ ایکسپلورر پاکستان میں کبھی بھی پسندیدہ براؤزر نہیں رہا تھا۔ براؤزر کے آئی کون پر ڈبل کلک کیا اور براؤزر اوپن ہوگیا اب دوست کا بھیجا ہوا خط نکلا اور سروس پروائیڈر کا ایڈریس ٹائپ کرنا شروع کیا۔ ڈبلیو ڈبلو ڈبلو ڈاٹ نیٹ ایڈریس ڈاٹ کام ، اسکے بعد ایک بار تسلی کی کہ ایڈریس درسٹ ٹائپ ہوا ہے یا نہیں ، جب دو تین بار اچھی طرح پڑھ کا ملا لیا کہ ایڈریس درست ہے تو ڈرتے ڈرتے اینٹر کا بٹن دبادیااگلے ہی لمحے براؤزر کے اوپری جانب انیمیٹڈ گلوب گھومنا شروع ہوگیا اور پھر ایک دو منٹ میں براؤزر پر سروس پروائیڈڑ کا پیج اوپن ہوگیا۔
یہاں تک کے مراحل کامیابی سے طے کرنے کے بعد میں نے ایک سکون کی سانس لی اور پھر خوشی خوشی اگلے مرحلے کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔۔
اب میں اسکرین کا جائزہ لے رہا تھا کہ لاگ ان آئی ڈی اور پاسورڈ کہاں لکھنا ہے۔ آخر کار آٹھ دس منٹ کے جائزے کے بعد یہ بھی علم ہوگیا کہ آئی ڈی اور پاسورڈ کہاں درج کرنا ہے ۔ جھجکتے جھجکتے لاگ ان ڈیٹیلز لکھیں اور پھر پاسورڈ لکھا اور ایک بار پھر اینٹر کا بٹن دبادیا۔ ایک بار پھر براؤزر کا انیمیٹڈ گلوب گھومنا شروع ہوگیا اور میرے دل کی دھڑکنوں میں کچھ اُتار چڑھاؤ سا آنے لگا۔ تقریباً تین سے پانچ منٹ میں صفحہ لوڈ ہوا اور اب میرے سامنے میرے ای میل اکاؤنٹ کا پیج اوپن تھا اور نہ صرف پیج اوپن ہوچکا تھا بلکہ ایک عدد ای میل میرے دوست کی جانب سے بھیجی ہوئی بھی دکھائی دے رہی تھی۔
میں تھوڑی دیر تک تو اسکرین کو دیکھتا رہا ابتدائی خوشی کی کیفیت اب اعتدال پر آچکی تھی اور خوشی کے بجائے اب کچھ کچھ بے چینی سی طاری ہونے لگی تھی ۔ ۔ ۔ وجہ یہ تھی کہ ای میل اکاؤنٹ بھی اوپن ہوچکا تھا جس میں ایک عدد ای میل بھی دکھائی دے رہی تھی لیکن کافی دیر بعد بھی وہ ای میل اوپن نہیں ہوئی تھی کہ میں پڑھ پاتا کہ اُس ای میل میں کیا لکھا ہے۔ میں نے پوری اسکرین پر غور سے اور بار بار نظر دوڑائی کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا جملہ لکھا مل جائے گا یا کوئی ایسا بٹن بنا ہوا دکھائی دے جائے گا کہ جس کی مدد سے یہ ای میل اوپن ہوسکے گی مگر کافی دیر تک مغز ماری کے بعد بھی مجھے کوئی ایسا بٹن یا کوئی ایسا جملہ نہ دکھائی دیا کہ جسکی مدد سے میں وہ ای میل اوپن کرسکتا۔
مجھے نیٹ کیفے میں آئے تقریباً چالیس منٹ ہونے کو تھے اور ای میل اوپن کرنے کے طریقے تلاش کرتے قریباً پچیس منٹ ہوچلے تھے اور بے چینی کی کیفیت اب کسی قدر شرمندگی میں تبدیل ہورہی تھی کہ ایک ای میل اوپن نہیں ہو پارہی تھی۔ ایک دو بار خیال آیا کہ نیٹ کیفے والے سے پوچھ لوں لیکن پھر یہ سوچ کا ہمت نہ ہوئی کہ وہ سوچے گا کہ آتا جاتا کچھ ہے نہیں اور آکر بیٹھ گیا نیٹ استعمال کرنے ، بس اسی سوچ کے تحت کسی سے پوچھنے کی بھی ہمت نہ کی۔
اب حقیقت میں مجھے غصہ آنا شروع ہوچکا تھا کہ یہ کیسی ای میل ہے کہ اوپن ہی نہیں ہورہی دوست نے بھی لاگ ان ہونے تک کا طریقہ تو بتادیا تھا لیکن یہ بتایا ہی نہیں کہ ای میل کیسے اوپن کرنی ہے۔ پوری اسکرین کو کئی بار دیکھ چکا تھا کہیں کوئی ایسا بٹن یا جملہ لکھا دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ جس کی مدد سے ای میل اوپن کرتا، بیزاری اور غصے کی کیفیت میں ماؤس پکڑا ہوا تھا اور اسے پوری اسکرین پر گھماتا جارہے تھا اور کچھ الٹے سیدھے کلک بھی کئے پھر اچانک جب ماؤس کی کرسر عین ای میل کے دکھائی دینے والے سبجیکٹ کے اوپر تھی تو ایک کلک ہوگیا اور ساتھ ہی اسکرین تبدیل ہونا شراع ہوگئی ۔ براؤزر کے اوپری جانب موجود گلوب گھومنا شروع ہوگیا اور چند ہی منٹ میں ای میل اوپن ہوچکی تھی اور ای میل میں لکھا گیا پیغام میرے سامنے تھا۔
میری حیرت اور خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اُس روز مجھے معلوم ہوا کہ ای میل اوپن کرنے کے لئے سبجیکٹ پر کلک کیا جاتا ہے ۔آج اس واقعے کو لگ بھگ تیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور اس تیس سال کے عرصے میں انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت کچھ جانا ، بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سکھایا لیکن انٹرنیٹ کے پہلی بار استعمال کا یہ واقعہ بھولے نہیں بھولتا اور جب بھی یاد آتا ہے تو لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی ہے۔۔۔۔
امید ہے کہ آپ بھی اس واقعے کو پڑھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ مسکرائے بھی ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ
۔
۔
۔
الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا