حدیث شریف کی رو سے غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کراہت اور ممانعت ثابت ہوتی ہے، ذیل میں اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1️⃣ حضرت عبد اللّٰہ بن مُغَفَّل رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرے پھر اس میں غسل (یا وضو) بھی کرے، کیوں کہ عام طور وساوس اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
☀️ سنن ابی داود:
27- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ: أَخْبَرَنِى أَشْعَثُخ وَقَالَ الْحَسَنُ: عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِى مُسْتَحَمِّهِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ». قَالَ أَحْمَدُ: «ثُمَّ يَتَوَضَّأُ فِيهِ؛ فَإِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ».
2️⃣ حضرت حُمَیْد حِمْیَری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ میری ایک صحابی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ: حضور اقدس ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے غسل خانے میں پیشاب کرے۔
☀️ سنن ابی داود:
28- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ حُمَيْدٍ الْحِمْيَرِىِّ -وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ- قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا صَحِبَ النَّبِىَّ ﷺ كَمَا صَحِبَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يَمْتَشِطَ أَحَدُنَا كُلَّ يَوْمٍ أَوْ يَبُولَ فِى مُغْتَسَلِهِ.
مذکورہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے، جس سے اجتناب کرنا بہتر اور مناسب ہے، اس لیے جہاں غسل کیا جارہا ہو وہاں بہتر یہی ہے کہ پیشاب نہ کیا جائے۔
⬅️ *غسل خانے میں پیشاب کرنے کی ممانعت کی وجہ:*
احادیث مبارکہ میں غسل خانے میں پیشاب کرنے کی ممانعت کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے وساوس پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ایک آدمی غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرتا ہے، تو وہ جگہ تو ناپاک ہوجاتی ہے، پھر جب وہ اس جگہ غسل بھی کرے گا تو اس کے دل میں یہی خیالات پیدا ہوں گے کہ شاید اُس پیشاب کی یا اس کی وجہ سے ناپاک ہونے والے پانی کی چھینٹیں جسم پر پڑ گئی ہوں، جس کے نتیجے میں وہ بار بار جسم کو دھوئے گا، یوں وہ بار بار شک کرنے کی وجہ سے وساوس میں مبتلا ہوجائے گا۔
ظاہر ہے کہ وساوس کے مرض میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے آدمی کو نہایت ہی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے اور جس قدر یہ مرض بڑھتا جاتا ہے اتنی ہی زندگی اجیرن ہوتی جاتی ہے۔ حتی کہ یہ وساوس کا سلسلہ صرف غسل کی حد تک محدود نہیں رہتا بلکہ دیگر عبادات اور زندگی کے معاملات میں سرایت کرجاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اپنی زندگی ہی سے تنگ ہوجاتا ہے۔
چوں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنا بھی ان وساوس کے پیدا ہونے کا ایک عام سبب ہے اس لیے اس سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے، اور ظاہر ہے کہ ایسا کام کیوں کیا جائے جس کی وجہ سے وساوس کا مرض پیدا ہوسکے!
⬅️ *مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت:*
امت کے جمہور اکابر اہلِ علم نے مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ ذکر فرمایا ہے کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کراہت اور ممانعت اُس صورت میں ہے کہ جب وہاں پیشاب اور پانی کے نکلنے کے لیے کوئی مناسب راستہ یعنی نالی نہ ہو، لیکن اگر غسل خانے میں پانی کے نکلنے کے لیے مناسب راستہ موجود ہو جس میں سے پانی کے ذریعے پیشاب بہادیا جاسکے اور جگہ پاک کردی جاسکے تو ایسی صورت میں غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کوئی کراہت یا ممانعت نہیں، اور نہ ہی اس کی وجہ سے وساوس کا مرض پیدا ہونے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے اگر ایسے غسل خانے میں پیشاب کرنے کی نوبت آئے تو اس کے بعد پانی بہا کر جگہ پاک کردینی چاہیے۔ البتہ اگر مجبوری نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ ایسے غسل خانے میں پیشاب کرنے سے بھی اجتناب کیا جائے۔
(فتاویٰ محمودیہ: باب الغسل 5/ 95 از جامعہ فاروقیہ کراچی)
ذیل میں عبارات ملاحظہ فرمائیں۔
☀️ سنن ابن ماجہ:
304- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي مُسْتَحَمِّهِ؛ فَإِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ».
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ بْنُ مَاجَه: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيَّ يَقُولُ: إِنَّمَا هَذَا فِي الْحَفِيرَةِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمُغْتَسَلَاتُهُمُ الْجِصُّ وَالصَّارُوجُ وَالْقِيرُ، فَإِذَا بَالَ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِ الْمَاءَ، فَلَا بَأْسَ به. (بَابُ كَرَاهِيَةِ الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ)
☀️ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:
قوله: (ويكره في محل التوضؤ)؛ لقوله ﷺ: «لا يبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل فيه أو يتوضأ؛ فإن عامة الوسواس منه». قال ابن ملك: لأن ذلك الموضع يصير نجسا فيقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاش أم لا؟ حتى لو كان بحيث لا يعود منه رشاش أو كان فيه منفذ بحيث لا يثبت فيه شيء من البول لم يكره البول فيه؛ إذ لا يجره إلى الوسوسة حينئذ؛ لأمنه من عود الرشاش إليه في الأول، ولطهر أرضه في الثاني بأدنى ماء طهور يمر عليها، كذا في «شرح المشكاة». (كتاب الطهارة: فصل فيما يجوز به الاستنجاء)
☀️ الدر المختار:
(وَأَنْ يَبُولَ قَائِمًا أَوْ مُضْطَجِعًا أَوْ مُجَرَّدًا مِنْ ثَوْبِهِ بِلَا عُذْرٍ أَوْ) يَبُولَ (فِي مَوْضِعٍ يَتَوَضَّأُ) هُوَ (أَوْ يَغْتَسِلُ فِيهِ)؛ لِحَدِيثِ: «لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي مُسْتَحَمِّهِ؛ فَإِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ».
☀️ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: يَتَوَضَّأُ هُوَ) قَدَّرَ هُوَ؛ لِيُوَافِقَ الْحَدِيثَ، وَيَثْبُتَ حُكْمُ غَيْرِهِ بِطَرِيقِ الدَّلَالَةِ. أَفَادَهُ ح. (قَوْلُهُ: لِحَدِيثِ إلَخْ) لَفْظُهُ كَمَا فِي «الْبُرْهَانِ» عَنْ أَبِي دَاوُد: «لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي مُسْتَحَمِّهِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ أَوْ يَتَوَضَّأُ فِيهِ؛ فَإِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ». وَالْمَعْنَى مَوْضِعُهُ الَّذِي يَغْتَسِلُ فِيهِ بِالْحَمِيمِ، وَهُوَ فِي الْأَصْلِ الْمَاءُ الْحَارُّ، ثُمَّ قِيلَ لِلِاغْتِسَالِ بِأَيِّ مَكَانِ اسْتِحْمَامٍ. وَإِنَّمَا نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ إذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ مَسْلَكٌ يَذْهَبُ فِيهِ الْبَوْلُ أَوْ كَانَ الْمَكَانُ صُلْبًا فَيُوهَمُ الْمُغْتَسِلُ أَنَّهُ أَصَابَهُ مِنْهُ شَيْءٌ فَيَحْصُلُ بِهِ الْوَسْوَاسُ، كَمَا فِي «نِهَايَةِ ابْنِ الْأَثِيرِ» اهـ. مَدَنِيٌّ.
(بَابُ الْأَنْجَاسِ)
✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی