جب جہاد کا نام آجائے ہم عذر اور بہانے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں٬وہ صحابہ کرام تھے جو انتہا درجے کی تکالیف و آزمائش فقر و فاقوں کے باوجود بھی موقع ڈھونڈ رہے ہوتے تھے جہاد پہ نکلنے کا..............................!!!
* حضرت جابررضی اللہ عنہ 9 بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے
باپ میدانِ جہاد میں کفارسےٹکراتے ہوئے شہید ہوگئے لیکن کبھی بھی انھوں نے عذر پیش نہیں کیا تھا حالانکہ عذر بنتا تھا...
*عبداللہ ابنِ امّ مکتوم نابینا صحابی بہت کوشش کرتے پھر رہے ہوتے تھے منتیں کر رہے ہوتے تھے کہ مجھے بھی میدانِ جہاد میں لے چلیں. فرمایا گیا عبداللہ تُو تو اندھا ہے نابینا ہے دیکھ نہیں سکتا تیرے پاس عذر ہے جہاد سے رُخصت ہے
عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ میں مسلمانوں کا جھنڈا اُٹھا لونگا اس طرح ایک مجاہد جو جھنڈا اٹھانے پہ لگنا ہوگا وہ کافروں سے اللہ کے دشمنوں سے لڑے گا...
*عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ ایک ٹانگ سے لنگڑے صحابی تھے عرض کی ساتھ جانا چاہتا ہوں جھاد پہ کافروں سے ٹکرانا چاہتا ہوں آپ علیہ سلام نے فرمایا تیرا عذر ہے ایک ٹانگ سے معذور ہے تجھے رخصت ہے عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسولﷺ کیا آپ پسند نہیں فرماتے کہ آپ کا یہ ساتھی جنت میں چلا جائے پھر جب عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو آپ ﷺ فرما رہے تھے میرا عمرو بن جموع لنگڑاتا لنگڑاتا جنت میں چلا گیا؟سبحان اللہ یہاں سوچیں ذرا وقت کا نبی خود صحابی کو اجازت دے رہا رخصت کی لیکن صحابی پھر بھی تڑپ رہا جانے کو باوجوڈ لنگڑا ہونے کے.سبحان اللہ کتنا اخلاص تھا ان میں . آہ آج دیکھیں مسلمانوں کو خوبصورت جوانی و صحت مند و مال و دولت ہونے کے باوجود جھاد سے رخصتی کے بہانے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں....
اے لوگو جھاد اسلام کی ڈھال ہے جو اپنی ڈھال کو مضبوطی سے نہیں تھام سکتا تو وہ دشمن کی تلوار سے نہیں بچ پاتا پس اگر تم نے جھاد کا مبارک راستہ نہ اپنایا تو جان لو دجالی فتنوں سے نہیں بچ پاؤ گے پھر فتنوں کی آگ میں جلتے ہی چلے جاؤ گے پھر دنیا و آخرت میں رسوا ہو جاؤ گے.