تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہوا جب سمندری بحری جہازوں نے سمندر کے بجائے زمین پر سفر کیا، اور یہ کارنامہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے انجام دیا۔
1453ء میں، جب سلطان محمد فاتح نے 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کو فتح کیا، تو یہ واقعہ تاریخ میں ایک ناقابل یقین جنگی حکمت عملی کے طور پر درج ہوا۔ قسطنطنیہ اُس وقت بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت اور عیسائی دنیا کا مرکز تھا۔ یہ شہر اپنی مضبوط دیواروں اور گولڈن ہارن (سنہری سینگ) کے قدرتی دفاع کی وجہ سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔
جنگی صورتحال:
قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران عثمانی بحریہ کو آبنائے گولڈن ہارن عبور کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ رومیوں نے سمندری راستے کو لوہے کی بھاری زنجیروں سے بند کر رکھا تھا تاکہ عثمانی بحری جہاز داخل نہ ہو سکیں۔ اس رکاوٹ کی وجہ سے عثمانی فوج کو ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت تھی۔
منفرد حکمت عملی:
سلطان محمد فاتح نے ایک حیرت انگیز اور غیر متوقع منصوبہ بنایا۔ انہوں نے حکم دیا کہ عثمانی بحری بیڑا آبنائے باسفورس سے لے کر آبنائے گولڈن ہارن تک خشکی کے راستے منتقل کیا جائے۔ یہ فاصلہ تقریباً 3 کلومیٹر تھا، اور راستہ ناہموار اور پہاڑی تھا، جو اس منصوبے کو انتہائی مشکل بنا رہا تھا۔
جہازوں کی خشکی پر منتقلی:
ایک رات کے دوران، 70 عثمانی بحری جہازوں کو لکڑی کے تختوں پر رکھا گیا، اور ان کے نیچے چکنائی شدہ لکڑیاں رکھی گئیں تاکہ جہازوں کو ناہموار راستوں پر کھینچ کر لے جایا جا سکے۔ عثمانیوں نے زبردست محنت سے ان بحری جہازوں کو زمین پر سفر کرایا اور انہیں گولڈن ہارن میں پہنچا دیا۔
رومیوں کی حیرت:
جب صبح ہوئی اور رومیوں نے اپنے دفاعی قلعوں سے عثمانی بحری جہازوں کو گولڈن ہارن میں دیکھا، تو وہ حیران و پریشان رہ گئے۔ یہ واقعہ بازنطینیوں کے لیے ایک نفسیاتی دھچکا تھا، کیونکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ عثمانی فوج خشکی پر بحری جہازوں کو منتقل کر سکتی ہے۔
فتح قسطنطنیہ:
چند ہفتوں کے بعد، 29 مئی 1453ء کو، سلطان محمد فاتح کی فوج نے قسطنطنیہ کی فصیلیں توڑ دیں اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتح نہ صرف بازنطینی سلطنت کا خاتمہ تھی، بلکہ اس نے اسلامی دنیا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور سلطان محمد فاتح کو "فاتح قسطنطنیہ" کے لقب سے نوازا گیا
یہ جنگی حکمت عملی اور جہازوں کی خشکی پر منتقلی ایک منفرد اور بے نظیر واقعہ تھا جو آج بھی فوجی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سلطان محمد فاتح کی اس کامیابی نے ان کی عسکری صلاحیتوں کو دنیا بھر میں تسلیم کروایا اور عثمانی سلطنت کی عظمت کی بنیاد رکھی۔