ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الانفال آیت نمبر 16
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰٮہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۶﴾
ترجمہ: اور اگر کوئی شخص کسی جنگی چال کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو یا اپنی کسی جماعت سے جا ملنا چاہتا ہو اس کی بات تو اور ہے، مگر اس کے سوا جو شخص ایسے دن اپنی پیٹھ پھیرے گا تو وہ اللہ کی طرف سے غضب لے کر لوٹے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ (٨)
تفسیر: 8: یہاں دشمن کے مقابلے سے پیٹھ پھیرنے کو ہر حالت میں ناجائز قرار دیا گیا ہے، چاہے دشمن کی تعداد کتنی زیادہ ہو، اور جنگ بدر کے وقت صورت حال یہی تھی، البتہ بعد میں اس حکم کی تفصیل اسی سورت کی آیت : ٦٥ اور ٦٦ میں بیان فرمائی گئی ہے جس کی رو سے اب حکم یہ ہے کہ دشمن کی تعداد اگر دگنی یا اس سے کم ہو، تب تو میدان چھوڑنا حرام ہے ؛ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو میدان چھوڑنے کی اجازت ہے، پھر جس وقت دشمن کو پیٹھ دکھانا ناجائز ہوتا ہے اس میں بھی اس آیت نے دو صورتوں کو مستثنی رکھا ہے، ایک یہ کہ بعض اوقات جنگ ہی کی کسی حکمت عملی کے طور پر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے مقصد میدان سے بھاگنا نہیں ہوتا ایسے میں پیچھے ہٹنا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ پیچھے ہٹ کر اپنی فوج کے پاس جانا اس سے مقصود ہو کہ ان کی مددلے کر دوبارہ حملہ کیا جائے، یہ صورت بھی جائز ہے۔