ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼
سورہ الانفال آیت نمبر 48
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَ اِذۡ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡ اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿٪۴۸﴾
ترجمہ: اور وہ وقت (بھی قابل ذکر ہے) جب شیطان نے ان (کافروں) کو یہ سمجھایا تھا کہ ان کے اعمال بڑے خوشنما ہیں اور یہ کہا تھا کہ : آج انسانوں میں کوئی نہیں ہے جو تم پر غالب آسکے، اور میں تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا، (34) مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تمہیں نظر نہیں آرہا۔ مجھے اللہ سے ڈر لگ رہا ہے اور اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔
تفسیر: 34: شیطان کی طرف سے یہ یقین دہانی اس طرح بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے مشرکین کے دل میں یہ خیال ڈالا ہو، لیکن اگلے جملے میں جو واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے اس سے ظاہر یہی ہے کہ اس نے کسی انسانی شکل میں آکر مشرکین کو اکسایا تھا ؛ چنانچہ حافظ ابن جریر (رح) وغیرہ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جب مشرکین مکہ جنگ کے ارادے سے روانہ ہونے لگے تو انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ انکے پیچھے ان کے گھروں پر قبیلہ بکر کے لوگ حملہ نہ کردیں جن سے ان کی پرانی دشمنی چلی آتی تھی، اس موقع پر شیطان اس قبیلے کے ایک سردار سراقہ کے روپ میں ان کے سامنے آیا اور اس نے اطمینان دلایا کہ تمہارے لشکر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا، اور دوسرے یہ کہ تم ہمارے قبیلے کی طرف سے بےفکر رہو میں خود تمہارا محافظ ہوں، اور تمہارے ساتھ چلوں گا، مشرکین مکہ اس کی بات پر مطمئن ہوگئے، لیکن جب بدر کے میدان میں فرشتوں کا لشکر سامنے آیا تو شیطان جو سراقہ کی شکل میں ان کے ساتھ تھا یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا کہ میں تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا اور مجھے وہ فوج نظر آرہی ہے جو تم نہیں دیکھ سکتے، بعد میں جب مشرکین کا لشکر شکست کھاکر مکہ مکرمہ لوٹا تو انہوں نے سراقہ سے شکایت کی کہ تم نے ہمیں بڑا دھوکہ دیا، سراقہ نے جواب میں کہا کہ مجھے تو اس قصے کا ذرا بھی پتہ نہیں اور نہ میں نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔