بہت سے لوگ دین نہ سیکھنے کی وجہ سے دین کے بنیادی اور ضروری مسائل سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ اسی سے منسلک یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بہت سے لوگ حالتِ جنابت کےبارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ذیل میں اسی سے متعلق چند اہم مسائل ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ رائج غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے:
مسئلہ 1⃣:
حالتِ جنابت میں عورت کا بچے کو دودھ پلانا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
(احسن الفتاویٰ: 2/ 36)
مسئلہ 2️⃣:
حالتِ جنابت میں کھانا پکانا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (احسن الفتاویٰ: 2/ 36)
مسئلہ 3⃣:
حالتِ جنابت میں جسم سے نکلنے والا پسینہ پاک ہوتا ہے، ناپاک نہیں ہوتا، البتہ اگر اس پسینے کے ساتھ نجاست بھی شامل ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کا ناپاک ہونا ظاہر سی بات ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: 5/ 113)
مسئلہ 4⃣:
حالتِ جنابت میں کلی کرنے سے پہلے پانی پینا مکروہِ تنزیہی ہے یعنی یہ جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے، اور یہ کراہت بھی صرف پہلے گھونٹ کی حد تک ہے، اس کے بعد پانی پینے میں کوئی کراہت نہیں۔ اس لیے بہتر اور مستحب صورت یہی ہے کہ جنابت کی حالت میں پہلی دفعہ پانی پینے سے پہلے ٹھیک طرح کلی کرلینی چاہیے۔ البتہ واضح رہے کہ جنابت کی حالت میں کلی کیے بغیر پانی پینے سے وہ پانی حرام یا مکروہ نہیں ہوتا۔
(احسن الفتاویٰ: 2/ 30)
مسئلہ 5️⃣:
اگر کسی شخص نے جنابت کی حالت میں کھانے پینے سے پہلے ٹھیک طرح کلی کرلی یا کلی کیے بغیر ہی منہ بھر کر پانی پی لیا تو ایسی صورت میں یہ غسلِ جنابت کی کلی کے قائم مقام ہوجائے گا اور اس سے کلی کرنے کی فرضیت ادا ہوجائے گی۔ اس لیے اب غسلِ جنابت کرتے وقت دوبارہ کلی کرنا فرض نہیں رہے گا، البتہ بہتر یہ ہے کہ غسلِ جنابت کرتے وقت دوبارہ کلی کرلی جائے۔ لیکن اگر کسی نے غسلِ جنابت کے وقت دوبارہ کلی نہیں کی تو اس سے غسل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ غسل درست شمار ہوگا۔ (احسن الفتاویٰ 3/ 31)
⭕ تنبیہ:
غسل فرض ہوجانے کے فورًا غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ بہتر یہی ہے کہ فوراً یا جتنی جلدی ہوسکے غسل کرلیا جائے، اگر یہ نہ ہوسکے تو وضو ہی کرلے، لیکن اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم استنجا ہی کرلے، البتہ غسل میں اس قدر تاخیر جائز نہیں کہ نماز یا جماعت ہی فوت ہو جائے۔
📚 روایات اور فقہی عبارات
☀ سنن ابی داود:
230- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِى وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ: أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ لَقِيَهُ فَأَهْوَى إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّى جُنُبٌ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُسْلِمَ لا يَنْجُسُ».
231- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَبِشْرٌ عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِى رَافِعٍ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: لَقِيَنِى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِى طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَأَنَا جُنُبٌ فَاخْتَنَسْتُ فَذَهَبْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ: «أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» قَالَ: قُلْتُ: إِنِّى كُنْتُ جُنُبًا فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ! إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ». (باب فِى الْجُنُبِ يُصَافِحُ)
☀ الدر المختار:
وَلَا أَكْلَهُ وَشُرْبَهُ بَعْدَ غَسْلِ يَدٍ وَفَمٍ.
☀ رد المحتار:
(قَوْلُهُ: بَعْدَ غَسْلِ يَدٍ وَفَمٍ) أَمَّا قَبْلَهُ فَلَا يَنْبَغِي؛ لِأَنَّهُ يَصِيرُ شَارِبًا لِلْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ وَهُوَ مَكْرُوهٌ تَنْزِيهًا، وَيَدُهُ لَا تَخْلُو مِن النَّجَاسَةِ، فَيَنْبَغِي غَسْلُهَا ثُمَّ يَأْكُلُ، «بَدَائِعُ».
(كتاب الطهارة: مطلب: يكلق الدعاء على ما يشمل الثناء)
☀ الدر المختار:
(وَلَا بَأْسَ) لِحَائِضٍ وَجُنُبٍ (بِقِرَاءَةِ أَدْعِيَةٍ ..... وَأَكْلٍ وَشُرْبٍ بَعْدَ مَضْمَضَةٍ، وَغَسْلِ يَدٍ)، وَأَمَّا قَبْلَهُمَا فَيُكْرَهُ لِجُنُبٍ.
☀ رد المحتار:
(قَوْلُهُ: فَيُكْرَهُ لِجُنُبٍ)؛ لِأَنَّهُ يَصِيرُ شَارِبًا لِلْمَاءِ الْمُسْتَعْمَلِ، أَيْ وَهُوَ مَكْرُوهٌ تَنْزِيهًا، وَيَدُهُ لَا تَخْلُو عَن النَّجَاسَةِ فَيَنْبَغِي غَسْلُهَا ثُمَّ يَأْكُلُ، «بَدَائِعُ». وَظَاهِرُ التَّعْلِيلِ أَنَّ اسْتِحْبَابَ الْمَضْمَضَةِ لِأَجْلِ الشُّرْبِ وَغَسْلَ الْيَدِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ، فَلَا يُكْرَهُ الشُّرْبُ بِلَا غَسْلِ يَدٍ وَلَا الْأَكْلُ بِلَا مَضْمَضَةٍ، وَعَلَيْهِ فَفِي كَلَامِ الْمَتْنِ لَفٌّ وَنَشْرٌ مُشَوَّشٌ، لَكِنْ قَالَ فِي «الْخُلَاصَةِ»: إذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَأْكُلَ فَالْمُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَغْسِلَ يَدَيْهِ وَيَتَمَضْمَضَ. اهـ تَأَمَّلْ. وَذَكَرَ فِي «الْحلْبةِ» عَنْ أَبِي دَاوُد وَغَيْرِهِ: أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ وَهُوَ جُنُبٌ غَسَلَ كَفَّيْهِ، وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ. (كتاب الطهارة: باب الحيض)
☀ رد المحتار:
(قَوْلُهُ: وَيَكْفِي الشُّرْبُ عَبًّا) أَيْ لَا مَصًّا، «فَتْحٌ». وَهُوَ بِالْعَيْنِ الْمُهْمَلَةِ، وَالْمُرَادُ بِهِ هُنَا الشُّرْبُ بِجَمِيعِ الْفَمِ، وَهَذَا هُوَ الْمُرَادُ بِمَا فِي «الْخُلَاصَةِ»: إنْ شَرِبَ عَلَى غَيْرِ وَجْهِ السُّنَّةِ يَخْرُجُ عَنِ الْجَنَابَةِ، وَإِلَّا فَلَا. وَبِمَا قِيلَ: إنْ كَانَ جَاهِلًا جَازَ، وَإِنْ كَانَ عَالِمًا فَلَا، أَيْ لِأَنَّ الْجَاهِلَ يَعُبُّ، وَالْعَالِمُ يَشْرَبُ مَصًّا كَمَا هُوَ السُّنَّةُ. (قَوْلُهُ: لِأَنَّ الْمَجَّ) أَيْ طَرْحَ الْمَاءِ مِنَ الْفَمِ لَيْسَ بِشَرْطٍ لِلْمَضْمَضَةِ، خِلَافًا لِمَا ذَكَرَهُ فِي «الْخُلَاصَةِ»، نَعَمْ هُوَ الْأَحْوَطُ مِنْ حَيْثُ الْخُرُوجُ عَنِ الْخِلَافِ، وَبَلْعُهُ إيَّاهُ مَكْرُوهٌ، كَمَا فِي «الْحلْبَةِ». (كتاب الطهارة: مطلب في أبحاث الغسل)
☀ فتاویٰ ہندیہ:
الْجُنُبُ إذَا شَرِبَ الْمَاءَ ولم يَمُجَّهُ لم يَضُرَّهُ، وَيُجْزِيهِ عن الْمَضْمَضَةِ إذَا أَصَابَ جَمِيعَ فَمِهِ، كَذَا في «الظَّهِيرِيَّةِ». (كتاب الطهارة: الْبَابُ الثَّانِي في الْغُسْلِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ في فرائضه)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی