کیا ہم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے؟
کوئی بھی لت لگانے سے ہی لگتی ہے اور پھر کوشش سے چھوٹ بھی جاتی ہے۔
اگر ہم نہیں سدھرتے تو ہمارے لیے کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی حالات بہتر ہیں، جس میں لوگ لہو و لعب سے دور تھے محفوظ تھے اور اپنے رب کے قریب ہو گئے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا تجزیہ اور محاسبہ نہیں کرتے، جیسی زندگی چل رہی ہے اسی میں مست ہیں۔
ہم اپنی عیبوں پر نظر رکھ کر اپنی اصلاح کی فکر کم کرتے ہے اور سارے جہاں کا درد لیے پوری دنیا کی اصلاح کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
ہمیں دن بھر میں اس بات کی کتنی فکر ہوتی ہے کہ ہمارا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہو رہا ہے یا ہم اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ موبائل، یہ سوشل میڈیا، یہ قسم قسم کی ایپس ذرا سوچیں ان کی ایجادات میں جتنی ترقیاں ہوتی جا رہی ہیں، ہم اس میں اتنا ہی الجھتے جا رہے ہیں، آج ہمارے قریبی دوستوں سے رشتہ داروں سے حتیٰ کہ گھر کے افراد سے تعلقات کمزور ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے دوست جو ہم سے میلوں دور ہیں جن کو ہم پہچانتے بھی نہیں، جو ہماری کسی مصیبت میں ہمارے قریب بھی نہ ہوں گے ان سے دوستی مضبوط اور گھنٹوں ان سے چیتنگ کر کے اپنا وقت انہیں دیتے ہیں۔
اس لائن سے سوچنے کی بہت سی باتیں ہیں، اگر ہم اپنی توجہ اس جانب کریں۔
باتیں بہت ساری ہیں جنہیں میں تحریر میں نہیں لا سکتا۔
ذرا سوچیں آج سے دس پندرہ سال پہلے کی زندگی جب یہ سہولیات نہیں تھیں، اس وقت بھی انسان اپنی زندگی بہتر اور اچھے انداز میں گزارتا تھا۔
دراصل ہمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا عادی بنا دیا گیا ہے۔اس طرح جس طرح ایک نشہ کرنے والے کو اس کے نشہ کی چیز نہ ملے تو وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔
ہم کوشش کر کے دیکھیں، شروع میں ہماری حالت اسی طرح کی ہوگی، لیکن عزم مصمم اور اللہ کی مدد سے یہ لت بھی چھوٹ سکتی ہے۔
ہم آزما کر دیکھ لیں، زیادہ نہیں صرف دس دنوں تک موبائل اور انٹرنیٹ سے دور ہوجائیں، رابطہ کے لیے عام سا موبائل جس میں صرف کال کی سہولت ہو اس کا استعمال کریں۔ اس کے بعد ان دس دنوں کا تجزیہ کریں کہ ان دنوں میں آپ کو کتنا ذہنی و قلبی سکون میسر آیا۔
زمرے
معاشرت و طرزِ زندگی