فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 19═(قلعہ ملاگا)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس چھوٹے سے دریا کنارے پر ٹڈی دل عیسائیوں کی مٹھی بھر مسلمانوں سے جنگ ہوئی تھی اس کا نام وادی بیکا تھا یا مسلمانوں نے اس کا یہ نام رکھ دیا تھا ۔
یہ چھوٹا سا دریا وادی بست کے متصل بہتا ہے ۔
مسلمانوں کو اس کے کنارہ پر عظیم الشان فتح حاصل ہوئی اور وہ پھر وہاں سے آگے بڑھے-
سامنے ہی مشہور اور بڑا دریا وادی الکبیر تھا ۔
تمام لشکر نے اس دریا کو عبور کیا اور یہاں سے اسلامی لشکر کے تین حصے ہو گئے -
ایک مغیث الرومی کی سر کردگی میں قرطبہ کی طرف روانہ ہوا دوسرا طارق کی ماتحتی میں طلیطلہ کی طرف بڑھا اور تیسرا زید کے ساتھ ملاگا کی سمت روانہ ہوا-
آب برسات کے ایام شروع ہو گئے تھے ۔
بارشیں ہونے لگی تھیں اور ندی نالے چڑھ لگے تھے ۔
اس سے اسلامی لشکر کی پیش قدمی میں دشواریاں اور رکاوٹیں حائل ہو گئی تھیں لیکن مجاہدین کچھ ایسے جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے ان دقتوں کا کچھ بھی خیال نہ کیا اور وہ ندیوں اور دریاؤں کو عبور کرتے رہے ،جن عیسائیوں کو دریائے وادی بیکا کے کنارے پر شکست ہوئی تھی، ان میں سے کچھ وہاں سے بھاگ کر قرطبہ چلے گئے تھے، کچھ طلیطلہ اور بہت سے ملاگا، الورا اور اسٹیجا کی جانب دوڑ پڑے تھے ۔
یہ ہزیمت خوردہ جس طرف سے گزرے اپنی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے واقعات کچھ اس طریقہ سے بیان کرتے چلے گئے جس سے عام عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت چھا گئی ۔
وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ مسلمانوں ایسی مخلوق ہیں جو مرنا نہیں جانتے اور جو مرنا نہیں جانتے وہ انسان نہیں ہو سکتے ۔
انہوں نے طلمسی گنبد کے واقعات بھی سن لیے تھے اور اس سے انہیں یہ بھی یقین ہو گیا تھا کہ اندلس کی تباہی کے دن آ گئے ہیں اور اب طاقت اسے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہیں بچا سکتی انہوں نے یہ بھی سن لیا کہ رازرق جو ان کا بادشاہ تھا لاپتہ تھا چونکہ عیسائی ایک شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ رازرق کا کیا انجام ہوا- "
عام عیسائیوں کا یہ خیال ہو گیا کہ رازرق پر اسرار طریقہ پر غائب ہو گیا ہے اور وہ پھر کسی وقت ظاہر ہو کر مسلمانوں سے اپنی حکومت واپس لے گا ۔
مدتوں وہ اس فریب میں مبتلا رہے اسی خیال کی وجہ سے انہوں نے ہر جگہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کر لیں اور طے کیا کہ خواہ مسلمان کوئی ہوں یعنی جن ہوں یا ایسی مخلوق جو مرنا نہ جانتی ہو وہ ان کا مقابلہ کریں گے اور آخری دم تک لڑیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے دلوں پر ہول سا طاری تھا اور وہ مسلمانوں کا نام سنتے ہی ڈر جاتے تھے ۔
زید اپنے دستے کے ساتھ ملاگا کی طرف بڑھ رہے تھے اور ان کے ساتھ صرف دو ہزار مجاہدین تھے چونکہ وادی بیکا کے کنارے پر انہیں مال غنیمت میں ہزاروں خیمے مل گئے تھے اس لیے سب خیموں میں رہتے تھے اور اس طرح وہ بارش سے امن میں تھے مگر جس طرف سے بھی ان کا گزر ہوا انہوں نے دیہات اور قصبات کو خالی اور غیر آباد پایا وہاں کے باشندے اپنا سب کچھ لے کر ملاگا چلے گئے تھے مسلمان جانتے تھے کہ عیسائیوں کا اس طرح ایک جگہ جمع ہونا انہیں مشکلات میں مبتلا کر دے گا وہ نہیں چاہتے تھے کہ عیسائی مجتمع ہوں مگر یہ ان کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ انہیں روک سکیں- "
جب زید ملاگا پہنچا تو انہوں نے اسے ایک مضبوط اور اونچا قلعہ پایا اور قلعہ کی تمام فصیل عیسائیوں سے بھری ہوئی دیکھی وہ سمجھ گئے کہ جس طرف سے وہ آئے ہیں وہاں کے تمام عیسائی آ آ کر جمع ہو گئے ہیں- "
اور وہ فصیل کو درست کر کے لڑائی کے تمام سامان مہیا کر کے ہر طرح تیار بیٹھے تھے اس وقت قلعہ کے اندر پندرہ سولہ ہزار فوج تھی مسلمان صرف دو ہزار ہی تھے ۔
پہلے عیسائیوں کا خیال تھا کہ انہوں نے محض دو ہزار مسلمانوں کو دیکھا تو ان کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ ان کا مقابلہ کھلے میدان میں کریں ۔
زید نے قلعہ سے تین میل کے فاصلے پر اپنا خیمہ لگوایا ۔
وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اندلس کے عیسائیوں کی زبان سے پوری طرح آشنا ہو تاکہ وہ انہیں پیغام صلح دیں ۔
مگر ان کے تمام لشکر میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا لہذا مجبورا دوسرے روز وہ خود ہی کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر قلعہ کے نزدیک گیا ۔
قلعہ والوں نے پہلے سوچا پتھروں اور تیروں سے ان کا استقبال کریں پھر یہ سوچ کر رک گئے کہ ان کی بات سن لی جائے گی ۔
چونکہ مسلمان چند ہی آدمی تھے اس لیے وہ سمجھ گئے کہ شاید قاصد ہیں اور کچھ کہنے کےلئے آئے ہیں
مسلمان قلعہ سے کچھ فاصلے پر جا کر رکے ۔
زید کے ہاتھ میں اسلامی پرچم تھا اور اس کا پھر یرا بڑے رعب و داب کے ساتھ ہوا میں لہرا رہا تھا زید نے بلند آواز سے کہا ۔
عیسائیو میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں- "
عام عیسائیوں نے کچھ نہ سمجھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ عربی سے بالکل ناواقف تھے مگر قلعہ کے اندر کچھ یہودی تھے اور یہودی خوب جانتے تھے کہ عیسائی عربی سے بالکل ناواقف تھے لیکن قلعہ کے اندر کچھ یہودی تھے جو عربی خوب جانتے تھے وہ جلدی سے ایک یہودی کو پکڑ لائے ۔ اور یہودی نے برج میں آ جا جھانکا ۔
وہ بوڑھا تھا اس کی ڈاڑھی لمبی اور سفید تھی ۔
وہ اپنا مخصوص لباس پہنے تھا ۔
اس کا لباس ریشمی تھا جس سے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ کوئی متمول آدمی ہے ۔
یہودی عرب میں بھی آباد تھے اور شام اور افریقہ میں بھی ۔
یہ قوم شروع ہی سے تجارت پیشہ اور تجارت کی بدولت اچھی خاصی مال دار ہے ۔
اس مسلمان انہیں ان کے لباس سے پہچان لیتے تھے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہودی نے چیخ کر کہا- "تم کیا کہنا چاہتے ہو- "
زید نے اس سے دریافت کیا کہ تم یہودی ہو؟ "
یہودی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ہاں میں بد قسمت یہودی ہی ہوں -"
زید: تم جانتے ہو کہ عیسائی تمہیں کس قدر حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں؟
یہودی خوب جانتا ہوں-
زید اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم مسلمان تمہاری قوم کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں؟
یہودی مجھے اس کی بھی خبر ہے ۔
زید تم بتا سکتے ہو کہ قلعہ کے اندر کتنے عیسائی ہیں؟ "
یہودی نے کہا لڑنے والے صرف پندرہ ہزار ہیں اور ان کے علاوہ عام عیسائی بھی اتنے ہی ہیں اگرچہ وہ تمہیں تھوڑا دیکھ کر شیر ہو گئے ہیں تاہم ان کے دلوں پر تمہاری بہت ہیبت چھائی ہوئی ہے- "
زید نے کہا کہ ان سے کہو اگر یہ صلح کر لیں تو اچھا ہے یہودی خاموش ہو کر پیچھے ہٹ گیا مسلمان سمجھ گئے کہ وہ عیسائیوں سے گفتگو کرنے گیا ہے کچھ دیر کے بعد اس نے پھر جھانکا اور چلا کر بولا
عیسائی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کن شرائط پر؟
زید محض ادائے جزیہ پر!!!!!
یہودی نے کہا عیسائی اس بات پر آمادہ نہیں ہیں!
زید وہ کیا چاہتے ہیں؟
یہودی: وہ کہتے ہیں کہ اگر تم یہاں سے چلے جاو تو وہ تمہارا تعاقب نہیں کریں گے ۔
زید: تم اپنے لیے امان حاصل کرنا چاہتے ہو؟ -
یہودی: بدکار رازرق نے میری بیٹی راحیل کو زبردستی پکڑوا لیا ہے ۔
زید: اور شاید وہ لڑکی طلیطلہ میں ہے؟ "
یہودی: میں وہاں گیا تھا وہ وہاں بھی نہیں ہے ۔
زید پھر کہاں گئی ہے؟
یہودی: خدا کو ہی خبر ہے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ وہ رات کو اچانک غائب ہو گئی تھی ۔
زید: کہیں رازرق نے اسے مروا تو نہیں دیا؟
یہودی :میں نے اس کے متعلق بھی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اسے قتل نہیں کیا گیا بلکہ وہ غائب ہے میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ شاید وہ یہاں ہو لیکن وہ یہاں بھی نہیں آئی ۔
زید :مجھے تم سے ہمدردی ہے ۔
یہودی: مجھے امید ہے کہ وہ مجھے تمہارے ذریعے مل جائے گی ۔
زید : ہم اس کی تلاش میں پوری پوری کوشش سے کام لیں گے ۔
یہودی : آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
زید اگر کوئی خفیہ راستہ قلعہ کو جاتا ہو تو ہم کو بتا دو-
یہودی : راستہ تو تھا مگر انہوں نے بند کر دیا ہے دیکھئے عیسائی لشکر قلعہ سے باہر نکلنے والا ہے آپ پر اچانک حملہ کرنے کے لیے آپ جلدی سے تیار ہو جائیں ۔
زید تمہارا شکریہ!!!!!!
یہودی : فتح کے وقت یہودیوں کو نہ بھولیے گا ۔
یہ قوم نہایت ہی مظلوم ہے ۔
زید :اطمنان رکھیں یہودیوں کے جان و مال محفوظ رہیں گے ۔
زید واپس لوٹ آئے اور انہوں نے اپنے لشکر کو مسلح ہونے کا حکم دے دیا-
ابھی مسلمان اچھی طرح مسلح بھی نہ ہوئے تھے کہ قلعہ کا دروازہ کھلا اور عیسائی لشکر ایک عظیم سیلاب کی مانند میدان کی جانب بڑھنے لگے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔