⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 58👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مرتینا نے جب یہ کہا کہ بچے کو جادو گرنی مار چکی ہے تو روبیکا کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا اور اس پر پاگل پن سوار ہو گیا اس نے واہی تباہی بکنی شروع کردی وہ بھول ہی گئی کہ وہ ایک بے بس اور بے وسیلہ ملازمہ ہے اور قانون اور انصاف مرتینا کے ہاتھ میں ہے، اور وہ اسے بڑے آرام سے قتل کروا سکتی ہے، روبیکا کے منہ سے جھاگ پھوٹنے گی۔
مرتینا نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ منہ سے بولے کے اپنے بچے کی کتنی قیمت چاہتی ہے؟
میرے سامنے زروجواہرات کا ڈھیر لگا دو۔۔۔ روبیکا نے قہر بھری آواز میں کہا۔۔۔ میں اسے ٹھوکر مار کر اپنا بچہ ہی مانگوں گی۔
مرتینا اپنی شاہانہ حیثیت میں آگئی اس نے سلطنت کی ملکہ کے انداز سے روبیکا کو دھتکار دیا اور کہا کہ وہ فوراً یہاں سے نکل جائے ورنہ وہ اسے قید خانے میں ڈال دے گی اور اس کی باقی عمر کال کوٹھری میں گلتی سڑتی گزرے گی ۔مرتینا نے صرف کہا ہی نہیں بلکہ روبیکا کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے گھمایا اور پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیا اور کہا نکل جاؤ یہاں سے۔
روبیکا کی نظر کمرے کی سامنے والی دیوار پر گئی وہاں شاہ ہرقل کی تلوار لٹکی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ہرقل کا لمبا خنجر نیام میں پڑا لٹک رہا تھا، یہ دونوں ہتھیار مرتینا نے ہرقل کی یادگار کے طور پر کمرے میں لٹکا رکھے تھے۔
مرتینا کو تو یاد آ گیا تھا کہ وہ اس سلطنت کی ملکہ ہے لیکن روبیکا بلکل ہی بھول چکی تھی کہ وہ اس ملکہ کی ملازمہ ہے وہ مکمل طور پر پاگل ہو چکی تھی اس نے بجلی کی سی تیزی سے لپک کر دیوار سے ہرقل کا خنجر نوچ لیا اور اتنی ہی تیزی سے خنجر نیام سے نکالا ،نیام پرے پھینکی پیشتر اس کے کہ مرتینا سمجھ پاتی کہ یہ کیا کر رہی ہے خنجر مرتینا کے سینے میں اترچکا تھا، روبیکا نے بڑی ہی تیزی سے مرتینا کے سینے میں تین بار خنجر مارا اور مرتینا ایک چیخ مار کر لڑھک گئی اور پھر وہ فرش پر پڑی ہوئی تھی۔
روبیکا خون سے لتھڑا ہوا خنجر ہاتھ میں لئے باہر نکلی اور چلا چلا کر کہنے لگی میں نے اپنے بچے کے خون کا انتقام لے لیا ہے، اس کی یہ للکار اور پکار جس کسی کے کانوں تک پہنچی وہ دوڑا آیا دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ملازموں کا اور شاہی خاندان کے کچھ افراد کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔
روبیکا چیختی چلاتی باہر کو جا رہی تھی اور وہ خون آلود خنجر لہراتی جا رہی تھی، آوازیں آنے لگیں پکڑو اسے۔۔۔۔ پکڑو اسے۔۔۔ مرتینا کے کمرے میں جا کر دیکھ لیا گیا تھا کہ وہ لہولہان مری پڑی ہے ۔
کئی آدمی روبیکا کو پکڑنے کے لیے اس کی طرف دوڑے۔وہ بھاگی نہیں، پیچھے مڑی اور رک گئی اس نے دیکھا کہ اسے پکڑنے کے لیے آ رہے ہیں تو اس نے خنجر کا دستہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر ہاتھ اوپر کئے اور کہا میں اپنے بچے کے پاس جا رہی ہوں، اس نے بڑی زور سے اپنے دونوں ہاتھ نیچے کو کھینچا اور خنجر آدھے سے زیادہ اس کے سینے میں اتر گیا ،وہ آہستہ آہستہ گرنے لگی خنجر کو سینے میں ہی رہنے دیا گھٹنوں سے اس کی ٹانگیں دوہری ہوئی اور بڑی آہستہ سے اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور پھر وہ ایک پہلو کو لڑھک گئی۔
اسے پکڑنے والے اس تک پہنچے اور اسے سیدھا کر کے پیٹھ کے بل کر دیا وہ آخری سانسیں لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور ہونٹ ہل رہے تھے ،،،،،میرا بچہ مل گیا ہے،،،، اس کے ہونٹوں سے سرگوشیاں پھسل رہی تھیں۔۔۔۔ آخر میرا منّا مل ہی گیا اب اسے میرے سینے سے کوئی نہیں نوچ سکتا۔۔۔ اس نے اپنے دونوں بازو اپنے سینے پر رکھ کر دبا لیے سینے سے ابھی تک خون بہے جا رہا تھا، فوراً ہی بعد اس کی آنکھیں کھلی ھونٹ ساکن ہو گئے، اور پھر آنکھیں کھلی ہی رہ گئی اور ہونٹ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مرتینا کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہ تھا اس کا بیٹا ہرقلیوناس بھی وہاں پہنچ گیا تھا وہ تحکمانہ بلکہ شاہانہ لب و لہجے میں کچھ نہ کچھ کہے جا رہا تھا ،وہ تو جیسے وہاں کھڑے ہر انسان کو قتل کروا دینے کا فیصلہ سنا رہا تھا۔
کونستانس کو اطلاع مل گئی وہ بھی دوڑتا ہوا آن پہنچا ،رومی فوج کا سپریم کمانڈر جنرل اقلینوس بھی آگیا اور پھر دوسرے جرنیل بھی آن پہنچے۔
کونستانس اور جنرل اقلینوس کو صرف یہ بات مطمئن نہیں کر سکتی تھی کہ ایک ملازمہ نے مرتینا کو قتل کر کے خود کشی کی ہے ،وہ اس اتنے بڑے حادثے کی وجہ معلوم کرنا چاہتے تھے، انہوں نے مرتینا کے ملازموں سے پوچھنا شروع کردیا انہیں بتایا گیا کہ روبیکا مرتینا کی منہ چڑھی ملازمہ تھی، بلکہ یہ ملازمہ کم اور مرتینا کی گہری دوست زیادہ تھی، یہ پوچھ گچھ ہو ہی رہی تھی کہ وہ ملازمہ آگئی جس کا دوسرا بچہ بھی مر گیا تھا، اسے پتہ چلا کہ شاہی محل میں کیا قیامت آئی اور گزر گئی ہے تو وہ بھی وہاں آن پہنچے، جذباتی لحاظ سے اس کی حالت بھی نارمل نہیں تھی وہ اپنے دوسرے بچے کی لاش گھر میں چھوڑ کر آئی، اور آتے ہی غیر قدرتی سے لہجے میں اعلانیہ کہا کہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کیوں ہوا ہے ۔
اس نے ساری بات کھول دی وہ اتنا ہی بتا سکی کہ روبیکا کا بچہ اس نے مرتینا کے حکم سے اٹھایا اور مرتینا کو دیا تھا، اس سے آگے اسے کچھ معلوم نہیں تھا، البتہ ایک اور بات اسے اچھی طرح معلوم تھی اس نے وہ بھی بتا دی وہ یہ تھی کہ روبیکا کو ہرقلیوناس نے داشتہ بنا رکھا تھا اور یہ بچہ ہرقلیوناس کا ہی تھا۔
مجھے ہرقلیوناس کی ماں کے قتل کا کوئی افسوس نہیں۔۔۔ کونستانس نے اعلانیہ لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے غم یہ کھا رہا ہے کہ سلطنت روم کا زوال بڑی تیزی سے ہو رہا ہے، ہم خود اس عظیم سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں ،ادھر مصر ہاتھ سے نکل گیا ہے اور مٹھی بھر مسلمانوں نے اتنے بڑے ملک پر قبضہ کر لیا ہے ،اور ادھر دارالحکومت میں یہ پراسرار اور خونی کھیل کھیلے جارہے ہیں ۔
میں یہ کھیل بند کرا دوں گا۔۔۔ ہرقلیوناس بڑی کھوکھلی سی آواز میں بولا۔۔۔ اور جو کوئی میرا حکم نہیں مانے گا،،،،،،،
مجھے باغی کہہ لو ،کچھ کہہ لو ۔۔۔۔ایک پرانا جرنیل بول اٹھا۔۔۔ حکم صرف ایک حکمران کا چلے گا، اور وہ حکمران کونستانس ہوگا ، کبھی سنا ہی نہیں کہ ایک سلطنت کے بیک وقت دو حکمران ہوں، اور دونوں اپنے اپنے حکم چلا رہے ہوں۔
اس جرنیل کے بولنے کی دیر تھی کہ دوسرے جرنیل بھی بول اٹھے وہ اس جرنیل کی تائید میں بول رہے تھے۔ جرنیل اقلینوس نے سب کو خاموش کرا دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ یہاں ملازموں اور دوسرے لوگوں کے سامنے کھڑے کھڑے طے کر لیا جائے ،یہ کہیں اور بیٹھ کر طے کرنے والا معاملہ ہے، اور اب ہمیں کسی نہ کسی فیصلے پر پہنچنا ہی ہوگا۔
مرتینا مر چکی تھی اور اس کا بیٹا ھرقلیوناس اکیلا رہ گیا تھا ،مرتینا ہی اس کی تلوار اور مرتینا ہی اسکی ڈھال تھی، اور یہ تلوار اپنے آپ ہی چلا کرتی تھی ،اس دن کے بعد ایک اور چپقلش چل پڑی، اب تو ہر جرنیل اور سول حکومت کا ہر بڑا حاکم ایک ہی بات کہتا تھا کہ ہرقلیوناس کو ایک طرف کر دیا جائے اور صرف کونستانس شاہ روم کہلائے۔
ایک واقعہ کچھ دنوں بعد ہوا تھا۔ اس سے پہلے مصر میں مجاہدین اسلام نے اسکندریہ پر آخری یلغار کردی تھی۔ بہتر ہے کہ بزنطیہ کا یہ واقعہ یہیں بیان کردیا جائے۔ واقعہ یوں ہوا کہ یہ بات زیر غور آئی کے سلطنت روم کا حکمران صرف کونستانس رہے، ہرقلیوناس کے حامی تو بہت ہی کم رہ گئے تھے لیکن کچھ نہ کچھ زمین دوز سازشیں چل رہی تھیں، ہرقلیوناس صرف کہنے سے یا اپنی مرضی سے حکمرانی سے دستبردار نہیں ہو رہا تھا۔
ماں کے قتل کے تین چار روز بعد ہرقلیوناس گھوڑے پر سوار ہوا چند ایک ملازم ساتھ لیے اور جنگل میں شکار کو نکل گیا ۔
ان دنوں سلطنت روم ایسی صورتحال میں آگئی تھی کہ کسی کو شکار کھیلنے کی سوجھ بھی نہیں سکتی تھی، لیکن ہرقلیوناس اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا ۔
کچھ دیر بعد ایک گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور اس نے کونستانس کو اطلاع دی کہ شکار کے دوران نہ جانے کدھر سے دو تیر آئے اور دونوں تیر ہرقلیوناس کی پیٹھ میں اتر گئے، ظاہر ہے تیر پھیپھڑوں میں اترے تھے ہرقلیوناس گھوڑے سے گرا اور گرا بھی پیٹھ کے بل جس سے یہ ہوا کہ دونوں تیر اور زیادہ آگے پھیپھڑوں میں چلے گئے، اور تھوڑی ہی دیر بعد ہرقلیوناس مر گیا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ تیر اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر اسے نہیں لگے تھے، بلکہ ایک باقاعدہ پلان کے تحت اسے قتل کیا گیا تھا۔ بہرحال شاہی محل سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہرقلیوناس کے ساتھ کچھ اور شکاری بھی تھے جن میں سے دو نے بیک وقت کسی جانور پر تیر چلائے تو اتفاق سے ہرقلیوناس آگے آگیا اور تیر اس کے پیٹھ کی طرف سے اس کے سینے میں اتر گئے اور وہ مر گیا ۔
اب کونستانس شاہ روم بن گیا، اس طرح تخت و تاج کا تنازعہ ختم ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین نے اسکندریہ پر پہلی جو یلغار کی تھی، اور سپہ سالار عمرو بن عاص جنگی قیدی ہوتے ہوتے بچے اور اپنے تین ساتھیوں سمیت قلعے سے نکل آئے تھے۔ اس سے تیسرے یا چوتھے دن اسکندریہ پر بڑی ہی زوردار یلغار کی گئی، عمرو بن عاص نے سالاروں کے ساتھ مل کر اس یلغار کا پلان تیار کر لیا تھا۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پیغام میں خاص طور پر لکھا تھا کہ میرے بھیجے ہوئے چاروں سالاروں کو لشکر کے آگے رکھنا، ان سالاروں کے نام پہلے آچکے ہیں، عمرو بن عاص نے ان چاروں کو آگے رکھا سارے لشکر کو معلوم تھا کہ ان دیواروں سے منجنیقوں سے سنگ باری بھی ہوگی ،اور بے پناہ تیرا آئینگے، عمرو بن عاص نے اپنے تیرانداز دستے کو آگے بھیج دیا کہ وہ بڑی ہی تیزی سے دیوار پر تیر پھینکتے رہیں، ان تیر اندازوں میں سے کچھ قریبی درختوں پر چڑھ گئے یہاں سے ان کے تیر زیادہ کارگر ہو سکتے تھے۔
اس انتظام کے باوجود عمرو بن عاص نے لشکر سے کہہ دیا تھا کہ مجاہدین کو سنگ باری اور تیروں کی بوچھاڑوں میں سے گزرنا پڑے گا، اور جان قربان کرنی ہوگی، لشکر کا ہر مجاہد اس قربانی کے لئے تیار تھا۔
جب پورا لشکر آگے بڑھا تو دیوار سے سنگ باری شروع ہوگئی اور تیر بھی آنے لگے، مجاہدین کے تیرانداز دستے نے جم کر مقابلہ کیا اور خصوصاً ان تیر اندازوں نے جو درختوں پر چڑھ گئے تھے بہت کام کیا ۔ان کے تیر ٹھیک نشانوں پر جاتے تھے جن سے منجنیقیں چلانے والے کچھ لوگ گھائل ہوئے اور کچھ تیر انداز بھی گرے، لیکن دیوار کی طرف سے آنے والے تیر بہت ہی زیادہ تھے، مجاہدین نے دیکھا کہ سالار ان کے آگے ہیں تو انکے حوصلے اور زیادہ مضبوط ہو گئے ،سالار تیروں کی بارش سے اس طرح گزرتے جا رہے تھے جیسے انہوں نے زرہ بکتر پہن رکھی ہو، جن پر تیر کچھ اثر ہی نہیں کرتے، لیکن ان کا محافظ اللہ تھا اور وہ اللہ کے نام پر تیروں میں سے گزرتے جا رہے تھے، رومیوں نے اپنی وہی چال چلی جس سے وہ پہلے نقصان اٹھا چکے تھے، وہ یہ کہ شہر کے اس طرف والے دروازے کھلے اور زیادہ نفری کی فوج باہر نکلی سپہ سالار عمرو بن عاص یہی چاہتے تھے انہوں نے اپنے لشکر کو اسی کے مطابق ترتیب میں رکھا تھا، یلغار کا انداز یہ نہیں تھا کہ ایک ہجوم کہیں ہلہ بول رہا ہو، لشکر کی ایک ترتیب تھی اور یہ ترتیب سالاروں کے کنٹرول میں تھی، اور ہر سالار کا رابطہ سپہ سالار کے ساتھ تھا ،رومیوں نے اسکندریہ میں بےشمار فوج اکٹھی کر رکھی تھی اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اسکندریہ بڑا ہی مضبوط اور قلعہ بند شہر تھا۔
رومی فوج باہر آئی تو سپہ سالار نے اپنے خاص احکام سالاروں کو بھیج دیے جن کے مطابق لشکر دائیں بائیں پھیل گیا اور سامنے والے دستے سیدھے آگے گئے، رومیوں نے بھی یلغار جیسا حملہ کیا۔
پہلے دی ہوئی ہدایت کے مطابق درمیان والے مجاہدین کے دستے ذرا ذرا پیچھے ہٹنے لگے، جس سے رومیوں کو یہ تاثر ملا کہ مسلمان قدم جماکر لڑنے کے قابل نہیں رہے اور پسپا ہو رہے ہیں۔
رومی جرنیل بھی سمجھ نہ سکے کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے یہ چال چل کر رومی فوج اور اسکندریہ کی دیواروں کے درمیان خاصا فاصلہ پیدا کر لیا ہے، اور اس کا دوسرا فائدہ یہ حاصل کر لیا کہ دیوار سے منجنیقوں کی سنگ باری اور تیر اندازی بند ہوگئی ہے، وہ اس لئے کہ اب ان کے اپنے رومی پتھروں اورتیروں کی زد میں آتے تھے، لڑائی گتھم گتھا انداز کی ہو رہی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان عملی طور پر سامنے آ رہا تھا کہ اللہ جب چاہتا ہے کہ یہ کام ہوجائے تو اس کی ذات باری صرف اتنا اشارہ دیتی ہے ہوجا ،اور وہ کام ہو جاتا ہے۔
سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ وہ اس روز اسکندریہ میں داخل ہو سکیں گے، بلکہ رومی فوج کی افراط اور مجاہدین کی قلت بتا رہی تھی کہ مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے گا لیکن وہاں کچھ اور ہی ہو گیا۔
ہوا یہ کہ مجاہدین کو اس قسم کی لڑائی کا خاصا تجربہ ہو چکا تھا، سپہ سالار نے رومیوں پر دائیں اور بائیں پہلوؤں سے حملہ کرادیا اور اس کے ساتھ ہی حکم دیا کے پہلوؤں پر حملہ کرنے والے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کریں، سپہ سالار نے اپنے سامنے والے رومیوں کو لڑائی میں الجھائے رکھا۔
رومیوں کے پہلوؤں پر حملہ ہوا تو وہ بوکھلا گئے یہاں پھر وہی صورت پیدا ہو گئی کہ رومیوں کی فوج درمیان کی طرف سکڑنے لگی، اور اس طرح پیادہ سپاہی گھوڑوں کے درمیان کچلے جانے لگے، اس فوج کو معلوم ہی نہ ہو سکا کے مجاہدین ان کے عقب میں پہنچ گئے ہیں۔
رومیوں کے دفاع کا ایک ہی طریقہ تھا کہ شہر کے دروازے بند کر دیں لیکن انہوں نے دروازے اس لئے کھلے رکھے کہ مزید فوج باہر آرہی تھی، مجاہدین نے دروازوں پر ہلہ بول دیا سالاروں نے پہلوؤں کی طرف سے مزید دستے آگے بڑھا دیے اور مجاہدین دروازوں سے نکلتی ہوئی فوج کو برچھیوں اور تلواروں پر لیتے اندر جانے لگے اور کچھ دیر بعد مجاہدین کی اچھی خاصی تعداد شہر کے اندر چلی گئی۔
خاص طور پر ذہن میں رکھیں کہ مجاہدین گوشت پوست کے انسان تھے جن بھوت نہیں تھے، ان میں اگر کوئی اضافی طاقت تھی تو وہ جذبہ جہاد تھا، اور ایمان کی پختگی تھی، اور اللہ کی ذات باری پر پورا پورا یقین تھا، اس کے باوجود وہ تھے تو انسان ہی ان کے مقابلے میں اتنے کثیر تعداد رومی کس طرح بوکھلا گئے اور ان کے حوصلے پست ہو گئے؟،،،،،، اس میں انسانی نفسیات کی کمزوریوں کا ہاتھ تھا ایک یہ کہ رومی فوج پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی، اور فوجی تسلیم کرنے لگے تھے کہ واقعی مسلمانوں کے پاس کوئی غیبی طاقت ہے جو صرف جنات میں ہوتی ہے، تاریخ مرتب کرنے والے مؤرخوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس قدر کم تعداد مسلمانوں نے کس طرح اتنی بڑی فوج کو شکست دے دی۔
ایک تو یہ دہشت تھی جس نے رومی فوج کو نفسیاتی طور پر کمزور کر رکھا تھا اور اس فوج میں دوسری کمزوری یوں پیدا ہوئی کہ اتنے مضبوط قلعہ بند شہر میں وہ اپنے آپ کو پوری طرح محفوظ سمجھ رہے تھے اور بہادر بھی، اس شہر کو وہ ناقابل تسخیر سمجھتے تھے، لیکن جب انہیں ان مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں سے باہر کھلے میدان میں نکالا گیا تو ان کے حوصلے کمزور پڑ گئے ، وہ مسلمانوں کی بے جگری اور طوفانی یلغار کے آگے ٹھہرنہ سکے۔
مجاہدین اس فوج سے لڑتے لڑتے اندر چلے گئے جو باہر کی فوج کو مدد دینے کے لیے باہر آرہی تھی، مجاہدین کی مزید تعداد شہر میں داخل ہونے لگی، اور باہر لڑنے والے رومی سمجھ نہ پائے کہاں جائیں دروازوں پر مجاہدین قابض ہو چکے تھے اور مجاہدین کی کچھ نفری باہر بھی تھی جو ان رومیوں پر تابڑ توڑ وار کر رہی تھی ان رومی فوجیوں کا لڑنے کا جذبہ بالکل ہی بجھ کے رہ گیا۔
سالار بھی شہر کے اندر چلے گئے اور ان کے پیچھے باقی مجاہدین بھی شہر میں داخل ہوئے اور ایک معرکہ شہر کے اندر لڑا گیا۔
شہری پہلے ہی محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے وہ اپنی فوج کو ذرا سا بھی تعاون دینے سے گریز کررہے تھے، ان پر بھی تو مسلمانوں کا خوف طاری تھا رومی فوج لوگوں کے گھروں میں داخل ہو رہے تھے لیکن لوگ انہیں دھکیل کر باہر نکال دیتے تھے، یہ رومی فوج دراصل پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔
اس دن کا سورج غروب ہونے تک اسکندریہ کا پورا شہر مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا روم کا جھنڈا اتر گیا اور اسلامی پرچم لہرانے لگا۔
یہ ایک اور داستان ہے کہ اتنے بڑے شہر کا نظم و نسق کس طرح سنبھالا گیا اور کس طرح امن و امان قائم کیا گیا، یہ تو ہر شہر فتح کرنے کے بعد ہوتا تھا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ قیرس اور جنرل تھیوڈور نے عمرو بن عاص کے آگے ہتھیار ڈال کر درخواست کی کہ انہیں اپنی فوج کے ساتھ شہر سے نکل جانے کی مہلت دی جائے۔
عمرو بن عاص نے انہیں دو مہینوں کی مہلت دے دی لیکن ساتھ یہ کہا کہ کوئی فوجی یا فوج کا ایک بھی آدمی مصر میں نہ رہے سب جہازوں میں سوار ہوکر سمندر پار چلے جائیں۔
مصر پورے کا پورا فتح ہو گیا ،اور اتنا بڑا ملک سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا جو آج تک عالم اسلام کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسکندریہ فتح ہوتے ہی سپہ سالار عمرو بن عاص نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک نائب سالار معاویہ بن حدیج کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں اور امیر المومنین کو اسکندریہ کی فتح کی خوشخبری سنائیں۔ معاویہ نے پیغام لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا تو عمرو بن عاص نے کہا کہ کوئی تحریری پیغام نہیں۔ معاویہ حیران رہ گئے۔
کیا تم عرب نہیں ہو؟،،،،،، تاریخ کے مطابق عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ کیا تم زبانی پیغام نہیں پہنچا سکو گے جو تم نے دیکھا ہے وہ بیان کر دینا۔
مؤرخوں نے تاریخ میں عمرو بن عاص کے یہ الفاظ لکھیں ہیں اور بعض نے یہ رائے دی ہے کہ اسکندریہ کی فتح ایک لمبی کہانی تھی جو تحریر میں نہیں لائی جاسکتی تھی اس لیے انہوں نے معاویہ بن حدیج کو پیغام دینے کے لیے منتخب کیا تھا کہ ان کا لشکر میں عہدہ بھی تھا اور وہ ذہین بھی تھے۔
معاویہ روانہ ہوگئے اور بڑی ہی تیزی سے منزلیں طے کرتے مدینہ پہنچے، تاریخ کے مطابق وہ اس وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور امیرالمومنین کے دروازے پر پہنچے جب امیرالمومنین قیلولہ کیا کرتے تھے، دوپہر کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر آرام ضرور کرتے تھے۔ معاویہ نے دروازے پر دستک نہ دی اس کی بجائے دروازے کے باہر ہی بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک خادمہ باہر نکلی اس نے معاویہ کا حال حلیہ دیکھا اور انکی اوٹنی کو پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ شخص بڑے لمبے سفر سے آیا ہے۔
آپ کسی محاذ سے تو نہیں آئے؟،،،، خادمہ نے پوچھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کا ایلچی ہوں۔۔۔ معاویہ نے کہا۔۔۔ ابھی ابھی پہنچا ہوں، امیرالمومنین کے آرام کا وقت ہے ان کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہتا۔
خادمہ اندر چلی گئی اور فوراً ہی واپس آکر کہا کہ امیرالمومنین بلا رہے ہیں ،معاویہ فوراً اٹھے اور اندر چلے گئے۔
کیا خبر لائے ہو؟،،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال کیا۔
اللہ تعالی نے اسکندریہ ہمیں عطا فرما دیا ہے۔۔۔ معاویہ نے جواب دیا۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پیغام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو معاویہ بولے زبانی سناؤنگا۔
امیرالمومنین نے خادمہ کو بلایا اور کہا کہ معاویہ کے لیے فوراً کھانالائے۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو روٹی معاویہ کو کھلائی گئی وہ زیتون کے تیل میں تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ معاویہ کو مسجد میں لے گئے لوگوں کو مسجد میں بلانے کا طریقہ اذان ہوتا تھا۔ امیرالمومنین کے کہنے پر اذان دی گئی اور مدینہ کے لوگ بڑی تیزی سے مسجد میں آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسجد بھر گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے معاویہ سے کہا کہ اٹھو اور پیغام سناؤ۔
معاویہ بن حدیج نے اٹھ کر بلند آواز میں اسکندریہ کی فتح کی خبر سنائی اور پھر تفصیل سے سنایا کہ یہ شہر جو ہر پہلو سے ناقابل تسخیر تسلیم کیا جاتا تھا مجاہدین نے اتنی تھوڑی تعداد میں کس طرح فتح کیا۔
سننے والے آفرین آفرین اور داد و تحسین کے کلمے ہی بے ساختہ کہتے رہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور اسی وقت شکرانے کے دو نفل با جماعت پڑھائے۔
بلاذری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ شکرانے کے نفل پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ معاویہ کو اپنے گھر لائے اور اس وقت کھانا پیش کیا ،خادمہ کھانا لائی جس میں روٹی اور زیتون کا تیل تھا اور اس کے بعد کھجور کھانے میں رکھی گئی ،اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور معاویہ میں یہ مکالمہ ہوا۔
معاویہ!،،،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا۔۔۔ تم اتنی اہم خبر لائے تو دروازے کے باہر ہی کیوں بیٹھ گئے تھے۔
یا امیرالمومنین!،،،،،، معاویہ نے جواب دیا۔۔۔میں جانتا تھا کہ آپ اس وقت کچھ دیر کے لئے سوتے ہیں۔
نہیں معاویہ!،،،،،،، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ تم نے کسی سے غلط سنا ہے میں دن کو سو جاؤں تو رعایا کا نقصان ہوتا ہے، اور اگر رات کو سوؤں تو میرا اپنا نقصان ہوتا ہے، خلیفہ کو نیند کیسے آ سکتی ہے معاویہ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مصرفتح ہوگیا عریش سے اسکندریہ تک ہر چھوٹے بڑے قلعہ بند شہر پر اسلامی پرچم لہرا رہے تھے۔
فرعونوں کے دیس میں اذانیں گونجنے لگیں۔ فرعونوں کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں گزر گئیں تھیں لیکن رومیوں نے فرعونیت کو زندہ رکھا اور اپنے ہم مذہب اہل مصر کے دلوں میں اپنے خلاف نفرت کے بیج بوئے تھے۔
مدینہ میں خوشیاں منائی گئیں ۔امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت میں شکرانے کے نفل ادا کیے گئے سب سے زیادہ خوش امیرالمومنین تھے وہ تو ہر فتح پر سب سے زیادہ خوش ہوتے تھے کیونکہ ہر پیش قدمی اور جنگ انہی کے حکم سے ہوتی تھی، اور دل میں یہ خدشہ موجود رہتا تھا کہ کوئی حکم یا پلان غلط نہ ثابت ہو جس سے مجاہدین کو جانی نقصان اٹھانا پڑے، یہ بڑی ہی نازک ذمہ داری تھی جو فتح تک امیرالمومنین کو بے چین اور بے قرار رکھتی تھی، لیکن مصر کی فتح کا ایک پہلو اور بھی تھا۔
اس طویل داستان میں یہ پہلو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یاد دہانی کے لیے مختصر یوں ہے کہ عمرو بن عاص نے مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنے کا عہد کر لیا تھا اور یہ ان کی ایک ایسی خواہش بن گئی تھی کہ ان کے دل و دماغ پر غالب آ گئی تھی، لیکن انہوں نے ایسے وقت میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مصر پر فوج کشی کی اجازت کی درخواست کی تھی جب مجاہدین کا ایک لشکر کسریٰ ایران کی بڑی طاقتور اور اپنے سے کئی گنا زیادہ فوج کو فیصلہ کن شکست دینے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا، اور دوسرا لشکر اس وقت کی دوسری بڑی جنگی طاقت روم کی کثیر تعداد فوج کو شام سے بےدخل کر رہا تھا۔
یہ دو ایسے محاذ تھے جو سو فیصد توجہ یکسوئی اور غیرمعمولی قربانیوں کے طلب گار تھے، اس جنگی صورتحال میں تیسرا محاذ اور وہ بھی اتنی دور کھولنا بہت ہی خطرناک تھا، بزرگ صحابہ کرام عمرو بن عاص کی شدید مخالفت کر رہے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سب سے بڑھ کر مخالفت کرتے اور کہتے تھے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی طرح ایسے خطروں میں کود جاتے ہیں کہ پورے لشکر کو موت کے منہ میں ڈال دیتے ہیں، خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مصر پر فوج کشی کے حق میں نہیں تھے اور انہوں نے جس طرح عمرو بن عاص کو اجازت دی تھی وہ اس سلسلے میں پہلے بیان ہو چکی ہے۔
یہ تھا وہ دوسرا پہلو جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دوسری فتوحات کی نسبت زیادہ خوشی دے رہا تھا اور جو صحابہ کرام مصر پر حملے کے خلاف تھے وہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے کہ عمرو بن عاص نے اپنی ضد حیران کن کامیابی سے پوری کر دکھائی ہے ورنہ وہ سب تو بہت ہی پریشان تھے کہ مصر کا محاذ سارے لشکر کو ہی نہ لے ڈوبے۔
اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین سے جو اسی کی ذات باری پر توکل رکھتے تھے، اپنا یہ وعدہ پورا کردیا کہ ہم نے تمہیں کفار کی زمین اور ان کے خزانوں کا مالک بنا دیا، اور ہم نے تمہیں وہاں تک پہنچا دیا جہاں تک تم کبھی تصور میں بھی نہ پہنچے تھے۔
طلسم ہوشربا جیسا شہر اسکندریہ فتح ہو گیا۔
پورا مصر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہوگیا۔ بچی کھچی رومی فوج جہازوں پر سوار ہوئی اور بحیرہ روم پار کر گئی۔
اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مصر کی فتح مسلمانوں کا معجزہ تھا توقع تھی کہ رومی بزنطیہ میں اکٹھے ہو کر اور نئی فوج تیار کر کے مصر پر جوابی حملہ کریں گے لیکن سکڑی ہوئی سلطنت روم کے نئے بادشاہ کونستانس نے حکم جاری کر دیا کہ مصر پر جوابی حملہ نہیں کیا جائے گا اس کی بجائے جو علاقے سلطنت میں رہ گئے ہیں انھیں ناقابل تسخیر بنایا جائے گا۔
مؤرخوں نے اس حکم کی دو وجوہات لکھی ہیں، ایک یہ کہ رومی فوج کے جرنیل بھی کھسر پُھسر کرنے لگے تھے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی غیبی اور پراسرار طاقت ہے ورنہ ایسا ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ اتنے کم اور کمزور لشکر نے اتنی بڑی فوج کو کبھی شکست دی ہو ،اور وہ بھی ایسی فیصلہ کن شکست کے اتنے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرکے پورا ملک فتح کر لیا ہو۔
رومی نہیں جانتے تھے کہ مسلمان جس قرآن میں یقین رکھتے ہیں اس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے، اللہ ایمان والوں کو اسی طرح صلہ دیا کرتا ہے ،،،،،،،رومیوں کو معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں جو غیبی اور پراسرار طاقت ہے وہ اللہ پر ایمان ہے۔
بلا خوف و تردد کہا جاسکتا ہے کہ جواں سال شاہ روم کونستانس اور اس کے جرنیلوں کے دلوں میں بھی شمع رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم)کے پروانوں کی اگردہشت نہیں تو دھاک ضرور بیٹھ گئی تھی، اس لیے انہوں نے مصر کو اپنی سلطنت کے نقشے سے مٹا دیا، یوں شکست تسلیم کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ مصر پر جوابی حملہ کیا تو امکان یہی ہے کہ حملہ ناکام ہو جانے کی صورت میں مسلمان بحیرہ روم عبور کر کے آئیں گے اور رہی سہی سلطنت پر بھی ہاتھ صاف کر جائیں گے،
وہاں ایک خدشہ یہ بھی محسوس کیا جا رہا تھا کہ مسلمان مصر پر اپنا قبضہ مستحکم کرکے بزنطیہ پر حملہ کریں گے ،چنانچہ اس خدشے کے پیش نظر انہوں نے بزنطیہ اور دیگر شہروں کا دفاع مضبوط کرنا شروع کردیا تھا۔
فتح مصر کی ولولہ انگیز اور ایمان افروز داستان جہاد سنائی جاچکی ہے، اس کے بعد کی کچھ دلچسپ باتیں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، ایک بات یہ کہ عمرو بن عاص کا بحیرہ روم عبور کرنے کا ارادہ تھا ہی نہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ابھی جہاز رانی اور سمندری لڑائی کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، پھر ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مصر کے ساحل پر جتنے بھی بحری جہاز اور بڑی بادبانی کشتیاں موجود تھیں وہ سب مصر سے جانے والی رومی فوج اور دیگر شہری لے گئے تھے، عمرو بن عاص نے شمالی افریقہ آج کے لیبیا کی طرف رخ کر لیا۔
فتح مصر صرف رومیوں کی شکست نہیں تھی بلکہ یہ عالم صلیب کی بہت بڑی شکست تھی، اہل صلیب تو اسلام کا بھی نام و نشان مٹا دینا چاہتے تھے، لیکن اہل اسلام نے معجزہ کر دکھایا انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا جس سے اہل صلیب کو یہ خیال آیا کہ ان کے اپنے لوگ سمجھنے لگے گے کہ اسلام اللہ کا سچا دین ہے اس لئے اللہ نے ان کی مدد کی ہے اور پھر یہ بات آنے والی نسلوں تک بھی پہنچے گی، اور یہ عیسائیت کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہوگی، چنانچہ عیسائی مورخوں نے تاریخی حقائق کو ہی مسخ کرڈالا حادثہ یہ ہوا کہ صدیوں بعد کے بعض مسلمان تاریخ نویسوں نے انہیں کے حوالوں سے فتح مصر کی وہ تاریخ پیش کی ہے جو مفروضوں پر اور مسخ شدہ واقعات پر مبنی ہے۔
ان عیسائی مؤرخوں میں الفریڈ بٹلر خاص طور پر قابل ذکر ہے، حوالے دے کر تاریخ مرتب کرنے والوں نے سب سے زیادہ اسی کے حوالے دئے، اور مستند بھی کہا ہے، لیکن بٹلر نے اسلام کے خلاف تعصب کے اظہار میں تاریخی حقائق کو بڑی بے رحمی سے مسخ کیا اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے ،اس نے فتح مصر خصوصا فتح اسکندریہ کو ایسے بیان کیا ہے جیسے رومیوں نے اسکندریہ پلیٹ پر رکھ کر عمرو بن عاص کو بصد عزت و احترام پیش کیا اور خود جہازوں میں بیٹھے اور بزنطیہ چلے گئے۔
بٹلر جھوٹ یہ بول رہا ہے کہ مسلمان لڑے نہیں اور انہیں اسکندریہ بغیر لڑے مل گیا۔
ہٹلر کی کتاب ،،،،،"مصر میں عربی فتوحات"،،،،،،، کا عربی ترجمہ ایک عرب اسکالر استاد محمد فرید ابوعدید نے کیا ہے، اس کے صفحہ 288 پر بٹلر فتح اسکندریہ کو صرف اتنی سی تحریر پر ختم کردیتا ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں سے شکست نہیں کھائی تھی اور برائے مصلحت ان کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔
پھر بٹلر اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے لکھتا ہے۔۔۔۔ عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ ابھی بابلیون میں ہی تھے۔ قیرس تسلیم و اطاعت کا تحریری عہد نامہ لیے بابلیون گیا اور یہ عہد نامہ عمرو کو پیش کرکے کہا کہ خدا نے مصر کی زمین تمہیں عطا کردی ہے اسکندریہ لے لو اور رومیوں پر تلوار نہ اٹھانا،،،،، اس طرح صلح نامہ تیار ہو گیا اور عربوں نے جاکر اسکندریہ پر قبضہ کر لیا۔
اگر آپ نے یہ داستان غور سے پڑھی ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ جن دنوں عمرو بن عاص بابلیون میں تھے ان دنوں قیرس مصر میں تھا ہی نہیں وہ بحیرہ روم کے پار کہیں جلاوطنی میں تھا، ہرقل کا بیٹا قسطنطین ابھی زندہ تھا اور وہ قیرس کو جلاوطنی سے واپس بلا رہا تھا ،پھر دیکھئے بٹلر اپنی دروغ گوئی کو کس طرح آگے بڑھاتا ہے اپنی اسی کتاب میں لکھتا ہے، قیرس صلح کا یہ معاہدہ اسکندریہ لے گیا اپنی فوج کے جرنیلوں کو معاہدہ دکھایا اور شہر کے لوگوں میں بھی اس کی تشہیر کر دی کوئی بھی نہیں مان رہا تھا قیرس نے جرنیلوں سے تو منوا لیا لیکن شہر کے لوگ اس معاہدے کو اپنی ذلت کا باعث سمجھ کر قیرس کے خلاف بھڑک اٹھے،،،،،،،
لوگ اس وقت تو بہت ہی غضبناک ہو گئے جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت گھوڑوں پر سوار شہر میں آ گئی ہے اور ایسی بے نیازی سے چلی آ رہی ہے جیسے یہ شہر عربی مسلمانوں کا اپنا ہو، کچھ لوگ ان پر لعن طعن کرنے لگے اور بہت شور و غل باپا کیا لیکن یہ مسلمان گھوڑسوار ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے،،،،،،،،
شہر کے لوگوں کو معلوم تھا کہ ان کے اسقف اعظم قیرس نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے لیکن لوگوں کو یہ گمان نہیں تھا کہ مسلمان اس شاہانہ انداز سے شہر میں آجائیں گے، شہر کے ان بھڑکے بپھرے ہوئے لوگوں نے اس محل پر دھاوا بول دیا جس میں قیرس رہتا تھا وہ قیرس کو قتل کردینے کے نعرے لگا رہے تھے،،،،،،،،
اس شور و غل پر قیرس باہر نکل آیا اس کی شخصیت کا ایک خاص تاثر تھا وہ خوش گفتار بھی تھا اور اس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ تھا، اور وہ سب سے بڑا مذہبی پیشوا بھی تھا، اس لیے لوگ اس کے جاہ و جلال سے فوراً متاثر ہو جاتے تھے، وہ شور و غل سن کر باہر آیا تو لوگوں کا غیض و غضب دیکھ کر گھبرایا، اس نے تقریر شروع کردی، قوت استدلال سے تو وہ مالا مال تھا اس نے ایسی پر اثر تقریر کی کہ لوگ نہ صرف یہ کہ ٹھنڈے ہو گئے بلکہ ایک دوسرے کو کوسنے لگے کہ انہوں نے اپنے مقدس بطریق اسقف اعظم کی توہین کر دی ہے،،،،،،،،،،،
لوگ واپس چلے گئے معاہدے کے مطابق مسلمانوں نے جو جزیہ عائد کیا تھا وہ رقم گھروں سے لے آئے اور قیرس کے حوالے کردیں، اس کے علاوہ انہوں نے خاصا زیادہ سونا اکٹھا کیا اور یہ رقم اور سونا ایک کشتی میں رکھا شہر کے اندر سے ایک نہر گزرتی تھی کشتی اس میں کھڑی تھی یہ کشتی جنوبی دروازے سے باہر نکلی قیرس خود ساتھ گیا اور یہ مال سپہ سالار عمرو بن عاص کے حوالے کیا اور اس طرح اسکندریہ کی فتح اختتام کو پہنچی۔
یہ ہے وہ جھوٹ جو اہل صلیب مؤرخوں نے تاریخ میں شامل کرکے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی ہے کہ مصر کی فتح اور وہاں سے رومیوں کا انخلا مسلمانوں کی شجاعت اور ایمان کی قوت کا کرشمہ ہے۔
حقیقت اس داستان میں تفصیل سے بیان کر دی گئی ہے جو یہ کہ مصر بزور شمشیر فتح کیا گیا تھا اور جو معاہدہ ہوا تھا وہ رومیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہوا تھا، اس میں اہل اسکندریہ پر جزیہ عائد کیا گیا تھا جو دو دینار فی کس تھا۔ یہ صرف بالغ اور صحتمند مردوں پر عائد ہوا تھا، عورتیں، بچے، بوڑھے ،معذور، بے روزگار ،فقیر، مساکین ،اور دوسروں کے محتاج جزیہ سے مستثنی تھے۔
ایلفریڈ بٹلر اور اس کی ذہنیت والے دوسرے مؤرخوں نے قیرس کو بڑا ہی بھلا مذہبی پیشوا ظاہر کیا ہے کہ اس نے بڑی شرافت سے اسکندریہ مسلمانوں کو پیش کردیا تھا لیکن تاریخ نے قیرس کی اصل ذہنیت بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ تو آپ نے اس داستان میں پڑھ لیا ہے کہ قیرس نے درپردہ ہرقل کی بیوہ مرتینا کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی، مرتینا کے ساتھ اسکے ناجائز مراسم تھے، وہ بزنطیہ سے مرتینا کے ساتھ یہ پلان بنا کر آیا تھا کہ مصر سے مسلمانوں کو نکال باہر کرے گا اور مرتینا کو مصر بلا کر اسے مصر کی ملکہ بنا دے گا، اور مرتینا اپنے بیٹے ہرقلیوناس کے ساتھ مصر میں خودمختاری کا اعلان کردے گی۔
مصر میں وہ آیا تو جہاں بہت سے مبلغ ساتھ لایا وہاں خفیہ طور پر ایسے آدمی بھی ساتھ لایا تھا جو زمین دوز اور پراسرار طریقوں سے بڑے اونچے درجوں کی شخصیتوں کے قتل میں مہارت رکھتے تھے، مصر میں اس نے ایک طرف مبلغوں کو شہروں اور دیہات میں پھیلا دیا تھا کہ وہ عیسائیوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مشتعل کریں، دوسری طرف اس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو قتل کروانے کا کام پیشہ ور قاتلوں کے سپرد کردیا۔
اس کا یہ مشن جس بری طرح ناکام ہوا وہ سنایا جاچکا ہے، اس کے مبلغ پادری بھی کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے، قبطی عیسائی قیرس کو پسند نہیں کرتے تھے وہ تو خوش تھے کہ مصر رومیوں کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ،قیرس دراصل ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا تھا، اس کا شاید اسے خود بھی احساس تھا، اس لیے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا تھا۔ اس نے ایک اور حربہ استعمال کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے بڑا مذہبی پیشوا ہوتے ہوئے اسے مذہب کا کتنا کچھ پاس تھا۔
اس نے مصر میں آتے ہی بہت سی تربیت یافتہ جوان سال اور بڑی ہی خوبصورت لڑکیاں اسکندریہ میں اپنے پاس اکٹھی کر رکھی تھیں اور ایک اور ہی ٹریننگ دینی شروع کردی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی