🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➐➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تیروں اور پتھروں سے بچنے کے لیے مجاہدین نے یہ طریقہ بھی اختیار کیا کہ بڑی ہی تیزی سے رومیوں پر جھپٹ پڑے لڑائی کی صورت ایسی پیدا ہوگئی کہ کسی بھی منجنیق کا کوئی ایک پتھر بھی نہ آیا اور تیر اندازی بھی خاصی کم رہی ،کیونکہ ان کے اپنے ہی فوجی زد میں آتے تھے۔
اس روز واقعی رومی لڑنے کے ارادے سے نکلے تھے وہ یہ احساس بھی رکھتے تھے کہ اسکندریہ گیا تو پورا مصر گیا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ فوج کو شراب پلا کر باہر بھیجا گیا تھا، بہرحال فوج پورے جذبے اور جوش سے لڑ رہی تھی مجاہدین کو عمرو بن عاص نے بڑی مہارت سے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا تاکہ جس چال اور ترتیب سے وہ حملہ کرنا چاہتے تھے اس میں ذرا سی بھی گڑبڑ نہ ہو ،کوشش یہ تھی کہ قلعے میں داخل ہوا جائے، اس کا مجاہدین کو خاصا تجربہ حاصل ہو چکا تھا مجاہدین کا زیادہ دباؤ رومیوں کے اس پہلو پر تھا جس پہلو پر صدر دروازہ تھا۔
دروازے تو اور بھی تھے لیکن ابھی رومی فوج ان کے آگے حائل تھی ، عمرو بن عاص نے دوسرے پہلو پر حملہ کروا دیا اس طرح رومی پہلوؤں کی طرف سے سکڑتے گئے اور ایک گھنے ہجوم کی صورت اختیار کر گئے، ان کے پیادے گھوڑ سواروں کی لپیٹ میں آنے لگے اور ان میں جو گر پڑتا تھا وہ گھوڑوں کے قدموں تلے کچلا جاتا تھا ، سپہ سالار نے رومیوں کو اور زیادہ بے حال اور مجبور کرنے کے لیے اپنے محفوظہ کے دستوں میں سے ایک دستہ آگے کردیا کہ وہ سامنے کے رومیوں پر ٹوٹ پڑیں، دائیں بائیں سے تو رومیوں پر خاصا دباؤ پڑ رہا تھا۔
اس کا نتیجہ خاطر خواہ نکلا رومیوں کی چیخ و پکار نے اندر والوں کو مجبور کردیا کہ اس طرف سے بھی دروازے کھول دیں، اس وقت رومیوں کی دراصل ضرورت یہ تھی کہ اندر سے مزید فوج باہر بھیجی جائے جو مجاہدین کو پسپا کر دے، لیکن دروازے کھلے تو گھوڑ سوار رومی اندر جانے لگے اس طرح انہوں نے اندر سے آنے والوں کا راستہ روک لیا ، مجاہدین اس دیوار کے قریب چلے گئے تھے کہ اوپر سے تیر آتے تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے، سپہ سالار نے اپنے تیر اندازوں کو ایسے مقام پر مورچہ بند کر دیا تھا جہاں سے ان کے تیر بڑی آسانی سے دیوار پر پہنچ جاتے تھے اور رومی تیر انداز اور منجنیقوں کے آدمی زخمی ہو کر وہاں سے ہٹ رہے تھے۔
اس خونریز معرکے میں ذاتی شجاعت کے بڑے ہی کارنامے ہوئے ،اس روز مجاہدین کا جوش و خروش انتہا سے بھی آگے نکل گیا تھا، وہ طویل محاصرے سے تنگ آئے ہوئے تھے اور پھر امیر المومنین نے ان کی نیتوں پر شک کا اظہار کیا تھا ان میں کچھ اس قسم کا احساس پایا جاتا تھا کہ امیرالمومنین ناراض ہیں تو سمجھو اللہ بھی ناراض ہے۔
تمام سالار پوری حاضر دماغی سے کام لے رہے تھے، اسوقت تک انہیں رومیوں کی کمزوری کا پتہ چل چکا تھا، آخر رومی اپنی جان بچانے کے لئے لڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی وہ کھلے دروازوں سے اندر جانے لگے، رومی اس قدر خوفزدہ ہوچکے تھے کہ انھیں صدر دروازہ بند کرنے کی بھی ہوش نہ رہی، ایک تو ان کی ضرورت تھی کہ یہ دروازہ کھلا رہے کیونکہ باہر کے فوجی اندر جا رہے تھے اور اندر سے فوجی باہر آنے کی کوشش میں تھے۔
اس ہڑبونگ اور خونریزی میں مجاہدین قلعے میں داخل ہو گئے، قلعے میں داخل ہونے والوں میں سپہ سالار عمرو بن عاص بھی تھے اور مسلمہ بن مخلد بھی، مجاہدین نے جب دیکھا کہ ان کے سپہ سالار اور سالار بھی قلعے میں چلے گئے ہیں تو انہوں نے بڑا زور دار ہلہ بولا اور قلعے میں داخل ہوگئے وہ اس خطرے کے پیش نظر جانوں کی بازی لگا کر قلعے میں داخل ہوئے تھے کہ ان کے سپہ سالار اور ایک دو سالار اندر چلے گئے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ رومی انہیں گھیر کر کاٹ پھینکیں گے۔
یہ خبر تمام تر لشکر میں پھیل گئی کے سپہ سالار قلعے میں داخل ہوگئے ہیں اس سے مجاہدین کے جوش و خروش میں مزید اضافہ ہو گیا ،ان سالاروں کو جو ابھی باہر تھے یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ سپہ سالار اور جو سالار اندر چلے گئے ہیں زندہ پکڑے جائیں گے۔ مجاہدین پکڑے جانے کی بجائے جان دے دینا بہتر سمجھتے تھے، سپہ سالار کا زندہ گرفتار ہو جانا پورے لشکر کے لئے بڑا ہی نقصان دہ تھا۔
مسلمانوں کے ہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ کمانڈر پکڑا جاتا تو پورا لشکر بھاگ اٹھتا، مسلمانوں کا انداز اور طور طریقہ یہ تھا کہ سپہ سالار کے شدید زخمی شہید ہو جانے کی صورت میں کوئی دوسرا سالار کمان لے لیتا اور لشکر کی قیادت میں ذرا سا بھی فرق نہیں آتا تھا ،پھر بھی عمرو بن عاص جیسے سپہ سالار کا دشمن کے ہاتھ چڑھ جانا کوئی اچھی بات نہیں تھی، تاہم مجاہدین پر اس کا یہ اثر نظر آیا کہ جہاں جہاں سپہ سالار کے اندر چلے جانے کی خبر پہنچی اور ساتھ یہ خطرہ محسوس ہوا کہ وہ زندہ نہ پکڑے جائیں مجاہدین کا جوش و خروش اس قدر زیادہ ہو گیا جیسے وہ ان دیواروں کو ہاتھوں سے گرا کر اندر چلے جائیں گے اور اپنے سپہ سالار کو زندہ و سلامت دیکھیں گے۔
مجاہدین اسی جوش و خروش سے اندر گئے تو یوں لگتا تھا جیسے خاک و خون کا طوفان آ گیا ہو، ان کے سامنے جو آیا وہ کٹ کر گرا اور تڑپنے لگا لیکن اندر رومی فوج کی تعداد مجاہدین کی نسبت بہت ہی زیادہ تھی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ایسا بھڑکایا اور گرمایا کے رومی بھی جوش اور بڑے ہی مضبوط حوصلے کے ساتھ مجاہدین پر جھپٹ پڑے جرنیل للکار رہے تھے کہ یہ بہت ہی تھوڑے ہیں انھیں گھیر کر ختم کر دو۔
شہر کی عورتیں بھی اپنے فوجیوں کو للکار اور گرما رہی تھیں، پھر یوں ہوا کہ رومیوں نے تمام دروازے بند کر دیے مجاہدین کی بیشتر نفری باہر ہی رہ گئی۔ تاریخ اس معرکے کو یوں بیان کرتی ہے کہ اندر والے مجاہدین لڑ رہے تھے اور دروازوں کی طرف اس لئے ہٹ رہے تھے کہ دروازہ پھر کھول دیں۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ ایک دروازہ کس طرح کھل گیا ،توقع تو یہ تھی کہ اس دروازے سے مجاہدین اندر چلے جائیں گے لیکن اس دروازے پر اتنے زیادہ رومی تھے کہ باہر سے کوئی اور مجاہد اندر نہ جا سکا بلکہ اندر والے مجاہدین پر اتنا دباؤ پڑا کہ اس دروازے سے باہر آ گئے اور دروازہ پھر بند ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
غیرمسلم مؤرّخوں نے جن میں بٹلر خاص طور پر قابل ذکر ہے اور تمام مسلمان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاہدین تو باہر آ گئے لیکن چار مجاہدین اندر ہی رہے ان میں سپہ سالار عمرو بن عاص تھے اور سالار مسلمہ بن مخلد بھی تھے ،اور دوسرے دو مجاہدین تھے یہ چاروں ایسی دیوانگی کے عالم میں لڑ رہے تھے کہ کوئی بھی رومی ان کے قریب آنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا، اتفاق دیکھئے کہ عمرو بن عاص کو کوئی رومی نہیں پہچانتا تھا کسی رومی جرنیل کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان چار مجاہدین میں ایک سپہ سالار عمرو بن عاص ہیں، اور ایک اور سالار بھی ہے ،اگر انہیں پتہ چل جاتا تو وہ جانیں لڑا کر ان دونوں سالاروں کو زندہ پکڑ لیتے اور پھر صلح کی اپنی شرائط مسلط کرتے۔
اسقف اعظم قیرس نے تو عمرو بن عاص کو قتل کروانے کے لئے خزانہ لٹا دیا تھا اگر عمرو بن عاص اس کے ہاتھ چڑھ جاتے یا اسے معلوم ہوتا کہ ان چاروں میں یہ شخص عمرو بن عاص ہے تو وہ انہیں فوراً قتل کروادیتا اس کا خیال یہ تھا کہ سپہ سالار ختم ہو جائے تو اس قلیل سے لشکر سے مصر چند دنوں میں واپس لیا جاسکتا ہے، پتہ یہ چلتا ہے کہ روم کے حکمران حلقوں میں عمرو بن عاص ایک دہشت کا نام بن گیا تھا۔
یہ بھی اللہ کی مدد تھی کہ عمرو بن عاص کو وہاں کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا یہ چاروں لڑتے رہے اور رومی انہیں عام سے قسم کے یا سپاہیوں کی حیثیت کے مجاہد سمجھتے رہے، رومیوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ قلعہ محفوظ ہے اور مسلمانوں کو باہر دھکیل دیا گیا ہے۔ اور دیواروں سے تیر انداز انہیں اور دور ہٹا چکے ہیں تو رومی ہنسی مذاق کے موڈ میں آ گئے، اتنی بڑی فوج کے لیے چار آدمیوں کو پکڑنا یا تلواروں اور برچھیوں سے مار ڈالنا کوئی بڑی بات تھی ہی نہیں، چاروں اس طرح لڑ رہے تھے کہ انہوں نے پیٹھ جوڑی ہوئی تھی اور رومی فوجی انہیں گھیرے میں لیے ہوئے آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے، کسی طرف سے بھی ان پر کوئی وار کارگر نہیں ہوتا تھا یہ سب جانتے تھے کہ ان پر ہر طرف سے تیر چلائے جائیں گے اور یہ ڈھیر ہو جائیں گے لیکن ایک جرنیل کو کوئی اور ہی خیال آ گیا۔
اس جرنیل نے اپنے ان آدمیوں کو پیچھے ہٹ آنے کا حکم دیا جو ان چاروں کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اب صورت یہ تھی کہ یہ چاروں اکٹھے کھڑے تھے۔ اور ذرا دور ہٹ کر رومی فوجی اور شہری دائرے میں یوں کھڑے تھے جیسے تماشائی دنگل دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔
ٹھہر جاؤ!،،،،،، یہ جرنیل ان مسلمانوں کے قریب آیا اور بولا ۔۔۔تمھارے لشکر نے ہمارے کچھ آدمی قید کر لیے ہیں ہم تمہیں دیوار پر لے چلتے وہاں سے اپنے سپہ سالار سے کہو کہ وہ ہمارے آدمیوں کو چھوڑ دے اور ہم تم چاروں کو عزت سے رخصت کر دیں گے ۔
عمرو بن عاص نے اپنا چہرہ اس طرح چھپا لیا تھا کہ انکی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ انہیں کسی نے پہچانا نہیں انہوں نے جرنیل کی یہ شرط ماننے سے انکار کردیا۔
ہم کسی شرط پر ہتھیار نہیں ڈالا کرتے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ہم جانیں دے دیتے ہیں اور اللہ کے حضور سرخرو ہو جاتے ہیں۔ اگر تم اسے بہادری سمجھتے ہو کہ پوری فوج چار آدمیوں کو قتل کرنے کی کوشش میں لگا دی جائے تو ہم اصل بہادری دکھائیں گے۔ تمہاری پوری فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے جانیں دے دیں گے۔
یہ جرنیل رومی تھا اور رومی بلاشک وشبہ جنگجو قوم تھی عمرو بن عاص کی اس بات نے اس کے دل پر بڑا ہی گہرا اثر کیا اس نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ یہ کوئی بہادری نہیں کہ چار آدمیوں کو پکڑنے یا مارنے کے لیے اس نے پوری فوج کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ وہ گہری سوچ میں کھو گیا۔
پھر میری ایک شرط مان لو۔۔۔ جرنیل نے کہا۔۔۔ میں ایک آدمی باہر نکالتا ہوں اور تم میں سے کوئی آدمی اس کا مقابلہ کرو اگر میرے آدمی نے تمہارے آدمی کو مار دیا تو پھر ہم باقی تینوں کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں گے ،اور اگر تمہارے آدمی نے میرے آدمی کو مار ڈالا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں قلعے سے نکال دوں گا تم آزاد ہو گے۔
چاروں نے یہ شرط مان لی اور کہا کہ تم میں سے جو سب سے زیادہ قوی ہیکل شہ سوار اور مانا ہوا بہادر ہے اسے سامنے لاؤ۔
جرنیل گیا اور مقابلے کے لئے کسی کو منتخب کرنے لگا، ادھر مسلمہ بن مخلد نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ اس رومی کا مقابلہ کریں گے،،،،،،، عمرو بن عاص اور مسلمہ بن مخلد کے درمیان جو مختصر سا مکالمہ ہوا وہ تاریخ کے دامن میں لفظ با لفظ آج تک محفوظ ہے وہ یوں ہے۔
سوچ لو مسلمہ!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا تم پہلے بھی شرمسار کرا چکے ہو، ایک رومی نے تمہیں گھوڑے سے گرا دیا تھا ایک مجاہد نے تمہیں بچا لیا اب پھر تم مقابلے کے لئے اترنا چاہتے ہو۔
میرے محترم سپہ سالار!،،،،،، مسلمہ نے کہا۔۔۔ میں اپنی اس غلطی کی تلافی کرنا چاہتا ہوں، میں مارا گیا تو مجھے بخش دینا لیکن مجھے اس موقع سے محروم نہ کریں۔
دراصل عمرو بن عاص خود رومی کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن مسلمہ بن مخلد نے ایسے انداز سے اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ عمرو بن عاص خاموش ہوگئے اور انھیں لڑنے کی اجازت دے دی۔
ادھر سے جو رومی مقابلے کے لیے نکلا وہ خود تو قوی ہیکل تھا ہی لیکن اس کا جنگی گھوڑا اتنا زبردست تھا جیسے اس کے قابو میں ہی نہ آرہا ہو ،وہ جب چلتا اور دوڑتا تھا تو زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی ،اس کے ہاتھوں میں برچھی تھی لیکن مسلمہ بن مخلد کے پاس تلوار تھی، برچھی اور تلوار کا کوئی مقابلہ نہ تھا مسلمہ اللہ کا نام لے کر اس کے مقابلے کو نکل گئے۔
دونوں گھوڑے کچھ دور چلے گئے رکے اور پیچھے کو مڑے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف گھوڑے دوڑائے رومی نے برچھی آگے کر رکھی تھی، مسلمہ نے تلوار تانی ہوئی تھی لیکن بیشتر اس کے کہ تلوار برچھی والے کے جسم تک پہنچتی سکتی یا برچھی تلوار والے کے جسم میں داخل ہو چکی ہوتی ، وہاں تو کوئی کارآمد پینترا ہی کام آسکتا تھا یا اللہ کا خاص کرم مطلوب تھا ۔
گھوڑے ایک دوسرے کے بالکل قریب آئے تو مسلمہ یکلخت بائیں کو یوں ہوگئے جیسے گھوڑے سے گرنے لگے ہوں اس سے یہ ہوا کہ رومی کی برچھی جس کا نشانہ مسلمہ کا سینہ یا پیٹ ہوسکتا تھا ان کے جسم کے اوپر سے گزر گئی۔
مسلمہ نے فوراً گھوڑے کی باگیں کھنچی اور اسے وہیں روک لیا ،وہیں سے پیچھے کو موڑا رومی ابھی گھوڑے کو روک رہا تھا اسے بھی پیچھے کو مڑنا تھا ،لیکن مسلمہ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا بے حد تیز ہوگیا پیشتر اس کے کہ رومی اپنا گھوڑا پوری طرح موڑ سکتا اور دوڑاتا مسلمہ اس تک پہنچ چکے تھے اس نے مسلمہ کو دیکھ لیا انہیں مارنے کے لئے برچھی اوپر اٹھائی ہی تھی کہ مسلمہ کی تلوار برچھی کی طرح اٹھے ہوئے بازؤں کے نیچے رومی کی بغل میں اتنی زور سے اتری کے سینے کے اندر چلی گئی رومی کا وہ بازو نیچے ہوا اور ہاتھ سے برچھی چھوٹ کر زمین پر جا پڑی ،مسلمہ ذرا آگے جا کر گھوڑے کو پھر اسی تیزی سے موڑ لائے، رومی ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ مسلمہ کی تلوار پرچھی کی ہی طرح اس کی پیٹ میں اتر گئی۔
مسلمہ اب کے گھوڑا ذرا چکر میں لےجاکر موڑا، انہیں یقین ہو گیا تھا کہ انہوں نے رومی کو مار لیا ہے رومی کی حالت اب یہ تھی کہ وہ دائیں طرف کو جھک گیا تھا اور جس بازو کی طرف تلوار سینے میں اتری تھی وہ بازو بے جان سا ہو کر نیچے لٹک رہا تھا ،مسلمہ سامنے سے آ کر اس بازو والے کندھے پر اتنی زور سے تلوار کا وار کیا کہ بازو آدھے سے زیادہ کٹ کر جسم سے الگ ہو گیا لیکن کندھے کے ساتھ لٹکتا رہا ،مسلمہ نے فاتحانہ انداز سے گھوڑا تماشائیوں کے قریب لےجاکر چکر میں موڑا اور چکر پورا کیا، رومی گھوڑے سے گر پڑا تھا اور اس کا ایک پاؤں رکاب میں آگے چلے جانے کی وجہ سے رکاب میں پھنسا رہا اور گھوڑا آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسے گھسیٹتا رہا، مسلمہ نے دیکھ لیا انہوں نے پیچھے سے آ کر رومی کے گھوڑے کی پیٹھ میں تلوار زور سے چبھوئی تو گھوڑا بدک کر دوڑنے لگا اور مرتے ہوئے رومی کو گھسیٹا پھرا۔
مسلمہ بن مخلد نے مقابلہ جیت لیا تھا، یہ خاص طور پر پیش نظر رکھنے والی بات ہے کہ یہ گھوڑا مسلمہ کا اپنا نہیں تھا، وہ تو پیادہ قلعے میں داخل ہوئے تھے، رومی جرنیل نے انہیں کہا تھا کہ وہ اپنے لئے گھوڑا خود منتخب کر لے، جو انہوں نے کر لیا تھا ،وہ اس گھوڑے کے لیے اور گھوڑا ان کے لیے اجنبی تھا، گھوڑا اپنا ہو تو وہ اپنے سوار کے اشارے بھی سمجھتا ہے لیکن مسلمہ نے اس اجنبی گھوڑے کو بھی ایسا قابو میں رکھا کہ ان کے اشاروں پر چلتا رہا ۔
عمرو بن عاص اور ان کے ساتھی میدان میں آئے ادھر سے مقابلہ کرنے والا جرنیل آیا۔ عمرو بن عاص کو توقع نہیں تھی کہ رومی جرنیل اپنا وعدہ پورا کر ے گا۔
اسے اپنے لوگوں کو اور فوج کو تماشا دکھانا تھا جو وہ دکھا چکا تھا۔
اے روم کے جرنیل !،،،،،عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم ایک جنگجو قوم کے جرنیل ہو اور جنگجو قوم وعدہ خلافی نہیں کیا کرتی کیا تمہارے وعدے کے مطابق ہم آزاد ہیں؟
ہاں!،،،،، جرنیل نے کہا ۔۔۔میں وعدہ خلافی نہیں کرونگا میں یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ میں تمہاری بہادری کا قائل ہو گیا ہوں، جاؤ تم آزاد ہو۔
مسلمہ بن مخلد گھوڑے سے اتر آئے تھے چاروں چل پڑے رومی جرنیل نے انہیں روک کر مسلمہ سے کہا کہ یہ گھوڑا اپنے ساتھ لیتے جاؤ ۔مسلمہ نے کہا۔۔۔ ہم یوں کسی سے انعام وصول نہیں کیا کرتے۔ ہم لڑتے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور مال غنیمت خود ہی لے لیا کرتے ہیں، میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم نے میری قدر کی۔
تماشائیوں نے ان چاروں کو جانے کا راستہ دے دیا چاروں باہر نکلے تو کچھ دور جاکر عمرو بن عاص رک گئے اور بے اختیار مسلمہ بن مخلد کو گلے لگا لیا ۔
مسلمہ!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تم وہ مقابلہ ہارے تھے تو میں نے تم پر طنز کی تھی آج تم نے میری وہ ناراضگی دھو ڈالی ہے۔ مجھے ایسے کلمے نہیں کہنے چاہیے تھے ،میں نے زندگی میں تین غلطیاں کی ہے، دو زمانہ جاہلیت میں جب میں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور تیسری غلطی یہ کہ تم جیسے بہادر پر طنز کیا تھا خدا کی قسم اب ایسی چوتھی غلطی نہیں کروں گا۔
قلعے سے کچھ دور مجاہدین کا لشکر بے تاب تھا اور اس بے تابی میں پریشانی کا عنصر زیادہ تھا، لشکر کی قیادت ایک اور سالار نے سنبھال لی تھی لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا اور پیچیدہ مسئلہ یہ تھا کہ قلعے پر ایک بار پھر یلغار کی جائے یا انتظار کیا جائے۔ سارے لشکر کو توقع یہی تھی کہ سپہ سالار، مسلمہ بن مخلد اور دونوں مجاہدین پکڑے گئے اور قتل بھی کیے جاچکے ہونگے، انہوں نے جب ان چاروں کو قلعے سے آتے دیکھا تو سب حیرت زدہ ہو کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انہیں دیکھنے لگے جیسے انہیں کوئی نظری دھوکا ہو رہا ہو، چاروں لشکر کے قریب آئے تو لشکر سے بے ساختہ تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے۔
اسلام کے پاسبانو!،،،،، عمرو بن عاص نے بڑی ہی بلند اور جوشیلی آواز میں لشکر سے کہا۔۔۔ اسکندریہ ہمارا ہے ،دو چار روز پہلے اللہ نے مجھے قاتلوں سے بچایا اور اب ہم قلعے کے اندر پھنس گئے تو بھی اللہ نے ہمیں زندہ و سلامت باہر نکال دیا ہے ،یہ اللہ کے اشارے ہیں مجھے اللہ نے اسکندریہ کی فتح کا فرض سونپ کر زندگی عطا فرمائی ہے۔ اس کے فوراً بعد عمرو بن عاص نے سالاروں کو اپنے خیمے میں لےجاکر اسکندریہ پر ایک اور یلغار کا پلان بنانا شروع کردیا انہوں نے کہا کہ اب مزید انتظار نہیں کیا جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس خونریز معرکے میں جو لڑا جا چکا تھا مجاہدین نے چند ایک رومی فوجیوں کو پکڑ لیا اور ساتھ لے آئے تھے، جنگی قیدیوں سے عموماً ان کی فوج کے متعلق معلومات لی جاتی تھی ،ان سے بھی پوچھا جانے لگا کہ اسکندریہ کے اندر کی کیفیت کیا ہے، اور بزنطیہ کی کیا خبر ہے وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ ان جنگی قیدیوں میں ایک ذرا اونچے عہدے کا فوجی ہے جس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ ہے ۔
عمرو بن عاص نے اسے اپنے پاس بلایا۔
اس رومی عہدے دار نے پہلی خبر یہ سنائی کے بزنطیہ میں مرتینا قتل کر دی گئی ہے، اور وہاں شاہی محل کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہاں سے کمک آئے گی، رومی نے اسکندریہ کے اندر کی بھی کچھ باتیں بتادی جو عمرو بن عاص کے لیے سود مند ہوسکتی تھی ۔انھیں سب سے زیادہ اطمینان تو یہ سن کر ہوا کہ بزنطیہ کے شاہی محل کی صورتحال آپس کے خون خرابے تک پہنچ گئی ہے اور وہاں سے اسکندریہ والوں کو کوئی مدد اور کمک نہیں ملے گی۔
اللہ فتح انہیں عطا فرمایا کرتا ہے جن کا کردار اور ایمان پختہ ہو، اور جن کے ارادے اور جن کی نیت صاف اور نیک ہوں، اور ان کے سامنے کوئی ایسا مقصد ہو جو اللہ کو عزیز ہو۔ فتوحات فوجوں کی افراط سے اور اسلحے کے انباروں سے حاصل نہیں کی جاسکتی ،کالے جادو سے بھی نہیں ملا کرتی، اور اپنے حریف کو فریب کاری سے قتل کروانے سے بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔
بزنطیہ میں مرتینا کالاجادو چلا رہی تھی، اس نے ایک جادو گرنی سے کہا تھا کہ وہ ایسا جادو چلائے کہ اس کا بیٹا ھرقلیوناس تخت نشین ہوجائے، اور مصر سے عربی مسلمان نیست و نابود ھوجائیں، اور مصر اسے سالم کا سالم مل جائے، اب خبر ملی کہ مرتینا قتل کر دی گئی ہے۔
جادوگرنی نے مرتینا سے ایک نوزائیدہ بچہ مانگا تھا اور اس نے کہا تھا کہ بچے کی عمر ایک مہینے سے زیادہ نہ ہو، مرتینا کی بڑی ہی پیاری ملازمہ رابیکا کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ کچھ دنوں کا ہی تھا کہ لاپتہ ہوگیا۔ رابیکا کا دل ایک بچے کی خواہش میں ایسا بے چین اور بے قرار رہتا تھا کہ اس نے شادی کا انتظار نہ کیا نہ شادی کی ضرورت محسوس کی اور ہرقلیوناس کے ساتھ تعلقات پیدا کر کے بچہ پیدا کر لیا مگر بچہ لاپتہ ہو گیا۔
رابیکا چیختی چلاتی مرتینا کے پاس گئی اور کہا کہ اس کا بچہ غائب ہو گیا ہے۔ مرتینا نے اسی وقت تمام ملازموں سے کہا کہ بچے کو فوراً ڈھونڈا جائے ، رات کا وقت تھا مرتینا نے کسی ملازم کو سونے نہ دیا۔ ملازم بچہ کہاں ڈھونڈتے حکم کی تعمیل میں وہ ویسے ہی ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے رہے۔
صبح طلوع ہوئی ہی تھی کہ رابیکا جادو گرنی کے پاس جا پہنچی ، یہ رابیکا ہی تھی جس نے جادو گرنی کو مرتینا سے متعارف کروایا اور اسے یقین دلایا تھا کہ جادوگرنی کا جادو معجزے کر کے دکھا سکتا ہے۔ رابیکا دوڑی دوڑی جادوگرنی کے پاس پہنچی اور روتے چینختے اسے کہا کہ اسے جو بچہ اس کے جادو کے اثر سے ملا تھا وہ لاپتہ ہو گیا ہے۔ جادوگرنی نے اپنے شیشے کا گولہ سامنے رکھ کر الٹی سیدھی حرکتیں کیں اور گولے میں جھانک کر بولی کے بچہ مل جائے گا لیکن کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا، بچہ زندہ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جادوگرنی نے صرف یہ سچ بولا تھا کہ بچہ زندہ ہے ،بچہ کہیں دور نہیں تھا جادوگرنی کے ساتھ والے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ جادوگرنی نے اس بچے پر اپنا عمل شروع کردیا تھا اور ایک دو دنوں بعد اس نے بچے کا دل نکالنا اور دل پر کچھ عمل کر کے اپنی ناگن کو کھلا دینا تھا ۔جادوگرنی نے روبیکا کو ایسی تسلیاں دیں کہ وہ مطمئن ہو کر چلی گئی۔
دو تین دنوں بعد آدھی رات کے وقت بچہ گہری نیند سویا ہوا تھا جادوگرنی نے اسے ہاتھوں پر اٹھایا اور لکڑی کی ایک میز پر لٹا دیا بچے کو تو ابھی دنیا کا کوئی ہوش ہی نہیں تھا اس کی عمر ابھی ایک مہینے بھی نہیں ہوئی تھی وہ تو ایک کلی تھی جس کی ابھی ایک پتی بھی نہیں کھلی تھی۔
جادوگرنی نے اپنا وہ ڈنڈا اٹھایا جس پر رنگ برنگے کپڑے لپٹے ہوئے تھے اور اس کے ایک سرے پر پرندوں کے رنگارنگ پر اڑسے ہوئے تھے ،اور دوسرے سرے پر ایک چھوٹی سی ایک گھنٹی بندھی تھی ،جادوگرنی یہ ڈنڈا بچے کے جسم سے ذرا اوپر کرکے ہوا میں آہستہ آہستہ پھرتی رہی اور پھر جادوگرنی کا جسم تھرتھرانے لگا تھا جیسے اس کا جسم اس کے دماغ کے قابو سے نکل گیا ہو کچھ دیر وہ ایسی ہی حرکتیں کرتی رہی اور پھر قریب پڑی ہوئی ایک نوکدار چھری اٹھائی۔
رات آدھی گزر گئی تھی جادوگرنی نے جیتے جاگتے بچے کے سینے میں اس جگہ چھوری اتار دی جہاں دل ہوتا ہے"
,,,,,,,,,,,
مرتینا کی ایک اور منہ چڑی ملازمہ تھی جس کے دو جڑواں بچے تھے، ان کی عمر ایک سال ہو گئی تھی یہی دو بچے اس کی کل اولاد تھیں، جس رات روبیکا کا بچہ غائب ہوا تھا اس کے اگلے دن اس ملازمہ کا ایک بچہ بیمار ہو گیا ،مرتینا نے اسے شاہی طبیب کے پاس بھیجا تھا لیکن اس طبیب کی کسی دوائی نے بھی اثر نہ کیا، کچھ دن بعد جادوگرنی نے آدھی رات کے وقت نوزائیدہ بچے کے سینے میں چھری اتاری تو بچہ گہری نیند سویا ہوا تھا اس کے منہ سے تو سی بھی نہ نکلی، لیکن جس ملازمہ کا ایک سال کا بچہ بیمار تھا چیخ اس ماں کی نکل گئی ،وہ اس لیے کہ اس نے آدھی رات کے وقت بچے کو دیکھا تو بچہ مرا پڑا تھا وہ اتنی زیادہ روئی اور چیخی کے اس کے قریب رہنے والے شاہی محل کے ملازموں کے گھر میں سب جاگ اٹھے اور دوڑے پہنچے، شاہی طبیب اس بچے کی بیماری کو نہایت معمولی بیماری کہتا رہا تھا لیکن بچہ بچ نہ سکا اور مرگیا، جادوگرنی نے نوزائیدہ بچے کے سینے سے ننا سا کلی جیسا دل نکال لیا اور الگ رکھ دیا پھر اس نے باہر جا کر کدال اٹھائی اور صحن میں گڑھا کھود کر بچے کی لاش اس میں رکھی اور اوپر مٹی ڈال دی، کچھ دیر مٹی کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر اسے دباتی رہی اور صحن کو ہموار کر دیا پھر اپنے خاص کمرے میں جاکر اسی وقت ننھے کا دل سامنے رکھ کر اپنا عمل شروع کردیا، اسے مرتینا نے خزانہ پیش کیا تھا جس کے لیے وہ بڑی ہی محنت کر رہی تھی۔
اگلی صبح روبیکا پھر جادوگرنی کے ہاں گئی اس وقت جادوگرنی صحن میں ہی کوئی کام کر رہی تھی روبیکا نے کھڑے کھڑے جادوگرنی کو بتایا کہ بچہ ابھی تک نہیں ملا، پھر پوچھا کہ اس کے ملنے کی توقع بھی ہے یا نہیں، جادوگرنی نے اسے غصے سے کہا کہ وہ کہہ چکی ہے کہ بچہ جلدی مل جائے گا ،پھر وہ کیوں پریشان ہوئی جا رہی ہے,,,,,,,, روبیکا کو کون بتاتا کہ وہ اپنے بچے کی قبر پر کھڑی ہے اور بچہ اس کے پاؤں کے نیچے ہے ۔جادوگرنی کی یقین دہانی سے وہ کچھ مطمئن ہوگئی اور چلی گئی۔
ایک آدھ دن ہی اور گزرا ہو گا کہ جڑواں بچوں کی ماں کا دوسرا بچہ بھی بیمار ہو گیا اس کی بیماری کی علامت بھی پہلے بچے جیسی تھی جو مر گیا تھا ،ماں بے تاب اور بے حال ہو گئی وہ مرتینا کے پاس دوڑی گئی اور کہا کہ اس کے دوسرے بچے کو بھی وہی تکلیف ہو گئی ہے ،مرتینا نے اسے کہا کہ وہ بچے کو شاہی طبیب کے پاس لے جائے، ماں بچے کو سینے سے لگائے شاہی طبیب کے پاس جا پہنچی اور روتے ہوئے اس کی منت سماجت کرنے لگی کہ پہلا بچہ تو نہیں بچ سکا، اسے طبیب بچالے ۔ طبیب نے کہا کہ اب وہ کوئی اور دوائی آزمائے گا جو پہلے بچے کو نہیں دے سکا تھا، اس نے دوائی دے دیں اور کچھ پرہیز بتا کر ماں کو رخصت کر دیا۔
بچے کی حالت بگڑتی چلی گئی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دوائیاں الٹا اثر کر رہی ہوں، ماں مرتینا سے اور طبیب سے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی، وہ جادوگرنی کے پاس بھی گئی جادوگرنی نے ایسے ویسے ہی تسلیاں دیں جیسی وہ روبیکا کو دے رہی تھی کہ اس کا بچہ مل جائے گا۔ جادوگرنی کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ اس کا جادو کسی کی موت کو نہیں ٹال سکتا ،اور زندگی اور موت اس عظیم طاقت کے ہاتھ میں ہے جو بندوں کو آسمان سے زمین پر اتارتی اور جب چاہتی اٹھا لیتی ہے۔
جادوگرنی ہر رات روبیکا کے بچے کے سینے سے نکالے ہوئے دل پر اپنا کچھ عمل کرتی تھی اور پھر اسے ایک انسانی کھوپڑی کے اندر رکھ دیتی تھی ،آخر ایک رات عمل پورا ہو گیا اس نے پنجرے سے اپنی ناگن نکالی اور اس کی گردن کو اس طرح دبایا کہ ناگن کا منہ کھل گیا ،جادوگرنی نے ننھا منا دل ناگن کے منہ میں رکھ کر انگلیوں سے دبایا اور ناگن کے حلق سے آگے کر دیا اس کے بعد ناگن خود ہی اس دل کو پیٹ کی طرف نگلنے لگی ،جادوگرنی نے ناگن کو پھر پنجرے میں بند کر دیا۔
جب ناگن کے جسم کے اندر دل اس کے پیٹ کی طرف جا رہا تھا ملازمہ کے بیمار بچے کی حالت بگڑ گئی بچہ گہری نیند سے جاگ اٹھا اور تکلیف سے رونے اور چیخنے لگا، وہ تو تڑپ رہا تھا ماں بھی رونے لگی لیکن اچانک یوں چپ ہو گئی جیسے اسے غیب کی کوئی آواز سنائی دی ہو اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا سے بچے کی زندگی مانگ رہی ہو، لیکن اسے کوئی اور ہی خیال آ گیا تھا وہ دوڑتی باہر نکلی اور روبیکا کے کمرے کے دروازے پر جا دستک دی ،رات کی اس دستک پر روبیکا جاگ اٹھی اور دروازہ کھولنے کو دوڑی، دروازہ کھولا تو باہر ملازمہ کو کھڑے دیکھا اس نے بے تابی سے پوچھا میرا بچہ مل گیا؟،،،، نہیں روبیکا!،،،،، ملازمہ نے کہا ۔۔۔اندر چلو میں بتاتی ہوں تمہارا بچہ کہاں ہے۔
روبیکا اسے بازو سے پکڑے بڑی تیز تیز چلتی اندر گئی اور کہا جلدی بتاؤ ،،،،جلدی بتاؤ۔ تمہارا بچہ مرتینا کے حکم سے میں نے اٹھایا تھا۔۔۔ ملازمہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا ۔۔۔اس وقت تمہیں مرتینا نے اپنے ہاں بلوایا تھا اس نے اسی لیے رات کے اس وقت تمہیں بلوایا تھا کہ میں تمہارا بچہ اٹھا سکوں، میں نے بچہ اٹھایا اور اپنے گھر چھپا لیا تھا، تم جب واپس آئی اور بچے کو غائب پایا تو پھر مرتینا کے پاس چلی گئی۔ مجھے معاف کردینا روبیکا بہن۔ میں اگر مرتینا کا حکم نہ مانتی تو مجھے بھی اور میرے بچوں کو بھی قتل کروا دیتی، لیکن خدا نے مجھے اس گناہ کی سزا دے دی ہے، میرا ایک بچہ مر گیا ہے اور دوسرا مر رہا ہے، میں اسی لیے تمھارے پاس آئی ہوں کے یہ راز تم پر کھول دوں اور تم سے یہ درخواست کرو کہ میرا یہ گناہ معاف کردو ہوسکتا ہے تمہاری بخشش سے میرا دوسرا بچہ زندہ رہ جائے۔
اس ملازمہ کو معلوم نہیں تھا کہ مرتینا نے یہ بچہ کس کو دیا تھا ،جادوگرنی کا تو ملازمہ کے ذہن میں ذرا سا بھی خیال اور شک نہیں تھا، اس نے یقین کی حد تک محسوس کر لیا تھا کہ اس کا ایک بچہ اسی گناہ کی سزا کے طور پر مر گیا ہے، اور دوسرا بھی اسی گناہ کی پاداش میں خدا اس سے واپس لے رہا ہے۔ اسے یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جس وقت جادوگرنی نے روبیکا کے بچے کے سینے میں چھری اتاری تھی عین اسی وقت اس کا پہلا بچہ مر گیا تھا اور دوسرا بچہ اس وقت بیمار پڑا تھا جب اس نوزائیدہ بچے کا دل ناگن کے پیٹ میں پہنچا تھا۔
روبیکا تو غصے سے کانپنے لگی اسے شاید اس ملازمہ کی مجبوری کا خیال آگیا تھا اس لیے اس نے ملازمہ سے کچھ بھی نہ کہا البتہ غصے کی شدت سے مغلوب ہو کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ وہ ابھی مرتینا کے پاس جاتی ہے۔ ملازمہ نے اسے پکڑ کر پلنگ پر بٹھا دیا اور کہا کہ رات کے اس وقت وہ مرتینا کو نہ جگائے ورنہ وہ اسے بچہ کیا دے گی ،اسے قتل ہی کروا دی گی۔
جادوگرنی مرتینا کو بتا گئی تھی کہ اس کا عمل پورا ہو گیا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس دنوں بعد اس کی مراد پوری ہو جائے گی، عرب کے مسلمان شکست کھاکر مصر سے نکل بھاگیں گے، اور بزنطیہ کے تخت پر اس کا بیٹا ہرقلیوناس بیٹھا ہوا ہوگا ،اور بادشاہی کا تاج اس کے سر پر ہوگا۔
ملازمہ جب اپنے گھر پہنچی تو اسکا دوسرا بچہ بھی مر گیا تھا اس کا خاوند بچے کی چارپائی کے قریب کھڑا ہچکیاں لے رہا تھا۔ ملازمہ اپنے مرے ہوئے بچے کے اوپر گری اور لاش کا منہ چوم چوم کر پاگل ہونے لگی، اور روتی اور یہی بین کر رہی تھی کہ مجھے اپنے گناہ کی سزا ملی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
روبیکا باقی رات سو نہ سکی وہ کروٹیں بدلتی اور تڑپتی رہی، کبھی اسے خیال آتا کہ مرتینا اس پر رحم کر کے اس کا بچہ واپس دے دے گی، لیکن زیادہ تر اسے دو بڑے ہی بھیانک خیال آ رہے تھے، اسے جادوگرنی کا خیال بھی آیا کہ مرتینا نے اس کا بچہ کسی عمل کے لیے جادوگرنی کو بھی نہ دے دیا ہو، صرف روبیکا کو معلوم تھا کہ مرتینا جادو گرنی سے کوئی عمل کروا رہی ہے ،روبیکا ہی اس جادو گرنی کو مرتینا کے پاس لے گئی تھی۔
صبح ابھی دھندلی تھی جب روبیکا شاہی محل میں مرتینا کے کمرے میں جاپہنچی، مرتینا آخر ملکہ تھی گو نام ہی کی ملکہ تھی لیکن اس کی حیثیت ملکہ جیسی ہی تھی وہ سوئی ہوئی تھی، روبیکا کی ممتا اس قدر بھڑکی ہوئی تھی کہ اس نے نتائج سے بے خبر مرتینا کو جگایا مرتینا کی آنکھ کھلی تو وہ روبیکا پر برس پڑی، اس نے کہا کہ روبیکا کو اتنی جلدی آ کر اسے جگانے کی جرات کیسے ہوئی۔ روبیکا اس کی رازدان تھی لیکن روبیکا آخر ملازمہ تھی ۔
میرا بچہ مجھے لوٹا دو۔۔۔۔ روبیکا نے روتے ہوئے کہا۔
مرتینا غصے کی حالت میں اٹھ بیٹھی اور پوچھا کہ وہ کیا بک بک کر رہی ہے؟،،،،،،،، روبیکا نے پھر التجا کے لہجے میں کہا کہ مرتینا اسے اس کا بچہ لوٹا دے۔ ایسی توقع تو رکھی ہی نہیں جاسکتی تھی کہ بچے کے متعلق کچھ بتانا تو دور کی بات ہے وہ یہ تو تسلیم ہی کرلیتی کہ اس کا بچہ اس نے اٹھوایا ہے اور جادوگرنی کو دے دیا تھا، اور اس کا بچہ مارا جاچکا ہے، مرتینا نے روبیکا کو خوب ڈانٹ پلائی اور کہا کہ پھر اس نے اس پر یہ الزام لگایا تو اسے اس کی بڑی ہی بھیانک سزا ملے گی ۔
روبیکا نے ملازمہ کا نام لے کر کہا کہ اس نے اسے بتایا ہے کہ بچہ مرتینا کے حکم سے اس نے اٹھایا اور مرتینا کے حوالے کیا تھا۔
مرتینا اٹھ کھڑی ہوئی اور کہا کہ وہ ابھی اس ملازمہ کو بلا کر ایسی سزا دے گی کہ دیکھنے والے کانپ اٹھیں گے ،روبیکا نے اسے روک لیا اور کہا کہ اس بیچاری کا دوسرا بچہ بھی رات مرگیا ہے۔
مرتینا نے جب روبیکا کی جذباتی حالت دیکھی اور پھر یہ پتہ چلا کہ ملازمہ نے راز فاش کر دیا ہے تو اس نے اپنا رویہ فوراً بدل کر نرم کر لیا، اس کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ملازمہ کو بلوا کر اسے جھوٹا کہہ دیتی اور اسے ملازمت سے نکال دیتی لیکن اس کا ضمیر مجرم تھا اس لیے اس نے روبیکا کو بہلانے پھسلانے والا طریقہ سوچ لیا۔
بیٹھو روبیکا !،،،،،،،مرتینا نے بڑے پیار سے کہا ۔۔۔۔دعا کرو میرا بیٹا زندہ رہے، تمہیں ایک اور بچہ مل جائے گا لیکن مجھے نہیں ملے گا، ذرا ٹھنڈے دل سے میری بات سن لو دیکھو میں نے تمہارے ساتھ کتنا پیار کیا ہے اور تمہیں ملازمہ نہیں رازدان دوست سمجھتی ہوں، کیا تم میرے لئے اتنی سی قربانی نہیں دے سکتیں؟ مرتینا نے روبیکا کو صاف صاف بتا دیا کہ اس کا بچہ اسی نے اٹھایا تھا اور اس کا مقصد کیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ جادوگرنی بچے کو مار چکی ہے اور اس کا عمل پورا ہو چکا ہے، دس دنوں تک میرا بیٹا شاہ روم بن جائے گا، مرتینا نے کہا۔۔۔ ادھر وہ تخت پر بیٹھے گا ادھر میں اس کے ساتھ تمہاری شادی کرا دونگی اور تم سلطنت روم کی ملکہ کہلاؤ گی۔
روبیکا کی ذات میں ممتا یوں پھٹی جا رہی تھی جس طرح آتش فشاں کا دہانہ پھٹتا ہے، وہ شاہی محل کے ان بادشاہوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کو مرتینا نے ہی مروایا تھا ،اس نے غالباً یہ بھی سوچا ہوگا کہ ملکہ تو مرتینا خود بننے کو بے تاب ہے ایک ملازمہ کو کون ملکہ بناتا ہے، اگر اس کی شادی ہرقلیوناس کے ساتھ ہو بھی گئی تو یہ چند دنوں کا کھیل ہو گا اور پھر اسے حرم میں پھینک دیا جائے گا ،لیکن روبیکا کے دل و دماغ پر اور جذبات پر صرف بچہ غالب تھا۔ وہ ایک بچے کے لیے ہمیشہ تڑپتی ترستی رہتی تھی بچہ ملا تو وہ مرتینا نے اپنی ذاتی مفاد پر قربان کر دیا۔
مرتینا نے جب یہ کہا کہ بچے کو جادو گرنی مار چکی ہے تو روبیکا کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا اور اس پر پاگل پن سوار ہو گیا اس نے واہی تباہی بکنی شروع کردی وہ بھول ہی گئی کہ وہ ایک بے بس اور بے وسیلہ ملازمہ ہے اور قانون اور انصاف مرتینا کے ہاتھ میں ہے، اور وہ اسے بڑے آرام سے قتل کروا سکتی ہے، روبیکا کے منہ سے جھاگ پھوٹنے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦