🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➎➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس قبیلے کے بہت سے مجاہدین لشکر میں موجود تھے تین چار دوڑے گئے اور تیروں کی بوچھاڑوں میں جاکر اپنے ساتھی کی لاش اٹھا کر لے آئے، اس قبیلے کی کچھ اپنی ہی روایت تھی عام حالت میں ان کا انداز بڑا خوشگوار اور دوستانہ ہوا کرتا تھا ،لیکن میدان جنگ میں اس قبیلے کا ہر مجاہد سراپا قہر اور غضب بن جاتا تھا، اس قبیلے کے مجاہدین نے جب اپنے ساتھی کی لاش بغیر سر کے دیکھی تو انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ اس شہید کی لاش سر کے بغیر دفن نہیں کریں گے ،اور اس کا سر لے کر آئیں گے ورنہ سب اپنے سر کٹوا دیں گے۔
میں تمہارے اس جذبے کی بہت قدر کرتا ہوں۔۔۔۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے انہیں کہا۔۔۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تم قلعے کے اندر جا کر ایسی لڑائی لڑو کے اپنے ساتھی کا سر لے آؤ اگر تم سب مارے گئے تو سوچو کہ لشکر کو کتنا نقصان پہنچے گا لشکر کی تعداد پہلے ہی کم ہے۔
اس قبیلے کے مجاہدین پر اپنے سپہ سالار کی اس بات کا کچھ اثر نہ ہوا وہ اپنی اس سے ضد پر ڈٹے رہے کہ شہید کا سر لا کر ہی اسے دفن کریں گے ۔
پھر یوں کرو۔۔۔ عمرو بن عاص نے انھیں کہا۔۔۔ بہادری یہ نہیں کہ اندھا دھند پاگلوں کی طرح دیوار کے ساتھ جا ٹکراؤ اور مارے جاؤ تمہیں اس کا سر نہیں ملے گا بہادری یہ ہے کہ اب رومی باہر آئیں تو ان میں سے کسی کا سر کاٹ لاؤ۔ اس طرح تم سر کے بدلے سر لے آؤ گے۔
یہ بات اس قبیلے کے مجاہدین کے پلے پڑ گئی انہوں نے عہد کر لیا کہ اپنے ساتھی کے سر کے بدلے سر لائیں گے ۔
تاریخ میں اس واقعے کے بیان کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا تھا کہ بنو مہرہ قتل کرنا جانتے ہیں قتل ہونا نہیں جانتے۔ ایک ہی روز بعد کچھ رومی فوجی حسب معمول ایک دروازے سے باہر نکلے اور مجاہدین کو للکارنے اور ان کا مذاق اڑانے لگے ،بنومہرہ کے چند ایک مجاہدین آگے گئے اور اس انداز سے آگے گئے جیسے انکا لڑنے کا ارادہ نہ ہو، رومیوں نے جب ان کا ٹھنڈا ٹھنڈا سا انداز دیکھا تو وہ اور آگے آ گئے، یکلخت بنو مہرہ کے مجاہدین رومیوں پر جھپٹ پڑے رومی بغیر لڑے بھاگ اٹھے لیکن مجاہدین نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اسے وہیں گرا کر اس کا سر کاٹا اور سر کو تلوار کی نوک پر اڑس کر بلند کیا اور تکبیر کے نعرے لگاتے واپس آگئے ۔اب انہوں نے سپہ سالار سے کہا کہ ان کے شہید ساتھی کا جنازہ پڑھیں اور اسے دفن کروا دیں۔
جنازہ پڑھا گیا اور شہید کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا رومی کے جسم سے کاٹا ہوا سر دور پھینک آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بزنطیہ میں کونستانس، جنرل اقلینوس ،اور دوسرے جرنیل مصر کی مخدوش صورتحال کے متعلق بہت پریشان تھے، اور ہر لمحہ کسی پیغام کے منتظر رہتے تھے انہیں سلطنت روم کا بڑا ہی برا انجام صاف نظر آنے لگا تھا۔
ادھر مرتینا تھی جو کچھ اور ہی سوچوں میں غرق پیچ و تاب کھا رہی تھی، یہ چوٹ اس کے لئے قابل برداشت نہیں تھی کہ اس کے بیٹے کے ساتھ جرنیلوں نے اور فوج نے بہت برا سلوک کیا تھا، اور اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا، مرتینا کے تو خواب چکنا چور ہوگئے تھے وہ نیند میں ہوتی یا بیدار تخت و تاج کے ہی خواب دیکھا کرتی تھی، وہ قیرس سے مایوس ہوچکی تھی ،بزنطیہ کے تخت و تاج سے مایوس ہو گئی تھی، اور اس نے خود جو چالیں چلی تھی وہ بھی ناکام رہی، اور اب اسے ہر سو مایوسی ہی مایوسی نظر آتی تھی، وہ اب آخری حربہ پر اتر آئی۔
رومی جرنیلوں اور مذہبی پیشواؤں کو یقیناً معلوم ہوگا کہ باہر کے بڑے ہی طاقتور دشمن کی نسبت اندر کا کمزور سا دشمن بھی بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ،لیکن انہیں شاید یہ اندازہ نہ تھا کہ مرتینا وہ دشمن ہے جو شاہی محل کی آستین میں بیٹھ کر اپنی ہی سلطنت کو ڈس سکتی ہے، اور یہ بہت ہی زہریلی ناگن ہے۔
مرتینا کی ایک خاص ملازم ربیکا تھی ، عالم شباب میں تھی اور بڑی ہی پرکشش لڑکی تھی ،مرتینا نے اسے کہیں دیکھا تھا ایک تو اس کی شکل و صورت اور جسمانی حسن سے متاثر ہوئی ،اور جب اس کے ایک دو جوہر اور دیکھے تو مرتینا اسے شاہی محل میں لے آئی، دو چار دنوں میں ہی مرتینا نے دیکھ لیا کہ یہ بڑی ہی ذہین اور ہر ڈھنگ کھیلنے والی لڑکی ہے ۔بڑی ہی خوشگوار طبیعت والی تھی۔ مرتینا تو اس پر فریفتہ ہو گئی تھی چند دنوں میں ہی ربیکا نے مرتینا کے دل میں وہ مقام پیدا کر لیا جو کوئی رازدار سہیلی ہی پیدا کرسکتی ہے۔ مرتینا نے بخوشی اسے اپنی رازدان بنا لیا ،کچھ اور دن گزرے تو مرتینا نے صاف طور پر محسوس کیا کہ یہ لڑکی جو شکل و صورت سے ہنس مکھ بھولی بھالی اور معصوم سی لگتی ہے دراصل بڑی کھلاڑی لڑکی ہے، اور اس کے جال میں آیا ہوا شخص نکل نہیں سکتا ،مرتینا کو ایسی ہی ملازمہ کی ضرورت تھی۔
مرتینا کی عمر پچاس برس سے کچھ اوپر ہو گئی تھی، لیکن اپنی جوانی کو یا جوانی کے جذبات کو اس نے زندہ و بیدار رکھا ہوا تھا، وہ ایک بدکار عورت تھی اس نے ایک دو آدمیوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگا رکھی تھی، ربیکا اس کے لیے کبھی کبھی کوئی بڑا ہی خوبرو اور جواں سال آدمی لے آتی تھی، یہ شاہی محل کا کردار تھا جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پھر مرتینا کو ربیکا اس وجہ سے بھی اچھی لگتی تھی کہ اس کا بیٹا ہرقلیوناس ربیکا کا شیدائی ہو گیا تھا ، ربیکا بڑی خوشی سے ہرقلیوناس کی داشتہ بن گئی تھی۔ ہرقلیوناس کو تو ربیکا انگلیوں پر نچا رکھتی تھی، اور وہ نوجوان اسی میں بہت خوش ہوتا تھا۔
مرتینا سے ربیکا کو پتہ چلا کہ فوج نے ہرقلیوناس کو دھتکار دیا ہے، اور فوج اس سے باغی ہو گئی ہے، تو ربیکا نے مرتینا سے کہا کہ اب اس جادو گرنی کو آزما ہی لیا جائے۔
تینوں کو ربیکا کی یہ تجویز پسند آگئی اور اس نے ربیکا سے کہا کہ وہ اس کے پاس جائے اور اسے بتائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اگر وہ یہ کام کر سکتی تو اسے اپنے ساتھ لے آئے۔
ربیکا ان دنوں امید سے تھی اور چند ہی دنوں بعد ماں بننے والی تھی بچے کی پیدائش میں کچھ دن ہی باقی تھے۔
مجھے ایک بچے کی خواہش بہت ہی پریشان رکھتی تھی۔۔۔ ربیکا نے مرتینا سے کہا۔۔۔ یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ شادی ہو گئی تو بچہ بھی ہو جائے گا لیکن میں آپ کی ملازمت میں آگئی اور آپ کے بیٹے کو دیکھ کر شادی کا خیال دل سے نکال ہی دیا ، آپ کے بیٹے نے مجھے اپنی داشتہ بنا لیا، اڑائی تین سال گزر گئے بچے کے آثار نظر نہ آئے، آخر میں اس جادو گرنی کے پاس گئی اس نے ناجانے کیا عمل کیا اب آپ دیکھ رہی ہیں کہ میں ماں بننے والی ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ عورت آپ کی ہر خواہش پوری کر دی گی۔
وہ ایک بوڑھی عورت تھی جو بزنطیہ کی ایک مضافاتی بستی میں رہتی تھی ،وہ جادوگرنی کے نام سے مشہور تھی اس کے پاس شیشے کا ایک گولا تھا جس میں سے روشنی گزرتی تو کئی رنگ نظر آتے تھے، لوگوں کے چہرے اور ہاتھ دیکھتی اور پھر اس گولے میں جھانکتی اور بتاتی تھی کہ اس کا مستقبل کیسا ہوگا ،لوگ پورے یقین کے ساتھ کہتے تھے کہ بگڑی ہوئی قسمت کو سنوار دیتی اور تاریک مستقبل کو درخشندہ کر دیتی ہے، لیکن وہ معاوضہ اتنا زیادہ لیتی تھی جو کوئی عام آدمی ادا نہیں کر سکتا تھا،،،،،،، اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی طاقت تھی یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے لیکن حالات کے پٹے ہوئے لوگوں کے لئے وہ آخری سہارا تھی۔
مرتینا اور ربیکا جیسے انسان اس قسم کے جادوگروں اور قسمت سنوارنے والوں کا بڑا آسان شکار ہوا کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے کردار اور اپنے ذہنوں میں اپنی نیتوں کو سنوارنے کی بجائے اپنی قسمت سنوارنے کے لیے جوتشوں اور جادوگروں کے قدموں میں جا گرتے ہیں، مرتینا نے بھی شاید اس جادو گرنی کی شہرت سنی ہوگی، اگر نہیں سنی تھی تو ربیکا نے ایسی تصویر پیش کی کہ مرتینا نے اسے کہا کہ اس جادوگرنی کو کسی ایسے وقت اس کے پاس لے آئے جب کوئی دیکھ نہ سکے۔
اگلی ہی رات یہ جادو گرنی مرتینا کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی، ربیکا اسے مرتینا کے پاس بٹھا کر باہر نکل گئی تھی تاکہ مرتینا تنہائی میں اس کے ساتھ دل کی باتیں کر سکے ،مرتینا نے پہلے تو اس جادو گرنی کا حال اور حلیہ دیکھا ۔ایک تو بڑھاپے نے اس کے چہرے پر رونق نہیں رہنے دی تھیں، اور چہرے پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں پیدا ہوگئی تھیں ویسے بھی اس کا چہرہ مکروہ سا تھا، اور رنگ بالکل سیاہ اس نے سر پر میلا کچیلا رومال باندھ رکھا تھا ،اس کے بال رسیوں جیسے تھے، لباس عجیب و غریب تھا، جسے بیان کرنا بھی کسی کے لیے آسان نہ تھا۔
اس نے شیشے کا گولا اپنے سامنے رکھ لیا اس کے ہاتھ میں دو فٹ لمبا ایک ڈنڈا تھا جس پر کئی رنگوں کے کپڑے لپٹے ہوئے تھے، اور اس کے دونوں سروں میں پرندوں کے رنگ برنگے پر اڑسے ہوئے تھے، ڈنڈے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی گھنٹیا اور تین چار گھنگرو بندھے ہوئے تھے ،اس عورت کی آنکھیں گہری لال اور ہونٹ گہرے زرد تھے، وہ کراہت کا جیتا جاگتا مجسمہ تھی۔
بول ملکہ ۔۔۔۔جادوگرنی نے مرتینا سے کہا۔۔۔ حاجت مندوں کی جھولیاں بھر دینے والی ملکہ کو ایسی کونسی حاجت آن پڑی ہے کہ مجھے بلایا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ رعایا کی قسمت ان کے بادشاہوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔
لیکن بادشاہوں کی اپنی قسمت نہ جانے کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔۔۔۔مرتینا نے کہا۔۔۔ اگر تو میری تین مرادیں پوری کر دے تو اتنا سونا تجھے دوں گی جو تو اٹھا نہیں سکے گی، تو میری قسمت سنوار دے اور میں تیری کایا پلٹ دونگی۔
بول کیا چاہتی ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔
کونستانس مرجائے۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ سلطنت روم کی ملکہ بن جاؤں ،یا میرا بیٹا تخت نشین ہو، اور تیسری مراد یہ کہ مصر سے مسلمان بھاگ جائیں، اور مصر روم کی سلطنت سے نہ نکلے،،،،،، کیا تو اتنی طاقت رکھتی ہے۔
دیکھ کر بتاؤں گی۔۔۔۔ جادوگرنی نے جواب دیا۔ اور مرتینا کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھنے لگی، پھر بولی میری زبان سے کوئی ایسی ویسی بات نکل جائے تو مجھے معاف کر دینا ،بھول جانا کہ تو ملکہ ہے اور میں تیری رعایا ہوں ،تیرے سامنے وہ آئے گا جو اس شیشے میں دکھائی دے گا، بات کہیں اور سے آئے گی جو میری زبان سے تیرے کانوں تک پہنچے گی۔
جو جی میں آئے کہہ دے۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ میں جو چاہتی ہوں وہ ہوجائے، تو جو جی میں آئے مجھے کہہ دے۔
بوڑھی جادوگرنی مرتینا کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوئے تھی ،اس کے مکروہ چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی سنجیدگی آ گئی تھی، یوں لگتا تھا جیسے اس کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہو رہے ہیں ،اس نے اچانک اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور مرتینا کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ہاتھ کو پھیلا کر دیکھنے لگی، اب جادوگرنی پر کچھ ایسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اس کی سانسیں اکھڑ نے لگی تھی، پھر یوں ہوا جیسے وہ پھنکار رہی ہو۔
ہے تو بھی جادو گرنی۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔۔۔ لیکن کسی جگہ تیرا پاؤں پھسل گیا اور تو منہ کے بل گری ،قسمت ان کی چمک اٹھی جنہوں نے اپنی عقل اور سوچ کو ٹھکانے رکھا، کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ۔اس نے مرتینا کا ہاتھ یوں اس کی طرف دھکیل دیا جیسے کوئی بیکار سی چیز پرے پھینک دی ہو ۔ اس نے گولے میں جھانکنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی ڈنڈا ہاتھ میں لے لیا وہ گولے پر جھکی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ نہایت آہستہ آہستہ گولے کی طرف جا رہا تھا جیسے کسی چیز کو بہت قریب سے دیکھنا چاہتی ہو۔
اس نے یکلخت اپنا سر یوں پیچھے کیا جیسے گولے نے اسے ڈس لینے کی کوشش کی ہو، اب تو اس کا چہرہ اور ہی زیادہ مکروہ ہو گیا تھا ،اس نے ڈنڈے کا سرا گولے پر پھیرا اور ایک بار گولے کو ہلکی سی ضرب لگائی ،اس کے ہاتھ کانپنے لگے ہاتھ کانپے تو ڈنڈا بھی تھرتھرانے لگا اور گھنٹیا اور گھنگرو بجنے لگے۔
اس کے ہاتھوں کا رعشہ زیادہ ہونے لگا، اور پھر اس کا پورا جسم کانپنے لگا وہ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی اور سر سے پاؤں تک تھرتھرانے لگی، اس کا منہ اس طرح کھل گیا تھا کہ سارے دانت نظر انے لگے تھے، اس کی نظریں گولے پر لگی ہوئی تھی ،ذرا دیر بعد یوں لگا جیسے جادوگرنی کھڑے کھڑے ناچ رہی ہو ،مرتینا پر خوف طاری ہونے لگا۔
اس کے وجود کا رعشہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ شک ہوتا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے گی۔ گھنٹیوں اور گھنگروؤں کی جھنکار ڈراونی سی ہوتی جارہی تھی، خاصی دیر بعد اس کا پھڑکنا ذرا کم ہونے لگا ،اور کم ہوتے ہوتے اس کا جسم اپنی قدرتی حالت میں آگیا ،اس نے منہ چھت کی طرف کرکے کھولا اور منہ سے بڑی لمبی ہُو جیسی آواز نکالی، پھر اس نے بڑی دور سے ڈنڈا دو چار مرتبہ ہوا میں گھمایا جیسے کسی کو مار رہی ہو ،اس کے بعد دوسرا ہاتھ ہوا میں اوپر کرکے یو گھومانے پھرانے لگی اور بار بار اس طرح مٹھی بند اور کھولنے لگی جیسے ہوا کو یا ہوا میں کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہو، آخر وہ بیٹھ گئی اور پھر شیشے کے گولے میں جھانکنے لگی۔
ہوجائے گا۔۔۔ اس نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔۔۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا، ایک بچہ چاہیے عمر ایک مہینے سے زیادہ نہ ہو، کچھ نہ کچھ ہاتھ آ ہی جائے گا۔
کیا کہا ؟،،،،،مرتینا نے پوچھا۔۔۔ ایک بچہ چاہیے؟ عمر ایک مہینے سے زیادہ نہ ہو۔
ہاں ملکہ!،،،،،،، جادو گرنی نے ہانپتی کانپتی سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔مجھے ایک بچہ دے دے جس کی عمر ایک مہینے سے دوچار دن کم ہو ،میں اپنے گھر میں اسے کچھ دن رکھونگی اور اس پر کچھ عمل کروں گی یہ عمل مکمل کر کے بچے کا دل نکال لوں گی پھر اس دل پر اپنا کچھ کام کرکے اسے ناگن کو کھلا دوں گی۔
ایک تو جادو گرنی کی شکل و صورت بھی مکروہ اور ڈراؤنی سی تھی، اور پھر اس کا حلیہ اور ہی زیادہ کراہت آمیز تھا ،اور اس کے بولنے کا انداز تو بالکل ہی غیر فطرتی تھا ، اس نے جب یہ کہا کہ وہ بچے کا دل اپنے ناگن کو کھلا دی گی تو مرتینا جیسی شیطان فطرت عورت بھی لرز گئی، اس نے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے جادو گرنی کی طرف دیکھا۔
بچے کی تلاش کوئی مشکل نہیں۔۔۔ جادو گرنی نے کانپتی ہوئی سرگوشی کی،،،،،، تیری قسمت تیرے اپنے ہاتھوں میں آ جائے گی بچہ تیرے گھر میں موجود ہے، چند دنوں بعد تجھے مل جائے گا، ربیکا کو بچہ پیدا ہونے والا ہے ۔
،،نہیں؛، نہیں،،،، مرتینا نے کہا۔۔۔ ربیکا اپنا بچہ نہیں دے گی، یہ لڑکی تو ایک بچے کی خاطر مری جا رہی تھی اسے ایک بچے کی بہت ہی خواہش تھی ،اس نے مجھے بتایا تھا کہ تیرے ہی عمل سے اسے یہ بچہ ملا ہے، میں تجھے یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ یہ میرے بیٹے کا بچہ ہے
یہ تو بہت اچھا شگون ہے۔۔۔ جادو گرنی نے کہا۔۔۔ اس بچے میں تیرا خون ہے یہ تیری کایا پلٹ دے گا ۔ پرایا بچہ ذرا مشکوک ہوتا ہے، ربیکا سے یہ بچہ خرید لے تیرے پاس خزانہ ہے اور خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔
نہیں دے گی۔۔۔ مرتینا نے کہا۔۔۔ میں حکم دے کر اس سے بچہ لے سکتی ہوں لیکن حکم نہیں دونگی اس لڑکی کے ساتھ مجھے بہت پیار ہے میں اس کا دل نہیں دُکھاؤ نگی۔
پھر اپنی مرادیں اور خواہشیں دل سے پھینک دے ۔۔۔جادو گرنی نے کہا ۔۔۔ملکہ کو اتنا رحم دل نہیں ہونا چاہیے، قلوپطرہ بن جا اور دل سے رحم وکرم نکال پھینک، بچہ چوری کروا اور مجھ تک پہنچا دے، یہی بچہ موزوں ہے، ربیکا کو پتہ نہ چلنے دینا کہ میں نے بچہ مانگا ہے۔
مرتینا گہری سوچ میں کھو گئی وہ کوئی رحم دل عورت نہیں تھی، لیکن آخر عورت تھی اس کی ذات میں ممتا موجود تھی، ایک معصوم بچے کا دل ناگن کو کھلا دینا ۔ اسکے تصور آتا ہی نہیں تھا، اور اگر آیا بھی تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئی۔ جادوگرنی کچھ نہ کچھ بولے جا رہی تھی اس نے مرتینا کو بتایا کہ اس نے سانپ پالے ہیں تین سانپ ہیں اور تینوں بڑے زہریلے ہیں، ان میں ایک ناگن ہے اور اس ناگن نے اسکی کئی مرادیں آسان کی ہیں۔
مرتینا نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا کہ وہ ربیکا کا بچہ جادوگرنی کو دے دی گی، اس نے جب تصور میں اپنے آپ کو ملکہ کے روپ میں دیکھا تو وہ ممتا اس کے وجود میں ہی کہیں گم ہو کر غائب ہو گئی۔ اس نے جادوگرنی کو بتایا کہ ربیکا کا بچہ اسے مل جائے گا، جادوگرنی اسے یہ یقین دلا کر اٹھی کہ اس کی تینوں مرادیں پوری ہو جائیں گی، بشرطیکہ بچہ اس تک پہنچا دیا جائے۔
مرتینا نے جادوگرنی کو کچھ انعام دیا اور کہا کہ کام ہو جانے پر وہ اس پر خزانہ لٹا دے گی، جادوگرنی رخصت ہوگئی اور ربیکا دوڑی دوڑی مرتینا کے پاس آئی۔
کیا کہتی ہے؟،،،،، ربیکا نے مرتینا سے پوچھا۔۔۔ کیا آپ کا کام ہو جائے گا۔
ہاں ربیکا!،،،،،، مرتینا نے جواب دیا ۔۔۔ہوجائے گا۔
ربیکا ملازموں کے کمروں میں رہنے والے کمروں میں سے ایک کمرے میں رہتی تھی، وہ مرتینا کی خاص اور معتمد ملازمہ تھی اور ہرقلیوناس کی داشتہ تھی۔
دس بارہ دن ہی گزرے ہونگے کہ ربیکا کا بچہ پیدا ہوا، مرتینا نے شاہی دائی کو ربیکا کی خدمت پر لگا دیا تھا۔ مرتینا اور ہرقلیوناس اسے دیکھنے کے لئے اس کے کمرے میں گئے ،اور اس کے آرام و آسائش کو اچھی طرح دیکھا بڑا خوبصورت اور پھول جیسا بچہ تھا ،ربیکا تو بہت ہی خوش تھی کہ اس کی ایک خواہش پوری ہو گئی ہے۔
ربیکا بچے کی پیدائش پر اس قدر خوش تھی کہ بیس دن ہی گزرے تھے کہ نارمل حالت میں آکر مرتینا کے پاس جا پہنچی اور روزمرہ کے کام کاج میں مصروف ہوگئی ۔کبھی وہ بچہ اپنے ساتھ لے آتی تھی اور کبھی اپنے کمرے میں ہی سوتا چھوڑ آتی تھی ۔
ایک رات ربیکا کام سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی، کچھ ہی دیر بعد مرتینا نے اسے پھر بلوا لیا ،اور جب ربیکا آئی تو اسے کسی کام میں لگا دیا اور ساتھ ساتھ اس کے ساتھ باتیں بھی کرتی رہی، اسے کم و بیش ایک گھنٹہ اپنے ساتھ رکھا اور پھر اسے فارغ کیا ،ربیکا چلی گئی۔
تھوڑی ہی دیر بعد ربیکا چیختی چلاتی اور روتی ہوئی مرتینا کے پاس دوڑتی آئی، مرتینا گھبرا کر اٹھی اور پوچھا کیا ہوگیا ہے ؟
میرا بچہ غائب ہو گیا ہے۔۔۔ ربیکا نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اسے سوتا چھوڑ آئی تھی۔
مرتینا اور ہرقلیوناس دوڑے گئے اور انہوں نے بھی دیکھا کہ بچہ غائب ہے۔ مرتینا نے ہنگامہ بپا کردیا اور تمام ملازموں کو جگا کر اکٹھا کیا اور حکم دیا کہ بچے کو تلاش کریں، ہرقلیوناس سب کو گالیاں دے رہا تھا، صرف مرتینا کو معلوم تھا کہ بچّہ کہاں ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جن کے دلوں میں اللہ کا نام تھا اللہ نے ان کی قسمت ان کے ہاتھوں میں دے دی تھی، وہ ایمان کی پختگی کے جادو جگا رہے تھے ،اللہ نے وعدہ فرمایا تھا کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت ایک بڑی جماعت پر غالب آئی ہے، ایسا ہر وقت ہوسکتا ہے شرط یہ ہے کہ چھوٹی جماعت والوں کے دلوں میں اللہ کا نام ہو اور ان کا ایمان پختہ ہو۔
مجاہدین اسلام کا لشکر ابھی تک اسکندریہ سے باہر اس انتظار میں تیار تھا کہ رومی باہر نکل کر حملہ کریں گے، جیسا وہ ہر قلعے کے محاصرے کے وقت کرتے رہے ہیں لیکن رومی چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے لئے باہر نکلتے اور واپس چلے جاتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص بھی کوئی زیادہ جلدی میں نہ تھے وہ محاصرے کو طول دے سکتے تھے اس مہلت سے یہ فائدہ مل رہا تھا کہ سابقہ معرکوں کے شدید زخمی لڑنے کے قابل ہو رہے تھے ،رسد کی کمی لشکروں کے ارادے اور عزم تہس نہس کر دیا کرتی تھی، لیکن مجاہدین کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا نہیں تھا انہوں نے اسکندریہ کے قرب و جوار کے جو قصبے اور شہر فتح کیے تھے وہاں سے رسد کے ذخائر اکٹھے ہوگئے تھے، مصری بدوّ رسد کم ہونے ہی نہیں دے رہے تھے، عقب سے حملے کا خطرہ بھی نہیں رہا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کی کوشش یہ تھی کہ شہر کے اندر رسد نہ جاسکے انہوں نے رسد کے ممکنہ راستے بند کردیئے تھے لیکن سمندر کا راستہ بند نہیں کیا جاسکتا تھا ،اور اصل مشکل یہ تھی کہ شہر کا محاصرہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ،اس کے باوجود عمرو بن عاص کہتے تھے کہ اسکندریہ کے اندر قحط والی کیفیت نہ بھی پیدا ہوئی تو رومی جرنیل اتنی طویل محاصرے سے اپنی ذلت ضرور محسوس کریں گے، رومیوں کے تمام چھوٹے بڑے جرنیل اسکندریہ میں جمع ہو گئے تھے اور ان کا اسقف اعظم قیرس بھی ان کے ساتھ تھا۔ بہرحال عمرو بن عاص مطمئن تھے کہ محاصرہ طول پکڑتا ہے تو یہی بہتر ہوگا۔
مجاہدین چوکس اور چوکنے تو رہتے ہی تھے لیکن وہ تقریباً فراغت کے دن گزار رہے تھے۔ خیمہ گاہ سے تھوڑی دور تک گھوم پھر بھی آتے تھے، قریبی دیہات کے لوگ خیمہ گاہ کے قریب آکر انہیں دیکھتے بھی رہتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کرسٹی اپنے باپ کے ساتھ قید ہو کر آئی تھی تو دونوں ڈرے ہوئے تھے ان کی حیثیت جنگی قیدیوں والی تھی جنہیں غلام سمجھا جاتا تھا، بلکہ غلام بنا لیا جاتا تھا، کرسٹی کے باپ کے دل پر یہی ایک خطرہ سوار تھا لیکن اسے کھلی قید میں رکھا گیا تھا اسے بتا دیا گیا تھا کہ وہ بھاگنے کی کوشش نہ کرے ورنہ اسے زنجیریں ڈال کر رکھا جائے گا ،اس باپ کے لیے دوسرا خطرہ یہ تھا کہ کرسٹی جو غیر معمولی طور پر حسین لڑکی تھی سالاروں کے لئے کھلونا بن جائے گی، کرسٹی کو عورتوں کے حوالے کردیا گیا تھا ۔
اسے ہر لمحہ توقع رہتی تھی کہ سالار اسے لونڈی سمجھ کر داشتہ بنا لیں گے اور اس کی ہر رات کسی نہ کسی سالار کے خیمے میں گزرے گی، لیکن کریون سے اسکندریہ اتنی راتیں گزر گئیں تھیں کسی نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں تھا ،سالاروں کو تو جیسے اس کی موجودگی کا احساس ہی نہیں تھا۔
کرسٹی کو جن عورتوں کے حوالے کیا گیا تھا وہ مجاہدین کی بیویاں، مائیں، اور بہنیں وغیرہ تھیں ان میں تین چار وہ رومی لڑکیاں بھی تھیں جو مجاہدین کے کردار اور حسن اخلاق سے متاثر ہوئیں اور ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اسلام قبول کر لیا اور ان کے ساتھ شادیاں کر لی تھیں ۔کرسٹی ان لڑکیوں میں گھل مل گئی تھی۔
وہ سب سے زیادہ متاثر شارینا سے ہوئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ شارینا شاہ ہرقل کے شاہی خاندان کی لڑکی تھی اور ایک مجاہد سے اتنی متاثر ہوئی کہ شاہانہ زندگی کو ٹھوکر مار کر اس مجاہد کے ساتھ آگئی اور دل و جان سے اسلام قبول کر کے اس مجاہد کی بیوی بن گئی، اس کے خاوند کا نام حدید بن خزرج تھا ،جو جاسوسی اور شب خون مارنے کی خصوصی مہارت رکھتا تھا ، کرسٹی نے ضرور سوچا ہوگا کہ شاہی خاندان کی اتنی خوبصورت لڑکی نے آخر ان صحرا نورد عربوں میں کوئی خاص بات ہی دیکھی ہوگی کہ ان کے ساتھ ماری ماری پھر رہی ہے، کرسٹی دوسری نومسلم لڑکیوں سے بھی خاصی متاثر تھی۔
یہ سب لڑکیاں خصوصا شارینا کرسٹی میں زیادہ دلچسپی لیتی تھی، اور انہوں نے اسے اپنے ساتھ پوری طرح بے تکلف کرلیا تھا۔ کرسٹی اپنے متعلق انہیں جو کچھ بتاتی رہی تھی وہ سب جھوٹ تھا وہ اپنے آپ کو اور اپنے باپ کو مظلوم سمجھتی تھی اور کہتی تھی کہ انھیں بے گناہ پکڑ لیا گیا ہے ،وہ ڈرے ڈرے سے لہجے میں انہیں بتاتی رہتی تھی جن میں دو خدشے اسے زیادہ پریشان رکھتے تھے، ایک یہ کہ اس کے بوڑھے باپ کے ساتھ بہت برا سلوک ہوگا، اور وہ خود سالاروں کی تفریح طبع کا بڑا ہی خوبصورت ذریعہ بن جائے گی۔
لیکن میں حیران ہوں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔ان سالاروں میں سے کوئی میری طرف دیکھتا ہی نہیں جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک اتنی حسین اور نوجوان لڑکی ان کے درمیان موجود ہے ،کبھی خیال آتا ہے کہ شائد ان بدوؤں کے ہاں حسن کا معیار کچھ اور ہے جس پر میں پوری نہیں اتر سکتی ۔
شارینا اور وہ لڑکیاں جو وہاں بیٹھی سن رہی تھیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں،انہوں نے کرسٹی کو بتایا کہ یہ سب بدو نہیں ہیں، اور جہاں تک اس نوجوانی کا تعلق ہے ان کا معیار رومیوں اور مصریوں سے مختلف نہیں، انہوں نے کہا کہ ان کی عورتوں کو دیکھ لو ان میں کیسی کیسی خوبصورت خواتین موجود ہیں۔
یہ معیار کی نہیں کردار کی بات ہے۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔یوں کرو کسی بھی سالار کے خیمے میں جا کر بالکل برہنہ ہو جانا اور دعوت گناہ دینا ،وہ تمہیں اپنے ہاتھوں کپڑے پہنا کر خیمے سے نکال دے گا، تم یہ تاثر لے کر آؤ گی کہ تم کسی بھی مرد کے لیے قابل قبول ہو ہی نہیں، اور اس حسین جسم میں ذرا سی بھی کشش نہیں ہے ۔
آزمانے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔۔یہ تو میں پہلے ہی محسوس کر رہی ہوں کہ یہ لوگ بد ذوق اور بے حس ہیں یا میں بدصورت اور دھتکاری ہوئی لڑکی ہوں۔
نہ یہ بدذوق ہیں نہ تم بدصورت ہو ۔۔۔ایک اور نومسلم لڑکی اینی نے کہا۔۔۔ تمہاری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ تم کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہی، راز کی ایک بات سن لو ، دیکھ رہی ہو کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی تھوڑی ہے لیکن انہوں نے تمہارے سامنے کریون کا قلعہ فتح کیا اور اب اسکندریہ پر حملے کر رہے ہیں، اور انہوں نے سارا مصر فتح کر لیا ہے کبھی تم نے سوچا کہ کیوں؟،،،،،،،،،، صرف اس لئے کے ان کی توجہ تم جیسی لڑکیوں پر نہیں ،ان کی نظریں اپنے اللہ پر لگی ہوئی ہیں، تم صرف اس ایک شخص کے لئے قابل قبول اور حسین ہو گی جو تمہارے ساتھ اللہ کے نام پر شادی کرے گا۔
کرسٹی بڑی زندہ دل، شگفتہ مزاج، اور بے تکلفی سے باتیں کرنے والی لڑکی تھی، اس نے ایسی کوئی بات نہ کی کہ وہ ان مسلمانوں سے اتنی متاثر ہوئی ہے کہ مسلمان ہو جانا چاہتی ہے، اس نے ہنستے مسکراتے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ اس کی تربیت کسی اور ہی طرح سے ہوئی ہے ۔
اس وقت تک وہ ان لڑکیوں کو اپنے متعلق غلط بات نہیں بتا رہی تھی اب اس نے سچ اگلنا شروع کر دیا ۔اس نے کہا کہ وہ زہر میں بجھا ہوا ایک بڑا ہی حسین تیر ہے، جو بڑی آسانی سے اپنے شکار کے دل میں اتر جاتا ہے، اور اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتا ،اور اس کا کوئی مذہب اور کوئی وطن نہیں رہتا۔اس نے بڑے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ یہ شخص جسے وہ اپنا باپ بتارہی ہے اس کا باپ نہیں، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ کون اور ماں کون تھی، اس کی عمر سات آٹھ سال تھی ۔اسے یاد تھا کہ اس کی پرورش کرنے والوں نے اسے بڑے پیار سے پالا پوسا اور جوان کیا تھا، اس کے دل سے سگے ماں باپ کی محبت اور ذہن سے ان کی یادیں بھی صاف ہو گئی تھیں، اسی عمر سے اسے یہ تربیت دی جانے لگی تھی کہ آدمیوں کو انگلیوں پر کس طرح نچایا جاتا ہے، مردوں پر اپنا طلسم طاری کرنا ،پتھر کو موم کرنا، اپنے حسن کو برقرار رکھنا، اور دشمن دیس کو اپنا گھر سمجھنا ،اور ایسے ہی کچھ اور سبق تھے جو اسے زبانی ہی نہیں پڑھائے گئے بلکہ اسے عملاً سکھایا گیا تھا ۔ یہ تربیت اسے بڑی ہی حسین و جمیل اور بے حد چالاک عورتوں نے دیں تھیں، اسے بتایا گیا تھا کہ اپنے شکار کے جذبات کو بھڑکا کر اس کی عقل و ہوش اپنے قبضے میں کر لینا اور خود جذبات سے عاری اور بے حس ہو جانا۔
اسے خبردار کیا گیا تھا کہ دل میں کسی دشمن کی ہمدردی پیدا ہوجائے تو اسے اپنے کام میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، مختصر یہ کہ اسے بڑی ہی خوبصورت ناگن بنا دیا گیا تھا اور یہ تعلیم و تربیت اس کی فطرت بن گئی تھی۔
کرسٹی نے ان لڑکیوں کو سنایا کہ اس نے مصری بدوّ اسطافت کو کس طرح قبضہ میں لے لیا تھا، اور وہ ایک سالار کو قتل کرنے پر آ گیا تھا اور خود مارا گیا۔
اسطافت مسلمان نہیں تھا۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ وہ عرب بھی نہیں تھا، اگر وہ مسلمان ہوتا تو تمہارے جھانسے میں کبھی بھی نہ آتا۔
میری تربیت صرف عورتوں نے نہیں کی۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔میں مرد استادوں کے ہاتھوں میں سے بھی گزری ہوں وہ سب میرے مذہب کے آدمی تھے، ہر ایک آدمی نے مجھے تربیت دینے سے پہلے میرے اس حسین جسم سے لطف اٹھایا ،پھر اگلی بات کی، لیکن مسلمانوں کے یہاں تو بالکل ہی الٹ معاملہ دیکھا ہے، یہ شخص جسے میں اپنا باپ کہتی ہوں اس نے بھی مجھے نہیں بخشا۔
تم اسلام قبول کر لو ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔پھر جو آدمی تمہیں اچھا لگے وہ مجھے بتاؤ اور تمہاری شادی اس کے ساتھ کروا دونگی۔
میں نے شادی کی تو سوچی ہی نہیں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔مذہب کو تو میں نے کبھی اہمیت دی ہی نہیں ،مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان عیسائیت کے دشمن ہیں اور اسلام کو ختم کرنا ہے ،،،،،،،،،،اب میرے خیالات اتنے بدل گئے ہیں کہ میں ان مسلمانوں کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہوں، میرے دل میں ان مسلمان سالاروں کی عزت پیدا ہو گئی ہے۔
تم ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ایک اور نومسلم لڑکی نے کہا۔
بہت کچھ کر سکتی ہوں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔ میرے پاس یہی ہنر ہے جو بتاچکی ہوں ،میں چاہتی ہوں کہ مسلمان مجھ سے فائدہ اٹھائیں میں ان کے لئے جاسوسی کر سکتی ہوں۔ رومی جرنیلوں کو قتل کروا سکتی ہوں، یہ نہ ہو سکا تو انھیں ایک دوسرے کا دشمن بنا سکتی ہوں، کسی طرح مجھے اسکندریہ میں داخل کر دیں۔
کرسٹی !،،،،،،،شارینا نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔۔۔ اسلام میں عورت کو اس طرح استعمال کرنا بہت بڑا گناہ ہے، یہ لوگ اپنی بیٹی کی ہی نہیں بلکہ بیٹی کسی دشمن کی بھی ہو تو یہ اپنے آپ کو اس کی عزت و آبرو کا محافظ سمجھتے ہیں، تم اپنے مستقبل کی سوچو تمہارے سامنے بڑی لمبی عمر پڑی ہے، یہ باعزت انداز سے گزرنی چاہیئے۔ اسطرح یہ بات کچھ سنجیدگی اور کچھ مذاق میں آئی گئی ہو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہر لمحہ مصر سے خبر آنے کے منتظر رہتے تھے، پیغام آتے جاتے رہتے تھے لیکن پہلی مرتبہ یوں ہوا کہ چار مہینوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا عمرو بن عاص کی طرف سے کوئی پیغام مدینہ نہ گیا، اس تاخیر اور خاموشی سے امیر المومنین کو تشویش ہونے لگی، یہ تشویش ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی اور امیرالمومنین نے مجلس مشاورات بلائی، تمام مستند مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مشیروں سے کچھ اس طرح خطاب کیا۔
کیا تم میری طرح پریشان نہیں ہو۔۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ چار چاند طلوع و غروب ہو گئے ہیں اور عمرو بن عاص کی کوئی خبر نہیں آئی ،یہ وہی لشکر ہے جس نے مصر کے بڑے ہی مضبوط شہر اور ناقابل تسخیر قلعہ فتح کیے ہیں ،پھر کیا بات ہے کہ وہ اسکندریہ کی دیواروں کے باہر جاکر بیٹھ گئے ہیں اور کوئی حرکت نہیں کر رہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں وہ جگہ اچھی لگی اور اسی کو وہ ایک خوبصورت منزل سمجھ کر وہیں کے ہوکر رہ گئے ہیں۔
یا امیرالمومنین!،،،،،، ایک مشیر نے کہا۔۔۔ عمرو بن عاص ایسے غیر ذمہ دار سپہ سالار تو نہیں کچھ دن اور انتظار کر لیا جائے۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔ ایک اور نے کہا۔۔۔ اسکندریہ بہت ہی مضبوط اور قلعہ بند شہر ہے اور یہ مصر کا آخری قلعہ ہے، عمرو بن عاص کے لشکر کی تعداد اور کم ہو گئی ہے اس لئے اس شہر کی فتح کے لئے تین چار مہینے کافی نہیں ہوسکتے۔
خدا کی قسم میں ان سب پہلوؤں پر غور کر چکا ہوں۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ اسکندریہ اجنادین سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتا، اس وقت ہرقل بھی زندہ تھا اور روم کی فوج بھی زندہ و بیدار اور بے حد طاقتور تھی، رومی سمجھتے تھے کہ اجنادین دراصل بیت المقدس کا دفاعی قلعہ ہے یہ گیا تو بیت المقدس بھی ہاتھ سے نکل جائے گا، رومی بیت المقدس میں اپنے آپ کو یوں سمجھتے تھے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کا دفاع کر رہے ہو، لیکن اسی عمرو بن عاص نے رومیوں سے اجنادین بھی لے لیا اور بیت المقدس بھی چھین لیا تھا ،آج عمرو بن عاص اسی رومی فوج کے سامنے کیوں بے بس ہو گیا ہے؟،،،،،،،،، اب تو رومی فوج بہت زیادہ دہشت زدہ اور کمزور ہو گئی ہے، اس کے علاوہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بزنطیہ میں ہرقل کے بعد اس کا بیٹا قسطنطین بھی مر چکا ہے، اور وہاں تخت و تاج کی وراثت پر شاہی محل میں جھگڑا چل رہا ہے ،عمرو بن عاص اس صورتحال سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہا ؟
کیا آپ کو اس پر کوئی شبہ ہے امیرالمومنین!،،،،، ایک صحابی نے پوچھا۔
ہاں میرے بھائی!،،،،،، امیرالمومنین نے جواب دیا ۔۔۔مجھے شبہ ہے کہ عمرو اور اس کے لشکر میں کوئی ایسی ذہنی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس نے ان کے دلوں سے شہادت کی تڑپ اور جہاد کی لگن چھین لی ہے، ہوسکتا ہے مصر کی خوبصورتی اور دولت نے انہیں دنیاوی آسائشوں اور عیش پرستی میں الجھادیا ہو ،اگر یہ نہیں تو کوئی ایسی وجہ ضرور ہے کہ مصر کی فتح میں اتنی زیادہ دیر لگ رہی ہے،،،،،کیا میں عمرو بن عاص کو پیغام بھیج کر پوچھ نہ لوں کہ اس کی اتنی طویل خاموشی کی وجہ کیا ہے، اور اس کا لشکر کس حال میں ہے؟
سب نے متفقہ طور پر رائے دی کہ ابھی پیغام دے کر قاصد کو روانہ کر دیا جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی وقت پیغام لکھا جو آج تک تاریخ کے دامن میں لفظ با لفظ موجود ہے ،تاریخ نویس ابن الحکم ، مقریزی اور بلاذری کے حوالے سے یہ پیغام ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
میں حیران ہوں کہ تم دو سالوں سے لڑ رہے ہو اور مصر کی فتح ابھی تک مکمل نہیں ہوئی، میں جانتا ہوں تم مصر کا آخری قلعہ فتح کرنے پہنچے ہوئے ہو، لیکن اتنے عرصے میں تمہاری طرف سے کوئی اطلاع اور کوئی خبر نہیں آئی ،مجھے شک ہے کہ تمہارے دل میں وہ پہلا سا جذبہ نہیں رہا، اور اپنے اس دشمن کے ملک کا تم پر یہ اثر ہوا ہے کہ تمہارے دل میں بھی دنیا کی محبت پیدا ہوگئی ہے، اگر ایسا ہے تو اللہ تعالی تمہاری کوئی مدد نہیں کرے گا، میں نے چار بڑے ہی بہادر سالار تمہاری مدد کے لیے بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ ان میں سے ہر سالار ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی دنیاوی جاہ و جلال میں الجھ گئے ہیں، اور تم بھی الجھے ہوئے ہو ،میرا یہ پیغام پورے لشکر کو سناؤ اور انہیں کہو کہ اپنے جذبے اور حوصلے کو مجروح نہ ہونے دیں، میرے بھیجے ہوئے چاروں سالاروں کو فوج کے آگے رکھو اور اللہ کے نام پر اسکندریہ پر چڑھ دوڑو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس پیغام میں جن چار سالاروں کا ذکر کیا ہے ان کی شجاعت کے کارناموں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ یہ تھے زبیر بن العّوام ،عبادہ بن صامت، مقداد بن اسود، اور مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالی عنہم، یہ سب صحابہ کرام تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں جب کمک دے کر مصر بھیجا تھا تو ساتھ پیغام میں انھوں نے لکھا تھا کہ ان چاروں میں ہر ایک سالار ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان چاروں کی شجاعت اور میدان جنگ میں قیادت کی مہارت کی تعریف کی تھی، لیکن تاریخ لکھنے والے ایک غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے اس غلط فہمی کی تفصیل بھی پہلے بیان ہو چکی ہے، زبیر بن العّوام کی بہادری تو معجزہ نما تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦