⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 54👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➍➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حیران مت ہو قیرس بھائی !،،،،،،،،اتنے تھوڑے مسلمان فتحیاب ہوئے تو اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں تم مذہبی پیشوا اور عالم ہو حیران ہونے والی بات تو یہ ہے کہ تم سمجھ نہیں سکے کہ مسلمان صرف اس لئے فتحیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو الگ نہیں رکھا بلکہ اپنی ذات اپنے دنیاوی مفادات اور اپنی جانوں کو الگ رکھ کر مذہب کو سینے سے لگائے رکھا ہے، اس جنگ کو وہ اپنے مذہب کی جنگ کہتے ہیں ،یہ ان کے مذہب کا ایک فریضہ ہے جو جہاد کہلاتا ہے، ان کے مذہب میں نماز قضا ہو سکتی ہے جہاد کو قضا نہیں کیا جاسکتا، پھر ان کے مذہب کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ مفتوحہ لوگوں کو اپنا غلام نہ سمجھو اور انہیں بحیثیت انسان پورے حقوق اور تعظیم دو، ان مسلمانوں نے یہاں اپنے اس مذہبی اصول کی پابندی کی اور لوگ ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے ان کے مقابلے میں تم لوگوں نے قتل اور جبر و تشدد سے اپنی غلط عیسائیت منوائی اور ان کی آہوں اور فریادوں کی طرف توجہ ہی نہ دی تم ہی بتاؤ کہ یہ لوگ کسے اپنا اور کسے پرایا سمجھیں۔
اس وقت جو صورتحال ہے اس کی طرف دھیان دیں۔۔۔۔ قیرس نے ہاری ہوئی سی آواز میں کہا۔۔۔۔۔ قبطیوں کو میدان میں لاؤ ۔انہیں بتاؤ کہ مصر تمہارا ہے اور تمہارا اپنا ایک مذہب ہے۔مسلمان اس ملک پر قابض ہو گئے تو تم ان کے غلام بنے رہو گے اور تمھارا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔
قبطی میدان میں نہیں آئیں گے۔۔۔ بنیامین نے کہا ۔۔۔اگر رومی مصر سے دستبردار ہو جائیں پھر دیکھو قبطی کس طرح مصر کے دفاع میں لڑتے ہیں۔
اگر یہ نہیں تو ایک اور کام کرو۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ قبطیوں سے کہو کہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیں۔میں نے کہا تھا کہ قبطی مسلمانوں کی پیش قدمی کو آسان اور تیز کرنے کے لیے ان کے راستے کی رکاوٹیں صاف کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، جہاں پل بنانے کی ضرورت پڑتی ہے وہاں پل بنا دیتے ہیں۔
میری آخری بات سن لو قیرس بھائی!،،،،،، بنیامین نے کہا۔۔۔۔ میں نے تم سے یہ گلہ شکوہ تو کیا ہی نہیں کہ مجھے لوگوں نے اسقف اعظم بنایا تھا ،لیکن تم نے خود اسقف آعظم بن کر مجھے شاہی حکم سے جلا وطن کر دیا ،بلکہ میری گرفتاری کا حکم نامہ لیا اور میں صحراؤں میں جا روپوش ہوا، یہ معاملہ تو میں نے خدا کے سپرد کردیا ہے ،قبطیوں کے متعلق میں تمہیں آخری فیصلہ سنا دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ جہاں رومی قابض ہیں وہاں قبطی رومیوں کے وفادار ہیں، اور جو علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ہیں وہاں قبطی مسلمانوں کے وفادار بن گئے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں طاقتوں میں سے کسی کے خلاف دشمنی پیدا کی اور وہی طاقت مصر پر قابض ہو گئی تو پھر ان کے لیے زندگی جہنم بنا دی جائے گی، میں تمہیں یہ ضمانت دیتا ہوں کہ قبطی عیسائی روم کی بادشاہی کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے ۔
ہم دونوں  چونکہ مذہبی پیشوا ہیں اور مذہب سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اس لیے میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جس مذہب میں فرقے پیدا ہو جاتے ہیں وہ مذہب کھیل تماشا بن جاتا ہے، اور اس مذہب کی قسمت میں غیروں کی غلامی لکھ دی جاتی ہے، تم نے ہرقل کے ساتھ مل کر عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور آج اس کی سزا بھگت رہے ہو، اپنے مقابلے میں مسلمانوں کو دیکھو ان میں کوئی فرقہ نہیں وہ ایک جماعت ہے اپنے سپہ سالار کو اپنا فوجی قائد ہی نہیں بلکہ اپنے مذہب کا امام بھی کہتے ہیں۔
یہاں تاریخ کا ایک اور پہلو سامنے لانا ضروری ہے مصر کی فتح ایک معجزاتی فتح سمجھی جاتی ہے لیکن یہ معجزہ اپنے آپ ہی رونما نہیں ہو گیا تھا ،مجاہدین نے اپنی جانیں اللہ کے سپرد اور اپنے جسم اپنے سالاروں کے سپرد کر دیے تھے ،انہیں جتنا بھروسہ اپنے اللہ پر تھا اتنا ہی اعتماد قیادت پر تھا، مصر کی فتح میں ایمان کی پختگی اور سپہ سالار عمرو بن عاص کی غیرمعمولی عسکری ذہانت کا کرشمہ تھا ،لیکن غیرمسلم مؤرّخوں نے اس حقیقت کو اس طرح جھٹلانے کی کوشش کی ہے کہ مصر کے تمام قبطیی عیسائی مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور مسلمانوں کی فتح کا باعث بنے تھے۔
یہ مورخ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رومی جرنیلوں کی کمزوری تھی کہ وہ ہر شہر میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرکے ہتھیار ڈال دیتے تھے۔
یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں، قبطی عیسائیوں کی جو پالیسی تھی وہ قیرس اور بنیامین کی گفتگو میں واضح ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ ہر شہر میں جرنیل مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیتے تھے لیکن وہ اس وقت ایسا کرتے تھے جب دیکھ لیتے تھے کہ اب اس شہر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہا تو کم از کم اپنی جانیں ہی بچا لی جائیں اور بچی کھچی فوج کو یہاں سے نکال لیا جائے ،اس مقصد کے لیے وہ معاہدہ کرتے اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کریون کی فتح کے بعد سپہ سالار عمرو بن عاص نے وہاں زیادہ انتظار مناسب نہ سمجھا، ان کا اصول تھا کہ بھاگے ہوئے دشمن کے تعاقب میں رہا جائے تاکہ وہ کہیں سنبھل اور سستا نہ سکے، لیکن عمرو بن عاص کو پھر بھی کچھ دن انتظار کرنا پڑا، وہ اس لئے کہ مجاہدین کے لشکر کو ذرا سستانے کی شدید ضرورت تھی اور وہ زخمی جو لڑنے کے قابل نہیں رہے اتنے صحت یاب ہو جائیں کہ پیش قدمی کر کرسکیں اس کے علاوہ کریون جیسے بڑے شہر میں امن و امان بحال کرنا تھا اور وہاں کے سرکاری انتظامات کو بھی رواں کرنا ضروری تھا۔
عمرو بن عاص پر تو جیسے دیوانگی طاری ہو گئی تھی لیکن وہ حقیقت پسندی سے دستبردار نہ ہوئے، اور عقل و ہوش کو ٹھکانے رکھا ۔
مقریزی اور ابن الحکم جیسے مستند تاریخ دان لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی جسمانی کیفیت اس قابل رہی ہی نہیں تھی کہ وہ چند قدم بھی پیش قدمی کرسکتے ،لیکن روحانی طور پر وہ اس قدر تروتازہ اور مسرور تھے کہ وہ کریون میں زیادہ انتظار کے حق میں تھے ہی نہیں، سالاروں کے جذبے کی کیفیت تو اور ہی زیادہ پرجوش تھی، سپہ سالار عمرو بن عاص اپنے لشکر کی اور اپنے سالاروں کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے لیکن انہیں یہ احساس بھی تھا کہ لشکر پر جذباتیت طاری ہوگئی تو یہ شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے پہلے دو تین موقعوں پر مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فتح کے نشے سے سرشار ہو کر اگلی لڑائی نہیں لڑنی چاہیے، کیونکہ فتح کا نشہ خوش فہمی میں مبتلا کرسکتا ہے اور خوش فہمیاں شکست کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔
اب عمرو بن عاص نے کریون سے اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کے وقت ضروری سمجھا کے لشکر سے خطاب کیا جائے ایک تو وہ لشکر کو جذباتیت اور خوش فہمی سے نکالنا چاہتے تھے، اور دوسرے یہ کہ لشکر کو یہ بتانا بہت ہی ضروری تھا کہ اب وہ جس ہدف پر جارہے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے پہاڑ کو جڑوں سے اکھاڑنے کی کوشش ہو۔
چنانچہ انہوں نے لشکر کو اکٹھا کیا اور کچھ وقت لگا کر خطاب کیا پہلے تو لشکر کو یہ ذہن نشین کرایا کے حقیقت کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اس خوش فہمی کو بھی دل و دماغ پر طاری نہ ہونے دیں کہ وہ جہاں بھی جائیں گے انہیں فتح ہی حاصل ہوگی۔
پھر لشکر کو بتایا کہ اب وہ جس شہر پر حملہ کرنے جا رہے ہیں وہ صحیح معنوں میں ناقابل تسخیر ہے اور اس کا زیادہ تر دفاع قدرتی ہے۔ عمرو بن عاص نے اسکندریہ کے دفاع کے تمام انتظامات وغیرہ لشکر کو تفصیل سے بتائے اور بتایا کہ ہم نے اسکندریہ کا شہر فتح کرلیا تو سمجھو پورا مصر فتح کر لیا ہے رومیوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی، ان کے پاس بحری بیڑہ ہے جو انہیں سمندر پار پہنچا دے گا۔
اسلام کے علمبردارو !،،،،،عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔جب کوئی لشکر لڑنے کے لئے نکلتا ہے تو نتیجہ فتح کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے، اور شکست کی صورت میں بھی، لڑنے والوں کے لئے فتح اور شکست پہلو بہ پہلو چلا کرتی ہے لیکن ہمارے معاملے میں صورت کچھ اور بھی ہے اگر اسکندریہ میں ہم شکست کھا گئے تو پھر ہمارے قدم شاید کہیں بھی نہ جم سکیں، تم میں سے بہت کم جانتے ہوں گے کہ ہماری شکست کی صورت کچھ اور ہو گی ،وہ یہ کہ ہم مدینہ واپس جا کر اپنی قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے ،تمہیں نہیں لوگ مجھے طعنہ دیں گے کہ تمہیں بزرگ صحابہ نے منع کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی نہ کرو اور تم باز نہ آئے اب اتنی زیادہ ماؤں کے جوان بیٹے مروا کر اور پرائی زمین پر ان کی لاشیں پھینک کر آ گئے ہو،،،،،،،
تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ میں نے امیرالمومنین سے مصر پر فوج کشی کی اجازت مانگی تھی تو تقریباً تمام صحابہ کرام نے مخالفت کی تھی جن میں سب سے زیادہ محترم بزرگ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر شامل ہیں اب یہ سوچو کہ میں نے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا ہے ،اس میں میری یا تم میں سے کسی کی کوئی ذاتی غرض نہیں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہم باطل کے خلاف اللہ کی راہ پر جہاد میں نکلے ہیں،،،،،،
دین اسلام کے مجاہدو!،،،،،،، مصر کے متعلق یہ ذہن میں رکھو کہ یہ فرعونوں کا ملک ہے یہاں حضرت موسی علیہ السلام ایک فرعون کو دعوت حق دینے آئے تھے لیکن اس فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیر کرنے کے لیے اپنے جادوگر کو بلایا اللہ تبارک و تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے عصا میں اتنی خدائی طاقت ڈال دی جس کے سامنے ہر جادو بے کار ہو کے رہ گیا ،یہ تو بڑی لمبی کہانی ہے میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس نیل نے حضرت موسی علیہ السلام کو راستہ دے دیا تھا اور پھر اسی نیل نے فرعون کو غرق کردیا ،آج اللہ نے تمہیں یہ اعجاز بخشا ہے کہ فرعون کی زمین سے باطل کا نام و نشان مٹا دو ،تم سوچو گے کہ فرعون تو کبھی کے دفن ہو چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ فرعون صدیاں گزریں ختم ہوگئے ہیں، لیکن مصر میں فرعونیت ابھی تک باقی ہے اللہ نے یہ فرض تمہیں سونپا ہے کہ اس فرعونیت کو اس ملک سے ختم کرو، تم نے رومیوں کی فرعونیت کے قصے سنے ہوں گے ہمیں اس سرزمین کو پاک اور مقدس بنانا ہے کیونکہ یہ ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے۔
عمرو بن عاص نے ایسی باتیں کیں اور ایسے پردے اٹھائے کہ اپنے لشکر کو جذباتیت اور خوش فہمیوں سے نکال کر حقیقت کا صحیح روپ دکھا دیا اس کے بعد کریون سے لشکر روانہ ہوا۔
پیش قدمی کا راستہ خطروں سے خالی نہیں تھا اس علاقے میں کئی ایک چھوٹی بڑی بستیاں تھیں ان میں قصبے بھی تھے اور درمیانہ درجے کے شہر بھی، ان میں سے بعض میں رومی فوج موجود تھی، فوج کی کچھ نفری جنرل تھیوڈور اپنے ساتھ اسکندریہ لے گیا تھا اور جو نفری پیچھے رہ گئی تھی اسے تھیوڈور نے یہ حکم دیا تھا کہ مسلمانوں پر دائیں بائیں اور پیچھے سے حملے کرتے رہیں تاکہ ان کی پیش قدمی سست رہے اور ان کا جانی نقصان ہوتا رہے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص میں یہی تو بنیادی خوبی تھی کہ وہ اس قسم کے خطرات کو پہلے ہی بھانپ لیا کرتے تھے انہوں نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے جو انہیں اطلاع دیتے جا رہے تھے کہ کہاں سے حملے کا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص اس خطرے کا سدباب یہ کرتے کے مجاہدین کے کچھ دستے لے کر اس جگہ کو محاصرے میں لے لیتے اور ایسی غضبناک یلغار کرتے کے رومی فوج ہتھیار ڈال دیتے تھے۔
اس طرح پیش قدمی کی رفتار کچھ کم تو رہی لیکن خطرے ٹلتے جارہے تھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ بعض مقامات پر رومیوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے اس کی وجہ وہی تھی جو پہلے کئی موقعوں پر بیان ہو چکی ہے، وہ یہ کہ کریون سے بھاگے ہوئے فوجی ان مقامات پر چلے گئے اور وہاں کے فوجیوں کو مسلمانوں کی بے جگری اور شجاعت کی باتیں بڑھا چڑھا کر سنا کر ان پر بھی دہشت طاری کردی۔ وہاں کے فوجی یہ بھی تو ضرور سوچتے ہونگے کہ جنہوں نے اتنے قلیل تعداد میں کریون جیسا مستحکم قلعہ لے لیا ہے ان کے آگے یہ چھوٹی سی قلعہ بندی کیا حیثیت رکھتی ہے، بعض بستیوں کو عمرو بن عاص نے نظر انداز کردیا کیوں کہ وہاں سے کوئی خطرہ نہیں تھا ،اس طرح مجاہدین کا لشکر آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور منزل قریب آتی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دانشمندوں نے کہا ہے کہ تاریخ بہترین استاد ہے ،جس قوم نے تاریخ سے سبق سیکھا وہ قوم تاریخ میں زندہ اور پائندہ رہی اور رہتی صدیوں تک نام پایا، اور جن قوموں نے تاریخ کے عبرتناک واقعات سے عبرت حاصل نہ کی وہ دوسروں کے لئے عبرت کا باعث بن کر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہوگئیں۔
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ جس مذہب میں تفرقہ بازی پیدا ہوئی وہ مذہب زندہ نہ رہ سکا ،اور اگر زندہ رہا بھی تو اس کے پیروکار غیروں کے غلام رہے اور انکا مذہب غیروں کے لئے تماشا بنا رہا ،یہ بھی کہ جس قوم کی قیادت میں ذاتی مفادات آگئے اور اقتدار کی کشمکش شروع ہوگئی وہ قومیں اگر زندہ رہیں بھی تو دوسروں کے محتاج بن کر زندہ رہیں،،،،،،،نہ اس قوم کی کوئی عزت رہی، نہ وقار اور نہ کوئی پہچان،،،،،،،مجاہدین اسلام کے جذبہ جہاد اور ایمان کی پختگی نے رومیوں کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا۔
پہلے گزر چکا ہے کہ مرتینا کے بیٹے ہرقلیوناس کو کونستانس کے ساتھ شریک حکمرانی بنا دیا گیا تھا، یہ مرتینا کے سازشی اور ابلیسی ذہن کا حاصل تھا، ورنہ ہرقلیوناس اس قابل ہی نہیں کہ اس میں شریک کیا جاتا۔ اس نے دیکھا کہ کریون کی شکست کے معاملے میں ہر کوئی کونستانس کے ساتھ بات کرتا ہے اور اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ،معلوم نہیں اس کی ماں نے اسے اپنی اہمیت جتانے کا یہ طریقہ بتایا تھا یا اس کے اپنے دماغ میں یہ بات آئی تھی کہ ایک روز اس نے بزنطیہ کی ساری فوج کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کر لیا فوج کے ساتھ تین چار جرنیل بھی تھے۔
ہرقلیوناس گھوڑے پر سوار تھا اس نے فوج کو یہ خبر سنائی کے مصر میں مسلمانوں نے کریون نام کا ایک اور بڑا شہر فتح کرلیا ہے، اور اب وہ اسکندریہ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مصر کا دارالحکومت ہے اور اگر مسلمانوں نے اسکندریہ بھی فتح کرلیا تو پورا مصر مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا ،، ،،،،،ہر قلیوناس نے یہ پیغام سنا کر کہا کہ اپنی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے ،اگر پورا مصر ہاتھ سے نکل گیا تو مسلمان بحیرہ روم پار کرکے بزنطیہ پر حملہ کریں گے، اور پھر تم بھی مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دو گے۔
بزنطیہ کی فوج کو یہ خبر دینے کا کوئی جواز نہیں تھا اگر اس فوج کو یہ خبر سنانی ہی تھی تو اس فوج کی حوصلہ افزائی کرنی تھی کہ وہ فوجی اپنے ان فوجی ساتھیوں جیسے نہ ہو جائیں جو مصر میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے آ رہے ہیں اور پورا مصر دے بیٹھے ہیں ،لیکن ہرقلیوناس نے اس فوج کو بزدل اور حرام خور کہا جو ابھی مصر گئی ہی نہیں تھی۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تم لوگ تنخواہ حرام کر رہے ہو، اور اپنا فرض دیانتداری سے پورا نہیں کر رہے، پھر اس نے جرنیلوں کو بھی توہین آمیز الفاظ کہہ دیے، اور اس کا بولنے کا انداز طنزیہ اور غصیلا ہوتا چلا گیا۔ اس نے کہا کہ یہاں سے جو کمک بھیجی گئی تھی وہ بھی مصر کی فوج جیسی بزدل نکلی،،،،،،، ہرقلیوناس کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کمک کا بہت تھوڑا حصہ کریون بھیجا گیا تھا اور باقی ساری کمک ابھی اسکندریہ میں ہے اور وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آئی ہی نہیں۔ وہ دراصل جرنیلوں اور فوج پر یہ رعب جھاڑ رہا تھا کہ وہ بھی سلطنت روم کا ایک بادشاہ ہے اور جو چاہے کر اور کہہ سکتا ہے۔
آخر ایک جرنیل بول پڑا ۔۔۔۔اس نے کہا کہ انہیں وہ بلاجواز بزدل اور حرام خور نہ کہے ابھی تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھیجے ہی نہیں گئے اگر مصر کی فوج نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں تو بزنطیہ کی فوج بزدل کس طرح قرار دے دی گئی ہیں۔؟؟؟
ہرقلیوناس نے کوئی تسلی بخش یا حوصلہ افزا جواب دینے کی بجائے اس جرنیل کو یوں ڈانٹ دیا جیسے وہ جرنیل نہ ہو کوئی ادنی سپاہی ہوں، ایک جرنیل کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر ایک اور جرنیل بول پڑا اور اس نے بھی احتجاج کیا اور کہا کہ ہرقلیوناس بادشاہ ہی کیوں نہ ہو وہ فوج کے سامنے کسی جرنیل کی اس طرح توہین نہ کریں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرقلیوناس میں تدبر کا تو نام و نشان نہ تھا وہ بگڑا ہوا شہزادہ تھا اس میں کونستانس جیسی ذہانت تھی ہی نہیں کونستانس کی تربیت اس کے باپ قسطنطین نے کی تھی جس میں عسکری ٹریننگ بھی شامل تھی اور سلطنت کے امور و مسائل کی تعلیم و تربیت بھی، ہرقلیوناس اپنی ماں کے زیراثر رہا تھا اور مرتینا ایک انتہائی خوبصورت اور بے حد سازشی ذہن والی عورت تھی۔
جب ہرقلیوناس نے دوسرے جرنیل کو پہلے جرنیل سے بھی زیادہ ڈانٹ پلا دی تو باقی جرنیل غصے اور احتجاج سے بھرے ہوئے ایسے بولے کے ہر قلیوناس کو ایک دو تلخ باتیں کہہ ڈالیں، اس کے ساتھ ہی پوری کی پوری فوج نے شور و غل برپا کر دیا اور کچھ نے ترتیب ہی توڑ ڈالی اور ایک منظم فوج نے غم و غصے سے بھرے ہوئے ہجوم کی صورت اختیار کرلی، ہرقلیوناس تحکمانہ لہجے میں چیخ چلا رہا تھا لیکن اس کی کوئی سنتا ہی نہیں تھا، نہ اس کی آواز اس قدر زیادہ شور و غل میں سنائی دے رہی تھی۔
ہرقلیوناس فوج سے خطاب کرنے کے لیے پورے شاہانہ کروفر سے گیا تھا اس کے ساتھ شاہی باڈی گارڈز کا دستہ بھی تھا اور ایک باڈی گارڈ نے شاہی پرچم اٹھا رکھا تھا وہاں صورتحال ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ ہرقلیوناس کی جان خطرے میں نظر آنے لگی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے فوجی اس پر حملہ کر کے اسے تلواروں سے چیر پھاڑ ڈالیں گے۔
حفاظتی دستے کے کمانڈر نے اپنے دستے کو اشارہ دے کر ہرقلیوناس کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔
حفاظتی دستے کے کمانڈر نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور عقلمندی یہ کی کہ تلواریں نیام و سے نہ نکلنے دیں، تلوار بےنیام کرنے کا مطلب چیلنج ہوتا تھا ،حفاظتی دستے کے فرائض کا تقاضا کچھ اور تھا لیکن اس کے کمانڈر نے صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر اپنی ہی فوج کے مقابلے میں آنے سے گریز کیا اور ساتھ ہی یہ دانشمندی کی کہ ایک باڈی گارڈ کو کان میں کہا کہ وہ بہت ہی تیزی سے جائے اور جنرل اقلینوس کو اطلاع دے کہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں بغاوت کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ محافظ گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہوا سے باتیں کرتا جنرل اقلینوس کے پاس جا پہنچا ،اس جرنیل نے کونستانس کو اطلاع دی اور دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر گھوڑے سرپٹ دوڑاتے گھوڑ دوڑ میدان میں جا پہنچے، دیکھا کہ فوج ان کی اپنی فوج لگتی ہی نہیں تھی، وہاں شاہی خاندان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے، اور بار بار ایسی آوازیں اٹھتی تھی کہ ہم بزدل نہیں بزدل شاہی خاندان ہے وغیرہ۔
کونستانس اور سپریم کمانڈر جنرل اقلینوس کے لیے یہ صورتحال کوئی نئی نہیں تھی اس سے پہلے باقاعدہ بغاوت ہو چکی تھی جو بہت حد تک خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگئی تھی، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب قسطنطین کی موت پر پتہ چلا تھا کہ مرتینا نے شاہی طبیب کے ہاتھوں اسے زہر دلوایا ہے۔ روم کے تخت و تاج کی وراثت پر جرنیل اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ یہ حکام دو حصوں میں بٹ گئے تھے ،اور پھر جرنیلوں نے آپس میں بٹ کر فوج کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ بظاہر فوج ایک تھی لیکن ان کے دل بٹ کر دو ہو گئے تھے، بڑی مشکل سے وہ خانہ جنگی قابو میں آئی اور امن وامان بحال کیا گیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں تخت کی وراثت کونستانس اور ہرقلیوناس کو دی گئی تھی ۔
اب صورتحال خانہ جنگی والی نہیں رہی تھی کیونکہ زیادہ تر حمایت کونستانس کو حاصل تھی اور تقریباً تمام جرنیل سمجھ گئے تھے کہ مرتینا شیطان صفت عورت ہے اور اس کا بیٹا ہرقلیوناس عیاش اور بگڑا ہوا شہزادہ ہے۔ اور اس میں حکمرانی کی ذرا سی بھی رمق نہیں تھی۔
جنرل اقلینوس نے کونستانس اور ہرقلیوناس کو پیچھے کر دیا اور خود فوج کو ٹھنڈا کرنے کے لئے چیخنے چلّانے لگا، آدمی جہاندیدہ اور دانشمند تھا اس لئے اس کا اندازہ اب جھاڑنے والا نہیں تھا بلکہ بڑے ہی دوستانہ اور صلح جو انداز سے فوج سے مخاطب ہو رہا تھا ۔اس نے کہا کہ پہلے فوج اپنی ترتیب میں ہو جائے پھر بات ہو سکے گی کہ فوجیوں کو کیا شکایت پیدا ہوئی ہے۔ فوج فوراً ترتیب میں ہو کر خاموش ہو گئی اقلینوس نے ایک سینیئر جرنیل سے کہا کہ وہ سب کی نمائندگی کرتے ہوئے بتائے کہ یہ فساد کس طرح شروع ہوا ہے۔
ہمیں بزدل اور حرام خور کہا گیا ہے۔۔۔۔ اس جرنیل نے کہا۔۔۔ ہم بزنطیہ میں ہیں مصر میں نہیں مصر کی شکست کے ذمہ دار ہم نہیں۔
ہمارا ایک مطالبہ پورا کیا جائے۔۔۔۔ ایک اور جرنیل بیچ میں بول پڑا ۔۔۔ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہم نے ایک بادشاہی کے دو بادشاہ کبھی نہیں سنے، ہم شاہ ہرقل اور قسطنطین کی قاتلہ کے بیٹے کا حکم نہیں مانیں گے۔
ہم صرف کونستانس کو شاہ روم مانتے ہیں۔۔۔۔ ایک اور جرنیل نے کہا ۔۔۔ہرقلیوناس پوری فوج کو مروا دے گا یا ایک بار پھر آپس میں لڑوا دے گا۔
فوج نے ایک بار پھر شور شرابہ شروع کردیا فوجی ایک ہی بات کہے چلے جا رہے تھے کہ وہ کونستانس کو شاہ روم مانتے ہیں اور اسی کا حکم مانیں گے۔
مرتینا کو بھی اطلاع پہنچ گئی تھی وہ بھاگی بھاگی وہاں آ پہنچی اور اپنے بیٹے کے پاس کھڑی اور احتجاجی مظاہرہ دیکھ رہی تھی۔ کونستانس فوج کے قریب اور بالکل سامنے کھڑا تھا اس نے اپنے دونوں بازو بلند کئے جو اشارہ تھا کہ فوجی خاموش ہو جائیں فوجی آہستہ آہستہ خاموش ہو گئے۔
تم لوگ کہتے ہو کہ صرف میرا حکم مانو گے۔۔۔۔ کونستانس نے کہا۔۔۔۔ میرا حکم یہ ہے کہ خاموشی سے اپنے ٹھکانوں پر چلے جاؤ تمہاری جو توہین کی گئی ہے اسے میں نظرانداز نہیں کروں گا ،اگر تمہیں بزدل کہا گیا تو اس کا مطلب یہ نہ لو کہ میں بھی اور جنرل اقلینوس بھی تمہیں بزدل سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں تمہاری عزت اور وقار قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اپنے آپ کو بالکل ٹھنڈا کر لو اور واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔
کونستانس نے جرنیلوں کو اشارہ کیا کہ وہ یہیں موجود رہیں، فوج خاموشی سے بارکوں میں چلی گئی۔
مرتینا اور ہرقلیوناس آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کونستانس اور جنرل اقلینوس اور دوسرے جرنیلوں کے قریب ہو گئے۔
قابل احترام خاتون!،،،،،،، جنرل اقلینوس نے کہا۔۔۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آپ کے بیٹے نے کیا صورتحال پیدا کردی تھی ،کیا آپ پہلی بغاوت اور خانہ جنگی کو بھول گئی ہیں، اب صورت کچھ اور ہے ، محترمہ اب آپ کے حمایتی اتنے تھوڑے رہ گئے ہیں کہ ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی نہ ان کی آواز میں کوئی اثر رہ گیا ہے۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا رہا ہوں کہ اب آپ دونوں کی جان خطرے میں ہے، ادھر مصر ہاتھ سے جارہا ہے ادھر فوج کو آپ کا بیٹا بغاوت کے لیے بھڑکا رہا ہے، مت بھولیں کے مسلمان بزنطیہ آ سکتے ہیں روم کی سلطنت ہی نہ رہی تو اپنے بیٹے کو کونسے تخت پر بٹھائیں گی۔
میری بات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا۔۔۔ مرتینا نے دبی دبی زبان سے کہا۔۔۔ میں کہتی تھی کہ تخت و تاج میرے حوالے کر دیں لیکن مجھ پر الزامات لگائے گئے، میرا مطلب یہی تھا کہ حکمرانی ایک انسان کے ہاتھ میں رہے، اب کونستانس کا کچھ اور خیال ہوتا ہے، اور ہرقلیوناس کچھ اور سوچتا ہے ،اگر آپ میری بادشاہی تسلیم کریں،،،،،،،،،،، میں پھر بھی وہی بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں۔۔۔۔ جنرل اقلینوس نے مرتینا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ادھر مصر ہاتھ سے جارہا ہے اور ادھر دارالحکومت میں آپ نے تخت و تاج کو مسئلہ کھڑا کر رکھا ہے، پہلے ہمیں اس عظیم سلطنت کو بچا تو لینے دیں۔
مرتینا خاموش ہو گئی اس کا بیٹا ہرقلیوناس اس کے منہ کی طرف احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا ،مرتینا چپ چاپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر وہاں سے چلی گئی سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو یہی سوچ رہے ہوں گے کہ اس عورت کی خاموشی بڑی ہی تیز و تند اور تباہ کن طوفان کے پہلے کی خاموشی ہے۔ کوئی بھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھا کہ اس عورت کو کچھ کھری کھری باتیں کہہ کر لاجواب کردیا گیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام کا لشکر اسکندریہ تک پہنچ گیا لیکن اس شہر کو محاصرے میں لینا ممکن ہی نہیں تھا، اس کا محل وقوع پہلے بیان ہوچکا ہے ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے دو مقامات حلوہ اور قصر فاروس کے درمیان اپنے لشکر کو روک کر خیمہ زن کردیا ،خیمہ گاہ کے لئے وہ علاقہ موزوں تھا لیکن وہاں مسئلہ صرف خیمہ زن ہونے کا نہیں بلکہ اسکندریہ کو سر کرنا اصل مقصد تھا جو پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ لشکر نے شہر کے سامنے والی دیوار پر بےشمار منجنیقیں دیکھیں۔
عمرو بن عاص ان منجنیقوں کی زد سے دور رہے۔
بڑے مضبوط اور مشہور قلعوں کو دیکھا گیا تھا جن پر برجیاں اتنی زیادہ نہیں تھیں جتنی اسکندریہ کی دیواروں پرتھیں ان برجوں میں تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے بالکل محفوظ تھے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے یہ سوال رکھے کہ کیا رومی باہر آکر لڑیں گے؟ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار نہ کیا تو اس شہر کو لینے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے ،اور کیا اسکندریہ نہ لینے کی صورت میں مسلمان پورے مصر پر قبضہ برقرار رکھ سکیں گے۔
سالاروں نے اپنے اپنے مشورے دیے اور تجاویز پیش کیں۔ عمرو بن عاص نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ،اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے محاصرے کو طول دینا پڑا تو دینگے، اور روکنے کی کوشش کریں گے، اس طرح ہو سکتا ہے کہ رومی جرنیل اسے اپنی ذلت سمجھ لیں اور باہر آکر لڑیں۔
مجاہدین کو پورے دو مہینے رکنا پڑا کوئی رومی باہر نہ آیا، پہلے جتنے بھی قلعوں کو مجاہدین نے محاصرے میں لیا تھا وہاں رومیوں کی جنگی پالیسی یہ رہی تھی کہ باہر آکر محاصرے پر حملہ کرتے تھے اور ان کی یہی پالیسی ان کی شکست کا باعث تھی، سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے کہا کہ اب رومیوں نے اپنا طریقہ جنگ بدل دیا ہے لیکن یہ سوچ کر کے یہ شہر ناقابل تسخیر ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مسلمانوں کو رسد کی جو ضرورت رہتی تھی وہ انہوں نے اردگرد کی بستیوں سے حاصل کرنی شروع کردی تھی۔
دو مہینوں بعد عمرو بن عاص نے ایک اور جگہ دیکھ لی جو انہیں خیمہ گاہ کے لئے اور جنگی نقطہ نظر سے بھی زیادہ موزوں نظر آئی، اس جگہ کا نام مقس تھا۔ انہوں نے سارے لشکر کو اس جگہ منتقل کردیا اور یہ نئی خیمہ گاہ بن گئی، یہ ایک وسیع اور غیر ہموار سا میدان تھا جس میں خیمے گاڑے گئے تھے، خیمہ گاہ سے ذرا ہی دور بائیں طرف ہری بھری ٹیکریاں تھیں جن پر درخت بھی تھے اور ان کے نیچے بھی درختوں کی بہتات تھی، اسکندریہ شہر کی طرف سے بھی کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی نہ مجاہدین کوئی سرگرمی دکھا رہے تھے، اگر کچھ ہی رومی باہر آجاتے تو تھوڑی سی ہلچل برپا ہو جاتی لیکن دونوں طرف سکوت طاری تھا اور روز و شب بڑی تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔
چونکہ وہاں دشمن کا خطرہ نہیں تھا اس لئے مجاہدین خیمہ گاہ سے تھوڑی دور گھوم پھر آتے تھے ایک روز بارہ مجاہدین خیمہ گاہ سے نکل کر ٹیکریوں والے علاقے میں چلے گئے وہاں ایسی اوٹ تھی کہ قلعے کے اندر سے کوئی نکل کر اس طرف خیمہ گاہ کی طرف آتا تو وہ نظر نہیں آ سکتا تھا یہ مجاہدین چلے تو گئے لیکن شام تک واپس نہ آئے، کوئی مجاہد کیمپ سے زیادہ غیر حاضر نہیں رہتا تھا، یہ مجاہدین واپس نہ آئے تو ان کے ساتھی ان کے پیچھے گئے۔
کچھ اور آگے گئے جہاں اوٹ زیادہ تھی وہاں مجاہدین کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آئیں ان کے کپڑے خون سے لال تھے ان کے ہاتھوں میں تلواریں نہیں تھی، اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ رومی گھات میں تھے اور ان پر ایسا اچانک حملہ کیا کہ انہیں نیاموں سے تلواریں نکالنے کی بھی مہلت نہ مل سکی، یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ ان کے قاتل کس طرف سے آئے تھے۔
لاشیں کیمپ میں آئیں اور سپہ سالار کو اطلاع دی گئی، سپہ سالار اظہار افسوس کے سوا کر ہی کیا سکتے تھے دشمن سامنے ہوتا تو اس پر حملہ کرکے انتقام لیا جا سکتا تھا۔
سپہ سالار کے حکم کے مطابق ٹکریوں پر پہرے کا انتظام کردیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ رات رومی کہیں ادھر سے آجائیں اور کیمپ پر حملہ کر کے نکل بھاگے ۔
دو مہینوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا تھا ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے سالاروں کو بلایا۔
میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ کیا تم نے اپنے مجاہدین میں بیزاری کا تاثر نہیں دیکھا مجاہدین یہاں لڑنے آئے تھے لیکن اتنے عرصے سے بے کار پڑے ہیں، اب ان کے بارہ ساتھی شہید ہوگئے ہیں تو میں لشکر میں بے چینی اور بے قراری دیکھ رہا ہوں ،اگر ہم نے اسکندریہ کو محاصرے میں لے رکھا ہوتا تو پھر کسی کو اکتاہٹ نہ ہوتی مگر یہاں ہم صرف بے کار بیٹھے ہیں اور محاصرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یہ تو ہم بھی محسوس کر رہے ہیں ایک سالار نے کہا ۔۔۔کیا سپہ سالار بتائیں گے کہ اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے ۔
میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ لشکر کو کچھ نہ کچھ مصروفیت ملنی چاہیے۔
میں ایک اور خدشہ محسوس کر رہا ہوں عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مجاہدین یہ سمجھنے لگیں کہ سالاروں میں لڑنے کی تاب ہی نہیں رہی اور اب یہ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں، اگر لشکر کی سوچ یہ ہے تو یہ مجاہدین کے جذبے کو مجروح کر دے گی، میں نے اس کا علاج سوچا ہے کہ اس علاقے میں جو شہر اور قصبے ہیں ان پر حملہ کر کے قبضہ کیا جائے، اس سے ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے ایک تو لشکر کو ان کی من پسند مصروفیت مل جائے گی، اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہم نے اگر اسکندریہ پر حملہ کیا تو ان شہروں میں جو فوج موجود ہے وہ ہم پر عقب سے حملہ کر سکتی ہے، ہوسکتا ہے ان فوجیوں کو یہی حکم ہوا ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں جو عام شہری اور دیہاتی نظر آتے ہیں وہ فوجی ہی ہوں۔
تمام سالاروں نے سپہ سالار کی اس تجویز کے ساتھ اتفاق کیا اور اسی وقت حملوں کا پلان تیار کرلیا ،اس علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہر حصے میں چار چار پانچ پانچ قصبے یا شہر تھے، ہر ایک حصے پر حملے کرنے کے لئے سالار مقرر کردیئے گئے، جن کے نام تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔
ایک تھے خارجہ بن حذافۃ العدوی ،دوسرے عمر بن وہاب حجمی ، اور تیسرے کا نام عقبہ بن عامر، دو مؤرخوں نے چوتھا نام بھی لکھا ہے۔ یہ نام ہے وردان، یہ عمرو بن عاص کا آزاد کیا ہوا غلام تھا پہلے اس کا ذکر گزر چکا ہے، یہ جنگوں میں علمبرادر ہوا کرتا تھا اور عمرو بن عاص کے بیٹے عبداللہ کے ساتھ رہتا تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ وردان شجاعت والا مجاہد تھا ،اسے جنوبی علاقے کے دیہات میں بھیجا گیا تھا کہ اس علاقے کو رومی فوج سے پاک کر دے، جو اس نے بڑی خوش اسلوبی سے کر دیا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص خیمہ گاہ میں ہی رہے اور گھوم پھر کر اسکندریہ کو دیکھتے اور سوچتے رہے کہ اس پر حملہ کیا جائے تو کس سمت سے اور کس انداز سے کیا جائے۔ تینوں سالار اور وردان اپنی اپنی ذمہ داری کے علاقے میں مجاہدین کا ایک ایک دستہ لے کر چلے گئے۔
ان سب کی جنگی سرگرمیوں اور کارروائیوں کی روداد ایک ہی جیسی ہے ،یہاں بھی وہی بات سامنے آئی جو پہلے اکثر جگہوں پر آچکی تھی کہ ان رومی فوجیوں پر جو مختلف مقامات پر تھے مجاہدین کی دہشت طاری تھی بعض شہروں کے فوجیوں نے کچھ دیر مقابلہ کیا لیکن ہتھیار ڈال دیے ،اور بیشتر مقامات پر یوں ہوا کہ رومیوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے ،مجاہدین نے کسی پر بلاوجہ تشدد نہ کیا بلکہ ایسا رویہ اپنایا اور ایسا سلوک روا رکھا جیسے مجاہدین ان کے دشمن نہ ہوں بلکہ ان کے محافظ ہوں۔
سالاروں نے ہر جگہ اعلان کیا کہ ان میں سے جو بارضا و رغبت اسلام قبول کرلیں گے انہیں مسلمان اپنا بھائی سمجھیں گے اور وہ تمام مراعات کے حقدارہوں گے، اور جو اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ انہیں جزیہ ادا کرنا پڑے گا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ کئی ایک عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
جن شہروں کے رومی فوجیوں نے مقابلہ کیا تھا اور مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا کر ہتھیار ڈالے تھے ان شہروں سے مال غنیمت اکٹھا کیا گیا جو سپہ سالار عمرو بن عاص نے وہی مجاہدین میں تقسیم کردیا یہ مال غنیمت اتنا زیادہ نہ تھا کہ اس کا ایک حصہ بیت المال کے لئے مدینہ بھیجا جاتا۔
تین مہینے گزر گئے اب یہ تبدیلی آئی کے رومی فوجیوں کی بہت تھوڑی سی نفری باہر آتی مجاہدین کو للکارتی اور لڑے بغیر واپس چلی جاتی، کچھ دنوں بعد چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونے لگی بہت تھوڑے رومی فوجی باہر آتے اور مجاہدین ان پر حملہ کرتے تو وہ رومی لڑتے ہوئے بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے اور پھر قلعے میں چلے جاتے تھے، مجاہدین دروازے تک پہنچنے کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے کیونکہ دیوار سے تیر بھی آتے تھے اور برچھیاں بھی، اور منجنیقوں سے پتھر بھی۔
ان جھڑپوں کا یہ اثر اور فائدہ ہوا کہ مجاہدین کے جسموں میں جان آگئی اور ان کی روحیں تروتازہ ہو گئیں، مجاہدین نے یہ توقع رکھیں کہ کسی دن رومی فوج کے دو چار دستے باہر آ کر ان پر حملہ کریں گے اور بڑے پیمانے کی لڑائی لڑی جائے گی اور ہو سکتا ہے شہر میں داخل ہونے کا موقع مل جائے لیکن ایسا نہ ہوا اور دن گزرتے چلے گئے۔
رومی فوجی بدستور بہت تھوڑی تعداد میں باہر آتے رہے اور ان کا انداز بتاتا تھا جیسے وہ مجاہدین کے لشکر سے مذاق کر رہے ہوں یا وہ اس مقصد سے باہر آتے تھے کہ مجاہدین اتنا آگے آجائیں کہ اوپر سے تیر انداز انہیں واپس جانے کے قابل نہ چھوڑیں، ایک روز پھر رومیوں کی تھوڑی سی تعداد باہر نکلی اور اس روز تو انہوں نے مجاہدین کا بہت مذاق اڑایا اور مجاہدین کو رومی للکارنے لگے چند ایک مجاہدین دوڑے گئے کہ آج ان میں سے کسی کو واپس نہ جانے دیں گے لیکن رومی حسب معمول پیچھے ہٹ گئے اور مجاہدین تیروں کی زد میں آنے لگے۔
مجاہدین بغیر لڑے تیروں سے گھائل نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن ایک مجاہد ایسا جوش میں آیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے زیادہ آگے نکل گیا وہ اکیلا تھا اور رومی زیادہ تھے رومیوں نے اسے گھیر کر پکڑ لیا اسے گرایا اور اس کا سر کاٹ کر دوڑتے ہوئے قلعے میں چلے گئے، وہ اس مجاہد کا سر اپنے ساتھ لے گئے تھے یہ مجاہد قبیلہ مہرہ کا تھا ۔
اس قبیلے کے بہت سے مجاہدین لشکر میں موجود تھے تین چار دوڑے گئے اور تیروں کی بوچھاڑوں میں جاکر اپنے ساتھی کی لاش اٹھا کر لے آئے، اس قبیلے کی کچھ اپنی ہی روایت تھی عام حالت میں ان کا انداز بڑا خوشگوار اور دوستانہ ہوا کرتا تھا ،لیکن میدان جنگ میں اس قبیلے کا ہر مجاہد سراپا قہر اور غضب بن جاتا تھا،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی