⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟞 𝟙 𝟙⭐ آخری قسط 🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قاضی بہاؤالدین شداد لکھتا ہے وہ جب خیریت سے شہر میں داخل ہوجایا کرتا تھا تو ایک کبوتر اڑا دیتا تھا جو ہمارے پاس آجاتا تھا اس سے ہم سمجھ لیتے تھے کہ عیسیٰ خیریت سے پہنچ گیا ہے ہم اس کے کبوتر کو واپس اڑا دیتے تھے جس رات وہ ایک ہزار سونے کے سکے لے کر گیا اس سے اگلے دن اس کا کبوتر نہ آیا ہم سمجھ گئے کہ وہ پکڑا گیا ہے کئی روز بعد شہر سے اطلاع ملی کہ عیسیٰ کی لاش عکرہ کے ساحل کے ساتھ تیرتی ہوئی ملی تھی سونے کے سکے اس کے جسم کے ساتھ بندھے ہوئے تھے لاش کی حالت بہت بری تھی وہ سونے کے وزن سے تیر نہ سکا اور ڈوب گیا عکرہ کا حاکم میر فراقوش تھا اور سپہ سالار علی ابن احمد المشطوب تھا وہ بار بار سلطان ایوبی کو یہی پیغام بھیجتے تھے کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے لیکن باہر سے صلیبیوں پر حملے جاری رکھے جائیں اور کسی نہ کسی طرح شہر میں فوج اسلحہ اور رسد پہنچائی جائے یہی سلطان ایوبی کے سامنے ایک پیچیدہ مسئلہ تھا کہ شہر تک مدد کس طرح پہنچائے اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ بخار سے اس کا جسم جل رہا تھا اس کی ایک وجہ شب بیداری دوسری وجہ اعصاب پر بوجھ اور تیسری وجہ یہ تھی کہ وہاں لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے گلی سڑی لاشوں کی اتنی زیادہ بدبو تھی کہ وہاں ٹھہرا نہیں جاسکتا تھا اس نے سلطان ایوبی کی بیماری میں اضافہ کیا تین چار روز تو وہ اٹھ بھی نہ سکا اسے عکرہ ہاتھ سے جاتا نظر آرہا تھا
سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں بیمار پڑا تھا اس سے تھوڑی ہی دور عکرہ کے باہر اس کے جانباز دستے اس صلیبی لشکر پر حملے کررہے تھے جس نے عکرہ کو محاصرے میں لے رکھا تھا فلسطین کی تاریخ میں سب سے زیادہ خونریز معرکے لڑے جارہے تھے مگر محاصرہ ٹوٹتا نظر نہیں آرہا تھا شہر کے اندر سلطان ایوبی کی محصور فوج کی نفری دس ہزار تھی اور محاصرہ کرنے والے صلیبیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ تھی سلطان ایوبی صلیبیوں کے عقب میں یعنی شہر سے باہر تھا اس کے پاس دس ہزار مملوک تھے جن پر اسے بہت بھروسہ تھا مملوک عقب سے صلیبیوں پر بڑے ہی جانبازانہ حملے کرتے تھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی تھی دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کے علاوہ محاصرہ نہ ٹوٹ سکنے کی وجہ یہ تھی کہ صلیبیوں نے عکرہ کے اردگرد مورچے کھود لیے تھے جو سلطان ایوبی کی فوج کے لیے خطرناک تھے سوار جب حملہ کرتے تو گھوڑے مورچوں میں گر پڑتے تھے
عکرہ کے باہر مہیلوں وسعت میدان جنگ بنی ہوئی تھی لاشوں کا کوئی شمار نہیں تھا عکرہ کی دیوار کے باہر دیوار جتنی لمبی اور اتنی چوڑی خندق تھی جسے عبورکرنا مشکل تھا صلیبیوں نے اس خندق کے ایک حصے میں اپنے مرے ہوئے فوجیوں کی لاشیں اور مرے ہوئے گھوڑے پھینکنے شروع کردئیے تھے تاکہ یہاں سے خندق بھرجائے اور خندق سے گزر کر دیوار تک پہنچا جائے جنگ کا شوروغل اتنا زیادہ تھا کہ فضا میں سوائے گدھوں کے کوئی اور پرندہ نظر نہیں آتا تھا گدھ کہیں اترتے لاشوں کو کھاتے اور اڑ جاتے تھے ان گدھوں کے درمیان تقریباً ہر روز ایک کبوتر عکرہ سے اڑتا اور سلطان ایوبی کے کیمپ میں جا اترتا تھا اور بہت دیر بعد کیمپ سے اڑ کر عکرہ کو واپس چلا جاتا تھا محاصرے اور خونریز معرکوں کے دوران ایک روز یہ کبوتر عکرہ سے اڑا انگلینڈ کا بادشاہ رچرڈ اپنے خیمے سے باہر کھڑا تھا اس کے ساتھ اس کی بہن جوآنا بھی تھی اس کبوتر پر نظر رکھو رچرڈ نے حکم دیا جونہی نظر آئے اس پر باز چھوڑ دو یہ کبوتر ہماری شکست کا باعث بن سکتا ہے اس کے پاس اس کی بہن جوآنا اور اس کی منگیتر بیرنگاریا کھڑی تھیں رچرڈ کی عمر خاصی ہوگئی تھی اور اب اس نوجوان لڑکی کو اپنے ساتھ اس ارادے سے لایا تھا کہ بیت المقدس فتح کرکے اس کی شادی کرے گا اس کی بہن جوآنا تھوڑا ہی عرصہ پہلے تک سسلی کے بادشاہ کی بیوی تھی بادشاہ مرگیا تو جوآنا جوانی میں بیوہ ہوگئی وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس لڑکی کی شادی ہوئی تھی رچرڈ انگلستان سے آئے ہوئے اسے سسلی سے اپنے ساتھ لے آیا تھا رچرڈ کو جوآنا کی ہنسی سنائی دی رچرڈ نے اس کی طرف دیکھا تو جوآنا نے اس سے پوچھا میرے بھائی! کیا اس کبوتر کے مرجانے سے صلاح الدین ایوبی بھی مرجائے گا یہ کبوتر پیامبر ہے جوآنا رچرڈ نے کہا اس کی ایک ٹانگ کے ساتھ عکرہ والوں کا پیغام بندھا ہوتا ہے جو صلاح الدین ایوبی کے پاس جاتا ہے صلاح الدین ایوبی پیغام کا جو اب اسی کبوتر کے ساتھ بھیجتا ہے صلاح الدین ایوبی ہم پر باہر سے جو حملے کرتا ہے وہ عکرہ والوں کے پیغاموں کے مطابق ہوتے ہیں عکرہ والوں کا جوش اور جذبہ اور ہتھیار نہ ڈالنے کا عزم اس کبوتر کی وجہ سے قائم ہے ورنہ کوئی محصور فوج اتنے شدید حملے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی تم دیکھ رہی ہو کہ ہماری منجنیقوں کے پھینکے ہوئے پتھروں نے کئی جگہوں سے دیوار کا اوپر کا حصہ گرادیا ہے اور ہماری پھینکی ہوئی آگ نے شہر میں تباہی بپا کررکھی ہے مگر وہ ہتھیار نہیں ڈال رہے آپ کا اصل مقصد اور منزل یروشلم ہے جو ابھی بہت دور ہے جوآنا نے کہا اگر عکرہ کی فتح میں کئی سال گزر گئے تو کیا آپ اپنی زندگی میں یروشلم تک پہنچ سکیں گے؟
ہمارے جاسوس اور مسلمان جنگی قیدی بتاتے ہیں کہ شہر کے اندر صرف دس ہزار تعداد کی فوج ہے ہماری تعداد ابتدا میں چھ لاکھ تھی اب پانچ لاکھ رہ گئی ہوگی محاصرہ پچھلے سال (١١٨٩ء) ١٣ اگست کے روز شروع ہوا تھا اب ١١٩١ء کا اگست آگیا ہے دو سال میرے بھائی! دو سال ابھی آپ دس ہزار نفری کے محصورین سے ہتھیار نہیں ڈلوا سکے میں جانتی ہوں کہ آپ کو محاصرے میں شامل ہوئے ابھی چند مہینے گزرے ہیں لیکن چند مہینوں میں آپ نے عکرہ کی تھوڑی سی دیوار توڑنے اور منجنیقوں سے شہر کے کچھ حصے کو آگ لگانے کے سوا کیا کامیابی حاصل کی ہے؟
مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ اس شہر کے کھنڈر ہی آپ کو ملیں گے رچرڈ نے اپنی منگیتر کو وہاں سے چلے جانے کو کہا وہ چلی گئی تو رچرڈ اپنی بہن سے مخاطب ہوا صلیب الصلبوت اور یروشلم کے وقار اور تقدس کا مطالبہ یہ ہے کہ تم بھول جاؤ کہ تم میری بہن ہو تم اس صلیب کی بیٹی ہو جو مسلمانوں کے قبضے میں ہے اور یروشلم جہاں ہمارے پیغمبر کی عبادت گاہ ہے اس پر بھی مسلمان قابض ہیں تم جانتی ہو کہ ہمیں اسلام کو ختم کرنا ہے اور تم یہ بھی دیکھ رہی ہو کہ مسلمان خودکشی کی طرح لڑ رہے ہیں یہ لوگ موت کی پرواہ نہیں کرتے یہ فتح حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں میں پہلی بار یہاں آیا اور انہیں لڑتے دیکھا ہے ان کے جذبے کے جنون کی جو کہانیاں سنی تھیں وہ اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمان کو عورت مار سکتی ہے ان کے درمیان جو خانہ جنگی ہوئی تھی وہ ہمارے بادشاہوں نے ان پر ایک سازش کے تحت بادشاہی زروجواہرات شراب اور عورت کا نشہ طاری کرکے کرائی تھی مگر صلاح الدین ایوبی ایسا پتھر نکلا کہ اس کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے اس نے اپنے ان بھائیوں کو جو ہمارے ہاتھ میں آگئے تھے تلوار کے زور سے اپنا مطیع کرلیا یا ان کے دلوں میں اسلامی جذبہ بیدار کرلیا میں نے بھی یہ سنا ہے جوآنا نے کہا میں نے ان لڑکیوں کے ایثار کی کہانیاں بھی سنی ہیں جنہیں مسلمان امراء اور حاکموں کے پاس جاسوسی اور دیگر تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا تھا میرے خیال میں یہ طریقہ کامیاب نہیں رہا میں اسے ناکام بھی نہیں کہتا رچرڈ نے کہا اگر مسلمانوں کے قومی جذبے کو تباہ کرنے کے لیے یہ لڑکیاں استعمال نہ کی جاتیں تو یہ لوگ بہت عرصہ پہلے نہ صرف یروشلم کو فتح کرچکے ہوتے بلکہ آدھے یورپ پر بھی قابض ہوچکے ہوتے ہم نے عورت کے حسن اور جسم کے جادو سے اور ان میں سے بہت سے امیروں وزیروں اور سالاروں کو سلطان بنانے کے لالچ سے ان کا اتحاد توڑ دیا تھا ان کی جنگی قوت انہیں آپس میں لڑا کر تباہ کردی تھی مگر یہ پھر متحد ہوگئے ہیں
آپ یہ باتیں مجھے کیوں سنا رہے ہیں؟
جوآنا نے کہا آپ کے بولنے کے انداز میں مایوسی کیوں ہے؟
میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟
میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم بھول جاؤ کہ تم میری بہن ہو تم صلیب کی بیٹی ہو صلیب کی فتح کے لیے تم بہت کچھ کرسکتی ہو تم دیکھ رہی ہو کہ ہم مسلمانوں کے خلاف لڑ بھی رہے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں ہم ایک دوسرے کی طرف اپنے ایلچی بھیجتے رہتے ہیں میری ملاقات صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل سے بھی ہوچکی ہے میں ان سے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کررہا ہوں جو وہ نہیں مان رہے ہیں میں انہیں کہہ رہا ہوں کہ یروشلم اور صلیب الصلبوت ہمارے حوالے کردو اور تم ان علاقوں سے نکل جاؤ جن پر صلیبیوں کا قبضہ تھا صلاح الدین ایوبی نے ایک بھی شرط ماننے سے انکار کردیا ہے
آپ صلاح الدین ایوبی سے کیوں نہیں ملتے؟
وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتا رچرڈ نے جواب دیا وہ بیمار بھی ہے معلوم ہوتا ہے اس کا بھائی العادل اس جیسا پرعزم اور پکا مسلمان ہے وہ صلاح الدین ایوبی کی جگہ لے رہا ہے میں نے اس میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ جوان ہے اور زندہ دل بھی لگتا ہے میں اس شخص کے دل پر قبضہ کرنے کی سوچ رہا ہوں میں اسے دوست بنا سکوں گا لیکن جو کام تمہارا ہے وہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟
کیا تم نے اسے پسند نہیں کیا تھا؟
آپ مجھ سے وہ کام لینے کی سوچ رہے ہیں جو ہماری تربیت یافتہ لڑکیاں بہت مدت سے کر رہی ہیں؟
ہاں! رچرڈ نے کہا اس کے دل پر قبضہ کرو محبت کا والہانہ اظہار کرو اور اسے کہو کہ تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو میں درمیان میں آجاؤں گا اور صلاح الدین ایوبی سے کہوں گا کہ وہ اگر ساحلی علاقے اپنے بھائی اور میری بہن کو دے دے تو میں اپنی بہن کی شادی العادل کے ساتھ کرنے کو تیار ہوں تم العادل کو تیار کرنا کہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے عیسائیت کو قبول کرلے اسے یہ لالچ دو کہ وہ ساحلی علاقے کی اتنی وسیع سلطنت کا سلطان بن جائے گا مجھے امید ہے کہ تم اسے صلاح الدین ایوبی کے خلاف کرسکو گی جوآنا کچھ دیر خاموش رہی رچرڈ اسے دیکھتا رہا آخر جوآنا نے آہ لی اور بولی میں کوشش کروں گی مسلمانوں کو اسی دھوکے سے مارا جاسکے گا رچرڈ نے کہا میں میدان جنگ میں انہیں شکست دینے کی پوری کوشش کروں گا لیکن بہت لمبی مدت درکار ہوگی میں شاید اس وقت تک زندہ نہ رہوں مجھے واپس انگلستان بھی جانا ہے وہاں کے حالات مخدوش ہیں مخالفین میری غیرحاضری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں
جو کبوتر رچرڈ کے اوپر سے گزر کر آگیا تھا وہ صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے سامنے بنی ہوئی ایک کھپریل پر آن بیٹھا دربان نے دوڑ کر اس کی ٹانگ سے بندھا ہوا پیغام کھولا اور خیمے میں لے گیا سلطان ایوبی کمزوری محسوس کررہا تھا اسے آرام کی سخت ضروری تھی لیکن وہ اٹھ بیٹھا اور پیغام پڑھنے لگا شہر کے اندر کی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی کا رابطہ پیامبر کبوتروں کے ذریعے قائم تھا یہ پیغام عکرہ کے دونوں حاکموں المشطوب اور بہاؤالدین قراقوش کا تھا قاضی بہاؤالدین شداد جو سلطان ایوبی کی مجلس مشاورت کا اہم رکن اور اس کا ہم راز دوست بھی تھا اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ یہ دونوں غیرمعمولی طور پر دلیر اور ذہین سالار تھے محاصرے میں ان کی حالت بہت بری ہوگئی تھی شہر تباہ ہورہا تھا لیکن یہ دونوں ہتھیار ڈالنے کی لیے تیار نہیں تھے باہر والے ہر وقت یہ خبر سننے کے لیے تیار رہتے تھے کہ عکرہ کی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں
اس پیغام میں بھی المشطوب اور قراقوش نے سلطان ایوبی کو وہی کچھ لکھا تھا جو وہ ہر پیغام میں لکھتے ہیں اب کے انہوں نے زیادہ زور دے کر لکھا تھا کہ ہم سے یہ توقع نہ رکھنا کہ ہم جیتے جی ہتھیار ڈال دیں گے لیکن آپ کی مدد یہ ہمارے لیے بے حد ضروری ہوگئی ہے کہ صلیبیوں پر باہر سے حملے زیادہ کردیں سپاہیوں سے کہیں کہ وہ اسی جذبے سے لڑیں جس جذبے سے شہر والے مقابلہ کررہے ہیں آدھا شہر جل چکا ہے فوج بھی آدھی رہ گئی ہے لیکن شہریوں کے جذبے کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے عورتیں بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہیں لوگ کھانا خود کم کھاتے اور فوج کو زیادہ کھلاتے ہیں
انہوں نے دیوار کی یہ کیفیت لکھی کہ صلیبیوں کی منجنیقوں کی مسلسل سنگ باری سے دیوار کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے بالائی حصہ ختم ہوچکا ہے برج گر پڑے ہیں دشمن نے باہر خندق کو کئی جگہوں سے اپنے سپاہیوں کی لاشوں اور مرے ہوئے گھوڑوں اور مٹی سے بھر لی ہے جہاں سے وہ دیوار کے قریب آکر دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں آپ جب ڈھولوں کی آوازیں سنیں عقب سے صلیبیوں پر بہت ہی سخت حملہ کریں ہم ڈھول اس وقت بجایا کریں گے جب صلیبی دیوار پر حملہ کیا کریں گے آپ ایسے جانباز تیار کریں جو سمندر کی طرف سے ہم تک اسلحہ پہنچائیں
سلطان ایوبی کمزوری اور بخار کے باوجود اٹھ کھڑا ہوا اس نے پیغام کا جواب لکھوایا جس میں اس نے عکرہ والوں کی حوصلہ افزائی کی یہ بھی لکھا کہ جانباز پہلے ہی شہر تک اسلحہ پہنچانے کے لیے جاچکے ہیں اللہ تمہارے ساتھ ہے اسلام پر بڑا ہی سخت وقت آن پڑا ہے یہ میری ہی کوشش تھی کہ صلیبی بیت المقدس کی طرف بڑھنے کے بجائے عکرہ کا محاصرہ کریں تاکہ میں انہیں یہیں الجھا کر ان کی جنگی طاقت کمزور کردوں تم لوگ عکرہ کے دفاع کے لیے نہیں مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہو یہ پیغام کبوتر کے ذریعے بھجوا کر سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا میرے پاس ہر ایک کمان دار اور ہر ایک سپاہی کے پاس جانے کا وقت نہیں رہا میرے جسم میں جو طاقت رہ گئی ہے اسے میں جہاد میں صرف کرنا چاہتا ہوں اپنے کمان دار اور سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اللہ اپنے رسول اللّٰہﷺ اور اپنے مذہب کے لیے لڑو اب یہ نہ سوچو کہ تم اپنے سلطان کے حکم سے لڑ رہے ہو یہ بھی نہ سوچو کہ تمہیں اب زندہ رہنا ہے اس کا اجر تمہیں اللّٰہ دے گا
قاضی بہاؤالدین شداد لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی ایسا جذباتی کبھی نہیں ہوا تھا اس کی جذباتی حالت بالکل اس ماں سے ملتی جلتی تھی جس کا بچہ کھو گیا ہو وہ سوتا نہیں تھا آرام نہیں کرتا تھا میں نے اسے کئی بار کہا کہ سلطان! اپنی صحت کا خیال رکھو تم اپنے اعصاب کو تباہ کر رہے ہو اللّٰہ کو یاد کرو فتح و شکست اسی کے ہاتھ میں ہے سلطان کے آنسو نکل آئے اس نے جذباتیت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا بہاؤالدین شداد! میں صلیبیوں کو بیت المقدس نہیں دوں گا میں اس مقدس جگہ کی بے حرمتی نہیں ہونے دوں گا جہاں میرے پیارے رسولﷺ خدا کے حضور گئے تھے اس جگہ میرے رسولﷺ نے سجدہ کیا تھا وہ گرج کر بولا نہیں بہاؤالدین! نہیں میں مر کے بھی صلیبیوں کو بیت المقدس نہیں دوں گا
قاضی شداد آگے چل کر لکھتا ہے کہ ایک رات وہ اس قدر بے چین تھا کہ میں بہت دیر اس کے ساتھ رہا اسے نیند نہیں آرہی تھی میں نے اسے قرآن کی دو تین آیتیں بتائیں اور کہا کہ یہ پڑھتے رہو اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کے ہونٹ ہلنے لگے وہ آیتیں پڑھ رہا تھا پڑھتے پڑھتے سوگیا سوتے میں بڑبڑایا یعقوب کی کوئی خبر نہیں آئی؟
وہ شہر میں داخل ہوجائے گا پھر وہ سوگیا لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ نیند میں بھی بے چین تھا
سلطان ایوبی کے خیمے سے عکرہ کی دیوار نظر آتی تھی اس کے باہر صلیبی لشکر دکھائی دیتا تھا جیسے چیونٹیاں کسی چیز پر اکٹھی ہوگئی ہوں رات کو عکرہ کی دیواروں پر مشعلیں چلتی پھرتی رہتی تھیں اور رات کے اندھیرے میں آگ کے گولے دیوار کے اوپر سے اندر جاتے نظر آتے تھے دیوار سے بھی ایسے گولے باہر آتے تھے سلطان ایوبی کے چھاپہ مار راتوں کو دشمن پر شب خون مارتے رہتے تھے
نیند میں سلطان ایوبی جس یعقوب کا نام لے رہا تھا وہ اس کی بحریہ کا ایک بڑا ہی دلیر کپتان تھا عکرہ شہر کے اندر رسد اور اسلحہ پہنچانا ناممکن ہوگیا تھا پیچھے بیان کیا جاچکا ہے کہ شہر کے ایک طرف سمندر تھا اور ادھر صلیبیوں کے بحری جہاز بکھرے ہوئے تھے شہر والوں کو سامان پہنچانا بڑا ہی ضروری تھا سلطان ایوبی نے اپنے اس بحری بیڑے سے اس مہم کے لیے رضاکار مانگے تھے یعقوب نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اس وقت کے وقائع نگاروں قاضی بہاؤالدین شداد اور دو اور مؤرخوں نے یعقوب کا تفصیل سے ذکر کیا ہے وہ حلب کا رہنے والا تھا اس نے بحریہ اور فوج کے سپاہی منتخب کیے ان کی تعداد چھ سو پچاس تھی انہیں یعقوب اپنے جہاز میں لے گیا اور بیروت چلا گیا وہاں سے اس نے جہاز کو (جو بڑا جنگی جہاز تھا) رسد اور اسلحہ سے بھر لیا یہ اتنا زیادہ سامان تھا جو عکرہ والوں کو بڑے لمبے عرصے تک لڑنے کے قابل بنا سکتا تھا
یعقوب نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ جانیں قربان کردینی ہیں یہ سامان عکرہ تک پہنچانا ہے جہاز جب عکرہ سے کچھ ہی دور رہ گیا تھا کہ صلیبیوں کے چالیس جہازوں نے اسے گھیر لیا یعقوب کے جانبازوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا جہاز چلتا رہا اور یعقوب اسے عکرہ کے ساحل کی طرف لے جاتا رہا جانبازوں نے دشمن کے جہازوں کو بہت نقصان پہنچایا ایک فرانسیسی مؤرخ ڈی ونسوف نے لکھا ہے کہ وہ جنات اور بدروحوں کی طرح لڑے لیکن دشمن کے گھیرے سے نہ نکل سکے آدھے سے زیادہ مسلمن سپاہی تیروں کا نشانہ بن گئے یعقوب نے جب دیکھا کہ جہاز بادبان برباد ہوجانے سے کھلے سمندر کی طرف بہہ گیا ہے اور اب دشمن جہاز پر قبضہ کرلے گا تو اس نے اپنے جانبازوں سے چلا کر کہا خدا کی قسم! ہم وقار سے مریں گے دشمن کو نہ یہ جہاز ملے گا نہ اس میں سے کوئی چیز اس کے ہاتھ آئے گی جہاز میں سوراخ کردو سمندر کو جہاز کے اندر آنے دو عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جو جانباز زندہ رہ گئے تھے انہوں نے عرشے کے نیچے جاکر جہاز کو توڑنا شروع کردیا تختے ٹوٹے تو سمندر جہاز میں داخل ہونے لگا کسی بھی جانباز نے جہاز سے کود کود کر جان بچانے کی کوشش نہ کی سب جہاز کے ساتھ سمندر کی تہہ میں چلے گئے اس واقعہ کی تاریخ ٨ جون ١١٩١ء لکھی گئی ہے
سلطان ایوبی کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ خیمے سے نکلا اس کا گھوڑا ہر وقت تیار رہتا تھا اس نے بلند آواز سے حکم دیا دف بجاؤ دف بج اٹھے یہ حملے کا سگنل تھا ذرا سی دیر میں اس کے دستے حملے کی تیاری کے لیے جمع ہوگئے سلطان ایوبی نے اتنا ہی کہا آج دشمن کو چیر کر دیوار تک پہنچنا ہے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے تمام دستے سوار اور پیادے اس کے پیچھے گئے یہ بظاہر اندھا دھند حملہ تھا لیکن سلطان ایوبی نے پہلے ہی فوج کو ترتیب بتا رکھی تھی صلیبیوں نے مسلمانوں کو یوں قہر وغضب سے آتے دیکھا تو ان کے پیادہ دستے کمانوں میں تیر ڈال کر دیوار کی مانند کھڑے ہوگئے صلیبی فوج کے مورچے بھی تھے انہوں نے تیر برسانے شروع کردئیے حملے کی قیادت سلطان ایوبی خود کررہا تھا اس لیے اس کے مملوک بجلیوں کی طرح صلیبیوں پر ٹوٹے مگر صلیبیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی مسلمان یوں لڑے جیسے وہ زندہ پیچھے نہیں ہٹیں گے گھوڑ سوار گھوڑے گھما گھما کر لاتے اور حملے کرتے تھے یہ معرکہ اس وقت ختم ہوا جب شام تاریک ہوگئی صلیبیوں کا نقصان بہت ہی زیادہ ہوا تھا مگر وہ کامیابی حاصل نہ کی جاسکی جس کے لیے سلطان ایوبی نے حملہ کرایا تھا
ایسا حملہ پہلا اور آخری نہیں تھا عکرہ دو سال محاصرے میں رہا اس دوران سلطان ایوبی نے عقب سے ایسے کئی حملے کرائے ہر حملے میں جانبازوں نے بہادری کی ایسی مثالیں پیش کیں جو اس سے پہلے وہ خود بھی پیش نہیں کرسکے تھے اس دوران سلطان ایوبی کو مصر سے بھی کمک ملی اور کئی ایک مسلمان عمارتوں نے اسے اپنی فوجیں اور سامان بھیجا اگر ہر حملے کا ذکر تفصیل سے کیا جائے تو سینکڑوں صفحے درکار ہونگے یہ جہاد کا جذبہ نہیں بلکہ جنون تھا ان حملوں سے عکرہ کا محاصرہ تو نہ توڑا جاسکا لیکن صلیبیوں پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ مسلمان انہیں یہاں سے زندہ نہیں نکلنے دیں گے صلیبیوں کا چونکہ لشکر زیادہ تھا اس لیے ان کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوتا تھا اتنی زیادہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ دیکھ کر صلیبیوں کا حوصلہ مجروح ہورہا تھا مسلمانوں کے قہر کا اثر خود رچرڈ کے دل پر پڑ رہا تھا
اس دوران رچرڈ سلطان ایوبی کے پاس صلح کے لیے اپنے ایلچی بھیجتا رہتا تھا اس کا ایلچی العادل کے پاس آیا کرتا اور العادل صلح کا پیغام سلطان ایوبی تک پہنچایا کرتا تھا اس کے مطالبات یہ تھے کہ بیت المقدس جسے وہ یروشلم کہتے تھے انہیں دے دیا جائے صلیب الصلبوت انہیں واپس دے دی جائے اور صلیبی جن علاقوں پر حطین کی جنگ سے پہلے قابض ہوچکے تھے وہ علاقے صلیبیوں کو واپس دے دئیے جائیں سلطان ایوبی یروشلم کا نام سن کر بھڑک اٹھتا تھا تاہم اس نے العادل کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ رچرڈ کے ساتھ صلح کی بات چیت جاری رکھے تقریباً تمام مؤرخ لکھتے ہیں کہ رچرڈ اور العادل دوست بن گئے تھے اور العادل جب رچرڈ کے پاس جاتا یا رچرڈ اسے ملنے آتا تو رچرڈ کی بہن جوآنا بھی ساتھ ہوتی تھی اس دوستی کے باوجود العادل رچرڈ کی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا
ان ملاقاتوں کے ساتھ عکرہ کی جنگ جاری تھی خونریزی بڑھتی جارہی تھی اور عکرہ والوں کی حالت بہت ہی بری ہوتی جارہی تھی محاصرہ کرنے والوں میں دوسرے صلیبی بادشاہ بھی تھے جن میں قابل ذکر فرانس کا بادشاہ تھا انگلستان کا بادشاہ رچرڈ ان سب کا لیڈر بن گیا تھا
میں نے یہ کامیابی حاصل کرلی ہے کہ اس نے میری محبت قبول کرلی ہے جوآنا نے اپنے بھائی رچرڈ سے کہا لیکن میں نے اس میں وہ کمزوری نہیں دیکھی جو آپ بتاتے تھے کہ ہر مسلمان امیر اور حاکم میں پائی جاتی ہے وہ میرے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے لیکن اپنا مذہب چھوڑنے کے بجائے مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتا ہے معلوم ہوتا ہے تم نے اپنا جادو اس طرح نہیں چلایا جس طرح اس فن کی ماہر لڑکیاں چلاتی رہتی ہیں رچرڈ نے کہا یہ میں نے بھی دیکھ لیا ہے کہ العادل کردار کا پکا ہے میں اسے کہہ چکا ہوں کہ اگر وہ تمہارے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو عیسائیت قبول کرلے اور اپنے بھائی سے کہے کہ ساحلی علاقہ اسے دے دے جس پر اس کی اور تمہاری حکمرانی ہوگی اس نے جواب دیا کہ اپنا مذہب ترک کرنا ہوتا تو اتنے خون خرابے کی کیا ضرورت تھی میں نے اس سے پوچھا کہ تم میری بہن کو پسند کرتے ہو؟
اس نے جواب دیا کہ اپنی بہن سے پوچھو میں اسے اتنا ہی چاہتا ہوں جتنا وہ مجھے چاہتی ہے میں نے اسے کہا کہ مجھے ان کے میل ملاقات اور محبت پر کوئی اعتراض نہیں شکار جال میں آگیا ہے اب یہ تمہارا کمال ہوگا کہ اسے شیشے میں اتار لو مجھے یاد آیا جوآنا نے کہا میری دونوں خادمائیں کہیں نظر نہیں آ رہیں رات یہیں تھیں صبح سے غائب ہیں میرا خیال ہے وہ اب غائب ہی رہیں گی رچرڈ نے کہا وہ مسلمان تھیں وہ سسلی کی مسلمان تھیں جوآنا نے کہا اور وہ اس وقت سے میرے ساتھ تھیں جب میری شادی ہوئی اور میں سسلی گئی تھی
مسلمان کہیں کا بھی رہنے والا کیوں نہ ہو سب کا جذبہ ایک سا ہوتا ہے رچرڈ نے کہا اسی لیے ہم اس قوم کو خطرناک سمجھتے ہیں اور ہم اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کا اتحاد ٹوٹ جائے ان دونوں نے یہاں آکر دیکھا کہ ہم ان کی قوم کے خلاف لڑ رہے ہیں تو وہ ان کے پاس چلی گئیں رچرڈ ٹھیک کہہ رہا تھا اس وقت یہ دونوں عورتیں سلطان ایوبی کے پاس پہنچ چکی تھیں ان کی چھان بین کرکے انہیں سلطان کے پاس لے جایا گیا انہوں نے سلطان سے ملنے کی خواہش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ کچھ باتیں صرف سلطان کو بتانا چاہتی ہیں انہوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ سسلی میں جنی پلی ہیں اور لڑکپن میں شاہی محل میں ملازم ہوگئی تھیں جب جوآنا بادشاہ کی بیوی بن کر آگئی تو ان دونوں کو جسمانی چستی اور اچھی شکل وصورت کی وجہ سے جوآنا کی خاص خادمائیں بنا دیا گیا سسلی میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے وہاں اسلام زندہ تھا ان دونوں کو بھی اپنا مذہب یاد رہا جوآنا بیوہ ہوگئی تو شہنشاہ رچرڈ آگیا وہ جوآنا کو اپنے ساتھ لایا تو ان دونوں کو بھی ساتھ آنا پڑا یہاں انہوں نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑتے دیکھا تو کفار کی نوکری سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا یہ دونوں عورتیں صرف جسمانی طور پر ہی چست اور چالاک نہیں تھیں ذہنی طور پر بھی ہوشیار تھیں انہوں نے بتایا کہ جوآنا رچرڈ کی منگیتر کو بتا رہی تھی کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل کو پھانس لیا ہے وہ کہتی تھی کہ العادل کے دل میں اس کی اور اس کے دل میں العادل کی محبت پیدا ہوگئی ہے اور اگر العادل نے اپنا مذہب ترک کردیا تو ان کی شادی ہوجائے گی پھر صلاح الدین ایوبی کو مارنا اور یروشلم پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا ان عورتوں نے اس شک کا بھی اظہار کیا کہ العادل اور جوآنا کہیں ملتے ملاتے بھی ہیں یہ خبر سلطان ایوبی تک پہنچانے کے لیے دونوں عورتیں وہاں سے بھاگ آئیں قاضی بہاؤالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں ان عورتوں کے نام نہیں لکھے یہ لکھا ہے کہ سلطان ایوبی نے ان دونوں کو نہایت عزت واحترام اور انعام واکرام کے ساتھ دمشق بھیج دیا سلطان ایوبی نے ان عورتوں کی اطلاع پر تو یقین کرلیا لیکن اسے یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا سگا بھائی اسے دھوکہ دے رہا ہے اسے اپنے ہر سالار پر اعتماد تھا لیکن العادل اور اپنے دو بیٹوں (الافضل اور الظاہر) کی موجودگی میں وہ بہت سی پریشانیوں سے آزاد تھا صلیبیوں پر عقب سے جو حملے کیے جاتے تھے ان کی قیادت یہ تینوں کرتے یا وہ خود کرتا تھا اس کے علاوہ العادل ہی صلیبی حکمرانوں خصوصاً رچرڈ سے ملتا اور بات چیت کرتا تھا تاہم اس نے العادل کے ساتھ بات کرلینا مناسب سمجھا مگر عکرہ کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی تھی مسلمانوں کی کمک آرہی تھی العادل کہیں نظر نہیں آتا تھا اس کے متعلق سلطان ایوبی کو یہی اطلاعیں ملتی تھیں کہ آج اس نے فلاں جگہ حملہ کیا ہے اور آج فلاں جگہ سلطان ایوبی کو اپنے بیٹے بھی نہیں ملتے تھے اب تو اس کی اپنی یہ حالت تھی کہ صحت کی خرابی کے باوجود جنگ میں شریک رہتا تھا
عکرہ کی دیوار ایک جگہ سے مسلسل سنگ باری سے گر پڑی تھی صلیبی وہاں سے اندر جانے کی کوشش کرتے تو مسلمان جانوں کی بازی لگا کر انہیں روکتے تھے دور سے نظر آنے لگا تھا کہ یہ شگاف دونوں فریقوں کی لاشوں سے بھرتا جارہا ہے آخر اندر سے کبوتر یہ پیغام لایا اگر کل تک ہمیں مدد نہ پہنچی یا آپ نے باہر سے محاصرہ توڑنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں ہتھیار ڈالنے پڑیں گے کیونکہ شہریوں کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں شہر جل رہا ہے اور فوج تھوڑی رہ گئی ہے اور جو رہ گئی ہے وہ مسلسل دو سال بغیر آرام کیے لڑ لڑ کر لاشیں بن گئی ہیں
سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے اس نے اسی وقت اپنے تمام تر دستے یکجا کرکے بڑا ہی شدید حملہ کیا ایسی خونریزی ہوئی کہ تاریخ کے ورق پھڑپھڑانے لگے مؤرخ لکھتے ہیں کہ انسانی ذہن ایسی خونریزی کو تصور میں نہیں لاسکتا رات کو بھی مسلمانوں نے صلیبیوں کو چین نہ لینے دیا آدھی رات کے بعد سلطان ایوبی اس طرح اپنے خیمے میں آیا اور پلنگ پر گرا جیسے اس کا جسم زخموں سے چور ہوگیا ہو اس نے ہانپتی کانپتی آواز میں حکم دیا کہ صبح پھر ایسا ہی حملہ ہوگا مگر صبح کی روشنی نے اسے جو منظر دکھایا اس سے اس پر نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی عکرہ کی دیواروں پر صلیبیوں کے جھنڈے لہرا رہے تھے صلیبیوں کا لشکر شگاف سے اندر جارہا تھا یہ جمعہ کا دن تھا تاریخ ١٧جمادی الثانی ٥٨٧ ہجری (١٢جولائی ١١٩٢ء) تھی
المشطوب اور قراقوش نے صلیبیوں سے شرائط طے کرلی تھیں اس کے باوجود سلطان ایوبی کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑا کہ فرنگی تقریباً تین ہزار مسلمان قیدیوں کو رسوں سے باندھے عکرہ سے باہر لائے ان میں فوجی تھے اور شہری بھی انہیں ایک جگہ کھڑا کر دیا گیا اور چاروں طرف سے صلیبیوں کی فوج کے سوار اور پیادہ دستوں نے ان بندھے ہوئے نہتے قیدیوں پر حملہ کردیا سلطان ایوبی کی فوج کو بالکل توقع نہیں تھی کہ صلیبی اس قدر درندگی اور ذلت کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں جب صلیبی فوج قیدیوں پر ٹوٹ پڑی مسلمان فوج کسی کے حکم کے بغیر اٹھ دوڑی اور صلیبیوں پر پورے قہر سے حملہ کیا مگر تمام قیدی شہید کیے جاچکے تھے دونوں فوجوں میں بڑا سخت تصادم ہوا اس دوران رچرڈ پر بھی سلطان ایوبی کی طرح بیماری کے شدید حملے ہوئے دنیائے صلیب کو اس پر بڑا ہی بھروسہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شیر دل تھا مگر عکرہ کے محاصرے میں جہاں وہ کامیاب ہوا تھا وہاں اس کا حوصلہ بھی ٹوٹ گیا تھا اسے توقع نہیں تھی کہ مسلمان اتنی بے جگری سے لڑتے ہیں اس کی منزل اب بیت المقدس تھی اس نے ساحل کے ساتھ ساتھ کوچ کیا آگے عسقلان اور حیفہ جیسے بڑے شہر اور قلعے تھے سلطان ایوبی نے اس کا ارادہ بھانپ لیا وہ ان شہروں اور قلعوں پر قبضہ کرکے یہاں اپنے اڈے بنانا اور بیت المقدس پر حملہ کرنا چاہتا تھا
سلطان ایوبی نے بیت المقدس کی خاطر بہت بڑی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا اس نے حکم دیا عسقلان کو تباہ کردو قلعے اور شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دو سالاروں اور مشیروں پر سکتہ طاری ہوگیا اتنا بڑا شہر؟
اتنا مضبوط قلعہ؟
سلطان ایوبی نے گرج کر کہا شہر پھر آباد ہوجائیں گے انسان پیدا ہوتے رہیں گے مگر بیت المقدس کو صلیبیوں سے بچائے رکھنے کے لیے صلاح الدین ایوبی شاید پھر پیدا نہ ہو اپنے تمام شہر اور بچے مسجد اقصیٰ پر قربان کردو سلطان ایوبی بے شک جذباتی ہوگیا تھا لیکن اس نے فن حرب وضرب اور حقائق سے چشم پوشی نہ کی اپنے چھاپہ مار دستوں کو صلیبی لشکر کے پیچھے ڈال دیا یہ دستے بکھر کر رچرڈ کے لشکر پر جو کوچ کررہا تھا عقبی حصے میں شب خون مارتے اور غائب ہوجاتے اس طرح اس لشکر کا کوچ بہت ہی سست رہا دشمن کی رسد محفوظ نہ رہی رچرڈ عسقلان جارہا تھا وہاں پہنچا تو قلعہ اور شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے وہاں جو مسلمان فوج تھی اسے بیت المقدس کے دفاع کے لیے بھیج دیا گیا تھا رچرڈ کے راستے میں جتنے قلعے آئے وہ سب مسمار ہوچکے تھے مؤرخ لکھتے ہیں کہ رچرڈ کا دماغ خراب ہونے لگا تھا کہ مسلمان ایسی قربانی بھی دے سکتے ہیں وہ جان گیا کہ بیت المقدس پر قبضہ آسان نہیں
اس پر یہ افتاد بھی پڑی کہ فرانس کا بادشاہ اس کا ساتھ چھوڑ گیا انہوں نے عکرہ لے تو لیا تھا لیکن مسلمانوں نے اس کامیابی میں ان کی کمر توڑ دی تھی سلطان ایوبی کو عکرہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا بہت افسوس تھا لیکن اس کی یہ چال کامیاب تھی کہ اس نے صلیبیوں کا جنگی طاقت کا گھمنڈ توڑ دیا تھا اس نے اب پھر اپنا مخصوص طریقہ جنگ شروع کردیا تھا یہ شب خونوں اور چھاپوں کا سلسلہ تھا یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان چھاپہ مار رات کی تاریکی میں طوفان کی طرح آتے اور صلیبی فوج کے عقبی حصے پر شب خون مار کر بے تحاشہ نقصان کرتے اور غائب ہوجاتے تھے اس طرح صلیبیوں کے لیے ایک ماہ کا سفر تین ماہ کا ہوجاتا تھا سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے کوچ کی رفتار سست کرکے بیت المقدس کا دفاع مضبوط کرلیا جوآنا کچھ کرو صلیب کی خاطر کچھ کرو رچرڈ نے اپنی بہن سے کہا العادل کو ہاتھ میں لو ہم لڑ کر بیت المقدس نہیں لے سکتے وہ مجھے چاہتا ہے جوآنا نے جواب دیا کوچ کے دوران بھی میری اس سے ملاقات ہوچکی ہے میں یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ وہ مجھے والہانہ طور پر چاہنے لگا ہے لیکن کہتا ہے کہ مسلمان ہو جاؤ وہ میری کوئی شرط ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا ادھر سلطان ایوبی نے العادل اپنے بیٹوں کو سالاروں کو بلا رکھا تھا اس کی زبان پر اب دو ہی لفظ رہتے تھے اسلام اور بیت المقدس اس نے ان سب کو بیت المقدس کے دفاع کی ہدایات دیں کانفرنس کے بعد العادل اسے تنہائی میں ملا اور کہا رچرڈ مجھے اپنی بہن پیش کررہا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنا مذہب ترک کردوں تمہیں اسلام سے زیادہ محبت ہے یا رچرڈ کی بہن سے؟
دونوں سے تو اسے اپنے مذہب میں لاؤ اور شادی کرلو سلطان ایوبی نے کہا میں اجازت دیتا ہوں میں آپ سے شادی کی اجازت لینے نہیں آیا العادل نے کہا میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ رچرڈ جیسا دلیر اور جنگجو بادشاہ بھی ان ذلیل ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس کی بہن اچھی لگتی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے مذہب سے غداری نہیں کرونگا اور وہ بھی اپنے مذہب سے غداری نہیں کرے گی جائے جہنم میں العادل نے کہا ان حربوں سے رچرڈ بیت المقدس نہیں لے سکتا سلطان ایوبی کے چہرے پر رونق آگئی یورپی مؤرخوں نے رچرڈ کی اس حرکت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ رچرڈ نے اس شرط پر اپنی بہن العادل کو پیش کی تھی کہ وہ عیسائی ہوجائے لیکن رچرڈ کی بہن نے العادل کو دھتکار دیا تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ پردہ اسی وقت چاک ہوگیا تھا جب رچرڈ بیت المقدس کے قریب جاکر خیمہ زن ہوا یہاں عکرہ کی جنگ سے زیادہ خونریز معرکوں کی توقع تھی لیکن رچرڈ نے اپنی وہی شرائط پیش کرنی شروع کردیں جو وہ پہلے کرچکا تھا ایک بار سلطان ایوبی نے اس کے ایلچی کے بے عزتی کردی اور اسے فوراً واپس چلے جانے کو کہہ دیا اس دوران سلطان ایوبی کو پتہ چلا کہ رچرڈ اتنا زیادہ بیمار ہوگیا ہے کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی سلطان ایوبی رات کو اپنے خیمے سے نکلا اور رچرڈ کے خیموں کا رخ کرلیا اس نے صرف العادل کو بتایا کہ وہ کہاں جارہا ہے العادل نے ہنس کرکہا کہ فلاں جگہ رچرڈ کی بہن میرے انتظار میں کھڑی ہوگی اسے بھی ساتھ لے جانا جوآنا وہاں کھڑی تھی اس نے گھوڑے کے قدموں کی آہٹ سنی تو دوڑ کر آئی اور بولی تم آگئے العادل؟
سلطان ایوبی گھوڑے سے اترا اور جوآنا کو گھوڑے پر بٹھا کر خاموشی سے رچرڈ کی خیمہ گاہ کی طرف چل پڑا جوآنا کچھ کہہ رہی تھی سلطان ایوبی نے عربی زبان میں کہا تمہاری زبان میرا بھائی سمجھ سکتا ہے میں نہیں سمجھتا یہ جوآنا نہ سمجھ سکی سلطان ایوبی رچرڈ کے خیمے میں داخل ہوا رچرڈ واقعی سخت بیمار تھا اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ بات کرنے کے لیے اپنا ترجمان بلا لیا سلطان ایوبی نے پہلی بات یہ کہی اپنی بہن کو سنبھالو میرا بھائی اپنا مذہب ترک نہیں کرے گا اور مجھے بتاؤ کہ تمہیں تکلیف کیا ہے میں تمہیں دیکھنے آیا ہوں یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مرتا دیکھ کر میں حملہ کردوں گا صحت یاب ہوجائے گے تو دیکھا جائے گا رچرڈ حیرت سے اٹھ بیٹھا اور بے ساختہ بولا تم عظیم ہو صلاح الدین ایوبی تم سچے جنگجو ہو اس نے اپنی تکلیف بتائی سلطان ایوبی نے کہا ہمارے علاقے میں بیمار ہونے والے کو ہمارے ہی طبیب ٹھیک کرسکتے ہیں جس طرح انگلستان کی فوج یہاں آکر بے کار ہوجاتی ہے اسی طرح تمہارے ڈاکٹر بھی یہاں آکر اناڑی ہوجاتے ہیں میں اپنا طبیب بھیجوں گا صلاح الدین! ہم کب تک ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے؟
رچرڈ نے کہا آؤ صلح اور دوستی کرلیں لیکن میں دوستی کی وہ قیمت نہیں دوں گا جو تم مانگ رہے ہو سلطان ایوبی نے کہا تم خون خرابے سے ڈرتے ہو بیت المقدس کی خاطر میری پوری قوم اپنا خون قربان کردے گی وہاں سے واپس آکر سلطان ایوبی نے اپنا طبیب رچرڈ کے علاج کے لیے بھیجا اسے صحت یاب ہوتے ہوتے بہت دن گزر گئے سلطان ایوبی جنگ کے لیے تیار ہوچکا تھا لیکن حملے کے بجائے رچرڈ کی طرف سے صلح کی نئی شرطیں آئیں رچرڈ بیت المقدس سے دستبردار ہوگیا تھا اس نے صرف یہ رعایت مانگی کہ عیسائی زائرین کو بیت المقدس میں داخلے کی اجازت دے دی جائے اور ساحل کا کچھ علاقہ صلیبیوں کو دے دیا جائے سلطان ایوبی نے یہ شرائط مان لیں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ سلطان ایوبی کی فوج مسلسل لڑ رہی تھی اور شہادت اتنی زیادہ ہوچکی تھی کہ اب کم تعداد سے اتنی بڑی فوج سے لڑنا ممکن نہیں رہا تھا قاضی بہاؤالدین شداد نے یہ بھی لکھا ہے کہ دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا سپاہی دن رات لڑتے رہے تھے وہ ذہنی طور پر شل ہوچکے تھے بعض دستوں میں احتجاج بھی شروع ہوگیا تھا سلطان ایوبی جسمانی طور پر تھکی ہوئی اور ذہنی طور پر پژمردہ فوج کے بل بوتے پر بیت المقدس کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کررہا تھا
رچرڈ مسلمانوں کی بے خوفی اور جذبے سے گھبرا رہا تھا اس کی صحت بھی جواب دے گئی تھی اس کے علاوہ اس کے اپنے ملک میں اس کے مخالفین سر اٹھا رہے تھے انگلستان کا تخت وتاج خطرے میں پڑ گیا تھا
اس معاہدے پر ٢ ستمبر ١١٩٢ء (٢٢شعبان ٥٨٨ہجری) کے روز دستخط ہوئے رچرڈ ٩ اکتوبر ١١٩٢ء کے روز اپنی فوج کے ساتھ انگلستان کے لیے روانہ ہوا اس معاہدے کی میعاد تین سال مقرر کی گئی رچرڈ نے بوقت رخصت سلطان ایوبی کو پیغام بھیجا کہ میں معاہدے کی میعاد گزرنے کے بعد یروشلم فتح کرنے آؤں گا اس کے بعد کوئی صلیبی بیت المقدس کو فتح نہ کرسکا جون ١٩٦٧ء میں عربوں کی بے اتفاقی نے اور ان کی انہی کمزوریوں نے جو کفار سلطان ایوبی کے دور میں مسلمان امراء میں پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے بیت المقدس یہودیوں کے حوالے کردیا ہے رچرڈ کی روانگی کے بعد سلطان ایوبی نے اعلان کیا کہ اس کی فوج کے جو افراد حج کے لیے جانا چاہتے ہیں اپنے نام دے دیں انہیں سرکاری انتظامات کے تحت حج کے لیے بھیجا جائے گا فہرستیں تیار ہوگئیں اور ان سب کو حج کے لیے روانہ کردیا گیا خود سلطان ایوبی کی دیرینہ خواہش تھی کہ حج کعبہ کو جائے مگر جہاد نے اسے مہلت نہ دی اور جب مہلت ملی تو اس کے پاس سفر خرچ کے لیے پیسے نہیں تھے اسے سرکاری خزانے سے پیسے پیش کیے گئے جو اس نے یہ کہہ کر قبول نہ کیے کہ یہ خزانہ میرا ذاتی نہیں اس نے اپنے آپ کو حج کی سعادت سے محروم کردیا سرکاری خزانے سے ایک پیسہ نہ لیا مصری وقائع نگار محمد فرید ابوحدید لکھتا ہے کہ وفات کے وقت سلطان ایوبی کی کل دولت ٤٧ درہم چاندی کے اور ایک ٹکڑا سونے کا تھا اس کا ذاتی مکان بھی نہیں تھا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان صلاح الدین ایوبی ٤ نومبر ١١٩٢ء کے روز بیت المقدس سے دمشق پہنچا اس کے چار ماہ بعد سلطان خالق حقیقی سے جا ملا دمشق پہنچنے سے وفات تک کا آنکھوں دیکھا حال قاضی بہاؤالدین شداد کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے اس کے بچے دمشق میں تھے اس نے سستانے کے لیے اسی شہر کو پسند کیا اس کے بچے اسے دیکھ کر تو خوش ہوئے ہی تھے دمشق اور گردونواح کے لوگ اپنے فاتح سلطان کو دیکھنے کے لیے ہجوم در ہجوم آگئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی قوم کی یہ بے تابانہ عقیدت مندی دیکھی تو اگلے ہی روز (٥ نومبر بروز جمعرات) دربار عام منعقد کیا جس میں سلطان کو ملنے اور اگر کسی کو کئی شکایت ہو تو بیان کرنے کی ہر کسی کو اجازت تھی مرد عورتیں بوڑھے بچے امیر غریب حاکم اور عوام سلطان صلاح الدین ایوبی سے ملنے جمع ہوگئے شاعروں نے اس تقریب میں سلطان ایوبی کی شان میں نظمیں سنائیں
سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلسل جہاد اور سلطنت کی مصروفیات نے نہ دن کو کبھی چین لینے دیا نہ راتوں کو اطمینان کی نیند سونے دیا تھا وہ جسمانی طور پر بھی نڈھال ہوچکا تھا اور ذہنی طور پر بھی تھکے ہوئے اعصاب کو تازہ دم کرنے کے لیے اس نے دمشق کے علاقے میں ہرنوں (غزال) کے شکار کو شغل بنا لیا وہ اپنے بھائیوں اور بچوں کے ساتھ شکار کھیلا کرتا تھا اس کا ارادہ تھا کہ کچھ روز آرام کرکے مصر چلا جائے گا مگر دمشق میں بھی سرکاری کاموں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا
میں اس وقت بیت المقدس میں (وزیر) تھا ایک روز دمشق سے مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی کا خط ملا اس نے مجھے دمشق میں بلایا تھا میں فوراً روانہ ہونے لگا مگر مسلسل موسلادھار بارشوں نے راستوں کو دلدل بنا دیا تھا اس قدر کیچڑ اور اتنی بارش میں میں انیس روز بعد بیت المقدس سے نکل سکا میں ٢٣ محرم الحرام بروز جمعہ وہاں سے روانہ ہوا اور ١٢ صفر بروز منگل دمشق پہنچا اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ملاقات کے کمرے میں امراء اور دیگر حکام سلطان ایوبی کا انتظار کررہے تھے سلطان ایوبی کو میری آمد کی اطلاع دی گئی اس نے مجھے فوراً اپنے خاص کمرے میں بلا لیا میں جب اس کے سامنے گیا تو وہ بازو پھیلا کر اٹھا اور مجھ سے بغل گیر ہوگیا میں نے اس کے چہرے پر ایسا اطمینان اور سکون کبھی نہیں دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
اگلے روز اس نے مجھے بلایا اس کے خاص کمرے میں پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ ملاقات کے کمرے میں کون لوگ بیٹھے ہیں میں نے اسے بتایا کہ (اس کا بیٹا) الملک الافضل چند ایک امراء اور بہت سے دوسرے لوگ آپ کی ملاقات کے لیے بیٹھے ہیں اس نے جمال الدین اقبال سے کہا کہ ان لوگوں سے میری طرف سے معذرت کرکے کہہ دو کہ آج میں کسی سے نہیں مل سکوں گا اس نے میرے ساتھ کچھ ضروری باتیں کیں اور میں چلا آیا
دوسرے دن اس نے مجھے علی الصبح بلا لیا میں گیا تو وہ اپنے باغیچے میں بیٹھا اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اس نے پوچھا کہ ملاقات کے کمرے میں کوئی ملاقاتی ہے؟
اسے بتایا گیا کہ فرنگیوں (فرینکس) کے ایلچی آئے بیٹھے ہیں سلطان ایوبی نے کہا کہ فرنگی ایلچیوں کو یہیں بھیج دو اس کے بچے وہاں سے چلے گئے اس کا سب سے چھوٹا بچہ امیر ابوبکر جس سے سلطان ایوبی کو بہت پیار تھا وہیں رہا جب فرنگی آئے تو بچے نے ان کے بغیر داڑھیوں کے چہرے اور ان کا لباس دیکھا تو بچہ ڈر کر رونے لگا بچے نے بغیر داڑھی کے کبھی کوئی انسان نہیں دیکھا تھا سلطان ایوبی نے فرنگیوں سے معذرت کی کہ ان کے حلیے کو دیکھ کر بچہ رو پڑا ہے مگر سلطان نے بچے کو اندر بھیجنے کے بجائے فرنگیوں سے کہا کہ وہ آج ان سے نہیں مل سکے گا اس نے انہیں بغیر بات چیت کیے رخصت کر دیا ان کے جانے کے بعد اس نے کہا جو کچھ پکا ہے لے آؤ اس کے آگے ہلکی پھلکی غذا رکھی گئی جس میں کھیر بھی تھی اس نے بہت تھوڑا کھایا میں نے محسوس کیا جیسے اس کی بھوک مرچکی ہو میں نے اس کے ساتھ کھانا کھایا اس نے بتایا کہ وہ ملاقاتیں کم کر رہا ہے کیونکہ وہ بدہضمی اور کمزوری محسوس کرتا ہے کھانے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا حاجی واپس آگئے ہیں؟
میں نے اسے بتایا کہ راستے میں کیچڑ زیادہ ہے شاید کل تک حاجی آجائیں سلطان نے کہا ہم ان کے استقبال کے لیے جائیں گے یہ کہہ کر اس نے ایک حاکم کو بلا کر حکم دیا کہ حاجی آرہے ہیں اور راستے میں کیچڑ اور پانی ہے فوراً آدمیوں کو بھیجو اور جس راستے سے حاجی آرہے ہیں اس راستے سے کیچڑ اور پانی صاف کردو میں اس سے اجازت لے کر چلا آیا میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا جوش وخروش اور اس کی مستعدی ماند پڑ گئی تھی
دوسرے دن وہ گھوڑے پر سوار ہوکر حاجیوں کے استقبال کے لیے نکلا میں بھی گھوڑے پر سوار ہوکر اس کے پیچھے گیا اس کا بیٹا الملک الافضل بھی آگیا لوگوں میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی کہ سلطان باہر آیا ہے لوگ کام کاج چھوڑ کر اٹھ دوڑے وہ اپنے فاتح سلطان کو قریب سے دیکھنا اور اس سے ہاتھ بھی ملانا چاہتے تھے جب سلطان عقیدت مندوں کے اس بے صبر اور بے قابو ہجوم میں گھر گیا تو اس کے بیٹے الملک الافضل نے گھبراہٹ کے عالم میں مجھے کہا کہ سلطان نے سواری والا لباس نہیں پہن رکھا (یہ زرہ بکتر کی قسم کا لباس ہوا کرتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اس لباس کے بغیر کبھی باہر نہیں نکلا تھا) ہمیں پریشانی ہوئی سلطان کے ساتھ باڈی گارڈ بھی نہیں تھے مجھ سے رہا نہ گیا (سلطان ایوبی پر اس سے پہلے قاتلانہ حملے ہوچکے تھے اب بھی حملہ ہوسکتا تھا) میں ہجوم کو چیرتا ہوا سلطان تک پہنچا اور اسے کہا کہ آپ اپنے مخصوص لباس میں نہیں ہیں وہ اس طرح چونکا جیسے نیند سے جگا دیا گیا ہو اس نے کہا کہ میرا لباس یہیں لایا جائے مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو اسے لباس لادیتا مجھے کچھ زیادہ ہی خطرہ محسوس ہونے لگا مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی حادثہ ہونے والا ہو میں نے اسے کہا کہ میں یہاں کے راستوں سے واقف نہیں کیا کوئی ایسا راستہ ہے جہاں لوگ کم ہوں اور آپ واپس جاسکیں؟
اس نے کہا کہ ایک راستہ ہے اس نے گھوڑا اس رخ کو موڑ لیا لوگوں کا ہجوم بے پناہ تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑا باغوں کے درمیانی راستے پر ڈال دیا میں اور الملک الافضل اس کے ساتھ تھے میرا دل بوجھل تھا میں اس کی جان کو بھی خطرے میں محسوس کررہا تھا اور اس کی صحت کو بھی ہم المبینہ کے چشمے سے ہوتے ہوئے قلعے میں داخل ہوئے جمعہ کی شام سلطان ایوبی نے غیرمعمولی کمزوری محسوس کی آدھی رات سے ذرا پہلے اسے بخار ہوگیا یہ صفرادی بخار تھا جسم کے اندر زیادہ تھا باہر کم لگتا تھا صبح (٢١فروری ١١٩٣ء) وہ نقاہت سے نڈھال ہوچکا تھا جسم کو ہاتھ لگانے سے حرارت کم لگتی تھی میں اسے دیکھنے گیا اس کا بیٹا الملک الافضل اس کے پاس تھا سلطان نے بتایا کہ اس نے رات بڑی تکلیف میں گزاری ہے اس نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں ہم نے گپ شپ میں ان کا ساتھ دیا اس سے اس کی مزاجی شگفتگی بحال ہوگئی دن کے دوسرے پہر تک وہ خاصا بہتر ہوگیا ہم وہاں سے اٹھنے لگے تو اس نے کہا کہ الملک الافضل کے ساتھ کھانا کھا کر جائیں میرے ساتھ قاضی الفضل بھی تھا وہ کسی اور کے ہاں کھانا کھانے کا عادی نہ تھا وہ معذرت کرکے چلا گیا میں کھانے کے کمرے میں چلا گیا صلاح الدین ایوبی سے رخصت ہوتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میں اپنا دل سلطان ایوبی کے پاس چھوڑ چلا ہوں کھانے کے کمرے میں گیا دسترخوان بچھ چکا تھا بہت سے افراد بیٹھے تھے الملک الافضل اپنے باپ کی جگہ بیٹھا تھا بے شک الافضل صلاح الدین ایوبی کا بیٹا تھا لیکن سلطان کی جگہ بیٹے کو بیٹھا دیکھ کر بہت دکھ ہوا کھانے پر جو لوگ بیٹھے تھے ان کی بھی جذباتی حالت میرے جیسی تھی ان میں سے بعض کے تو آنسو نکل آئے اس روز کے بعد سلطان ایوبی کی صحت بگڑتی چلی گئی میں اور قاضی الفضل روزانہ کئی کئی بار اس کمرے میں جاتے تھے جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی بیمار پڑا تھا اسے تکلیف میں ذرا سا بھی افاقہ ہوتا تو ہمارے ساتھ باتیں کرتا تھا ورنہ اکثر یوں ہوتا کہ وہ آنکھیں بند کیے پڑا رہتا اور ہم اسے دیکھتے رہتے اس کی جان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس کا طبیب خاص غیرحاضر تھا (قاضی بہاؤالدین شداد نے یہ نہیں لکھا کہ طبیب خاص کہاں چلا گیا تھا) سلطان کا علاج چار طبیب مل کر کر رہے تھے مگر مرض بڑھتا جارہا تھا
بیماری کے چوتھے روز چاروں طبیبوں نے فیصلہ کیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جسم سے خون نکال دیا جائے اسی وقت سلطان کی حالت زیادہ بگڑ گئی اور اس کے بعد اہم غدود بے کار ہوگئے اس سے اس کے جسم میں اندر کی رطوبتیں خشک ہونے لگیں سلطان ایوبی نقاہت کی آخری حد تک جا پہنچا چھٹے دن ہم نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اسے ایک دوائی دی گئی جس کے بعد ہلکا گرم پانی پینا ضروری تھا پانی لایا گیا اسے ہلکا گرم ہونا چاہیے تھا سلطان ایوبی کے منہ سے پیالہ لگایا گیا تو اس نے کہا کہ پانی بہت گرم ہے اس نے نہ پیا پانی ذرا ٹھنڈا کرکے لایا گیا تو سلطان ایوبی نے کہا کہ یہ بالکل ٹھنڈا ہے اس نے غصے یا خفگی کا اظہار نہ کیا مایوسی کے لہجے میں اتنا ہی کہا او خدا! کوئی بھی نہیں جو مجھے ہلکا گرم پانی دے سکے میری اور الفضل کی آنکھوں میں آنسو آگئے (دنیائے صلیب پر دہشت طاری کردینے والا انسان بالکل بے بس ہوگیا تھا) ہم دونوں دوسرے کمرے میں آگئے قاضی الفضل نے کہا قوم کتنے عظیم انسان سے محروم ہوجائے گی بخدا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو پانی کا یہ پیالہ اس کے سر پر دے مارتا جو اس کی پسند کا پانی نہیں لایا تھا ساتویں اور آٹھویں روز صلاح الدین ایوبی کی حالت اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ اس کا ذہن بھٹکنے لگا نویں روز اس پر غشی طاری ہوگئی وہ پانی بھی نہ پی سکا شہر میں خبر پھیل گئی کہ سلطان ایوبی کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے تمام شہر پر موت کی اداسی طاری ہوگئی ہر جگہ اور ہر زبان پر اس کی صحت یابی کی دعائیں تھیں تاجر اور سوداگر ایسے ڈرے کہ انہوں نے بازاروں سے اپنا مال اٹھانا شروع کر دیا الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ایک فرد کس طرح اداس اور کتنا پریشان تھا
میں اور قاضی الفضل رات کا پہلا پہر سلطان ایوبی کے پاس رہتے اور اسے دیکھتے رہتے تھے وہ بول اور دیکھ نہیں سکتا تھا باقی رات ہم باہر کھڑے رہتے کوئی اندر سے آتا تو اس سے پوچھ لیتے کہ سلطان کی حالت کیسی ہے ہم جب علی الصبح وہاں سے باہر نکلتے تو باہر لوگوں کا ہجوم کھڑا دیکھتے اب لوگ ہم سے یہ پوچھنے سے بھی ڈرتے تھے کہ سلطان کی صحت کیسی ہے وہ ہمارے چہروں سے جان لیتے تھے کہ سلطان کی حالت ٹھیک نہیں ہجوم چپ چاپ ہمیں دیکھتا اور ہم ہجوم کو دیکھ کر سر جھکا لیتے تھے دسویں روز طبیبوں نے اسے انتڑیاں صاف کرنے والی دوا دی جس سے اسے کچھ افاقہ ہوگیا اس کے بعد جب سب کو پتہ چلا کہ سلطان ایوبی نے جو کا پانی پیا ہے تو سب نے خوشی منائی اس رات ہم چند گھنٹے اس کے پاس جانے کا انتظار کرتے رہے لیکن محل میں چلے گئے جہاں جمال الدین اقبال بیٹھا تھا اس سے صلاح الدین ایوبی کی حالت پوچھی وہ اندر چلا گیا اور توران شاہ سے پوچھ کر ہمیں بتایا کہ سلطان کے دونوں پھیپھڑوں میں نمی اور ہوا آنے جانے لگی ہے ہم نے خدا کا شکر ادا کیا ہم نے جمال الدین سے کہا کہ خود جاکر دیکھے کہ باقی جسم پر پسینے کے آثار ہیں یا نہیں اس نے اندر جاکر دیکھا اور واپس آکر بتایا کہ پسینہ بہت آرہا ہے یہ ایک خوشخبری تھی ہم سکون اور اطمینان سے چلے آئے
دوسرے دن جو منگل کا دن تھا صفر کی ٢٦ تاریخ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی علالت کا گیارہواں روز تھا ہم سلطان کو دیکھنے گئے اندر نہ جاسکے ہمیں بتایا گیا کہ پسینہ اس قدر زیادہ نکل رہا ہے کہ بستر میں سے ہوتا ہوا فرش پر ٹپک رہا ہے یہ خبر اچھی نہیں تھی جسم کی رطوبت تیزی سے ختم ہورہی تھی طبیبوں نے حیرت سے بتایا کہ جسم اندر سے خشک ہوجانے کے باوجود سلطان کے جسم میں ابھی توانائی موجود ہے
صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الافضل نے دیکھا کہ سلطان کی صحت یابی کی کوئی امید نہیں رہی تو اس نے امراء اور وزراء سے حلف وفاداری لینے کا فوری انتظام کیا اس نے تمام قاضیوں کو رضوان محل میں بلایا اور انہیں کہا کہ نئے حلف کا مسودہ تیار کریں جس میں صلاح الدین ایوبی جب تک زندہ ہے اس کی وفاداری کا حلف نامہ ہو اور ان کی وفات کے بعد الملک الافضل کی وفاداری کا الافضل نے معذرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا حلف نامہ کبھی تیار نہ کراتا لیکن سلطان ایوبی کی حالت تشویشناک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے
حلف نامہ تیار ہوگیا دوسرے دن حلف اٹھانے کے لیے متعلقہ امراء اور وزراء کو بلایا گیا سب سے پہلے دمشق کے گورنر سعدالدین مسعود نے حلف اٹھایا اس کے بعد نصرالدین آیا جو سہیون کا گورنر تھا اس نے اس شرط پر حلف اٹھایا کہ جس قلعے کا وہ گورنر ہے وہ سلطان ایوبی کی وفات کے بعد اس کی (نصرالدین کی) ذاتی ملکیت سمجھا جائے گا تمام امراء وزراء اور گورنروں نے حلف اٹھالیا دو تین نے اپنی شرائط منوا کر حلف اٹھایا حلف نامے کے الفاظ یہ تھے اس لمحے سے میں متحدہ مقصد کی خاطر الملک النصر (صلاح الدین ایوبی) کا وفادار رہوں گا جب تک کہ وہ زندہ ہے اس کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ان تھک اور مسلسل کوشش کرتا رہوں گا اس کی خاطر اپنی جان اپنا مال اپنی تلوار اور اپنی فوج اور اپنی رعایا کو وقف کیے رکھوں گا میں اس کا ہر حکم مانوں گا اور اس کی ہر خواہش کی تکمیل کروں گا اور اس کے بعد الافضل کے بیٹوں کے لیے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اس کے احکام کی تعمیل کروں گا اس کے لیے میں اپنی جان اپنا مال اپنی تلوار اور اپنی فوج کو وقف کیے رکھوں میں اپنے حلف وفاداری میں خدا کو گواہ ٹھہراتا ہوں
حلف نامے کی دوسری شق یہ تھی اگر میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کروں تو میں حلفیہ تسلیم کرتا ہوں کہ صرف اس خلاف ورزی کی بنا پر میری بیویاں مطلقہ ہوجائیں (یعنی بیویاں میری نہیں رہیں گی) اور مجھے تمام ذاتی اور سرکاری خادموں سے محروم کردیا جائے گا اور مجھے لازم ہوگا کہ میں ننگے پاؤں یا پیادہ حج کعبہ کو جاؤں
٢٦ صفر ٥٨٩ ہجری (٣ مارچ ١١٩٣ء) منگل کی شام تھی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیماری کا گیارہواں روز اس کی توانائی بالکل ختم ہوگئی اور امید دم توڑ گئی رات کو ایسے وقت مجھے قاضی الفضل اور ابن ذکی کو بلایا گیا جس وقت سے پہلے کبھی نہیں بلایا گیا تھا وہ قانون علم اور سائنس کا عالم تھا صلاح الدین ایوبی کا بہت احترام کرتا تھا جب سلطان ایوبی نے یروشلم فتح کیا تو مسجد اقصیٰ میں پہلے جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے سلطان ایوبی نے اسی کو منتخب کیا تھا بعد میں اسے دمشق کا قاضی مقرر کردیا گیا تھا ہم گئے تو الملک الافضل نے کہا کہ ہم تینوں ساری رات اس کے ساتھ رہیں وہ سوگوار تھا اور گھبرایا ہوا بھی قاضی الفضل نے اعتراض کیا اور کہا رات بھر لوگ باہر کھڑے سلطان کی صحت کی خبر سننے کا انتظار کرتے ہیں اگر ہم ساری رات اندر رہے تو وہ کچھ اور سمجھ لیں گے اور شہر میں غلط خبر پھیل جائے گی الافضل سمجھ گیا اس نے کہا کہ ہم لوگ چلے جائیں ہماری بجائے اس نے امام ابو جعفر کو اس مقصد کے لیے بلا لیا کہ اگر رات کو صلاح الدین ایوبی پر نزع کا عالم طاری ہوگیا تو امام اس کے سرہانے قرآن پڑھے گا ہم وہاں سے آگئے اس کے بعد امام ابوجعفر نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی آخری رات کی جو روئیداد سنائی وہ میں تحریر کرتا ہوں اس نے بتایا کہ اس نے سلطان کے سرہانے قرآن پڑھا اس دوران سلطان پر کبھی غشی طاری ہوجاتی کبھی ہوش میں آجاتا اور کبھی اس کا ذہن بھٹک جاتا آدھی رات کے بعد ٢٧صفر ٥٨٩ ہجری (٤مارچ ١١٩٣ء) کی تاریخ شروع ہوچکی تھی
امام ابو جعفر نے بتایا میں بائیسویں پارے کی سورۂ الحج پڑھ رہا تھا میں نے جب پڑھا خدا ہی قادر مطلق ہے برحق ہے اور وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے تو میں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی نحیف سی سرگوشی سنی وہ کہہ رہا تھا یہ سچ ہے یہ سچ ہے یہ اس کے آخری الفاظ تھے اس کے فوراً بعد صبح کی آذان سنائی دی میں نے قرآن پاک بند کردیا آذان ختم ہوتے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نہایت سکون اور اطمینان سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا امام ابوجعفر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ آذان شروع ہوئی تو وہ ایک آیت پڑھ رہا تھا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں تو سلطان ایوبی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اس کا چہرہ دمک اٹھا اور وہ اسی کیفیت میں اپنے خدا کے حضور گیا میں جب پہنچا اس وقت صلاح الدین ایوبی فوت ہوچکا تھا خلفائے راشدین کے بعد اگر قوم پر کوئی کاری ضرب پڑی ہے تو وہ سلطان ایوبی کے انتقال کی تھی قلعے شہر وہاں کے لوگوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر غم کی ایسی گھٹا چھا گئی جو صرف خدا جانتا ہے کہ کتنی گہری تھی میں نے لوگوں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ انہیں جو شخص سب سے زیادہ عزیز ہے اس کے لیے وہ اپنی جان قربان کردیں گے لیکن میں نے کبھی کسی کو کسی کے لیے جان قربان کرتے نہیں دیکھا البتہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سلطان ایوبی کی زندگی کی آخری رات ہم سے کوئی پوچھتا کہ سلطان ایوبی کی جگہ کون مرنے کو تیار ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی جانیں قربان کرکے سلطان ایوبی کو زندہ رکھتے اس روز شہر میں جسے دیکھا بے اختیار آنسو بہاتے دیکھا لوگ رونے کے سوا کچھ اور سوچتے ہی نہیں تھے کسی شاعر کو مرثیہ سنانے کی اجازت نہ دی گئی کسی امام کسی قاضی اور کسی عالم نے لوگوں کو صبر کی تلقین نہ کی وہ خود رو رہے تھے ہچکیاں لے رہے تھے صلاح الدین ایوبی کے بچے روتے چیختے گلیوں میں نکل گئے انہیں روتا دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا اس وقت سلطان ایوبی کی میت کو آخری غسل دے کر کفن پہنایا جاچکا تھا غسل عدالت کے ایک اہلکار الدلائی نے دیا تھا غسل کے لیے مجھے کہا گیا تھا مگر میرا دل اتنا مضبوط نہ تھا میں نے انکار کر دیا میت باہر لاکر رکھی گئی جنازے پر جو کپڑا ڈالا گیا وہ قاضی الفضل نے دیا تھا جب جنازہ لوگوں کے سامنے رکھا تو مردوں کے دھاڑوں اور عورتوں کی چیخوں سے آسمان کا جگر چاک ہونے لگا دمشق کی عورتوں کے بین سنے نہیں جاتے تھے
قاضی محی الدین ابن ذکی نے نماز جنازہ پڑھائی میں کچھ نہیں بتا سکتا کہ جنازے میں کتنے لوگ تھے البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ سب نماز جنازہ میں کھڑے تھے مگر نماز پڑھنے کے بجائے سب ہچکیاں لے رہے تھے اور بعض بے قابو ہوکر دھاڑیں مار اٹھتے تھے اردگرد عورتوں کا بے انداز ہجوم بین کر رہا تھا نمازجنازہ کے بعد میت باغیچے کے اس مکان میں رکھی گئی جہاں مرحوم نے علالت کے دن گزارے تھے عصر سے کچھ دیر پہلے سلطان ایوبی کو قبر میں اتار دیا گیا لوگ گھروں کو واپس گئے تو یوں لگتا تھا جیسے لاشوں کا ہجوم چلا جا رہا ہو میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قبر پر قرآن پڑھا کرتا رہا منکہ بہاؤالدین ابن شداد نے یہ یادداشتیں خلیفہ کی اجازت سے قلم بند کی ہیں اور اس تحریر کو الملک النصر ابو ظفر یوسف ابن نجم ایوب صلاح الدین ایوبی کی وفات پر ختم کیا ہے خدا اس پر رحمت فرمائے اس تحریر سے میرا مقصد خدا کی خوشنودی ہے اور میرا مقصود یہ بھی ہے کہ اسے یاد رکھو جو نیک تھا اور صرف نیکی پر دھیان رکھو ان یادداشتوں کے بعد یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سلطان ایوبی کی ایک خواہش یہ تھی کہ فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کریں اس کی یہ خواہش پوری ہوگئی اس کی دوسری خواہش یہ تھی کہ فتح فلسطین کے فریضہ کے بعد فریضۂ حج ادا کرے مگر اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اس کی وجہ بیماری نہیں تھی بلکہ یہ کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس کی ذاتی جیب خالی تھی بلال نو کی درانتی سے فصل صلیبی کاٹنے والا مرد مجاہد مصر شام اور فلسطین کا سلطان جس کے قدموں میں سلطنت کے خزانے تھے وہ اتنا غریب تھا کہ حج کو نہ جاسکا اور اسے جو کفن پہنایا گیا تھا وہ قاضی بہاؤالدین شداد قاضی الفضل ابن ذکی نے درپردہ پیسے جمع کرکے خریدا تھا آج فلسطین صلاح الدین ایوبی کا ماتم اسی طرح کر رہا ہے جس طرح ٤ مارچ ١١٩٣ء کے روز دمشق کی بیٹیوں نے بین کیے تھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*