🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➏➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یوں سوچا تھا کہ یہ بدو قبائل ہاتھ میں آ جائیں تو انھیں ساتھ ملا کر اناج اور مویشیوں کی فراہمی کا کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ خوش اسلوبی سے کر لیں گے ۔
مویشیوں سے مراد بھیڑ بکری گائے اور اونٹ تھا انہیں ذبح کر کے لشکر کو کھلانا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے جوں ہی ان بدو قبائل کا ذکر کیا فہد بن سامر چونک پڑا اور ایک ہاتھ اٹھا کر سپہ سالار کو چپ کرا دیا لگتا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آ گئی ہے۔
سپہ سالار!،،،،، فہد بن سامر نے کہا۔۔۔۔ آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ ارادہ نیک ہو اور اس میں خوشنودی اللہ کی ہو تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے میں رومی فوج میں ان علاقوں میں رہا ہو اور ان لوگوں کے رسم و رواج اور مذہبی عقائد سے واقف ہوں پانچ دنوں بعد چاند کی تیسری تاریخ ہوگی اس موسم میں سال میں ایک بار چاند کی تیسری تاریخ کی رات یہ لوگ ایک تقریب منایا کرتے ہیں میں اور حدید اس رات وہاں جائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مقوقس اور رومیوں کا مشہور و معروف جرنیل اطربون اسکندریہ میں تھا انہیں ان کے جاسوس روزبروز کی اطلاع پہنچا رہے تھے۔ جاسوس نے انہیں بتا دیا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور کمک کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔
مقوقس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لشکر کو تھوڑی سی لڑائی میں ہی ختم کر دے گا اور یہ لشکر لڑائی سے پہلے ہی بھوک سے مر جائے گا، اور کہے گا کہ کھانے کے لیے کچھ دے دو۔
اس کے جاسوسوں نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسد بہت کم ہے جو فرما پہنچنے تک پوری نہیں ہوگی، مقوقس نے یہ اطلاع ملتے ہی ان دیہاتی علاقوں میں جہاں سے کھانے کے لئے اناج اور مویشیوں کی فراہمی ہوتی تھی اپنی فوج اس حکم کے ساتھ بھیج دی تھی کہ ہر گاؤں میں فوج موجود رہے اور مسلمان اگر اناج کی لوٹ مار کرکے لے آئے تو انھیں وہیں ختم کر دیں اس طرح مقوقس اور اطربون نے مسلمانوں کو بھوکا مارنے کا پورا پورا انتظام کر لیا تھا۔
مقوقس نے ایک حکم تو پہلے ہی دے دیا تھا جس کے تحت عریش سے ساری رومی فوج نکل آئی تھی اور فرما چلی گئی تھی ،مقوقس نے یہ اہتمام اس خیال سے کیا تھا کہ مسلمان اور آگے چلے آئیں اور راستہ اتنا لمبا ہو جائے کہ ان تک کمک اور رسد بروقت پہنچ ہی نہ سکے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کے لیے بڑی ہی خطرناک اور روح کش صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے مدینہ کو ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ کمک جس قدر جلدی ہو سکے بھیج دی جائے اور وہ کمک کا انتظار نہیں کریں گے۔
مسعود بن سہیل مکی شتر بانوں کے بھیس میں فرما چلا گیا تھا اور واپس بھی آگیا تھا وہ اونٹ پر گیا تھا صحرائی علاقے میں اونٹ کی رفتار بہت ہی تیز تھی وہ سپہ سالار کے لیے یہ خبر لایا کہ مقوقس اور اطربون خود فرما میں نہیں آئیں گے اور انہوں نے اپنی فوج کو یہ حکم بھیجا ہے کہ محاصرے میں نہیں رہنا ہے بلکہ بار بار باہر نکل کر مسلمانوں پر حملے کرنا تاکہ ان کا جانی نقصان ہوتا رہے۔ مقوقس نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا جو بھی جانی نقصان ہو گا اسے وہ پورا نہیں کر سکیں گے۔
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فرما شہر کے متعلق کچھ بات ہوجائے، فرما مصر کا ایک مشہور شہر تھا فرعونوں کے زمانے میں اس کا نام پلوز تھا زمانے گزرتے گئے اور مصر قبطیوں کے زیر تسلط آ گیا تو پلوز کا نام پرمون رکھ دیا گیا پھر آگے چل کر کسی دور میں اس کا نام فرما رکھ دیا گیا۔
جس علاقے میں فرما واقعہ تھا وہاں دریائے نیل جاکر سات شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ ایک شاخ کا نام جسے اس وقت نہر کہا جاتا تھا پلوزی تھا۔ اسی لئے اس شہر کا نام پلوز رکھا گیا تھا۔ اسی طرح ہر شاخ کا ایک نام تھا ان شاخوں کی تشریح ضروری معلوم نہیں ہوتی ضروری بات ذہن میں رکھنے والی یہ ہے کہ یہ تمام علاقہ سرسبز اور زرخیز تھا اور یہ بحیرہ روم کے تقریبا کنارے پر تھا ۔آج بھی یہ علاقہ سرسبزوشاداب ہے اور وہاں پھلوں کے بھی بے انداز باغات ہیں اور اسی وجہ سے یہ علاقہ اس وقت بھی گنجان آباد تھا اور آسودہ حال بھی تھا لوگوں کے مکانوں کے اردگرد باغیچے بنے ہوئے تھے جو لوگوں کو مختلف پھل دیتے تھے اور یہاں کے انگور تو بہت ہی مشہور تھے چونکہ یہاں انگور افراط سے ہوتے تھے اس لئے یہاں شراب بھی بنتی تھی۔
فرما کا شہر ایک پہاڑی پر آباد کیا گیا تھا اور اس کی حفاظت اور دفاع کا انتظام صرف یہ نہیں تھا کہ ایک طرف قلعہ اور سارے شہر کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار ہوتی۔ دیوار تو تھی لیکن شہر کو متعدد قلعہ بندیوں سے محفوظ کیا گیا تھا اس طرح اس شہر کی تسخیر تقریباً ناممکن بنادی گئی تھی۔
ایک تو قلعہ بندیاں زیادہ تھیں اور دوسری یہ پہاڑی پر آباد تھا یہ محاصرہ کرنے والوں کے لئے بڑی زبردست مشکل پیدا کردی گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مصری بدو اپنے علاقے میں دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، فرما سے دور اور عام راستوں سے ہٹ کر ایک ٹیلہ تھا جو ریگستانی بھی تھا اور اس میں کہیں کہیں سبزہ بھی تھا وہاں صحرا ختم ہونے لگتا تھا اور سرسبزو شاداب علاقہ شروع ہوتا تھا ،اس علاقے میں ایک جگہ ایسی تھی جو وسیع نشیب تھا اس کے اردگرد جو کنارے تھے وہ اونچے بند کی شکل میں تھے برسات کے دنوں میں اس نشیبی جگہ پانی جمع ہو جاتا تھا اور دو تین مہینوں بعد پانی خشک ہو جاتا اور پیچھے ہری بھری گھاس چھوڑ جاتا تھا، اس میں چندایک درخت بھی تھے اور کہیں کہیں زمین ذرا سی ابھری ہوئی اور اونچے نیچے ٹیلے بھی تھے لیکن بہت کم،
اس جگہ کو بدو نے بہت خوبصورت بنا رکھا تھا اور اسے وہ اپنا ایک طرح کا مقدس نشیب سمجھتے تھے یہ ساری باتیں فہد بن سامر سے معلوم ہوئی تھی اس کے قریب ہی کہیں بدووں کے مذہبی پیشوا اور ایک دو سردار رہتے تھے۔
رات کا وقت تھا اور چاند کی تیسری تاریخ تھی کم و بیش تین ہزار بدو دائرے میں اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور درمیان میں بہت سی جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی اس خالی جگہ کے وسط میں ایک قوی ہیکل بیل ایک کھونٹا گاڑھ کر رسے سے باندھا ہوا تھا ۔اس کے خمیدہ سینگ مختلف رنگوں سے سجائے گئے تھے، اس پر سبز رنگ کا کپڑا ڈالا گیا تھا جس میں چمک سی تھی ۔ ہوا سے یہ کپڑا ہلتا تھا تو مشعلوں کے شعلوں کی روشنی میں اس کپڑے پر چمک کی لہریں اٹھتی اور کھلتی نظر آتی تھی، بیل کے کھروں پر کوئی چمکدار چیز ملی گئی تھی بیل کے گلے میں صحرائی پھولوں کے ہار پڑے ہوئے تھے۔
بیس بائیس جوان اور جواں سال لڑکیاں جو ایک ہی جیسے لباس میں ملبوس تھے بیل کے ارد گرد دائرے میں رقص کر رہی تھیں، وہ ملبوس تو تھیں لیکن پوری طرح مستور نہیں تھیں۔ ڈھول ، دف دو شہنائیاں بج رہی تھیں، لڑکیوں کا یہ رقص اچھل کود جیسا نہیں تھا اور غیر منظم بھی نہیں تھا ہر ادا اور ہر حرکت ایک ہی جیسی تھی کوئی لڑکی دوسری سے الگ تھلگ ذرا سی بھی حرکت نہیں کرتی تھی۔
یوں لگتا تھا جیسے یہ لڑکیاں ایک زنجیر سے بندھی ہیں اور زنجیر کسی غیر مرئی قوت کے ہاتھ میں ہے، نہ رقص بے ہنگم تھا ،نہ سازوں کا غل غپاڑا تھا، ساز ایک خوابناک سی دھن الاپ رہے تھے ،اور رقص وجد آفریں تھا ،صحرا کی خنک رات مخمور ہوئی جا رہی تھی ، تین ہزار بدوؤں پر سکوت طاری تھا جیسے وہ محو خواب ہوں۔
بیل کے اردگرد چند ایک چکر پورے کرکے ایک لڑکی رقص کی اداؤں کے ساتھ بل کھاتی لہراتی دائرے سے نکل کر بیل کے سامنے چلی گئی اور بیل کا منہ چوم کر پھر لڑکیوں کے دائرے میں چلی گئی اس کے پیچھے آنے والی لڑکی نے بھی ایسا ہی کیا اور تمام لڑکیوں نے ایسے ہی بیل کا منہ چوما ۔ دائرہ ایک قطار بن گیا اور لڑکیاں ایک دوسرے کے پیچھے وہاں سے چلی گئیں۔
جو جگہ رقص کے لیے خالی چھوڑی گئی تھی اس کے اردگرد پانچ بڑی مشعلیں جل رہی تھیں، تیسری کا چاند واپس افق میں چلا گیا تھا اور رات تاریک ہو گئی تھی۔
آخری لڑکی تاریکی میں گم ہو گئی تو سازوں کے سر تال تیز ہو گئی اور شہنائیوں کی دھن اس تیز تھاپ کے مطابق بدل گئی یہ فوجی اور جنگی سی دھن تھی جو خون کو گرماتی تھی ایک طرف سے ایک ہی جیسے لباس میں ملبوس کم و بیش بیس بدو تاریکی سے ایک قطار میں مشعلوں کی روشنی میں آئے اور لڑکیوں کی طرح بیل کے ارد گرد دائرے میں رقص کرنے لگے وہ دائرے میں ناچتے اور چلے جاتے تھے ۔ ان میں سے کسی ایک کی کوئی ذرا سی بھی جنبش دوسروں سے مختلف نہیں تھی۔
یہ مردانہ ناچ تھا جسے جنگی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ ناچنے والوں کے ایک ہاتھ میں برہنہ تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال تھی انکے ہاتھوں میں تلواریں چرخینوں کی طرح اتنی تیز گھوم رہی تھی کہ ایک تلوار کئی کئی تلواریں لگتی تھی۔ ڈھول کی تھاپ تیز ہوتی گئی اور ناچ میں جوش و خروش بڑھتا گیا۔ تماشائیوں کا ہجوم سر تال پر قوالوں کی طرح تالیاں بجا رہا تھا ۔اس ناچ نے ایسا تاثر پیدا کر دیا کہ دیکھنے والوں کے جسم بیٹھے بیٹھے تھرکنے لگے تھے۔
خون کو گرما دینے والا یہ ناچ محض دکھاوے کا جنگی نہیں تھا یہ لوگ تھے ہی جنگجو ،اور یہ ناچ ان کے جنگی کلچر کی ترجمانی کرتا تھا ۔ یہ بدو قبائل سرکشی کی حد تک آزاد خیال تھے ہرقل نے کسی وقت انہیں اپنی فوج میں لینا چاہا تھا لیکن ان کے سرداروں نے صاف انکار کر دیا تھا ۔ البتہ سرداروں نے ہرقل سے یہ وعدہ کیا تھا کہ انہوں نے کبھی محسوس کیا کہ اس کی فوج کو بدوؤں کی مدد کی ضرورت ہے تو بدو پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہ مصر سے باہر جاکر نہیں لڑیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ناچنے والے ان بدوؤں میں دو کی تلوار دوسری تلواروں سے مختلف تھیں، ان دونوں کی تلوار چوڑی اور وزنی تھیں یہ دونوں بدو ناچتے ناچتے دائرے سے نکل آئے ایک بیل کی گردن کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف کھڑا ہو گیا ،باقی بدّو محو رقص رہے ادھر سے ناچنے والی دو لڑکیاں دوڑی آئیں دونوں نے پیتل کا ایک خاصا بڑا تھال اٹھا رکھا تھا۔
چوڑی تلوار والے بدو نے تلوار بلند کی اور پوری طاقت سے تلوار بیل کی گردن پر سر کے قریب ماری اور آدھی گردن کاٹ دی اس کے فوراً بعد دوسری طرف کھڑے بدو نے بیل کی آدھی کٹی گردن پر بڑی ہی زور دار تلوار مار کر سر صاف الگ کر دیا دو لڑکیوں نے تھال ادھر ادھر سے پکڑ رکھا تھا بیل کا سر اس پر گرا۔
بیل ایک پہلو کو گر رہا تھا ناچنے والے دو آدمی دوڑے آئے انہوں نے مٹی کی ایک چوڑی پرات اٹھا رکھی تھی اس کے کنارے بالشت بھر اونچے تھے بیل گرا انہوں نے یہ پرات بیل کی کٹی ہوئی گردن کے نیچے رکھ دی اور گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا کیوں کہ بیل تڑپ رہا تھا وہ اس کوشش میں تھے کہ خون کا ایک بھی قطرہ ضائع نہ ہو۔ ناچتے ہوئے بدوؤں کا ناچ بند ہو گیا اور سب نے تڑپتے ہوئے بیل کو قابو میں لے لیا۔
بیل کا خون ایک تبرک تھا جسے انہوں نے پانی سے بھرے ہوئے مٹکوں میں ملانا اور بدوؤں نے بچوں، بوڑھوں ،مریضوں اور عورتوں کو پلانے کے لیے پیالے بھر بھر کر اپنے ساتھ لے جانا تھا ،ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس خون ملے پانی سے لاعلاج امراض کے مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں، اور دودھ دینے والے مویشیوں کو ایک ایک گھونٹ پلا دو تو زیادہ دودھ دینے لگتے ہیں اور مویشی ان چمگادڑوں سے محفوظ رہتے ہیں جو راتوں کو ان کا خون پیتے اور انہیں مار ڈالتے ہیں، یہ پانی گھر میں رکھا ہوا ہو تو گھر میں بدروح نہیں آتی اور گھر والے ناری مخلوق سے بچے رہتے ہیں۔
جس وقت بیل گردن کٹ جانے سے گرنے لگا تھا تو تمام بدوّ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہاتھ آسمان کی طرف کر کے فلک شگاف نعرے لگائے تھے، بیل گرا اور اس کا خون چوڑے برتن میں گرنے لگا تو ان کا مذہبی پیشوا اٹھا اور بیل کی طرف چلا لوگ خاموش ہو گئے۔
مقدس بیل کا خون مبارک ہو ۔۔۔۔کچھ دور سے کسی کی آواز آئی۔۔۔۔ تمہاری قربانی قبول ہو گئی ہے ۔خدا کی آواز سنو جو سورج کو گرمی اور چاند ستاروں کو روشنی دیتا ہے۔
مذہبی پیشوا جہاں تھا وہیں رک گیا اور اس طرف دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی۔
اس کے پاس بدوؤں کے جو تین چار سردار بیٹھے ہوئے تھے وہ اب اس کے پیچھے کھڑے تھے ۔وہ بھی ادھر دیکھنے لگے بدوؤں کا یہ سارا اجتماع بھی ادھر ہی دیکھ رہا تھا جدھر سے یہ آواز آئی تھی۔ ادھر اس نشیبی جگہ کا کنارہ قریب ہی تھا لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس لیے زمین میں گڑے ہوئے لمبے ڈنڈوں والی مشعلوں کی روشنی اس کنارے تک نہیں پہنچتی تھی ۔ مذہبی پیشوا نے اس طرح کھڑے لوگوں کو بیٹھ جانے یا آگے سے ہٹ جانے کو کہا۔
لوگ روشنی کے آگے سے ہٹے تو ڈھالانی کنارے پر ایک آدمی کھڑا نظر آنے لگا جس کا چہرہ ٹھیک طرح پہچانا نہیں جاتا تھا کیونکہ وہاں تک مشعلوں کی روشنی مدھم ہو جاتی تھی وہ ایک سفید ھیولا سا لگتا تھا ۔دو ڈنڈے بھی دکھائی دے رہے تھے ایک اس کے دائیں اور بائیں طرف کنارے میں گڑھا ہوا تھا۔ دونوں کے اوپر والے سروں پر اتنے کپڑے لپیٹے ہوئے تھے کہ ان کی چوڑائی ایک ایک بالشت ہو گئی تھی یہ مشعلیں تھی جو ابھی جلائی نہیں گئی تھی۔
اس آدمی کے سر پر پگڑی تھی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو اس کے شانوں پر بھی پھیلا ہوا تھا شانے سے چغہ شروع ہوتا تھا جو اس کے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ سر پر پڑا رومال بھی سفید اور چغہ بھی آسمان پر چمکتے ستاروں جیسا سفید تھا اس نے دونوں بازو آگے اور ذرا دائیں اور بائیں پھیلا رکھے تھے۔
کوئی قریب جا کے دیکھتا تو اسے پتا چلتا کہ وہ انہی جیسا اللہ کا بندہ تھا اس کی داڑھی کالی گھنی اور لمبی تھی۔ وہاں کسی میں، ان کے مذہبی پیشوا میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ قریب جا کر دیکھتا یہ ہے کون، یہ توہم پرست لوگ تھے۔ ذہنوں میں وسعت نہیں تھی۔ سوچوں میں گہرائی نہیں تھی۔ زمین کی جو چیز عجوبہ اور ان کی سمجھ سے بالا ہوتی وہ ان کی نگاہ میں عالم بالا کی مخلوق میں سے ہوتی تھی۔ یہ آدمی ان کے لیے کوئی روحانی یا آسمانی چیز تھی اسے وہ بد روح یا جن بھوت نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ اس کا لباس سفید براق تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق انسانوں کو نقصان پہچانے والی چیزیں سیاہ لباس میں ملبوس یا بے لباس ہوتی ہیں۔ سب دور کھڑے دیکھتے رہے اور سناٹا ایسا جیسے وہاں کوئی ذی روح تھا ہی نہیں۔
مت ڈرو!،،،،،، کنارے پر کھڑے آدمی نے بلند آواز سے کہا۔۔۔۔ تم جیسا انسان ہوں خدا نے بھیجا ہے خدا کا پیغام لایا ہوں تمہارے لئے روشنی لایا ہوں۔
پہلے اس کے دائیں طرف والی مشعل اپنے آپ ہی جل اٹھی پھر بائیں طرف والی مشعل جلی۔ یہ مشعل اس آدمی نے نہیں چلائی تھی نہ انہیں کوئی اور آدمی جلاتا نظر آیا تھا ۔
یہ سفید پوش سیاہ ریش کھڑا رہا تھا۔ مشعلیں جلانے کے لیے کوئی اور آدمی اوپر نہیں آیا تھا بلاشک و شبہ مشعل اپنے آپ جلی تھی یہ ایسا مظاہرہ تھا کہ بدوؤں کے منہ حیرت سے کھل گئے ان کے سرداروں اور مذہبی پیشوا پر بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوا۔
خدا کا پیغام خدا کے بھیجے ہوئے ایلچی سے سنو۔۔۔۔ چغے میں ملبوس آدمی نے کہا۔۔۔ وہ اس قدر آہستہ آہستہ کنارے سے نشیب کی طرف اترنے لگا جیسے اس کا پاؤں اٹھ نہ رہا ہو اور وہ نیچے کو سرک رہا ہو اس کے دائیں اور بائیں جلتی مشعلوں کے شعلوں کا رقص اس آدمی کو اور ہی زیادہ پراسرار بنا رہا تھا۔ وہ نہایت ہی آہستہ آہستہ نیچے کو سرکنے لگا اور جہاں وہ کھڑا تھا وہاں ایک نوجوان لڑکی کا سراپا ابھرنے لگا یوں لگتا تھا جیسے لڑکی اس آدمی کے وجود میں سے ابھر رہی ہو۔
یہ لڑکی اس زمین کی مخلوق معلوم ہوتی ہی نہیں تھی۔ چہرہ ایسا حسین اور ایسا معصوم جو ان بدؤوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ چہرہ کا رنگ سفیدی اور لطیف سی صورت کی آمیزش تھا ۔کھلے ہوئے ریشمی بال شانو اور سینے پر بکھرے ہوئے اور بازو ننگے تھے۔ گردن لمبوتری اور جسم ایک ہی کپڑے میں مستور تھا۔
تمہاری قربانی قبول ہو گئی ہے ۔۔۔لڑکی نے بازو پھیلا کر کہا۔۔۔ خبردار رہو خون کا طوفان آ رہا ہے تمھارے دودھ والے جانوروں کو اڑا اور بہا لے جائے گا ،تم سے بہت سے اڑ جائیں گے۔ خدا تمہیں بچا لے گا لیکن خدا کے حکم کی تعمیل کرنا۔ کل تمہارے پاس تین آدمی آئیں گے ان کی نشانی یہ ہوگی کہ اونٹوں پر آئیں گے خدا نے انہیں اشارہ دے دیا ہے وہ جو کہیں اسے خدا کا پیغام سمجھنا ورنہ بیل کا خون ضائع جائے گا ۔
اور تمہاری تباہی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ تم تک خدا کا پیغام پہنچ گیا ہے میں آسمان کو واپس خدا کے پاس جا رہی ہوں۔
چغے والا آدمی جو لڑکی کی آگے ڈھلان پر کھڑا تھا آہستہ آہستہ الٹے قدم اوپر جانے لگا لڑکی اس کے پیچھے یا اس کے وجود میں گم ہوتی گئی اور آدمی کنارے پر دو مشعلوں کے درمیان جا رکا۔
یہ مشعل ساری رات یہاں جلتی رہے گی۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ یہ خدا کی روشنی ہے کل صبح یہ اکھاڑ کر اپنے پاس رکھ لینا یہ صرف قربانی کی رات جلایا کرنا ہم جا رہے ہیں۔ صبح تک ادھر کوئی نہ آئے کوئی آیا تو اس پر آسمانی بجلی گرے گی۔
وہ پیچھے ہٹا اور الٹے قدم پچھلی ڈھلان اس طرح اتر گیا جیسے غائب ہو گیا ہو۔ مشعل یوں ہی چلتی رہی بدوؤں کے ہجوم پر سناٹا طاری رہا۔
مت ڈرو !،،،،،،،مذہبی پیشوا نے سکوت توڑا،،،، یہ خدائی اشارہ ہے خوش قسمت ہے وہ قوم جسے ایسے مقدس اشارے ملتے ہیں۔ جشن مناؤ کل جو آدمی آئیں گے ان سے خدا کی کچھ اور باتیں معلوم ہوں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ سب کیا تھا، کیا اس میں کچھ حقیقت بھی تھی، کچھ بھی نہیں یہ عربوں کی ذہانت اور دماغی صلاحیت کا کمال تھا ۔
یہ حقیقت متعصب ذہن کے یورپی مبصرین اور مفکرین نے بھی تسلیم کی اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں کہ عرب کے لوگوں کو اللہ تعالی نے ایسی تخلیقی صلاحیتیں عطا کی ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے خطے کے لوگوں کے حصے میں نہیں آئی۔
فہد بن سامرنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو بتایا تھا کہ کچھ دنوں بعد مصری بدّو اپنی ایک تقریب منعقد کریں گے جو وہ اس ماہ ہر سال چاند کی تیسری رات منعقد کیا کرتے ہیں ۔
نئے چاند کے طلوع کو ابھی کچھ دن باقی تھے۔ فہد سامر، مسعود بن سہیل مکی ،اور حدید بن مومن خزرج نے سر جوڑے۔ اور اس مسئلے پر غور کرنے لگے کہ ان بدوؤں کو باتوں سے قائل کرنا کہ ہمارے ساتھ ہو جائیں ممکن نہیں پھر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
مسعود اور حدید عرب کے بدوؤں کو تو جانتے تھے لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ مصری بدو بہت ہی مختلف ہیں ۔اور ان کی خصلت کچھ اپنی سی ہے۔ یہ انہیں فہد نے بتایا تھا۔ ہرقل نے انھیں قتل عام کی اور پھر مصر سے نکال دینے کی بھی دھمکیاں دی تھی کہ وہ رومی فوج میں شامل ہو جائے تو کسی بھی دھمکی سے نہیں ڈرتے تھے ،پھر ہرقل نے انہیں طرح طرح کے لالچ دیے تھے لیکن بدوّ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ہرقل جیسا جابر اور فرعون ذہنیت کا بادشاہ چپ ہو گیا تھا جانتا تھا کہ فوج سے انہیں تہہ تیغ کرنے کی کوشش کی تو یہ صحرا میں فوج کے لئے مصیبت کھڑی کردی گے۔
اب عمرو بن عاص کو ان بدوؤں کی ضرورت محسوس ہوئی تو فہد بن سامر نے انہیں بتایا کہ یہ لوگ باتوں سے بھی نہیں مانیں گے اور لاتوں سے بھی نہیں۔ کوئی اور ہی ڈھنگ سوچنا پڑے گا۔
فہد ان بدوؤں کے معاشرت ان کے مذھب اور عقیدوں سے واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ بنیادی طور پر یہ توہم پرست ہیں اور ان میں صرف یہی ایک کمزوری ہے جسے استعمال کیا سکتا ہے۔
فہد مصری تھا مسعود اور حدید ریگزار عرب کے پیداوار تھے، انہوں نے ایک ناٹک سوچ لیا یوں تو شارینا بھی حسین تھی لیکن جو تازگی اور معصومیت اینی میں تھی وہ شارینا کے چہرے پر نہیں تھی ۔
اینی کی عمر ابھی سترہ سال ہوئی تھی۔ چنانچہ آسمان سے خدا کا پیغام لانے والی حور کا کام اینی کو دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسعود اور حدید جاسوس تھے اس لیے انہوں نے مختلف لباس اور بہروپ اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔انہوں نے اس ناٹک کے لیے ایک ایسا تیر انداز منتخب کر لیا جس کا تیر کبھی خطا نہیں گیا تھا ، کمان کو پورا کھینچ کرتیر چھوڑا جائے تو نشانے پر لگ ہی جاتا ہے لیکن کمان کو تھوڑا سا کھینچ کر قریب کے نشانے پر پھینکا جائے تو مشکل سے ہی نشانے پر لگتا ہے ۔یہ کام کوئی بڑا ہی ماہر تیر انداز کر سکتا تھا۔
ایسا ایک تیر انداز مل گیا چونکہ یہ ناٹک چاند کی تیسری رات کھیلنا تھا اور تیسری رات کو چار پانچ ہی دن رہ گئے تھے اس لئے انہوں نے بڑی تیزی سے ریہرسل کرلی اور اگلے روز فہد کی رہنمائی میں یہ پارٹی روانہ ہو گئی۔ چونکہ یہ علاقہ صحرائی تھا اس لئے گھوڑوں کی بجائے وہ اونٹوں پر گئے دو دنوں کی مسافت تھی فہد انہیں ایسے علاقے میں لے گیا جو دشوار گزار تھا ادھر سے کوئی نہیں گزرتا تھا۔ اور چھپنے کے لئے وہ جگہ اچھی تھی اور اس نشیبی جگہ کے قریب بھی تھی جہاں بدوؤں کا اجتماع تھا۔
چاند کی تیسری رات کو سب اس جگہ پہنچ گئے جہاں بدو تقریب کے لئے اکٹھا ہو چکے تھے ۔انہیں وہاں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دیکھنے والے تقریب میں مگن ہوگئے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ وہ جگہ نشیبی تھی اور اس کے کنارے اونچے تھے چھپنے والی جگہ سے تقریب والی جگہ تک وہ پیدل گئے تھے۔ اگر وہ اونٹوں پر جاتے تو اونٹ خاموشی توڑ سکتے تھے۔ تیسری کا چاند اوپر آکر واپس چلا گیا تھا اس لئے رات تاریک ہوگئی تھی۔
پہلے مسعود بن سہیل مکی دونوں مشعلیں اٹھائے اس طرح کنارے کے اوپر گیا کے کھڑا ہونے کے بجائے صرف سر اوپر کر کے بدوؤں کے اجتماع کو دیکھا اسے اطمینان ہوگیا کہ کوئی بھی اس طرف نہیں دیکھ رہا تھا یہ وہ وقت تھا جب لڑکیوں کا رقص شروع ہوا تھا مسعود نے دونوں مشعلوں کے ڈنڈے بڑے آرام سے کنارے پر گاڑ دیے۔
مشعلوں کے کپڑے تیل میں بھگو لئے گئے تھے ۔مسعود سفید چغے میں ملبوس تھا اس کے سر پر پگڑی اور پگڑی کے اوپر سفید رومال تھا۔ فہد نے اسے بتایا تھا کہ وہ اس وقت مشعلوں کے درمیان کھڑا ہو کر بولے گا جب بیل کی گردن کٹ چکی ہوگی۔
فہد نے کبھی یہ تقریب دیکھی تھی اس لیے وہ صحیح رہنمائی کررہا تھا۔
سب نے باری باری اوپر آکر بدوؤں کا تماشہ دیکھا ان کے ساتھ اینی بھی تھی اور تیر انداز بھی ۔
اینی اس حلیے میں تھی جو پہلے بیان ہوچکا ہے۔ لڑکیوں کے رقص کے بعد مردوں کا ناچ شروع ہوا اور جب دو بدوّ بیل کی گردن کاٹنے کے لیے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے تو اس وقت فہد نے مسعود سے کہا کہ وہ دونوں مشعلوں کے درمیان کھڑے ہوجائے۔
اور وہ الفاظ کہے جو پہلے طے ہو چکے تھے اور اس کی مشق بھی کی گئی تھی۔
مسعود جب کنارے پر کھڑا ہو گیا تو اینی اس کی پیٹھ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔
وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی مسعود نے اپنا رول بڑی کامیابی سے پورا کیا اور مشعلیں اپنے آپ جل اٹھیں۔
مشعلیں دراصل تیر انداز نے جلائی تھیں۔
وہ اس طرح کہ اس کے پاس فلیتے والے تیر تھے کنارے کے اوٹ میں اس نے دو تیروں کو باری باری آگ لگائی اور کمان کو کھینچا اور تھوڑی سی کمان کھینچ کر تیر اس طرح چھوڑے کہ وہ مشعل کے جلنے والے سرے پر لگے اور مشعلیں جل اٹھیں یہ اس تیر انداز کا کمال تھا۔
اس کے بعد مسعود کنارے کی اندرونی ڈھلان پر آہستہ آہستہ اترنے لگا تو اینی کھڑی رہی وہ یوں نظر آتی تھی جیسے اس کے وجود میں سے ابھر رہی ہو۔ یہ مشعلوں کی تھرکتی ہوئی آگ اور نظر کا فریب تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ بدوّ توہم پرست تھے اور توہم پرستی کی یہی لعنت ہوتی ہے کہ انسان حقیقت کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔
پھر مسعود الٹے قدم کنارے پر چلا گیا اور اینی جو اس کی اوٹ میں چھپ گئی تھی مسعود کی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی باہر والے کنارے سے سرکتی چلی گئی مسعود بھی اس کے ساتھ گیا اس طرح ان سب نے بدوؤں کی توہم پرستی پسماندگی اور سادگی کو نہایت چابکدستی سے استعمال کیا۔ اور ان سب پر اور مذہبی پیشوا پر بھی ایسا پراسرار تاثر پیدا کر دیا کہ انہیں شک نہ ہوا کہ یہ سب ایک فریب تھا ۔جس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ مذہبی پیشوا اور سرداروں نے بھی مان لیا کہ یہ آسمانی مخلوق تھی۔
جاسوسوں کی یہ جماعت صحرا میں اسی جگہ چلی گئی جہاں یہ سب پہلے چھپے رہے تھے۔ تیر انداز سے کہا گیا کہ وہ اینی اور شارینا کو واپس پڑاؤ میں لے جائے ۔
انہیں اسی وقت روانہ کردیا گیا مسعود نے اپنا رات والا لباس بدل لیا تھا اور اس نے، فہد اور حدید نے جنگی لباس پہن لیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے روز بدوؤں کا مذہبی پیشوا اور چار پانچ سردار اس نشیبی جگہ کے اوپر کھڑے بیتابی سے ہر طرف دیکھ رہے تھے وہ تین شتر سواروں کے منتظر تھے ۔
گزشتہ رات آسمانی حور نے کہا تھا کہ تین آدمی ان کے پاس اونٹوں پر سوار آئیں گے۔ بہت سے بدو دور دور کھڑے انہیں تین شتر سواروں کی راہ دیکھ رہے تھے۔
آخر تین شترسوار دور سے آتے نظر آئے جن کا رخ ادھر ہی تھا کئی ایک بے تاب سی آوازیں سنائی دیں، وہ آ رہے ہیں۔۔۔۔ تین ہی ہیں ۔۔۔۔وہ آ گئے ۔۔۔وہی ہونگے۔۔۔ بدو ان شہسواروں کو بھی آسمانی مخلوق ہی سمجھ رہے تھے۔
وہ شترسوار مسعود ،حدید، اور فہد تھے۔
انہوں نے دیکھ لیا کہ بدو ان کے انتظار میں کھڑے ہیں انہوں نے اونٹ دوڑا دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدوؤں کے پاس پہنچ گئے وہ اونٹوں کو بٹھا کر نہ اترے بلکہ کھڑے اونٹ سے کود آئے۔پیشوا اور بدوؤں کے سردار ان کے استقبال کیلئے تیزی سے آگے بڑھے استقبال پرتپاک تھا۔
ہم تمہارے ہی منتظر تھے۔۔۔ پیشوا نے کہا۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ تم وہی ہو جس کا خدائی پیغام ہمیں گزشتہ رات ایک حور کی زبانی ملا ہے کیا انہوں نے ہی تمہیں ہمارے پاس بھیجا ہے، انہوں نے تمہاری نشانی بتائی تھی کہ تم اونٹوں پر سوار ہو گے۔
ہم نہیں جانتے تمہیں کیسا پیغام ملا ہے۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔ہمیں ہمارے سپہ سالار نے بھیجا ہے ۔اسے خواب میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ ملا تھا کہ اس صحرا میں ایک مخلوق رہتی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، جاؤ اور اس مخلوق کو اپنے ساتھ ملا لو اور اس کے نیک و بد اور نفع نقصان کی ذمہ داری اپنے سر لے لو ،سپہ سالار نے خواب میں تمہاری جو نشانیاں دیکھی تھی وہ ہمیں بتائی اور ہم تمہارے پاس آ گئے ہیں، یہ جگہ بالکل ویسی ہی ہے جیسے سپہ سالار نے خواب میں دیکھی تھی، اور تمہاری صورتیں بھی ویسی ہی ہے۔
ایک بوڑھے سردار نے ان تینوں کو تفصیل سے سنایا کہ گزشتہ رات انہوں نے کیا دیکھا ہے اور کس طرح ان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے۔
ہمیں کچھ پتہ نہیں گذشتہ رات تم نے کیا دیکھا ہے ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو خدائی پیغام ملا ہے تو وہ تمہیں بھی ملا ہوگا کیوں نا ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں۔
قریب ہی مذہبی پیشوا کا خیمہ تھا جو چمڑے سے بنایا گیا تھا اور اتنا کشادہ تھا کہ کئی آدمی اس میں بیٹھ سکتے تھے۔ پیشوا ان تینوں کو اور سرداروں کو اپنے خیمے میں لے گیا اور بٹھایا اس نے ان تین مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سپہ سالار کہاں ہے۔
مسعود نے انہیں بتایا کہ ان کا سپہ سالار کہاں ہے اور اس کا لشکر عریش کا شہر فتح کر چکا ہے ۔اور اب لشکر آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن ابھی پڑاؤ میں خیمہ زن ہے کیا تم لوگ مسلمان ہو ایک سردار نے پوچھا۔
ہاں!،،،،، مسعود نے جواب دیا ہم مسلمان ہیں پہلے یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔
بدوؤں کے بوڑھے سردار نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ مشہور تاریخ نویس ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ بوڑھے سردار نے کہا ۔۔۔۔حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں نہ جانے کیا طاقت ہے کہ تھوڑی سی تعداد میں وہ بڑے سے بڑے لشکر کو میدان سے بھگا دیتے ہیں اور جس طرف بھی رخ کریں کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے۔
اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ یہ خدائی طاقت ہے جو صرف انہیں ہی عطا ہوتی ہے جنکے دلوں میں انسانوں کی محبت ہو اور وہ کمزوروں پر ہاتھ نہ اٹھائیں، اور وہ دوسروں کے مذہب اور عقیدوں میں دخل نہ دیں، اور کسی کمزور اور نادار کو اپنا محتاج اور غلام نہ بنائیں۔
مذہبی پیشوا غالباً خدائی طاقت کی مزید تشریح اور وضاحت چاہتا تھا۔
مسعود ہی زیادہ تر بول رہا تھا کیونکہ وہ تین افراد کی جماعت کا امیر تھا اس کے ساتھی اسلامی اصول کی پابندی کر رہے تھے کہ دو آدمی سفر پر نکلیں تو ایک کو امیر تسلیم کیا جائے ۔مسعود اپنے دونوں ساتھیوں فہد ،اور حدید کی نمائندگی کر رہا تھا اس نے عرب کے قحط کا ذکر کیا اور بدوؤں کو بتایا کہ ہزار ہا لوگ بھوکے مرنے پر آ گئے تھے اور کچھ مر بھی گئے تھے لیکن امیر المومنین نے کس طرح انتظامات کئے اور لوگوں کو فاقہ کشی سے بچا لیا ، پھر مسعود نے طاعون کا ذکر کیا اور کہا کہ پچیس ہزار جانیں تلف ہوگئیں اور مسلمانوں کی آدھی فوج طاعون کے نذر ہو گئی۔
تم اس پر غور کرو ۔۔۔مسعود نے یہ ساری تفصیلات سنا کر کہا۔۔۔ اگر طاعون کے دوران ہرقل شام پر حملہ کر دیتا تو وہ مسلمانوں کی بچی ہوئی آدھی فوج کو شکست دے کر شام واپس لے سکتا تھا ،لیکن یہ خدائی طاقت تھی کہ ہرقل کو حملے کی جرات نہ ہوئی ہمارے سپہ سالار نے یہ سوچا ہی نہیں کہ وہ اس خوفناک بیماری سے بچنے کے لئے مدینہ کو بھاگ جائیں وہ اپنی فوج کے ساتھ ہی رہے اور وہ بھی فوت ہو گئے۔
مسعود دراصل انہیں یہ بات ذہن نشین کرارھا تھا کہ مسلمانوں کے یہاں مساوات ہے اور بنی نوع انسان کی محبت، چونکہ یہ اوصاف خدا کو عزیز ہیں اس لئے خدا نے مسلمانوں کو وہ طاقت دی ہے جسے ہم خدائی طاقت کہتے ہیں ،اسی طاقت سے مسلمانوں نے قحط کو شکست دی اور پھر طاعون کی وباء کو شکست دی اور ہمت نہ ہاری اور آج مسلمان مصر میں داخل ہو گئے ہیں اور ایک عریش جیسا شہر لے چکے ہیں۔
ہمیں اتنی سی بات بتا دو ۔۔۔مذہبی پیشوا نے پوچھا ۔۔۔تم ہمارے لیے کیا پیغام لائے ہو اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
تمہارے لیے پیغام بڑا صاف اور فائدے مند ہے۔۔۔ مسعود نے کہا ۔۔۔اپنے تمام قبیلوں کے ان آدمیوں کو جو لڑنے کے قابل ہیں ہمارے سپہ سالار کے پاس بھیج دو اور اس کی سپہ سالاری کو قبول کر لو ہمیں معلوم ہے کہ شہنشاہ ہرقل نے بھی کسی وقت تمہیں یہی بات کہی تھی کہ اپنے قبیلوں کے جوانوں کو رومی فوج میں شامل کر دوں اور تم لوگوں نے انکار کر دیا تھا۔
تم نے ٹھیک سنا تھا۔۔۔ مذہبی پیشوا نے کہا۔۔۔ لیکن تمھاری باتیں سن کر اور اس سے پہلے بھی ہم نے مسلمانوں کے متعلق سنا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تم میں اور ہرقل میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔
ہرقل کا کیا اعتبار جس نے اپنا مذہب ہی اپنی بادشاہی کے ماتحت لے لیا ہے اور اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اس کے بنائے ہوئے مذہب کو جس نے نہیں مانا اسے اس نے قتل کروا دیا اس نے ہمیں دھمکیاں دے کر فوج میں ہمارے نوجوان کو شامل ہونے کو کہا تھا تم کوئی دھمکی لے کر نہیں آئے اس لئے ہم تمہاری بات سنیں گے اور پھر ہم تمہیں مایوس نہیں جانے دیں گے۔
اختصار کے ساتھ یہ بات بیان کی جائے تو یہ معاملہ یوں آگے بڑھا کہ ان بدوؤں کے ساتھ استدلال کے زور پر بات کی جاتی اور بحث و مباحثہ ہوتا تو یہ بدوّ کبھی قائل نہ ہوتے وہ گزشتہ رات کے اس پیغام سے متاثر تھے جو وہ سمجھتے تھے کہ واقعی خدا کی طرف سے آیا ہے۔
انہوں نے کوئی بحث اور تکرار نہ کی کچھ ضروری باتیں پوچھی اور فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنے جوانوں کو فوری طور پر مسلمان سپہ سالار کی اطاعت میں دے دیں گے۔
مسعود نے انہیں بتایا کہ ان کے جوانوں کو اتنا مال غنیمت ملے گا کہ تمام قبیلے مالامال ہو جائیں گے انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلمانوں کے یہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ فوج میں اونچے اور اعلی عہدے والا مال غنیمت میں سے زیادہ حصہ وصول کرتے ہو اور سپاہیوں کو برائے نام کچھ دے دیا جاتا ہو۔ مسعود نے انھیں یہ بھی کہا کہ انھیں اگر خدا کی طرف سے براہ راست کوئی پیغام مل جائے تو وہ اس کے خلاف ورزی کی جرات نہ کریں ورنہ ان کے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور ان کے بچے پراسرار امراض کا شکار ہو کر مر جائیں گے تاکہ ان کی نسل ختم ہو جائے گی کچھ ضروری امور طے کرکے مسعود فہد اور حدید وہاں سے رخصت ہو آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تینوں بڑی لمبی مسافت طے کرکے واپس پڑاؤ میں پہنچے اور سپہ سالار عمرو بن عاص کو بڑی مسرت سے یہ خوشخبری سنائی کہ بدو ان کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے آرہے ہیں۔
عمرو بن عاص جو پریشانی کے عالم میں تھے یہ خوشخبری سن کر کھل اٹھے اور انہوں نے ان تینوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ بہت بڑا کارنامہ کر آئے ہیں۔ لیکن ان جاسوسوں نے جب انہیں یہ بتایا کہ انہوں نے بدوؤں کو کس طرح راضی کیا ہے تو عمرو بن عاص کا کھلا ہوا چہرہ یکلخت سنجیدہ ہو گیا اور ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
جنگ میں دشمن کو دھوکے دیے جاتے ہیں ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ لیکن یہ دھوکے میدان جنگ میں دشمن کی فوج کو دیے جاتے ہیں اسے جنگی چال کہا جاتا ہے لیکن لوگوں کو دھوکا دینا قابل تحسین نہیں ایک تو تم نے مجھے پریشانی سے نجات دلادی ہے اور اس کے ساتھ ہی میرے کندھوں پر ایسابوجھ ڈال دیا ہے جس سے معلوم نہیں میں نجات حاصل کر سکوں گا بھی یا نہیں۔
ہمیں بتائیں قابل احترام سپہ سالار!،،،، حدید نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو اس بوجھ سے بھی نجات دلادیں گے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم پھر بدوؤں کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ ہمارے لشکر میں نہ آئیں، یہ بتائیں کہ ہم نے اگر اسلامی اصول توڑا ہے تو اس کا ازالہ کس طرح ہوگا۔
یہ بات میں اپنے سالاروں اور ان کے ماتحت عہدے داروں کو بتا دوں گا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ان بدوؤں کو اگر دھوکہ دے کر لائے ہو تو ان کے حقوق کا بھی خیال رکھنا پڑے گا ،ان کے مذہب اور دیگر عقیدوں میں ذرا سی بھی دخل اندازی نہ کرنا ،اور انہیں جاہل اور پسماندہ نہ سمجھنا، یہ میں دیکھوں گا کہ مال غنیمت میں سے انہیں پورا پورا حصہ ملے گا، اگر یہ لوگ سرکش ہیں تو ہمیں ان کی سرکشی کا بھی احترام کرنا ہوگا، اس سرکشی کو وہ اپنا قومی وقار سمجھتے ہیں ان کے وقار کا تحفظ کرنا ہوگا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بدوؤں کے متعلق یہ ساری باتیں بتائیں اور حکم جاری کیا کہ ان بدوؤں کو اپنے مجاہدین سے زیادہ احترام دیا جائے ۔ عمرو بن عاص نے یہ بھی کہا کہ اسلام اسی وجہ سے توہم پرستی کے خلاف ہے کہ توہم پرست کو بڑی آسانی سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ ایک اللہ کا وحدہ لاشریک کا تصور توہم پرستی کو ختم کردیتا ہے ۔ عمرو بن عاص نے یہ بھی کہا کہ ہم ان پسماندہ اور توہم پرست بدوؤں کو اسلام میں لانے کی کوشش کریں گے لیکن ابھی نہیں۔
کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔۔۔ ایک سالار نے کہا۔۔۔ انہیں جب احترام ملے گا اہمیت ملے گی اور جب یہ ہمارا حسن سلوک دیکھیں گے تو خود ہی اسلام میں آ جائیں گے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرکے طے کر لیا کہ ان بدوؤں کو کس طرح استعمال کیا جائیگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦