🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➎➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
،وہ پرانا فوجی تھا اس کا جسم مشقت برداشت کرسکتا تھا، اس نے دو چار مرتبہ زخمی حالت میں بھی پیدل سفر کیا تھا بہرحال وہ ان تینوں مسلمانوں کے ساتھ چلتا گیا۔
بن سامر کے دوستوں کے اور اینی کے نقوش پا بڑے صاف تھے انہیں دیکھتے ہوئے چلتے گئے اور خاصی دور تک جاپہنچے، وہاں سے زمین کچھ سخت ہوگئی اور آگے کا علاقہ ایسا جو کہیں نشیب میں چلا جاتا تھا اور کہیں اوپر ہوا جاتا تھا، اور اوپر ٹیلے تھے جو اس طرح ایک دوسرے سے الگ الگ تھے کے بھول بھلیاں سی بن گئی تھی، وہاں کوئی باقاعدہ راستہ تو تھا ہی نہیں وہ بن سامر کے دوستوں کے نقوش پا پر جا رہے تھے انہیں دیکھتے دیکھتے کافی دور نکل گئے۔
انہیں پیاس محسوس ہونے لگی لیکن انہوں نے قوت برداشت سے کام لیا باتیں کرتے کرتے وہ چلتے گئے اور نقوش پا کی رہنمائی میں چھوٹے بڑے ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں سے گزر گئے۔
آگے ایک وسیع نشیب آگیا جس کے چاروں طرف کنارے اونچی دیواروں جیسے تھے، اس میں بھی چھوٹے بڑے ٹیلے تھے سامنے گھاٹی نظر آرہی تھی لیکن وہ بھی دیوار جیسی ہی تھی یہ چاروں چلتے گئے اور جب اس کے سامنے والے کنارے پر پہنچے تو ایک دوسرے کو سہارا دیتے اوپر چلے گیے، سب سے پہلے مسعود کا ایک ساتھی آگے آگے اوپر پہنچا تھا۔
اللہ نے کرم کر دیا ہے۔۔۔ اس ساتھی نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔اوپر آؤ اور دیکھو جنت ہماری منتظر ہے۔
سب اوپر گئے تو انہیں بھی کھجور کے درختوں کے جھنڈ نظر آئے جو کم و بیش دو میل دور تھے وہ یقیناً نخلستان تھا انہوں نے تھکن کے باوجود رفتار تیز کردی سورج مغرب کی طرف چلا گیا تھا۔
نخلستان نے ان کے جسموں میں تازگی پیدا کردی ،قریب پہنچے تو دیکھا کہ نخلستان کے اردگرد اونچا بند سا بنا ہوا تھا ۔قدرتی بند تھا جو خاصی دور تک چلا گیا تھا۔ اور نیم دائرے یا دائرے کی شکل میں تھا ۔عرب کے لوگ نخلستانوں سے اور ان کے قدرتی شکل و صورت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جب بند کے قریب پہنچے تو نسوانی چیخیں سنائی دی،
وہ سب دوڑ کر بند پر چڑھنے لگے تو بند پر اینی نمودار ہوئی اور نیچے اترنے لگی لیکن پیچھے سے دو آدمیوں نے اوپر آ کر اس کے بازو پکڑ لئے یہ دونوں بن سامر کے دوست تھے۔
یہی ہیں۔۔۔ بن سامر نے کہا۔
مسعود بن سہیل مکی اور اس کے دونوں ساتھی دوڑ کر بند پر جا چڑھے اور اینی کو اپنے بازوؤں سے پکڑ کر اپنی طرف کر لیا ۔
وہ دونوں بڑے غصے سے بولے کہ یہ لڑکی ان کی اپنی ہے اور اسے ان سے کوئی نہیں چھڑا سکتا ۔
بن سامر ابھی بند چڑھ رہا تھا اس نے کہا کہ یہ اس کی بیوی ہے۔
مسعود اور اس کے ساتھیوں نے خنجر نکال لئے ۔
بن سامر کے دوست خالی ہاتھ تھے ان تینوں مسلمانوں نے ان دونوں سے کہا کہ وہ یہیں بیٹھ جائیں اور اگر ذرا سی بھی حرکت کی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ وہ بیٹھ گئے مسعود نے اینی کو سامنے کھڑا کردیا۔
اے لڑکی!،،،، مسعود نے اینی سے کہا ۔۔۔ہمیں بتا انھوں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟
اینی نے انہیں بتایا کہ گزشتہ رات یہ دونوں اسے گھسیٹ کر پرے لے گئے اور دست درازی کی تھی پھر ان کی وہ حرکت سنائی جو وہ بن سامر سے سن چکے تھے۔ آخر میں اس نے بتایا کہ یہاں لاکر یہ دونوں اس کی آبرو ریزی کرتے رہے ہیں۔
مسعود بن سہیل نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا ایک نے کہا کہ اس جرم کی سزا موت سے کم نہیں ہو سکتی۔
یہ دونوں ساتھیوں نے منت سماجت شروع کردی لیکن تینوں مسلمانوں نے پہلے ایک کو پکڑ کر زمین پر پیٹ کے بل گرایا اور پھر اس کی ٹانگیں اور بازو جکڑ لئے ۔ مسعود نے اپنا خنجر اینی کو دیے کر کہا کہ اس کے دل کے مقام پر پوری طاقت سے خنجر مارے پھر اس کا پیٹ چاک کر دے۔
اینی اس قدر غصے میں تھی کہ اس نے خنجر لے کر اس آدمی کو اس طرح خنجر مارے جس طرح مسعود نے بتایا تھا۔ پھر انہوں نے دوسرے آدمی کو گرایا اسے بھی اینی کے ہاتھوں سے قتل کروایا ۔اینی تو غصے میں جیسے پاگل ہو گئی تھی وہ اپنا کام کر چکی تھی لیکن اس نے ان دونوں کو باری باری بڑی تیزی سے سینوں اور پیٹ میں خنجر مارنا شروع کردیے پھر ان کی آنکھوں میں خنجر مارے اگر اسے پکڑ نہ لیتے تو وہ خنجر مارتی ہی چلی جاتی، وہ بن سامر کے ساتھ لپٹ گئی اور بہت روئی۔
اس کام سے فارغ ہو کر انہوں نے دیکھا وہاں تو پانی ہی پانی تھا وہ سب دوڑتے بند سے اترے اور پانی پینے لگے وہاں کھجور کے بہت سے درخت تھے اوپر دیکھا تو درختوں کو پھل لگا ہوا تھا کچھ کھجوریں گہرا بادامی رنگ اختیار گئی تھیں، زیادہ تر ابھی کچی تھیں۔ مسعود اور اس کے دونوں ساتھی ایک ایک درخت پر چڑھ گئے اور کھجوروں کے گُچھے توڑ توڑ کر نیچے پھینکنے لگے پھر وہ نیچے اترے کھجوروں سے ریت صاف کرنے کے لئے کچھ دیر پانی میں ڈالی، اور پھر کھانے لگے، کچھ کچی کھجوریں بھی کھا گئے بھوک نے انہیں بے حال رکھا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو چلا تھا انہوں نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا، بھوک پیاس اور اتنا زیادہ چلنے سے ان کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، سورج غروب ہو گیا تو مسعود بن سہیل کے ایک ساتھی نے اذان دی پھر مسعود کی امامت میں دونوں ساتھیوں نے نمازمغرب ادا کی۔ بن سامر اور اینی انہیں دیکھتے رہے ،عشاء کے وقت پھر ان میں سے ایک نے اذان دی اور مسعود نے باجماعت نماز پڑھائی ،اور اس کے بعد یہ تینوں اکٹھے ہی لیٹ گئے۔
بن سامر اور اینی بھی ان کے قریب لیٹے تو مسعود نے بن سامر سے کہا کہ وہ میاں بیوی ہیں اس لئے وہ ان سے دور جا کر سوئیں، وہ دونوں اٹھ کر ان سے کچھ دور چلے گئے۔
اینی اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اسے نیند نہیں آ رہی تھی کچھ ایسی ہی کیفیت بن سامر پر بھی طاری تھی۔
کیا ان تینوں پر تمہیں اعتماد ہے؟،،، اینی نے بن سامر سے پوچھا۔
میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔۔۔بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میرے پاس اس وقت کوئی ہتھیار نہیں تھا جب میں سمندر میں کودا تھا۔ میں نہتہ ہوں اگر ایسا وقت آن پڑا تو ان سے خنجر چھیننے کی کوشش کروں گا۔
سو نہ جانا بن سامر!،،،، اینی نے بڑے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔
بن سامر پر نیند کا غلبہ ہوا جا رہا تھا لیکن وہ اس کوشش میں تھا کہ وہ نیند پر غالب آجائے اسے احساس تھا کہ اینی نوعمر بھی ہے اور بے حد حسین بھی اگر اس کے اپنے ہم مذہب بھائی نے اینی کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا تو یہ تو مسلمان ہیں ان پر بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
وہ دونوں اپنے آپ پر جبر کرکے جاگتے رہے تینوں مسلمان گہری نیند سوئے رہے ،رات آدھی گزر گئی ہوگی کہ نیند نے بن سامر اور اینی کو دبوچ لیا اور وہ گہری نیند سو گئے۔
اچانک ایسی آوازیں بلند ہوئیں جیسے چند آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں اور چیخ چلا رہے ہوں۔ بن سامر اور ایینی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے سب سے پہلے انہوں نے مسعود بن سہیل اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا وہ اتنی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ جاگے ہی نہیں۔ بن سامر کی خوف زدہ نظریں نخلستان کے بند پر گئی تو چاندنی میں اسے صحرائی لومڑیاں نظر آئیں جو اس کے دوستوں کی لاشوں پر لڑ پڑی تھیں اور ان لاشوں کو کھا رہی تھیں دونوں پھر لیٹ گئے اور سو گئے۔
اب انھیں اذان کی آواز سنائی دی اور وہ جاگ اٹھے انہوں نے دیکھا کہ مسعود کا ایک ساتھی بند پر کھڑا اذان دے رہا ہے اور اس کے ساتھی پانی کے قریب بیٹھے وضو کر رہے تھے۔
سو جاؤ اینی!،،،، بن سامرنے کہا یہ تینوں نماز پڑھیں گے۔
دونوں لیٹ گئے اور پھر گہری نیند میں چلے گئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مسعود نے بن سامر کو جگایا اور کہا کہ چلنے کا وقت ہو گیا ہے اور اگر وہ ان کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو آجائے۔
میں اکیلا تو کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔ بن سامر نے کہا ۔۔۔تمہاری منزل تک تمہارا ساتھ دوں گا پھر آگے جاؤں گا۔
تمہیں کہاں جانا ہے ؟،،،مسعود نے پوچھا۔
بن سامر نے فوری جواب نہ دیا اینی کی طرف دیکھا پھر سر جھکا لیا اور پھر مسعود کی طرف دیکھا یوں لگتا تھا جیسے اسے مسعود کے سوال کا صحیح جواب معلوم ہی نہیں۔ مسعود نے اپنا سوال دہرایا تو بن سامر نے سر جھکا لیا۔
کیا تمہیں اپنی منزل کا کچھ پتہ نہیں؟،،، مسعود کے ایک ساتھی نے پوچھا.
نہیں !،،،،،بن سامر نے جواب دیا۔۔۔ منزل کا پتہ نہیں اور اپنے مقصد کے متعلق کوئی شک نہیں۔
ہم تمہیں مجبور نہیں کرتے۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔ اگر چاہو تو اپنا مقصد ہی بتا دو معلوم ہوتا ہے تم اس علاقے سے واقف نہیں اگر تمہیں ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے تو ہم تمہیں اپنے ساتھ رکھیں گے اگر نہیں تو ہم تمہیں یہیں سے الوداع کہہ دے گے۔
میں تمہارے سلوک سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ چاہتا ہوں اپنا مقصد تمہارے سامنے رکھ دوں ،میں بڑا ہی پکا عیسائی ہوں عیسائیت اور کسی عیسائی کے خلاف میں ذرا سی بھی بات برداشت نہیں کرسکتا، لیکن میرے ان دو دوستوں نے میرے عقیدے کو متزلزل کر ڈالا ہے، یہ دونوں بھی بڑے پکے عیسائی تھے۔ ہمارے دلوں میں دو قوموں کی نفرت بھری ہوئی تھی ایک رومی دوسرے مسلمان ،میں قبطی عیسائی ہوں اور ہمارا پیشوا بنیامین ہے۔
تم شاید بھول گئے ہو ۔۔۔مسعود نے کہا۔۔۔ جہاز میں تم مجھے عیسائی سمجھ کر اپنا یہ مقصد بتا چکے ہو، مجھے یاد آگیا کہ تم شام جا رہے تھے لیکن طوفان نے تمہیں منزل سے بہت دور یہاں لا پھینکا ہے تم شام کے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے جا رہے تھے۔
ہاں!،،،،،، بن سامر نے کہا ۔۔۔۔میں اسی مقصد کے لئے جا رہا تھا لیکن اب نہیں جاؤں گا۔
کیوں!،،،،، مسعود نے پوچھا ۔۔۔اب کیوں نہیں جاؤگے اگر تمہیں یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے تو میں تمھیں اس خطرے سے آزاد کرتا ہوں اپنی بیوی کو ساتھ لو اور چلے جاؤ ،ہم مدینہ جارہے تھے کہ طوفان نے جہاز کو ہماری بندرگاہ تک نہ پہنچنے دیا اور یہاں لے آیا، ہمارے ساتھ مدینہ چلو اور وہاں سے میں تمہیں شام کے راستے پر ڈال دوں گا پہلے دیکھوں گا کہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے یا نہیں۔
وہاں سے مدینہ بہت دور تھا مسعود اور اس کے ساتھی جاسوس تھے اور انھیں ایسی تربیت دی گئی تھی کہ رات کو ستاروں اور دن کو سورج دیکھ کر اپنی منزل کی سمت معلوم کرلیتے تھے اس کے علاوہ وہ صحرا کے بھیدی تھے۔
بن سامر پر دراصل بددلی چھا گئی تھی جس سے اس کے ارادے اور مذہب کے ولولے بھی متاثر ہوئے تھے، مسعود اور اس کے ساتھی غالباً اس کی یہ جذباتی کیفیت سمجھ گئے تھے ۔اس لئے انہوں نے اس کا ان کے ساتھ چلنے پر اعتراض نہ کیا ۔ اپنا ٹھکانہ تو بتا ہی چکا تھا ۔مسعود نے اسے اپنے ساتھ لے لیا
سفر کی اگلی رات آئی تو یہ بھی آسمان تلے بسر کرنی پڑی۔
بن سامر اینی کے ساتھ ان تینوں سے الگ لیٹ کر سویا ، وہ رات بھی دونوں نے ڈرتے ڈرتے گزاری انہیں شاید ابھی یقین نہیں آیا تھا کہ کوئی اتنے اونچے کردار کا شخص بھی ہوسکتا ہے جو ایسی خوبصورت اور دلنشین لڑکی کو نظرانداز کردے۔ بن سامرکی مجبوری تو یہی تھی کہ وہ تنہا تھا اور اس کے ہمسفر تین آدمی تھے اس کا خوف بجا تھا لیکن وہ رات بھی خیریت سے گزر گئی۔
اس کے بعد جو رات آئی وہ ایک آبادی کے قریب گزری وہاں سے انہیں کھانے پینے کا سامان مل گیا جس سے ان کا باقی سفر آسان ہو گیا۔
اس کے بعد دو اور راتیں آئیں اور وہ بھی کھلے آسمان تلے گزری۔ بن سامر کے دل سے اب خوف نکل گیا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ تینوں اینی کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں رکھتے وہ ہر نماز باجماعت پڑھتے اور مسعود بن سہیل مکی امامت کرتا تھا۔
مسعود کو زیادہ دلچسپی بن سامر کے ساتھ تھی مسعود اسے کریدتا رہتا اور اس کے سینے میں چھپی ہوئی باتیں نکلوانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ بن سامر اب مصر کے قبطی عیسائیوں اور رومی فوج کے متعلق اس طرح باتیں کرنے لگا تھا جیسے وہ مسلمان ہو اور چاہتا ہو کہ مصر پر مسلمان فوج کشی کریں، اس نے مسعود کو ایک روز صاف الفاظ میں بتایا کہ رومی فوج میں اب وہ تاب و طاقت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی، شام کی طویل جنگ اور شکستوں اور پسپائیوں نے اس فوج کا دم خم توڑ دیا تھا۔ بن سامر نے یہ بھی بتایا کہ اس سے مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ یہ فوج فوراً ہتھیار ڈال دے گی اس کے جرنیل اس فوج کو ایک بار پھر پہلے والی رومی فوج بنا رہے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی خوبیاں اور اپنی فوج کی خامیاں دیکھ لی تھیں۔
آخر وہ مدینہ پہنچ گئے بن سامر کے دل میں اب کوئی ایسی بات نہیں رہ گئی تھی جو اس نے ان مجاہدین سے چھپائی ہو ،مدینہ پہنچے تو مسعود نے اس سے پوچھا کہ اب وہ کہاں جائے گا؟
کہیں بھی نہیں !،،،،،،بن سامر نے جواب دیا میں اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں میں یہاں اس ارادے سے آیا ہوں کہ مجھے اور اینی کو اسلام میں داخل کرلیں۔
پھر سوچ لو۔۔۔۔ مسعود نے کہا۔۔۔۔ تم پر کوئی جبر نہیں اگر تم قبول اسلام نہیں کرو گے تو بھی میں تمہیں اس ٹھکانے تک پہنچادوں گا جہاں تم جاننا چاہو گے۔
مسعود بھائی!،،،،،، بن سامر نے کہا۔۔۔۔ دراصل میں تم تینوں کے کردار سے متاثر ہوا ہوں ،میں نے سنا تھا کہ عرب کے لوگ جاہلیت میں پڑے ہوئے تھے اسلام نے آکر عربوں کو ذلت اور پستیوں سے نکال کر انسانیت کے اونچے مقام تک پہنچایا جو میں نے دیکھ لیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اینی اکیلی تمھارے ساتھ ہوتی تو بھی تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتے جو میرے ہم مذہب دوستوں نے کیا ہے۔
مسعود اور اس کے دونوں ساتھی بن سامر اور اینی کو اپنے سالار کے پاس لے گئے اور اسے ان دونوں کے متعلق ساری باتیں اور پھر بن سامر کی خواہش بتائی۔ اس دور میں سالار امامت کے فرائض بھی سرانجام دیا کرتے تھے، سالار نے بن سامر اور اینی کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا اور اسے مسعود کے ہی حوالے کردیا کہ وہ اسے اسلام سے واقفیت کرا دے۔
بن سامر نے مصر اور رومی فوج اور قبطی عیسائیوں کے رویے اور ارادوں کی جو باتیں سنائی تھی وہ مسعود نے اس سالار کو سنائی ، یہ بڑی قیمتی باتیں تھیں جو ظاہر ہے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچائی گئی ہونگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاسوسی کا بڑا ہی عقلمند اور قابل اعتماد نظام موجود تھا ۔ایسا کہنا غلط ہو گا کہ بن سامر اتفاق سے اپنے جاسوسوں کو نہ ملتا وہ اپنے عیسائی دوستوں سے بد دل نہ ہوتا تو اس کے سینے سے کوئی راز نہ ہی نکلتا اور حضرت عمر کو پتا ہی نہ چل سکتا تھا کہ مصر کے حالات کیا ہیں اور ہرقل کے ارادے کیا۔ مسعود اور اس کے دونوں ساتھی مصر میں جاسوسی کے لیے تو گئے تھے، اس سے پہلے بھی جاسوسوں کو وہاں بھیجا گیا تھا اور سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے طور پر مصر جاسوس بھیجے تھے۔ کیونکہ مصر کی فتح ان کے دل و دماغ پر ہروقت غالب رہتی تھی اور انہیں پوری امید تھی کہ ایک نہ ایک دن امیرالمومنین انہیں مصر پر فوج کشی کی اجازت دے ہی دیں گے۔
طاعون کی وباء ختم ہوچکی تھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ وباء مجاہدین کے لشکر کے ایک خاص حصے کو کھا گئی تھی۔ لشکر کی نفری پوری کی جا رہی تھی لیکن عمرو بن عاص بے تاب ہوئے جا رہے تھے ، وقت بڑی تیزی سے گزرتا جا رہا تھا امیرالمومنین کے ساتھ انہوں نے پہلے تفصیلی گفتگو کی تھی اور ان پر واضح کیا تھا کہ مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا کیوں ضروری ہے۔ وباء ختم ہو گئی تو عمرو بن عاص نے حضرت عمر کی طرف پیغام بھیجا جس میں اجازت چاہی کہ وہ مصر کی طرف پیش قدمی کریں؟
انہوں نے حضرت عمر کو لکھا کہ مصر سے جو اطلاع مل رہی ہیں ان سے یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ ہم نے مزید وقت ضائع کیا تو ہرقل شام پر فوج کشی کر دے گا یا تازہ اطلاعات کے مطابق شام کے عیسائی قبائل کو بغاوت پر اکسایا جائے گا اگر بغاوت ہو گئی اور مجاہدین کے لشکر بغاوت ختم کرنے میں مصروف ہوگئے تو ہرقل یقیناً حملہ کرے گا اور اس کا انجام شکست ہی ہو سکتا ہے۔
تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر مصر پر حملے کے حق میں تھے، لیکن وہ اپنے مصاحبوں اور صحابہ کرام سے صلح مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ صحابہ اور دوسرے مصاحبین میں کچھ تو اس کے حق میں تھے اور زیادہ تر اس کے خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مصر پر فوج کشی ملتوی ہوتی رہی اور قحط نے پھر وباء نے آن لیا۔
اب عمرو بن عاص نے پھر یہی مسئلہ چھیڑ دیا تو حضرت عمر نے پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے اس پر غور کیا انہیں بھی مصر کے تازہ حالات ہرقل کے ارادے اور قبطی عیسائیوں کے رویے کی مکمل اور تفصیلی اطلاعات مل چکی تھیں۔ عمرو بن عاص نے جو دلیل پیش کی اور جس خطرے کا اظہار کیا تھا یہ پہلے ہی حضرت عمر کو پریشان کیے ہوئے تھا ۔آخر انہوں نے عمرو بن عاص کو جواب دیا پیغام لے جانے والے قاصد کا نام شریک بن عبداللہ تھا اس وقت عمرو بن عاص سریان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے قاصد آ پہنچا اور پیغام دیا اس میں حضرت عمر نے لکھا تھا کہ طاعون نے ہمارے لشکروں کی تعداد کم کر دی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں سے کہو کہ وہ تمھارے لشکر میں شامل ہو جائیں اور مصر کی طرف پیش قدمی کریں،،،،،، اس دور میں لشکر اسی طرح رضاکارانہ طور پر تیار کیے جاتے تھے۔ حضرت عمر نے آگے چل کر لشکریوں کو باقاعدہ فوجی بنا دیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کر دی تھی۔
عمرو بن عاص اسی حکم کے منتظر تھے انہوں نے محاصرہ معاویہ بن ابی سفیان کے سپرد کیا اور بیت المقدس جاپہنچے۔ وہاں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے تھے اس لیے انہوں نے جلدی جلدی میں لشکر اکٹھا کر لیا اور کچھ نفری پہلے لشکر سے لے لی اور کوچ کر گئے۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی اور بعض نے تعداد چار ہزار لکھی ہے۔ اس لشکر میں گھوڑسوار دستے زیادہ تھے۔
لشکر کی تیاری سے پہلے ہی عمرو بن عاص نے حضرت عمر کے قاصد کو جوابی پیغام دے دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ وہ فلسطین اور شام سے کمک نہیں لینا چاہتے تاکہ یہ علاقے کمزور نہ ہو جائیں ۔ ان کے لیے کمک مدینہ سے بھیجی جائے جو انھیں مصر کے راستے میں ملے انہیں پوری امید تھی کہ مدینہ سے انہیں اچھی خاصی کمک مل جائے گی۔
وہ جانتے تھے کہ جو لشکر وہ ساتھ لے جا رہے ہیں یہ دیار غیر میں جاکر لڑنے کے لئے کافی نہیں۔
عمرو بن عاص نے کوچ میں جلدبازی اس لئے کی تھی کہ انہیں یہ خبر مل گئی تھی کہ مدینہ میں اور ایوان خلافت میں جو حضرات مصر پر فوج کشی کے خلاف تھے وہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں ۔اور حضرت عمر کا گھیراؤ کرکے انھیں قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اپنا حکم واپس لے لیں۔ان میں سرفہرست حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے وہ کوئی معمولی حیثیت اور عام سی عقل و دانش کے فرد نہیں تھے، ان کا ایک مقام تھا جسے حضرت عمر بڑے ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے عمرو بن عاص کو یہ خدشہ نظر آیا کہ ایسا نہ ہو کہ امیرالمومنین ان سے متاثر ہو کر مصر پر فوج کشی ملتوی کردیں۔
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ عمرو بن عاص کو مدینہ کی یہ خبر کس نے دی تھی غالب خیال یہ ہے کہ یہ خبر دینے والا حضرت عمر کا قاصد شریک بن عبداللہ ہے ،مدینہ سے وہی آیا تھا اور اسے بہتر معلوم تھا کہ ایوان میں کیا ہو رہا ہے۔
معروف مؤرخ ابن عبد الحکم نے چند ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کے عمرو بن عاص کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا انہیں جو خبر ملی تھی وہ صحیح تھی حضرت عثمان بن عفان کو پتہ چلا تو وہ دوڑے دوڑے حضرت عمر کے ہاں پہنچے اور ان سے تصدیق کرائی کی انہوں نے واقعی یہ حکم عمر بن عاص کو دے دیا ہے۔
خدا کی قسم امیرالمومنین !،،،،،تو ایسی غلطی کرنے والا آدمی تو نہ تھا،،،، حضرت عثمان نے کہا ،،،،،تیرا حکم غلط ہے اور جسے تو نے حکم بھیجا ہے وہ آدمی بھی ٹھیک نہیں۔ حضرت عمر نے چونک کر حضرت عثمان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں حیرت تھی اور یہ سوال بھی کہ عمرو بن عاص جیسے سپہ سالار کو کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک آدمی نہیں۔
خدا کی قسم عمر !،،،،،حضرت عثمان نے کہا،،،، عمرو بن عاص سے میری کوئی عداوت نہیں وہ نڈر اور بے دھڑک خطرہ مول لینے والا سالار ہے ،خالد بن ولید کی طرح وہ اپنے آپ کو اور پورے لشکر کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ تو ایک وجہ ہے کہ اسے اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمرو دولت مند خاندان کا فرد ہے اس میں اقتدار کی طلب موجود ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مصر کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں کیا گیا اور وہ جو لشکر لے کر گیا ہے وہ کافی نہیں ،اس لشکر میں وہ مجاہدین بھی ہیں جنہوں نے فتح پر فتح حاصل کر کے رومیوں کو شام سے بےدخل کیا ہے اب تو نے اور عمرو بن عاص نے ان فاتحین کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔
حضرت عمر ایسی شش وپنج میں پڑ گئے جو ان کی فطرت کے مطابق نہیں تھی وہ تو بڑے ہی صاف ذہن سے فیصلہ کیا کرتے تھے لیکن انھیں یہ سوچ پریشان کرنے لگی کہ حضرت عثمان جیسی شخصیت کی رائے نہ مانیں تو یہ ناراض ہو جائیں گے ۔حضرت عثمان کے علاوہ انھیں کی حیثیت کے چند حضرات اور بھی تھے جو مصر پر فوج کشی کو ایک خطرہ سمجھ رہے تھے ۔
حضرت عمر پریشان ہو گئے ایسی صورتحال پہلی بار پیدا ہوئی تھی کہ ان کی شدید مخالفت ہوئی اور انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ انہوں نے ان تمام حضرات سے آخری بار صلح مشورہ کیے بغیر یہ حکم بھیج دیا تھا۔
حضرت عمر نے بڑی گہری غوروخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عمرو بن عاص کو واپس بلا لیا جائے ۔انہوں نے تاریخ کے مطابق پیغام میں یہ الفاظ لکھے۔ اگر تجھے میرا یہ خط مصر کی سرحد پار کرنے سے پہلے مل جائے تو وہیں سے واپس بیت المقدس چلے آؤ ۔اور اگر تم مصر کی سرحد میں داخل ہو چکے ہوں تو پیش قدمی جاری رکھو میں تمہارے لئے کمک بھیج دوں گا۔
حضرت عمر نے یہ پیغام اپنے قاصد شریک بن عبداللہ کو دیا اور کہا کہ وہ کم سے کم رکے اور جس قدر تیز جاسکتاہے جائے اور پیغام عمرو بن عاص تک پہنچا دے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت قاصد عمرو بن عاص تک پہنچا وہ رفح کے مقام پر تھے، انہوں نے پیش قدمی بڑی سست رفتار سے کی تھی اور وہ سمندر کے کنارے کنارے جا رہے تھے اس سست رفتاری کی وجہ یہ تھی کہ عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے منتظر تھے، جو انہیں یقین تھا کہ آجائے گی کمک کے آ جانے کے بعد وہ پیش قدمی کی رفتار تیز کرنا چاہتے تھے۔
یہاں تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جب قاصد عمرو بن عاص تک پہنچا اور اس نے بتایا کہ امیرالمومنین کا پیغام لایا ہے تو عمرو بن عاص نے پیغام تو لے لیا پڑھا نہیں اس کی بجائے وہ چلتے گئے اور قاصد سے مدینہ کی باتیں اور خبریں پوچھتے رہے آخر وہ رفح سے بہت آگے نکل گئے اور ایک گاؤں آیا عمر بن عاص نے گاؤں والے سے پوچھا کہ یہ کس ملک کا گاؤں ہے انہوں نے بتایا کہ مصر کا گاؤں ہے۔ عمرو بن عاص نے اب پیغام کھول کر پڑھا اپنے ماتحت سالاروں کو بلا کر یہ پیغام سنایا اور کہا کہ امیرالمومنین نے یہ حکم دیا ہے کہ مصر میں داخل ہو چکے ہوں تو پیش قدمی جاری رکھو تم سب دیکھ رہے ہو کہ ہم مصر میں داخل ہوچکے ہیں ،لہذا پیش قدمی جاری رہے گی۔
انہوں نے قاصد کو پیغام کا جواب لکھ کر دیا کہ ان کا لشکر مصر کی سرحد سے آگے نکل گیا ہے اس لئے کمک فوراً بھیجی جائے انہوں نے قاصد کو ہی گواہ بنا لیا کہ لشکر مصر کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا۔
عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ کمک کی بجائے قاصد آیا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ یہ واپسی کا حکم آیا ہے انہیں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی فطرت اور ان کے احکام کا اندازہ تھا۔ کسی طرح انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضرت عمر ایسے نہیں کہ ایک حکم دے کر اس کی منسوخی کا حکم بھی بھیج دیں ،انہوں نے ضرور لکھا ہوگا کہ مصر میں داخل ہوگئے ہو تو پھر پیچھے نہ آنا آگے ہی بڑھنا عمرو بن عاص کا یہ قیاس صحیح نکلا۔
اس سے آگے ان کے سامنے مصر کا ایک مشہور مقام عریش تھا یہ درمیانہ درجے کا شہر تھا۔ عمرو بن عاص نے اس شہر کو محاصرے میں لینا چاہا لیکن وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں رومی فوج کا ایک سپاہی بھی نہیں مجاہدین نے شہر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیا۔
اس سے آگے ستر میل دور مصر کا اتنا ہی بڑا ایک اور شہر فرما تھا ،عمرو بن عاص بہت ہی خوش تھے کہ انہوں نے رومیوں کو بے خبری میں آ لیا ہے اور وہ اگلا شہر بھی اسی طرح فتح کرلیں گے ،انہوں نے ایسی پریشانی کا اظہار کیا ہی نہیں کہ کمک ابھی نہیں پہنچی لیکن یہ عمرو بن عاص کی خوش فہمی تھی ۔ ان کا لشکر جونہی مصر کی سرحد میں داخل ہوا تھا مصر میں مقوقس اور جنریل اطربون کو اطلاع مل گئی تھی۔
مصر کے حکمران مقوقس نے یہ بہتر سمجھا کے مسلمانوں کے لشکر کو اور آگے آنے دیا جائے اس نے اطربون سے مشورہ کیا کہ عریش سے فرما تک ستر میل لمبا چوڑا صحرا ہے مسلمانوں کو صحرا میں شکست نہیں دی جاسکتی انہیں آگے آنے دیا جائے۔
اطربون نے مقوقس کا مشورہ قبول کر لیا اور بڑی تیزی سے یہ کارروائی کی کہ عریش سے اپنی تمام فوج نکال کر ستر میل پیچھے فرما کے شہر میں اکٹھا کر لی اور اس شہر کا دفاع اور زیادہ مستحکم کرنا شروع کردیا۔
عمرو بن عاص اس خوش فہمی میں ناکافی لشکر کے ساتھ بڑھے چلے جارہے تھے کہ اگلے شہر میں بھی مزاحمت نہیں ملے گی۔ اور وہ امیر المومنین کے مخالفین کو غلط ثابت کر دیں گے مگر انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رومیوں نے ان کے لیے پھندا تیار کر رکھا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص کا لشکر مصر کے شہر فرما کی طرف بڑھا جا رہا تھا انہوں نے مصر کا ایک شہر عریش بغیر مزاحمت کے لے لیا تھا وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تو تھے کہ اگلا شہر فرما بھی اسی طرح آسانی سے لے لیں گے۔ لیکن وہ بہت ہی محتاط ہو کر پیش قدمی کر رہے تھے ۔احتیاط تو لازمی شرط تھی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ لشکر تھا ہی کیا تین ساڑھے تین ہزار نفری ان کے ساتھ تھی۔ پیش قدمی کی رفتار ذرا کم اس امید پر رکھی کہ مدینہ سے کمک پہنچ جائے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمرو بن عاص جیسے ہوش مند اور تجربہ کار سالار یہ عنصر تو نظرانداز کر ہی نہیں سکتے تھے کہ رومی فوج مقابلے میں آئے گی ہی نہیں۔
وہ سب صحرائی علاقہ تھا مجاہدین اسلام کا لشکر اونٹوں کی طرح بڑے آرام سے اور اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اس کے نیچے ہموار اور بڑی پکی زمین ہو ۔
رومی حکمران مقوقس نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ صحرا میں مسلمانوں کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں۔ پہلا پڑاؤ کیا گیا مدینہ سے کمک تو نہ آئی حلب سے حدید بن مومن خزرج اپنی بیوی شارینا کے ساتھ پہنچا اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملا۔
اگلے روز مدینہ سے ایک اور تجربے کا جاسوس مسعود بن سہیل مکی پہنچ گیا اس کے ساتھ فہد بن سامر تھا اور اس کی بیوی اینی بھی اس کے ساتھ تھی۔ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے کہ بن سامر اور اینی نے اسلام قبول کیا تھا تو بن سامر کا نام فہد بن سامر رکھا گیا تھا ،لیکن اینی نے اپنا نام اینی ہی پسند کیا تھا۔
مسعود بن سہیل مکی کو مدینہ سے امیر المومنین نے بھیجا تھا وہ مصر سے اچھی طرح واقف تھا اور جاسوسی کے لئے وہاں کچھ عرصہ گزار آیا تھا ،فہد بن سامر مدینہ میں ہی تھا اور وہ رضاکارانہ مسعود کے ساتھ چلا گیا تھا اسے کسی سے حکم لینے کی ضرورت نہیں تھی اینی پیچھے اکیلی نہیں رہ سکتی تھی اس لیے وہ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ فہد بن سامر کو قبول اسلام کے بعد مدینہ میں رکھا گیا اور اس کا کچھ وظیفہ مقرر کردیا گیا تھا لیکن ابھی اسے کوئی کام نہیں دیا جارہا تھا کیونکہ ابھی دیکھنا تھا کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ،وہ فراغت سے بہت ہی پریشان تھا اور اس نے کئی بار کہا تھا کہ وہ رومیوں کے خلاف میدان جنگ میں جانا چاہتا ہے اور اگر اسے جاسوسی اور تخریب کاری کا کام دیا جائے تو وہ کامیابی سے کرسکتا ہے۔ مصر سے تو وہ بہت ہی اچھی طرح واقف تھا اور جس علاقے میں سپہ سالار عمرو بن عاص جا رہے تھے اس سے تو وہ پوری طرح واقف تھا ۔اس نے مسعود کو جاتے دیکھا اور کسی کو بتائے بغیر اینی کو ساتھ لیا اور مسعود کے ساتھ چل پڑا وہاں گھوڑوں کی اور دیگر سازوسامان کی کمی نہیں تھی اس نے دو گھوڑے لے لیے اور اس طرح مسعود، فہد ،اور اینی مدینہ سے رخصت ہوگئے ۔انھوں نے کم سے کم پڑاؤ کیا اور سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس جا پہنچے۔
کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ مسعود اور فہد مدینہ سے عمرو بن عاص کے پاس گئے تھے تو کیا وہ کوئی ایسی خبر یا اطلاع لے کر گئے تھے یا نہیں کہ مدینہ سے کمک آرہی ہے یا نہیں ۔
تاریخ کی تحریروں سے اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ فرما تک پہنچنے تک مدینہ سے کمک نہیں آئی تھی اور اگر نہیں آئی تھی تو اس کی کوئی وجہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص ایک امیر تاجر خاندان کے فرد تھے قبول اسلام سے پہلے وہ اکثر تجارت کے سلسلے میں مصر جاتے رہتے تھے اور یہ واقعہ تو پہلے بیان ہوچکا ہے کہ انھوں نے ایک یہودی کی جان بچائی تھی اور وہ عمرو بن عاص کو مصر کے دارالحکومت اسکندریہ لے گیا تھا، اسکندریہ کی شان و شوکت جاہ و جلال اور شاہانہ رونقیں دیکھ کر عمرو بن عاص ایسے متاثر ہوئے تھے کہ مصر ان کے ذہن میں نقش ہو کے رہ گیا تھا ۔
وہ مصر سے اور خصوصا شمالی مصر سے تو کلی واقفیت رکھتے تھے۔ مصر کے لوگوں کو بھی وہ جانتے تھے پھر انہوں نے اسلام قبول کیا اور شام اور فلسطین میں فن حرب و ضرب اور سپہ سالاری کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور پھر امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو قائل کرنے لگے کہ مصر ہر قیمت پر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہونا چاہیے اور مصر پر فوج کشی کی قیادت انھیں دی جائے۔ آخر انھیں اجازت مل گئی۔ وہ مصر سے واقف تھے لیکن پھر بھی انہیں جاسوسوں کی ضرورت تھی مصر پر فوج کشی سے پہلے وہ اپنے طور پر مصر جاسوس بھیجتے رہتے تھے۔ اور انہوں نے قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کے ساتھ بھی اپنے جاسوسوں کے ذریعے رابطہ قائم کر لیا تھا۔
اب مسعود اور حدید جیسے جاسوس جو بڑے ہی دلیر چھاپہ اور تخریب کار بھی تھے ان تک پہنچ گئے تو انہیں جاسوسی کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوتا نظر آنے لگا۔
عمرو بن عاص ان دونوں کی ذہانت اور کارکردگی سے پوری طرح آشنا تھے۔
فہد بن سامر ان کے لئے بالکل ہی نیا آدمی تھا مسعود نے انھیں فہد کے متعلق بتایا اور فہد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو عمرو بن عاص مطمئن ہوگئے ۔
وہ دعویٰ کرتا تھا کہ جتنی کامیاب جاسوسی اور تخریب کاری وہ کرسکتا ہے اتنا کوئی عربی جاسوس نہیں کرسکتا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں کو پاس بٹھا کر ان تینوں جاسوسوں کو صورتحال تفصیل سے بتائی انہوں نے کہا۔۔۔ کہ فرما تک ان کے جاسوس ہو آئے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ فرما میں رومی فوج کی تعداد ہمارے لشکر سے دگنی ہے عمرو بن عاص نے مزید وضاحت یا تصدیق کے لئے مسعود بن سہیل مکی کو فرما بھیج دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دو جاسوس بنیامین کے پاس بھی چلے گئے ہیں اور بنیامین سے یہ بات کریں گے کہ قبطی عیسائی مسلمانوں کے خلاف نہ لڑیں اور درپردہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں۔
تم دیکھ رہے ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ لشکر کتنا تھوڑا ہے محاصرے کے لیے میرے پاس سامان بھی پورا نہیں پھر بھی میں اتنا ہی لشکر لے کر اتنی دور آ گیا ہوں اور کمک ابھی پہنچی نہیں میں نے اپنے لئے یہ مشکل پیدا کر لی ہے کہ خود ہی امیر المومنین سے فوج کشی کی اجازت مانگی تھی اور انہیں قائل کر لیا تھا میں ہر قیمت پر کامیاب ہونا چاہتا ہوں۔
ہمیں کامیاب ہونا ہے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔اگر ہم ناکام رہے تو صرف ہمیں شرمندگی کا سامنا نہیں ہوگا ،بلکہ امیرالمومنین اپنے ان مصاحبوں کے سامنے شرمسار ہوں گے جو ابھی تک انھیں روک رہے ہیں کہ مصر پر ابھی فوج کشی نہ کریں ورنہ نقصان اٹھائیں گے۔
مصر کی فتح اور شکست میرے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ اگر میں ناکام ہوگیا تو پھر میں زندہ مدینہ میں داخل نہیں ہوگا زندہ وہاں چلاگیا تو مصر پر حملے کے مخالفین کا سامنا نہیں کرسکوں گا جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں وہ کہیں گے کہ ہم نے تمھیں روکا نہیں تھا کہ ایسا نہ کرو!،،،،،،،، تم سب دیکھ رہے ہو کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ ہمارے پاس رسد کا کوئی انتظام نہیں میں اللہ کے نام پر آیا ہوں اور اس یقین کے ساتھ آیا ہوں کہ اللہ مدد کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ ارادہ مضبوط اور نیک ہو ہمارے لئے کوئی نہ کوئی راستہ کھل جائے گا۔
کیا آپ نے کوئی راستہ سوچا ہے۔۔۔ فہد بن سامر نے پوچھا۔
ہاں سوچا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اور یہ راستہ تم اور حدید کھول سکتے ہو سب سے پہلے ہمیں رسد چاہیے اناج اور مویشی یہ ہم اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ لشکر میں سے کچھ نفری اس علاقے میں بھیجی جائے جہاں اناج کے ذخیرے موجود ہیں یہ نفری ٹولیوں میں بٹ کر ہر اس گاؤں پر حملہ کرے جہاں اناج اور مویشی موجود ہیں صرف اناج اور مویشی لائے جائیں لیکن اس طرح میرے لشکر کی نفری کم ہوجائے گی۔
پھر دعا کریں کمک آ جائے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔کہ انتظار کر لیا جائے۔
میں انتظار نہ کروں تو بہتر ہے۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا ۔۔۔اب جب کہ ہمارے دشمن کو پتہ چل چکا ہے کہ ہم اس کے ملک میں داخل ہو کر ایک شہر لے بھی چکے ہیں تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہوکر ہمارے مقابلے میں آئے گا۔ ہمارا انتظار دشمن کو تیاری کا بہت وقت دے دے گا میں ایک اور ذریعہ پیدا کرسکتا ہوں۔
معروف یورپی تاریخ نویس بٹلر نے یہ ذریعہ تفصیل سے لکھا ہے اور مسلمان تاریخ دانوں نے بھی اسے اچھی طرح واضح کیا ہے۔
ذریعہ یہ تھا کہ جہاں یہ صحرا ختم ہونا شروع ہوتا تھا وہاں سے سبزہ زار کا آغاز ہوتا تھا اس درمیانی علاقے میں آبادیوں سے دور دور بدو قبائل رہتے تھے جو کسی حد تک خانہ بدوش تھے وہ ظاہری طور پر عیسائی تھے لیکن عیسائیت میں انہوں نے کچھ اپنے عقائد اور توہمات شامل کر رکھے تھے۔ ان کی اپنی ایک معاشرت تھی اور ان کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ تھا کہ وہ خونخوار قسم کے جنگجو تھے اور فن حرب و ضرب کو بھی سمجھتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے یوں سوچا تھا کہ یہ بدو قبائل ہاتھ میں آ جائیں تو انھیں ساتھ ملا کر اناج اور مویشیوں کی فراہمی کا کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ خوش اسلوبی سے کر لیں گے ۔
مویشیوں سے مراد بھیڑ بکری گائے اور اونٹ تھا انہیں ذبح کر کے لشکر کو کھلانا تھا۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦