⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 23👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➌➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ وباء کئی مہینے انسانی جانوں سے کھیلتی رہی اور پچیس ہزار مسلمانوں کی جان لے کر ٹلی جو سالار فوت ہوئے ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حارث بن حسام، سہیل بن عمرو، اور عتبہ بن سہیل، رضی اللہ تعالی عنہم خاص طور پر شامل ہیں ۔حارث بن ہشام کے خاندان کے ستر افراد اور حضرت خالد بن ولید کے خاندان کے چالیس افراد اس وباء میں فوت ہوگئے تھے۔
*ⲯ﹍︿اب آپ آگے پڑہیں︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
موجودہ دور کا مستند تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل (مصری) کئی ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھتا ہے کہ یہ وباء ویسے ہی نہیں آ گئی تھی، بلکہ اللہ نے مسلمانوں کو غلط راستے پر چل نکلنے پر خبردار کیا تھا۔ اس نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ان علاقوں میں بڑی لمبی جنگ ہوئی تھی جو بہت ہی خونریز تھی رومی فوج کی بے انداز لاشیں سارے علاقے میں پڑی گلتی سڑتی رہی تھیں، انہوں نے جراثیم پیدا کرکے فضا میں پھیلا دئے اور طاعون کی وباء پھوٹ پڑی پڑی۔
قدیم مؤرخین اس سبب کو تسلیم نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ یہ وباء شام سے نہیں بلکہ فلسطین کے ایک شہر عمواس میں سے اٹھی تھی اور یہ اللہ کا نازل کیا ہوا غضب تھا۔
اس داستان میں پہلے ذکر آیا ہے کہ رابعہ کے باپ نے اویس اور رابعہ سے کہا تھا کہ شام میں بعض مسلمانوں نے شراب اپنے اوپر حلال کر لی ہے اور وہ کھلم کھلا شراب پینے لگے ہیں، اویس اور رابعہ نے کہا تھا کہ یہ شخص مسلمانوں پر بےبنیاد الزام عائد کررہا ہے اور یہ اسلام سے نفرت کا اظہار ہے، لیکن رابعہ کا باپ الزام تراشی نہیں بلکہ سچی بات کہہ رہا تھا۔
ان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شام اسلامی سلطنت میں شامل ہوگیا تو عرب کے کئی خاندان شام کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہو گئے تھے، وہاں کی عیسائی آبادی مسلمانوں کی وفادار ہو گئی لیکن دل سے انہوں نے مسلمانوں کو قبول نہیں کیا تھا ،کچھ دانشمند عیسائیوں نے اس قسم کی نظریاتی تخریب کاری کی کہ کچھ مسلمانوں کو شراب کی طرف مائل کر لیا صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے یہ کام اپنی حسین اور جوان لڑکیوں کے ذریعے کیا ہوگا۔
ان مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں نے شراب نوشی سے روکا تو شراب نوش مسلمانوں نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں ۔۔۔۔۔کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے۔۔۔۔۔ یہ مسلمان کہتے تھے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ اپنے بندوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ شراب کو حلال سمجھیں یا حرام، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں کسی شراب نوش کو سزا نہیں دی گئی تھی۔
محمد حسنین ہیکل کچھ اور حوالوں سے لکھتا ہے کہ جب سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع ملی کہ کچھ مسلمانوں نے شراب نوشی شروع کر دی ہے تو انہوں نے اپنے طور پر تحقیقات کی ،ان کے آگے بھی وہی دلائل رکھے گئے کہ قرآن میں واضح طور پر شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا، ابو عبیدہ نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ سارا مسئلہ لکھ کر بھیجا اور ان کا فیصلہ مانگا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلامی دستور کے مطابق چند ایک صحابہ کرام کو مشورے کے لئے بلایا اور یہ مسئلہ ان کے آگے رکھا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ کوئی شخص شراب پیتا ہے تو وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے ۔ عقل و ہوش کھو جائے تو وہ شخص واہی تباہی بکتا ہے۔ جب واہی تباہی بکنے پر آتا ہے تو پھر کسی کو غلط قرار دیتا ہے۔ اللہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور قرآن کو بھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسرے صحابہ کرام کے مشورے سنکر جب حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی یہ بات سنی تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا شراب نوشی کی سزا اسّی (80)دُرّے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ کو لکھا کہ شراب پینے والوں کو اپنے سامنے حاضر کرو اگر وہ شراب کو حلال کہیں تو انہیں قتل کر دو، اور اگر وہ اقرار کریں کہ شراب حرام ہے تو انہیں اسیّ اسیّ دُرّے لگوائے جائیں۔
امیرالمومنین کا یہ حکم جب ابوعبیدہ تک پہنچا تو انہوں نے تمام شراب نوش مسلمانوں کو ڈھونڈ نکالا اور اپنے پاس بلوایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ شراب کو انہوں نے حلال کہا تو قتل کردیئے جائیں گے ۔
ابو عبیدہ نے سب سے پوچھا کہ شراب کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔
شراب حرام ہے۔۔۔۔۔ سب کے سب بیک زبان بولے۔
اے اہل اسلام!،،،،، تم پر اللہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوگی۔۔۔ ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ میں تم سب کو اسیّ اسیّ درّوں کی سزا دیتا ہوں، ان سب کو یہ سزا دی گئی اور اس کے بعد کسی مسلمان نے شراب سونگھنے کی بھی جرات نہ کی۔
ابو عبیدہ کے ان الفاظ سے کچھ تاریخ نویسوں نے تاریخ میں یہ غلط روایت ڈال دی ہے کہ ابو عبیدہ نے بددعا دی تھی کہ اللہ ان مسلمانوں پر اپنا غضب نازل کرے۔
اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ طاعون کی وباء ابو عبیدہ بد دعا کا نتیجہ تھی ۔
یہ روایت اس لیے بے بنیاد ہے کہ ابو عبیدہ بددعا دینے والی شخصیت تھے ہی نہیں ،اور وہ ایسی بددعا کبھی نہ دیتے جو چند ایک گنہگاروں کے ساتھ ہزارہا بے گناہوں پر بھی عذاب نازل کرتی، صرف یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ کچھ مسلمانوں نے شراب کو حلال قرار دے لیا تھا اور اللہ نے انہیں اس وباء کی صورت میں شدید جھٹکا دیا تھا کہ اللہ کے راستے پر واپس آجائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*بن سامر* ابھی تک بنیامین کے یہاں بیٹھا ہوا تھا کئی مہینے گزر گئے تھے ،بنیامین نے اینی کے ساتھ اس کی شادی کر دی تھی ،وہ کچھ کرنا چاہتا تھا ایک تو وہ فوجی تھا اور اس کا ذہن فراغت کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ کٹّر قبطی عیسائی تھا بلکہ اس پر عیسائیت ایک جنون بن کر طاری رہتی تھی ،وہ بنیامین کے خفیہ گروہ کا کارندہ تھا اور بنیامین اسے کوئی کام نہیں دے رہا تھا، وہ وجہ یہ بتاتا تھا کہ بن سامر بھگوڑا فوجی ہے اور دو سپاہیوں کو مار کر بھاگا ہے اور اس نے ایک لڑکی بھی اغوا کی ہے پکڑے جانے کی صورت میں اس کے لیے سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی ، بن سامر فراغت کی زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔
بنیامین نے ہرقل کے محل تک اپنے جاسوس پھیلا رکھے تھے، بن سامر بھی دراصل اس کا جاسوس ہی تھا ۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت ہرقل مصر میں نہیں بلکہ بزنطیہ میں تھا اور مصر پر حکمرانی کے فرائض مقوقس ادا کررہا تھا۔ مقوقس دراصل ہرقل کا باج گزار تھا۔ عملاً مصر کا بادشاہ ہرقل تھا اور جنگی امور اس کے ایک مشہور و معروف جرنیل اطربون کے ہاتھ میں تھے ،وہ دور دراصل فوج کا ہی دور تھا شام ہرقل کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور وہ اس کوشش میں تھا کہ شام پر دوبارہ قبضہ ہو جائے، اس کی زیادہ تر توجہ فوج کی ضروریات اور دیگر فوجی معلومات پر مرکوز رہتی تھی۔
ایک روز بنیامین کے پاس دو آدمی آئے جو اس کے جاسوس تھے وہ مصر کے دارالحکومت اسکندریہ میں رہے تھے اور کچھ عرصہ بزنطیہ میں گزار کر آئے تھے، بنیامین نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا خبر لائے ہیں۔ جاسوس نے بتایا کہ ہرقل کے دماغ پر شام سوار رہتا ہے اور وہ جلدی سے جلدی شام پر فوج کشی کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے ،اس نے اُس وقت عرب پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا، جب وہاں قحط کا دور دورہ تھا لیکن مشیروں نے اسے روک دیا اور جواز یہ پیش کیا کہ قحط صرف عرب میں ہے شام میں نہیں اور مسلمانوں کے لشکر شام میں ہیں اگر رومی فوج عرب میں داخل ہوں گی تو شام سے مسلمان لشکر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیں گے اور اس کا انجام بہت برا ہوگا۔
جاسوسوں نے بتایا کہ جب شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور وہاں موت کا راج قائم ہو گیا تو بھی ہرقل نے شام پر حملے کا ارادہ کرلیا تھا اگر ہرقل اپنے مشیروں کے مشورے مان لیتا تو وہ فوج کو ساتھ لے کر شام جا دھمکتا ،لیکن اس کے اسقف اعظم قیرس نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اس نے شام میں فوج داخل کی تو فوج میں طاعون پھیل جائے گی اور اتنی زیادہ جانیں ضائع ہو جائیں گی کہ سوائے پسپائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مرنے کے رومی فوج کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
قیرس نے دوسرا خطرہ یہ ظاہر کیا کہ مصر سے اپنی فوج شام چلی گئی تو مصر میں قبطی عیسائی اور دوسرے فرقوں کے عیسائی جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے خلاف ہیں بغاوت کر دیں گے اور جو تھوڑی سی فوج مصر میں ہوگی وہ اس بغاوت پر قابو نہیں پا سکے گی، اس بغاوت کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے کہ شام ہاتھ نہ آئے اور مصر ہاتھ سے نکل جائے۔
جاسوسوں نے یہ بھی بتایا کہ مقوقیس ،ہرقل اور اطربون کو اس بات پر قائل کر رہا ہے کہ شام میں عیسائی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دیں اور وہاں اپنے تخریب کار بھیجے جائیں، مقوقس کا یہ مشورہ ہرقل اور اطربون کے پیش نظر ہے انہوں نے اس مشورے کو پسند تو کیا لیکن اس پر عملدرآمد کی کوئی بات نہیں کی۔
اس دور میں شام میں غالب اکثریت آبادی عیسائی قبائل کی تھی اور یہ تمام قبائل جنگجو تھے، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان قبائل نے ایک بار بغاوت بھی کی تھی لیکن اس پر قابو پالیا گیا تھا بہرحال شام بغاوت کرنے کی پوزیشن میں تھے۔
قیرس کو بجا طور پر خطرہ نظر آ رہا تھا کہ مصر میں قبطی عیسائی بغاوت کر دیں گے کیونکہ اسے اپنا وہ ظلم و تشدد اور درندگی یاد تھی جو اس نے مصر کے عیسائیوں پر کی تھی اسے بھی معلوم تھا کہ جب بھی موقع ملا عیسائی اس کے اور ہرقل کے خلاف ہی اٹھیں گے۔
تاریخ کہتی ہے کہ ہرقل حملے کا ارادہ تو کرتا تھا لیکن شش و پنج میں پڑا رہتا تھا، اگر وہ اس وقت شام پر چڑھائی کر دیتا جب طاعون مسلمانوں کو چاٹ رہی تھی تو مسلمانوں کے لئے مشکل پیدا ہوجاتی مسلمانوں کے لشکر طاعون کی نظر ہو رہے تھے اور چیدہ چیدہ سپہ سالار بھی فوت ہوتے جارہے تھے۔
یہ تو اس کے اسقف اعظم قیرس نے اسے خبردار کردیا تھا کہ شام میں فوج داخل کی تو وباء اپنی فوج میں بھی پھیل جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اُس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے مشیران کرام شدید پریشانی کے عالم میں تھے ایسے خوفناک قحط کے بعد وباء، دو ایسی چوٹیں تھیں جو بڑے بڑے جابر بادشاہوں کے گھٹنے ٹیک دیا کرتی ہیں۔
ایوان خلافت جنگ جیسی صورتحال کے ساتھ نپٹنے کے لیے تیار نہیں تھا ،لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ رومی چڑھائی کر دیتے تو مسلمان گھٹنے ٹیک دیتے۔
اس سے پہلے امت مسلمہ کے سامنے ایک مثال موجود تھی۔ یہ کوئی ماضی بعید کی بات نہیں تھی بلکہ چند ہی سال پہلے کا ایک حادثہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیج کر ایک محاذ کھول دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ایک دو اور صحابہ کرام نے ان کی اس کارروائی پر حیرت اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امت پر اس قدر شدید چوٹ پڑی ہے جس سے پوری امت غم میں ڈوب گئی ہے اس صورتحال میں نیا محاذ کھولنا دانشمندی نہیں۔
ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہم اگر غم میں ڈوبے رہ گئے تو کفار یہ تاثر لیں گے کہ اب مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں رہے، اس کے فوراً بعد ہوا بھی یہی ارتداد کا ایسا فتنہ اٹھا جس نے ایک خطرناک اور طویل جنگ کی صورت اختیار کرلی۔
کئی رسول اٹھے اور مجاہدین اسلام نے دین کے ان دشمنوں کو ان کے خون میں ڈبو کر ثابت کردیا کہ اللہ کا یہ دین ہمیشہ زندہ و پائندہ رہنے کے لیے آیا ہے اور مسلمان اس کی آن اور شان پر ہر صورت حال میں جان قربان کرتے رہیں گے۔
ایمان مضبوط ہو دل میں اللہ کے نام کی محبت اور اللہ کی خوشنودی ہو تو اللہ ایسے معجزے کرکے دکھا دیتا ہے کہ بندے حیرت زدہ ہو کے رہ جاتے ہیں۔
یہاں کسریٰ ایران کے خلاف جنگ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ، جسکا بیان بے محل نہ ہوگا، کسریٰ ایران کی طاقتور فوجیں اپنے علاقے مسلمانوں کو دیتی پسپا ہوتی جا رہی تھیں۔ اور یہ اس جنگ کا آخری اور عروج کا دور تھا۔ اس وقت کسریٰ ایران یزدگرد تھا ۔ اس کی فوج خوزستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھی اور کسریٰ کے بڑے بڑے نامور جرنیل مجاہدین اسلام کے سیلاب کو روکنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے ۔
امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ تاریخ ساز سپہ سالار ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو اس محاذ پر بھیج دیا۔
یہاں ہم خوزستان کے سارے محاذ اور معرکے بیان نہیں کریں گے بس مختصراً اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔
کسریٰ ایران کا ایک بڑا ہی تجربے کار اور زبردست جرنیل ہرمزان تھا جو ایران کے شاہی خاندان کا فرد تھا اسے قوت و اقتدار کا سردار کہا جاتا تھا، اس نے کسریٰ ایران یزدگرد کے آگے یہ شرط رکھی کہ اسے خوزستان کا مرکزی شہر اہواز اور فارس کا کچھ حصہ اس کی حکومت میں دے دیا جائے تو وہ مسلمانوں کے سیلاب کو نہ صرف روک دے گا بلکہ اسے یہیں سے پیچھے دھکیل دینے میں پوری پوری مدد کرے گا ۔
یزدگرد نے اسی وقت فرمان جاری کر دیا کہ یہ دو علاقے ہرمزان کو عطا کر دیے گئے ہیں۔
ہرمزان نے کسریٰ سے جتنی فوج مانگی اتنی ہی دے دی گئی کہ فوج نفری کے لحاظ سے اور اسلحے کے لحاظ سے بھی اس وقت کی بڑی ہی طاقتور فوج تھی، ہرمزان فوراً اس فوج کے ساتھ کوچ کرگیا اور ایران کے ایک بہت بڑے شہر قستر میں جا پہنچا ۔ یہ ایرانی فوج کی بہت بڑی چھاؤنی تھی اور وہاں شاہی محلات بھی تھے۔
ہرمزان نے اس شہر کی بیرونی دیوار اور قلعے مزید مستحکم کرنے کے لئے مرمت کروائی اور کچھ اضافے بھی کیے شہر کے ارد گرد خندق بھی کھدوا دی اس نے یہ کام شب و روز کی محنت سے بہت جلدی مکمل کرلیا۔ پھر اس نے شہر کے ارد گرد کے علاقے کے سرکردہ افراد کو بلایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور کہا کہ مسلمان جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کی لڑکیوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ اس طرح اس نے ان لوگوں کے خون کو گرما کر کہا کہ لوگوں کو لڑنے کے لئے تیار کریں اور انھیں شہر کے اندر لے آئیں۔
علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسنین ہیکل مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے لکھتے ہیں کہ چند دنوں میں ہی لوگوں کا ایک جم غفیر شہر میں آگیا ۔
ہرمزان نے ان سے خطاب کیا اور ایسی باتیں کیں کہ ہر فرد آگ بگولا ہو گیا ۔
لڑنے والے لوگ ابھی تک چلے آ رہے تھے یہ ہنگامہ خیز سلسلہ مسلمانوں سے چھپا نہ رہ سکا اور اس کی اطلاع سپہ سالار ابوموسی کو ملی انہوں نے فوراً ایک تیز رفتار قاصد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اس پیغام کے ساتھ مدینہ بھیجا کہ صورت حال ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ کمک کی شدید اور بہت جلد ضرورت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو جو اس وقت کوفہ میں تھے پیغام بھیجا کہ اپنی آدھی فوج لے کر ابوموسی کے پاس پہنچ جائیں ، دوسرا پیغام جریر بجلی کو بھیجا کہ وہ اپنا ادھا لشکر لے کر ابوموسی کی مددکوپہنچیں۔
یہ دونوں لشکر پہنچنے تک ہرمزان اپنا قلعہ اور شہر کا دفاع تیار کرچکا تھا کمک بروقت ابوموسیٰ تک پہنچ گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہرمزان کے پاس بہت بڑی فوج تھی جس کے بل بوتے پر اس نے شہر میں محصور ہو کر لڑنا بہتر نہ سمجھا اس کی بجائے باہر نکل کر حملہ کیا۔
ابو موسی نے دائیں پہلو پر برار بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو رکھا اور دائیں پہلو پر براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ کو رکھا۔
یہ دونوں سالار دلیری اور شجاعت میں خاص شہرت رکھتے تھے دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا یہ ایک خونریز معرکہ تھا مجاہدین اسلام کی تعداد دشمن کی نسبت نصف تھی لیکن انہوں نے ہرمزان کی حملہ آور فوج کو پیچھے دھکیل دیا۔
آخر ہرمزان کی فوج کچھ تو کٹ مری اور باقی شہر کے کھلے دروازوں میں داخل ہونے لگی، مسلمان تعاقب میں تھے۔
ہرمزان کی دلیری کا یہ عالم کہ جرنیل ہوتے ہوئے وہ سپاہیوں کی طرح لڑ رہا تھا اسے سب سے پہلے قلعے میں چلے جانا چاہیے تھا لیکن وہ قلعے کے دروازے پر کھڑا رہا۔
سالار برار بن مالک دروازے تک پہنچ گئے اور ان کا سامنا ہرمزان سے ہوا دونوں میں تیغ زنی ہوئی۔ آخر ہرمزان نے برار کو شہید کردیا۔
اس کے بعد اپنے ایک اور سالار مخراۃ بن ثور رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ہرمزان نے ان کا راستہ روک لیا۔ یہ سالار نامی گرامی شہسوار اور تیغ زن تھے ۔انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہرمزان نے برار کو قتل کردیا ہے وہ انتقام لینے کو آگے بڑھے اور ہرمزان پر جھپٹے لیکن ہرمزان نے تیغ زنی کے وہ مظاہرے کئے کہ مخراۃ بن ثور کو چکرا دیا اسلام کے یہ شہسوار سالار تیغ زنی میں کم نہ تھے لیکن ہرمزان نے انہیں بھی شہید کر دیا۔
ہرمزان اپنی باقی ماندہ فوج کو قلعے کے اندر لے جانے میں کامیاب ہو گیا اور شہر کے دروازے پھر بند ہو گئے۔
تاریخ کے مطابق پیچھے یعنی شہر کے باہر ایرانی فوج کی ایک ہزار سے زائد لاشیں پڑی تھی اور چھے سو ایرانی فوجیوں کو پکڑ لیا گیا تھا۔
اس کے بعد ہرمزان نے باہر آکر لڑائی نہ لڑی، اور قلعہ بند ہو کر لڑتا رہا دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور پھر مہینے گزرنے لگے ہرمزان نے شہر کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔
ایک روز مجاہدین اس محصور شہر کے ایک ایرانی شہری کو پکڑ لائے وہ ضد کر رہا تھا کہ اسے مجاہدین اپنے سپہ سالار سے ملوا دیں۔
آخر اسے ابو موسی کے پاس لے گئے اس ایرانی نے بتایا کہ وہ ایک ایسے راستے سے باہر نکلا ہے جس کا عام شہریوں کو علم نہیں، اس نے کہا کہ وہ ابوموسی کو شہر میں داخل ہونے کے لئے یہ راستہ بتا سکتا ہے اور اس کے عوض وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے خاندان کے ایک سو افراد کی جان بخشی کی جائے اور اس کے خاندان کی کسی لڑکی کو اپنے قبضے میں نہ لیا جائے۔
سپہ سالار ابوموسیٰ نے اسے کہا کہ مسلمانوں کا کردار ہی یہی ہے کہ وہ کسی لڑکی کو اپنے قبضے میں نہیں لیا کرتے ،اور جو عورتیں مسلمانوں کے پاس آتی ہیں وہ ایک اور صورت حال ہوتی ہے۔ پھر ابوموسی نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ کامیابی کی صورت میں نہ صرف اس کے خاندان کے ایک سو افراد کو اپنی حفاظت میں لے لیں گے بلکہ اس کے اپنے کنبے کی کفالت بھی اپنے ذمے لے لیں گے۔
اس آدمی نے کہا کہ پہلے اس کے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیجا جائے جسے وہ شہر سے واقف کرا دے۔
ابوموسی نے ایک بڑے ہی دلیر اور عقلمند مجاہد اسرس بن عوف شیبانی کو اس کے ساتھ کر دیا۔
اس ایرانی نے کہا کہ اسرس کو نوکروں یعنی غلام والا لباس پہنایا جائے تاکہ شہر میں کوئی اسے پہچان نہ سکے کہ یہ مسلمان ہے ۔ اسے فوراً وہ لباس پہنایا گیا اور حلیہ تبدیل کردیا گیا۔ ایرانی اسرس کو اسی رات اپنے ساتھ لے گیا۔
اس علاقے میں دریا کی کئی شاخیں نکلتی تھیں جنہیں نہر کہا جاتا تھا۔
جب قستر کا یہ قلعہ تعمیر ہوا تھا تو اس وقت کے بادشاہ نے اسے ایسے تعمیر کرایا کہ ایک نہر اس کے بالکل قریب سے گزرتی تھی اس نہر سے ایک شاخ نکال کر اس شہر کے نیچے سے گزاری گئی تھی کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نیچے سے ایک نہر گزرتی ہے ۔ یہ نہر ایک سرنگ میں گزار دی گئی تھی۔ قریب سے دیکھنے والے کو یہی پتہ چلتا تھا کہ یہ نہر زمین کے نیچے شہر کے اندر جاتی ہے ۔ شہر کے اندر اس میں سے چشمے نکالے گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسرس ایرانی شہری کی رہنمائی میں کچھ دور سے نہر میں اترا، اور ایرانی اسے شہر کے اندر لے گیا جہاں سے ابھرنا تھا وہاں سے دونوں باہر آئے ،ایرانی اس مجاہد کو اپنے گھر لے گیا کپڑے خشک کرائے اور پھر اس کا حلیہ غلاموں جیسا بنایا اس کے سر پر کمبل ڈالا اور کہا کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے شہر میں گھومے پھرے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ یہ ایرانی عقل و ہوش والا آدمی لگتا تھا اس نے اسرس سے کہا کہ صرف دو سو آدمی یہ شہر لے سکتے ہیں ،اسرس کا اندازہ بھی یہی تھا۔
رات کے وقت اسرس جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے باہر چلا گیا اور اپنے سپہ سالار ابو موسی کو بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیا ہے، اور یہ بھی کہا کہ صرف دو سو بہت ہی دلیر اور پھرتیلے مجاہدین دیے جائیں تو وہ اس اتنے بڑے شہر کو فتح کر سکتا ہے۔ سپہ سالار ابوموسیٰ نے دو سو مجاہدین منتخب کیے اور انہیں اس کے حوالے کردیا ۔اسرس نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ شہر میں کس طرح داخل ہونا ہے اور اندر جا کر کیا کرنا ہے۔ اگلی رات مجاہدین کا یہ جیش اسرس کی قیادت میں چل پڑا اور اسرس انہیں اسی راستے سے اندر لے گیا جس راستے سے وہ خود گیا تھا۔
ان دو سو مجاہدین نے دروازے کے اندر جتنے پہرے دار موجود تھے قتل کر ڈالے اور پھر اوپر برجوں میں چلے گئے کسی کو پتہ ہی نہیں چل سکا کہ شہر کے اندر پہرے دار مارے جارہے ہیں، برجوں کے اندر ہی مجاہدین نے بکھر کر بہت سے ایرانی فوجیوں کو مار ڈالا پھر ان مجاہدین نے جو پہرے داروں کو مارنے کے بعد دروازوں پر موجود رہے تھے دروازے کھول دیے، برج پر ایک مجاہد جا چڑھا اور بڑی بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
ابوموسی اسی اشارے کے منتظر تھے انہوں نے شہر پر ہلہ بولنے کا حکم دیا لشکر سیلاب کی طرح دروازوں پر ٹوٹ پڑا اور اندر داخل ہو گیا، ایرانی تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان پر یہ آفت نازل ہو سکتی ہے، وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ان کا قتل عام شروع ہوگیا۔
یورپی مورخ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرمزان اور اس کے سرداروں نے فوجیوں اور دیگر لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں وہاں کی لڑکیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کر کے اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ بٹلر لکھتا ہے کہ ایرانیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان شہر میں داخل ہوگئے ہیں تو کئی ایک لوگوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو قتل کرکے نہر میں پھینکنا شروع کر دیا ،مجاہدین کو جلدی پتہ چل گیا انہوں نے لڑکیوں کا یہ قتل عام فوراً رکوا دیا۔
اس وقت ہرمزان اپنے محل میں تھا وہ وہاں سے بھاگا اور ایک برج میں جا پہنچا۔
بٹلر لکھ نے لکھا ہے کہ ہرمزان نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور مشیروں سے کہا معلوم ہوتا ہے عربوں کو کسی نے نہر والا خفیہ راستہ بتا دیا ہے ،اور یہ ہمارا کوئی اپنا ہی آدمی ہو سکتا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عربوں کا ستارہ عروج پر ہے اور ہمارا ستارہ ڈوب چکا ہے۔
یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں ڈالنے والے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ شہریوں میں تو قیامت بپا ہوگی انہیں یہ تو معلوم ہی نہ تھا کہ دروازے کس طرح کھلے ہیں، شہریوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ہرمزان لوگوں کو یہ یقین دلاتا رہا ہے کہ یہ شہر اور اسکا قلعہ ناقابل تسخیر ہے لیکن خود ہی دروازے کھلوا دیے ہیں،،،،،، شہریوں کا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے ہرمزان اور اپنی فوج کے خلاف باتیں شروع کردیں اور کہا کہ وہ ہرمزان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کریں گے۔
کسی نے اسی ردعمل کے تحت مجاہدین اسلام کو بتا دیا کہ ہرمزان فلاں برج میں موجود ہے۔ مجاہدین وہاں اسے گرفتار کرنے کو گئے تو ہرمزان سامنے کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں کمان اور کندھے کے ساتھ ترکش بندھی ہوئی تھی، اس نے ایک تیر کمان میں ڈال رکھا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اب دن روشن ہوچکا تھا۔ ہرمزان کو للکار کر کہا گیا کہ وہ اپنے آپ کو مجاہدین کے حوالے کر دے۔
میری ترکش میں ایک سو تیر ہیں ۔۔۔۔تاریخ میں اس کے یہ الفاظ آئے ہیں جو اس نے مجاہدین سے کہے تھے۔ جب تک میرے پاس ایک تیر بھی باقی رہے گا تم مجھ تک نہیں پہنچ سکو گے ،یہ بھی سوچ لو کہ میرا کوئی تیر کبھی خطا نہیں گیا، اپنے ایک سو آدمی مجھ سے مروا کر مجھے گرفتار کرو گے تو تمہیں کوئی خوشی تو نہیں ہوگی۔
سپہ سالار ابوموسی کو اطلاع دے دی گئی وہ بھی آ گئے انہوں نے بھی اسے کہا کہ وہ کمان اور ترکش پھینک دے۔
میں جانتا ہوں کہ لڑتے ہوئے پکڑا گیا تو تم مجھے قتل کر دو گے۔۔۔ ہرمزان نے کہا۔۔۔ میرے سامنے ایک راستہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ صلح کرلوں اور اپنا آپ تمہارے حوالے کردوں لیکن میں کچھ اور چاہتا ہوں۔
تم کچھ اور چاہنے کے حق سے محروم ہوچکے ہو ۔۔۔ابو موسی نے کہا۔۔۔ یہ شہر اب ہمارا ہے لیکن یہ دکھانے کیلئے کہ مسلمان کا کردار کیا ہے میں تم سے پوچھتا ہوں کیا چاہتے ہو۔
مجھے اپنے خلیفہ عمر (رضی اللہ عنہ )تک پہنچا دو۔۔۔ ہرمزان نے کہا ۔۔۔وہ میرے ساتھ جو بھی سلوک چاہیں کریں مرنے سے پہلے میں تمہارے خلیفہ سے ملنا چاہتا ہوں۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے احکام کچھ ایسے تھے جن کی خلاف ورزی کی جرات کوئی بڑے سے بڑا سپہ سالار بھی نہیں کر سکتا تھا ،ان میں ایک حکم یہ تھا کہ دشمن کا کوئی آدمی امیرالمومنین سے ملنے کی خواہش کرے تو اس کی خواہش پوری کی جائے۔ ہرمزان تو بہت بڑی شخصیت تھا اور وہ قوت اور اقتدار کا سردار تھا۔
سپہ سالار ابو موسی نے اسے کہا کہ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی جائے ۔
ہرمزان کو غالبا یہ معلوم تھا کہ مسلمان اپنی زبان کے پکے ہوتے ہیں اور وعدہ پورا کرتے ہیں اس نے ابو موسیٰ کی بات سنتے ہی اپنی کمان اور ترکش ابوموسی کے آگے پھینک دی۔ جنگی قائدے اور قانون کے مطابق ابوموسی کے حکم سے ہرمزان کے ہاتھ رسی سے پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ تھا آخر جنگی قیدی تھا۔
ابو موسی نے اپنے لشکر کے دو ذمہ دار افراد انس بن مالک اور اخنف بن قیس رضی اللہ عنھا کو یہ فرض سونپا کہ وہ ہرمزان کو اسی طرح قیدی کی حیثیت سے مدینہ امیرالمومنین کے پاس لے جائیں۔
ہرمزان کی یہ خواہش بھی منظور کرلی گئی کہ وہ اپنی شاہی پوشاک اور دیگر سازوسامان بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔
اس شہر سے جو مال غنیمت حاصل ہوا تھا اس میں سے بیت المال کا حصہ الگ کرکے انس اور اخنف کے حوالے کردیا گیا کہ یہ بھی مدینہ اپنے ساتھ لیتے جائیں، اس طرح ان کے ساتھ اونٹوں کا اچھا خاصا قافلہ تیار ہو گیا اونٹوں پر مال غنیمت اور ہرمزان کا سازوسامان تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ قافلہ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو ہرمزان نے قافلہ رکوا لیا، اور اس نے اپنا حلیہ بدلہ اس کی تفصیل تاریخ میں ان الفاظ میں آتی ہے۔
ہرمزان نے زرکار پوشاک زیب تن کی، موتیوں اور جواہر سے مرصع تاج جو آذین کے لقب سے مشہور تھا سر پر رکھا اور خالص سونے کا عصائے شاہی جس میں موتی اور یاقوت جڑے ہوئے تھے ہاتھ میں لیا کہ حضرت عمر اور اسلامی دارالخلافہ کے باشندے وہ شان و شوکت دیکھیں جو امرائے عجم کا شعار ہے۔
یہ قافلہ جب مدینہ میں داخل ہوا تو لوگ حیرت و استعجاب سے ہرمزان کو دیکھنے لگے اس کی پوشاک اور زیب و زیبائش مدینہ کے لوگوں کے لئے بالکل ہی نئی چیز تھی۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی طرف لے جارہے تھے تو تماشائیوں میں سے کسی نے کہا کہ حضرت عمر اس وقت مسجد میں ہیں، یہ بھی پتہ چلا کہ کوفہ سے کوئی وفد آیا تھا جو امیرالمومنین سے مسجد میں ملاقات کر کے چلا گیا ہے لیکن امیرالمومنین ابھی مسجد میں ہی ہیں۔
انس اور احنف ہرمزان کو مسجد میں لے گئے لیکن مسجد بالکل خالی تھی، تاریخ میں آیا ہے کہ تین چار لڑکوں نے ایک طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ حضرت عمر مسجد کے ایک کونے میں سوئے ہوئے ہیں، ہوا یوں تھا کہ کوفہ کا وفد چلا گیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو چغہ پہن رکھا تھا وہی اتار کرکے مسجد کے ایک کونے میں جا کر سر کے نیچے رکھا اور سو گئے۔
ہرمزان کے جوتے باہر اتروا لیے گئے اور اسے مسجد کے اندر لے گئے دیکھا کہ حضرت عمر بڑی گہری نیند سوئے ہوئے تھے انس اور احنف ہرمزان کو ساتھ لئے الگ بیٹھ گئے تاکہ حضرت عمر کی آنکھ نہ کھلے۔
مشہور تاریخ دان نویس علامہ طبری اور ابن کثیر نے اس ملاقات کی تفصیلات لکھی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ مسجد میں کچھ اور لوگ بھی آنے لگے اور بیٹھتے چلے گئے آخر مسجد میں اتنے لوگ اکٹھا ہوگئے کہ کسی اور کے کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہ رہی، اس طرح خاموشی برقرار نہ رکھی جاسکی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ہرمزان کے مابین گفتگوی ہونی تھی اس لئے ایک ترجمان موجود تھا یہ ترجمان مشہور صحابی حضرت حجر بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے، ہرمزان کو بتایا گیا تھا کہ وہ جو بات کرنا چاہے حضرت حجر کے ساتھ کرے اور یہ اس کی بات عربی زبان میں امیرالمومنین تک پہنچائیں گے، ابھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سوئے ہوئے تھے تو ہرمزان کچھ حیران سا ہو رہا تھا کہ ان کا خلیفہ کہا ہے ؟،،،،اور نہ جانے کب آئے۔
تمہارا خلیفہ عمر کہاں ہے؟،،، ہرمزان نے حجرہ بن شعبہ سے پوچھا۔
وہ تمہارے سامنے سوئے ہوئے ہیں۔۔۔ حجر نے فارسی زبان میں جواب دیا۔
ہرمزان کے چہرے پر حیرت کا بڑا گہرا تاثر آ گیا اور اس نے اپنا سر جھکالیا کچھ دیر بعد سر اٹھایا ،حضرت عمر کی طرف دیکھا پھر حجرہ بن شعبہ کی طرف دیکھنے لگا۔
یقین نہیں آتا یہ تمہارا خلیفہ ہے ۔۔۔ہرمزان کہا۔۔۔ میں نے کوئی دربان نہیں دیکھا اور کوئی محافظ پیادہ یا سوار دستا مسجد کے باہر نظر نہیں آیا یہاں تو پورا محافظ دستہ ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے خلیفہ کا محافظ اللہ ہے ۔۔۔حجرہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔ہمارے یہاں دربان اور محافظ اس طرح نہیں ہوتے کہ خلیفہ جہاں جائیں وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔
اس ایرانی جرنیل ہرمزان نے وہ الفاظ کہے جو آج تک تاریخ کے دامن میں موجود ہے۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔۔ اس شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ پیغمبر نہیں تو اس کے اعمال و افعال پیغمبروں جیسے ہی ہیں۔
مسجد لوگوں سے بھر گئی تھی جنھیں خاموش نہ رکھا جا سکا اور ہرمزان نے بھی باتیں شروع کردی تھی جن سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ کھل گئی وہ انس اور احنف کو دیکھ کر بڑی تیزی سے اٹھے، وہ ایران کے محاذ کی پوزیشن معلوم کرنا چاہتے تھے لیکن ایک بادشاہوں جیسا آدمی ان کے ساتھ دیکھ کر حضرت عمر نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا؟
یہ ایرانی فوج کا بہت بڑا سپہ سالار ہے۔۔۔ انس بن مالک نے حضرت عمر کو بتایا۔۔۔ شاہی خاندان کا فرد ہے۔
امیرالمومنین کو بتایا گیا کہ اسے کس طرح پکڑا گیا ہے پھر یہ بتایا کہ یہ امیرالمومنین سے ملنے کی خواہش رکھتا تھا۔
میں جہنم کی آگ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہرمزان کے طمطراق کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اسلام کے مقابلے میں ذلیل و خوار کیا ہے، حضرت عمر مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوئے۔ ائے مسلمانوں!،،،،،، اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرو دنیا کی ان دلفریبیوں میں نہ آؤ جس طرح ایران کا یہ شخص آیا ہوا ہے، یاد رکھو دنیا کے جاہ و جلال میں سوائے دھوکے کے کچھ بھی نہیں۔
یا امیرالمومنین!،،،،، احنف بن قیس نے کہا..... اس کی بات سنیں یہ آپ کی ملاقات کا خواہشمند تھا۔
نہیں !،،،،،حضرت عمر نے کہا ،،،،،جب تک اس کے بدن پر اس لباس کا ایک دھاگہ بھی باقی ہے میں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کروں گا اسے پہلے وہ لباس پہناؤ جو ہم اور تم جیسے لوگ پہنتے ہیں۔
حجرہ نے اسے بتایا کہ امیرالمومنین نے کیا حکم دیا ہے اور اسے فوری طور پر حکم کی تعمیل کرنی پڑے گی، اسے کھڑا کر دیا گیا اور دو آدمیوں نے اس کی شاہانہ پوشاک اتار دی اور صرف زیر جامہ رہنے دیا ۔ایک آدمی دوڑا گیا اور اسے پہنانے کے لئے موٹے اور بڑے ہی معمولی کپڑے کا لباس لے آیا جو ہرمزان کو پہنا دیا گیا۔
ہرمزان!،،،، حضرت عمر نے اسے کہا ۔۔۔۔کیا تجھے حق اور باطل کا فرق معلوم ہوا ہے یا نہیں ،کیا تو نے حکم الہٰی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیا اور پھر اس حکم عدولی کا نتیجہ نہیں دیکھا۔
اے عمر !،،،،ہرمزان نے بڑی جرات سے کہا،،،،، جاہلیت کے زمانے میں بھی ہم اور تم ٹکرائے تھے اور ہم تم پر غالب آئے تھے ایسا صرف اس لیے ہوا کہ اللہ نہ تمہاری طرف تھانہ ہماری طرف لیکن اب اللہ تمہارے ساتھ ہو گیا ہے اور تم ہم پر غالب آ گئے ہو۔
حضرت عمر نے اس موقع پر محسوس کیا کہ حجرہ بن شعبہ ترجمانی ٹھیک طرح نہیں کر رہے ،تاریخ میں آیا ہے کہ حجرہ فارسی زبان میں مہارت نہیں رکھتے تھے ،حضرت عمر نے حضرت زید بن ثابت کو بلوایا ، وہ فارسی بڑی اچھی طرح سمجھتے اور روانی سے بولتے تھے۔
تو ایک بات نہیں سمجھ سکا ہے ایرانی سپہ سالار ۔۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ تم اس جاہلیت کے زمانے میں ہم پر صرف اس لیے غالب آئے تھے کہ تیرے ہاں اتحاد تھا اور ہم پراگندہ خیال اور بکھرے ہوئے لوگ تھے ،اب سوچ کہ تیری قوم کو ہم جو شکست پر شکست دیے چلے جا رہے ہیں اس کا سبب کیا ہے۔
حضرت عمر کے بولنے کے انداز میں غصہ صاف نظر آ رہا تھا جیسے اس شخص سے انہیں شدید نفرت ہو وہ تو ہونی ہی تھی اس شخص کی فوج نے ہزاروں مجاہدین اسلام کو شہید کیا تھا اور اب شکست کھا کر آیا تو بڑی شان سے شاہانہ لباس پہن کر آیا ،ہرمزان تجربے کار اور انسان شناس آدمی تھا وہ حضرت عمر کے مجاز کو دیکھ کر ان کا ارادہ سمجھ گیا۔
ائے عمر!،،،،،ہرمزان نے کہا ۔۔۔ میں جانتا ہوں تم مجھے قتل کر دو گے ۔
موت سے نہ ڈرو۔۔۔۔ حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں میں کیا کروں گا اور اللہ مجھ سے کیا کروائے گا۔
ہرمزان نے پانی مانگا اور کہا کہ وہ پیاس سے مر رہا ہے۔
امیر المومنین کے حکم سے اس کے لیے پانی لایا گیا لیکن پانی لانے والے نے غالبا یہ سوچا کہ امیرالمؤمنین نے اس کی شاہانہ پوشاک اتروا کر موٹے کپڑے کا لباس پہنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل و خوار کرنا ہے، چنانچہ یہ شخص ہرمزان کے لئے ایک گھٹیا سے پیالے میں پانی لایا۔
اے مسلمانوں کے خلیفہ ہرمزان نے کہا۔۔۔ اگر میں پیاس سے مر بھی جاؤں تو بھی اس پیالے میں پانی نہیں پیوں گا۔
حضرت عمر کے حکم سے بڑے ہی اچھے پیالے میں پانی لایا گیا ہرمزان پانی پینے لگا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔
اے عمر!،،،،،،ہرمزان نے کہا۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ میں جوں ہی پانی پی چکا ہوںگا مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
یہ ڈر دل سے نکال دے حضرت عمر نے کہا جب تک تو پانی نہ پی لے گا تجھے قتل نہیں کیا جائے گا۔
ہرمزان نے حضرت عمر کی یہ بات سن کر پانی پیے بغیر پیالہ ایک طرف رکھ دیا اس کے بعد امیرالمومنین اور ہرمزان میں جو گفتگو ہوئی اس میں ترشی اور سخت کلامی پیدا ہوگئی اس حد تک کہ احنف بن قیس اور انس بن مالک کو دخل اندازی کرنی پڑی۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی