⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 3👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➌⓿】デ۔══━一

اب ہم ہرقل کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ کیا بتاتی ہے کہ وہ شام سے کس طرح بھاگا تھا۔
اسے اپنی طاقت پر اس قدر ناز تھا کہ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کی بادشاہی کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔
اور روم کی سلطنت وسیع ہوتی چلی جائے گی ۔
لیکن مسلمانوں نے اس کے لیے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ وہ پیچھے ہٹتا ہوا جس شہر میں پہنچتا وہاں مسلمان پہنچ جاتے۔
اور اس شہر کو محاصرے میں لے لیتے تھے۔
آخر وہ انطاکیہ کے قلعہ بند شہر میں جا پہنچا لیکن ابو عبیدہ نے اسے وہاں بھی بیٹھنے نہ دیا آخر وہ چھوٹے سے ایک شہر رہاء پناہ گزین ہوا ۔
ایلفرڈ بٹلر لکھتا ہے کہ اسے توقع تھی کہ وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو وہاں یکجا کر لے گا اور مسلمانوں کا جم کر مقابلہ کرے گا ۔
ہوسکتا ہے وہ مسلمانوں کو شکست دے دے لیکن وہ جدھر بھی پیغام بھیجتا تھا ادھر سے کوئی جواب آتا ہی نہیں تھا۔
اور اگر جواب آتا بھی تھا تو وہ مایوس کن ہوتا تھا اسلام کے عظیم سپہ سالاروں نے رومیوں کی بکھری ہوئی فوج کے مطابق اپنی فوج کو بھی تقسیم کر دیا تھا اور رومیوں کے لیے ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ اپنی فوج کو کسی ایک مقام پر یکجا کر لیتے۔
ہرقل نے رہاء میں قیام کیا۔
اس کا شاہی خاندان اس کے ساتھ تھا دو جوان بیٹیاں تھیں، اور بیویوں کی تعداد بھی خاصی تھی، وہ بیویاں تو برائے نام تھی سب داشتائیں تھیں ،اس کے علاوہ تمام تر شاہانہ لوازمات اس کے ساتھ تھے اس حالت میں بھی وہ فرعون جیسا بادشاہ تھا ۔
اس نے دربار منعقد کیا جیسا وہ کیا کرتا تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس نے بڑے ہی قابل جوتشی اور نجومی اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔
مسلمان اپنے اللہ پر یقین رکھتے تھے اور اس کی خوشنودی کی خاطر لڑتے اور جانیں قربان کرتے تھے۔
لیکن ہرقل اگلا قدم اٹھانے سے پہلے جوتشوں اور نجومیوں سے پوچھتا تھا کہ اسے یہ قدم اٹھانا چاہیے یا نہیں اور اگر اٹھانا ضروری ہے تو اس کے لئے کون سا دن اور کون سا وقت موزوں ہوگا۔
اس نے دربار منعقد کیا اور حکم دیا کے اس کے نجومی کو حاضر کیا جائے۔
نجومی پیغام ملتے ہی دوڑا آیا اور ہرقل کے سامنے جا کر آداب بجا لایا۔
وہ خوش ہو رہا ہو گا کہ ہرقل اس سے اب پوچھے گا کہ اب ستاروں کا حساب بتا کہ میں کہاں جاؤں لیکن ہرقل کی آنکھیں کھل گئیں تھیں۔
اب بتا اے ستاروں کے بھیدی!!!۔۔۔ ہرقل نے شاہانہ عتاب کے لہجے میں پوچھا تیرے ستارے کیا کہتے ہیں تو نے ہر بار مجھے بتایا کہ اب میں یوں کرو تو ایسا ہو جائے گا اور مسلمان اندھے ہو کر بھاگ جائیں گے۔
اپنی پیشن گوئیوں کو یاد کر اور بتا کے مجھے یہ کیوں نہ بتایا کہ میری قسمت میں دربدر چھپتے پھرنا  لکھ دیا گیا ہے اور میرے لئے کوئی پناہ نہیں ۔۔۔مجھے جواب دے۔۔۔
نجومی نے علم نجوم کی اصطلاحوں میں بات کی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ ہرقل کو قائل کرلے۔
کہ غلط پیشنگوئیوں کا قصوروار نجومی نہیں بلکہ ستارے ہیں جو خلا کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں۔
مجھے تمہاری ایک بھی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔تو نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ میری قسمت میں اپنی ہی سلطنت میں دربدر چھپتے پھرنا اور پناہ ڈھونڈنا لکھ دیا گیا ہے۔
یہ حقیقت مجھ پر اب کھلی ہے کہ جس طرح میں بھٹکتا پھر رہا ہوں اسی طرح یہ ستارے افلاک کی وسعتوں میں بھٹک رہے ہیں ۔
اور دوسری حقیقت یہ کہ تو مجھے دھوکہ دے دے کر اور مجھے خوش فہمیوں میں مبتلا کر کر کے دولت بٹورتا رہا ہے۔
نجومی کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ہرقل اٹھا اور آہستہ آہستہ نوجوان کے سامنے جا کھڑا ہوا سارے دربار پر سناٹا طاری ہو گیا سب جانتے تھے کہ ہرقل ویسے ہی اٹھ کر نوجومی تک نہیں گیا ۔
ہر قل ایک بڑا ہی خوبصورت خنجر جس کے دستے میں ہیرے جڑے ہوئے تھے اس طرح اپنی کمر کے ساتھ لٹکائے رکھتا تھا جس طرح عورتیں زیور پہنتی ہیں۔
بجلی کی تیزی سے ہرقل کا ہاتھ خنجر کے دستے پر گیا، خنجر نیام سے باہر آیا اور دوسرے ہی لمحے نجومی کے پیٹ میں اترا ہوا تھا ۔
نجومی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ایک دو قدم پیچھے ہٹا اور اس کا جسم ڈولنے لگا پھر وہ گر پڑا۔
ہرقل نے خنجر ایک طرف پھینکا جو ایک آدمی نے پکڑ لیا ۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ صاف کر کے دے دیا جائے۔
ہرقل اپنے تخت پر جا بیٹھا باہر سے کچھ آدمی دوڑے آئے اور وہ مرے ہوئے کو اٹھا کر لے گئے۔
شاہ مردین کو لے آو۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا۔۔۔ آج میں ان دونوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں جو میری قسمت کا جھوٹا عکس دکھایا کرتے تھے۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہرقل کی عمر کے ہی ایک آدمی کو اس کے دربار میں لایا گیا ۔
سب درباری اسے دیکھ رہے تھے اور سب کی نظروں میں اس کے لیے رحم تھا۔
وہ یقینا سوچ رہے تھے کہ اس شخص کو اگر بتایا جائے کہ اس کی زندگی دو تین منٹ ہی رہ گئی ہے تو اس پر کیسی بے رحم کیفیت طاری ہوجائے گی ۔
صرف ہرقل تھا جس کی نظروں میں اور جس کے دل میں اس وقت کوئی رحم نہیں تھا۔
ایک درباری نے اس کا خنجر صاف کر کے اس کے حوالے کردیا ہرقل نے خنجر نیام میں ڈال لیا ۔
شاہ مردین نام کا یہ شخص جو اس کے سامنے کھڑا تھا ،شاہی جوتشی تھا۔
ہرقل ہرجنگ اور ہر پیش قدمی سے پہلے اس شخص سے زائچہ بنوایا کرتا تھا۔
اے میری قسمت کے زائچہ بنانے والے! ۔۔۔ہرقل نے شاہ مردین سے پوچھا ۔۔۔کیا تو بتا سکتا ہے تیری قسمت میں کیا لکھا ہے۔۔۔؟ وہی جو میں نے چاہا تھا،، ۔۔۔شاہ مردین نے جواب دیا آج جب مجھے موت کی دہلیز پر کھڑا کردیا گیا ہے تو میں مرنے سے پہلے سچ بولنا چاہتا ہوں ۔
اے روم کے طاقتوربادشاہ! جب تونے مجھے زائچہ بنانے کے لیے کہا تو میں وہی کچھ لکھا جو تو چاہتا تھا۔
میں نے تجھے خوش فہمی میں مبتلا رکھا اور یہی مژدہ سناتا رہا کہ تو انسان نہیں دیوتا ہے اور تیرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔
مطلب یہ کہ تو مجھے دھوکا دیتا رہا اور انعام واکرام وصول کرتا رہا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ تیرے زائچوں کے عوض تجھے شاہی رتبہ دے رکھا اور تجھ پر دولت لٹاتا رہا ۔
اورتو اسی دولت اور رتبے خاطر مجھے دھوکا دیتا رہا۔
دولت کی خاطر نہیں! ۔۔۔شاہ مردین نے کہا۔۔۔ انتقام کے خاطر میں نے تجھ سے انتقام لیا ہے تجھےاس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے اب تو واپس ملک شام میں حکومت کرنے کے لئے نہیں جاسکتا ۔
انتقام ۔۔۔۔ہرقل نے حیرت کے لہجے میں پوچھا۔۔۔ انتقام کیسا ؟میں نے تیرا کیا نقصان کیا تھا؟
ہاں انتقام! ۔۔۔شاہ مردین نے بڑی دلیری سے کہا۔۔۔ اب سن میں نے تیرے اس گناہ کا انتقام لیا ہے۔
ستائیس اٹھائیس برس پہلے کا ایک دن یاد کر تجھے وہ دن یاد نہیں آئے گا کیونکہ تیری اس شاہانہ زندگی کا ایک ایک دن ایسا بھی گزرا ہے۔
تو کچھ دور جنگل میں شکار کھیلنے گیا تھا۔ میں اپنی چھوٹی اور نوجوان بہن کے ساتھ اس جنگل سے گزر رہا تھا میری بہن بہت ہی خوبصورت تھی اور مجھے اس کے ساتھ اتنا زیادہ پیار تھا جتنا اپنے مذہب کے ساتھ بھی نہیں تھا ۔
تیرے دو محافظوں نے میری بہن کو دیکھ لیا اور اسے پکڑ لیا میں نے اسے بچانے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے مارا پیٹا اور کہا کہ بادشاہ ہرقل کے لیے اس قسم کی ایک خوبصورت لڑکی چاہیے انہوں نے کہا کہ ہرقل تین چار دن جنگل میں قیام کرے گا اور اسے اس لڑکی کی ضرورت ہے وہ میری روتی چیختی بہن کو تیرے پاس لے گئے میں تیرے پاس آنا چاہتا تھا لیکن مجھے کوئی آگے نہیں جانے دیتا تھا۔
میں وہیں رکا رہا اور جب تو اپنے خیمے سے شکار کے لیے نکلا تو میں دوڑتا ہوا تیرے قدموں میں جا گرا اور اپنی پیاری بہن کی بھیک مانگی۔
تو نے مجھے پاؤں سے بڑے زور سے ٹھوکر ماری اور کہا کہ اسے اٹھا کر دور پھینک دو۔
تیرے آدمیوں نے مجھے مار مار کر بہت دور جا چھوڑا۔
میں پھر بھی وہیں بیٹھا رہا تین چار دن وہی بھوکے پیاسے گزار دیا ۔
اور جب تو شکار سے واپس چلا گیا تو میں اس جگہ گیا جہاں تیرے خیمے لگے ہوئے تھے وہاں میری بہن کی برہنہ لاش پڑی ہوئی تھی میں جانتا تھا کہ تو نے اور تیرے ہمراہیوں نے میری بہن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔
میں نے اسی وقت عہد کرلیا تھا کہ ہرقل سے انتقام لوں گا ۔
میرا باپ علم نجوم اور علم جوتش کی سوجھ بوجھ رکھتا تھا اور وہ لوگوں سے پیسے لیکر زائچے بھی بناتا تھا۔
اس نے یہ فن مجھے بھی سکھا دیا تھا لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہ لی اور پھر میرا باپ اپنی بیٹی کا صدمہ دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔
میں ہر وقت اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ تجھ سے انتقام کس طرح لو ایک طریقہ میرے دماغ میں آگیا۔
لوگ میرے باپ کی کرامت کی وجہ سے مجھے بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے میں نے اپنے متعلق مشہور کر دیا کہ میں باپ کی گدی پر بیٹھ گیا ہوں۔
اور جوتش اور نجوم کا کام شروع کر دیا ہے۔ میں نے باپ والا علم تو نہ سیکھا اس کی جگہ کچھ فریب کاریاں اور شعبدہ بازی سیکھ لی۔
میری شہرت پھیلتی گئی ۔
اور میں ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ تجھے یہ بتاؤ ں کہ سات آٹھ برس بعد میں نے کس طرح تجھ تک رسائی حاصل کی اور تو نے مجھے اپنے محل میں رکھ لیا میں نے انتقام لینا شروع کردیا۔
ہرقل بڑا ہی ظالم اور درندہ صفت حکمران اور جرنیل تھا ۔
درباریوں کو توقع یہی تھی کہ ابھی ہرقل اٹھے گا اور شاہ مردین کو اسی طرح پیٹ میں خنجر گھونپ کر قتل کر دے گا جس طرح اس نے نجومی کو قتل کیا تھا ۔
لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہوئی کہ ہرقل بت بن گیا تھا۔
اور آنکھیں پھاڑے شاہ مردین کو دیکھے جا رہا تھا۔
غالبا اس لیے کہ اس کے منہ پر کبھی کسی کو سچ بولنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔
اس حالت میں جب کہ شکست کھا کر بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
اس کے دربار میں کنیز اور دو تین شہزادیاں موجود تھی اور منظر وہی بنا ہوا تھا جو اس کے محل کے دربار میں بنا کرتا تھا۔
شہزادیاں اور کنیزیں بھی شاہ مردین کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ائے ہرقل! ۔۔۔شاہ مردین کہہ رہا تھا ۔۔۔اپنے آپ کو طاقت کا دیوتا سمجھنا چھوڑ دے اور یہ بھی دل سے نکال دے کہ رعایا کی بہنیں اور بیٹیاں تیری ملکیت ہیں۔
اور سب تیرے حکم کے غلام ہیں تجھے اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے میں نے تجھے اسی طرح اپنی بہن کی بے عزتی اور موت کا انتقام لیا کہ بڑے ہی دلکش اور طلسماتی زائچہ تیار کر کر کے تجھے دکھاتا رہا۔
اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نجومی کو جسے تو نے ابھی ابھی قتل کیا ہے میں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور مجھے جو دولت تجھ سے ملتی تھی وہ میں آدھی اس نجومی کو دے دیتا تھا۔
اس کے عوض میں اس سے یہ کام کرواتا تھا کہ وہ تجھے کسی خطرے سے قبل از وقت خبردار نہ کرے۔
بلکہ ایسی پیشن گوئیاں تیرے کان میں ڈالتا رہے کہ تو آگے ہی آگے خطرے کی طرف بڑھتا ہی چلا جائے اور تباہی کھائی میں جاگرے۔
آج اپنا انجام دیکھ لے۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے۔
میں چاہتا ہوں کم از کم ایک صحیح اور سچی بات تیرے دماغ میں ڈال دوں ۔
شاید اس سے تیرے دن پھر جائیں ۔
بات دانشمندی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔
نجومی اور جوتشی لوگوں پر نشہ طاری کر دیا کرتے ہیں۔
یہ نشہ انسان کے دماغ کو اور جسم کو بھی بےکار کردیتا ہے۔
کامیاب وہ ہوتا جس نے اپنے پیدا کرنے والے پر اور اپنے آپ پر اعتماد اور بھروسہ کیا۔
زائچے اور پیشنگوئیوں کے سہارے چلنے والے اسی انجام کو پہنچا کرتے ہیں جس انجام کو تو پہنچ گیا ہے۔
دیکھ لے عرب کے بدو اور گڈرئیے ایک طاقت بن کر تجھے شکست پر شکست دیے چلے جارہے ہیں۔
اور تو پناہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔۔۔۔
اُٹھ اور مجھے اپنے ہاتھوں قتل کر دے۔
میرے قتل کرنے سے پہلے میری ایک سچی پیشنگوئی سن لے زندگی میں پہلا زائچہ تیار کیا ہے جو ہر لحاظ سے صحیح اور سچا ہے۔ مرتے مرتے میں تیرے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں۔
میرا زائچہ کہتا ہے کہ اب تو کبھی شام میں نہیں جائے گا اور تیرا ٹھکانا مصر ہے ۔
جہاں تیری قوم کی حکومت ہے۔
تھوڑے ہی عرصے بعد عرب کے مسلمان تجھ پر آسمانی بجلی کی طرح گریں گے۔
اتنا خون بہے گا کہ دریا نیل سرخ ہو جائے گا۔ پھر تیری رومی بادشاہی کا بوریا بستر گول ہو جائے گا اور بحیرہ روم میں ڈوب جائے گا۔ مصر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو جائے گا اور ایسی سنسنی خیز کہانیاں جنم لیں گی جو تاقیامت تاریخ ساری دنیا کو سناتی رہے گی۔
تو چاہے تو مجھے ابھی قتل کردے چاہے تو مجھے قید خانے میں ڈال دے اگر میری پیشن گوئی غلط ثابت ہوئیں تو مجھے قتل کر دینا یا صحیح ثابت ہوئے تو مسلمان مجھے رہا کر دیں گے۔
شاہ مردین خاموش ہو گیا پورے دربار پر خاموشی طاری ہوگئی ہرقل بھی چپ چاپ بیٹھا رہا یوں لگتا تھا جیسے یہاں جتنے انسان تھے وہ پتھر کے بت بن گئے ہیں آخر ہرقل اٹھا۔
شاہ مردین! ۔۔۔۔ہرقل نے اپنی شاہانہ آواز میں کہا میں نے کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی جاؤ تم آزاد ہو ۔۔۔۔شاہ مردین کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو ۔
ہرقل نے ایک بار پھر کہا۔۔۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔۔ شاہ مردین کورنش بجا لایا اور الٹے قدم چلتا دربار سے نکل گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے جیسے اس وقت ہرقل کا دماغی توازن بگڑ گیا تھا۔
اور ذہنی طور پر وہ نارمل لگتا ہی نہیں تھا اس نے ایک اور عجیب حرکت کی اپنے محافظ دستوں کے کمانڈر کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا کمانڈر دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ ہرقل نے مختلف حاکموں کو باری باری ایک کام دینے شروع کردیے اس کے سامنے مسئلہ یہی ایک تھا کہ وہ رہاء میں اپنی بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کرسکتا ہے یا نہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ شکست اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔
کچھ وقت گزر گیا تو محافظ دستے کا کمانڈر دربار میں داخل ہوا ۔
ہرقل کے اشارے پر وہ باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک قیدی تھا جس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور ہاتھ زنجیر میں بندھے ہوئے تھے وہ کوئی مسلمان تھا۔
جوان اور خوبرو تھا اس کی تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی اس کے چہرے پر جچ رہی تھی اور اس کے مردانہ حسن میں اضافہ کر رہی تھی۔
وہ قیدی تھا لیکن اس کے کپڑے صاف ستھرے تھے۔
اور منہ سر دھلا دھلایا لگتا تھا۔
ہرقل کے حکم پر اسے دربار کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔
اس وقت تک مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تھیں ان میں ہزارہا رومی جنگی قیدی بنالئے گئے تھے۔
اور مسلمانوں نے انہیں پیچھے بھیج دیا تھا کچھ مسلمان بھی جنگی قیدی ہوئے تھے جن کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔
ہرقل کے حکم سے دو یا تین مسلمان قیدیوں کو قید خانے میں رکھا گیا تھا۔
اور باقی قیدیوں کے ساتھ اس قدر برا سلوک ہو رہا تھا کہ وہ بھوکے پیاسے مر رہے تھے۔ مسلمان قیدیوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا ۔
کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ ہرقل نے ان دو تین قیدیوں کو قید خانے میں کیوں رکھا ہے اب ان میں سے ایک قیدی اس کے دربار میں لایا گیا اس کے لباس سے اور حال حلئے سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔
ان کی دیکھ بھال بھی ہوتی ہے اور انہیں کھانا بھی بہت اچھا دیا جاتا ہے۔
تم جنگی قیدی ہو،، ۔۔۔ہرقل نے اس قیدی سے کہا ۔۔۔تم جانتے ہو گے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ یہاں کیا سلوک ہوتا ہے ۔
آدھے سے زیادہ قیدی مر چکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔
لیکن تمہیں ہم نے اپنا معزز مہمان بنا رکھا ہے ۔
قید خانے کی کوٹھری میں صرف اسلئے رکھا ہے کہ تم فرار نہ ہوجاؤ۔
میرے حکم سے تمہاری جو عزت کی گئی ہے اور تمہیں جو سہولتیں دی گئی ہیں اس کے عوض میں تم سے راز کی ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ تم مجھے یہ بات بتا دو گے۔
پھر میں تمہیں آزاد کر دونگا ۔
تم نہیں بتاؤ گے تو اور قیدی میرے پاس ہیں وہ بتا دیں گے اور تمہیں میں قتل کرا دوں گا۔ تم ایک ذمہ دار آدمی ہو میں جانتا ہوں ایک جانباز گروہ کے کمانڈر ہو تم جو بات جانتے ہو وہ اور کوئی نہیں بتا سکتا۔
تم بادشاہ ہو یا سپہ سالار مجھ پر ان عہدوں اور رتبوں کا کچھ اثر نہیں ہوگا ۔ مسلمان قیدی نے کہا۔۔۔ تمہارے جلاد کی تلوار میری گردن پر ہوگی تو بھی راز کی کوئی بات نہیں بتاؤں گا ۔
ان خوبصورت اور دلکش کنیزوں اور شہزادیوں میں سے ایک مجھے دے دو گے اور اس کے ساتھ خزانہ میرے قدموں میں ڈھیر کر دو گے تو بھی راز کی بات میرے زبان پر نہیں آئے گی۔
میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے خلاف اور اپنی قوم کے خلاف غداری نہیں کروں گا ۔
اگر ہم قتل سے ڈرنے والے ہوتے تو آج تم جیسے طاقتور بادشاہ ہم سے شکست نہ کھاتے ہم نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر رکھی ہیں ہمارے جسم کٹ جاتے ہیں اور ہماری روحیں لڑتی ہیں۔
میں تم سے کوئی فوجی راز نہیں پوچھ رہا۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ میں کوئی جنگی راز نہیں لینا چاہتا تو میری فوج کے خلاف لڑا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہم پر فتح پا لی ہے۔
تو عقل والا آدمی معلوم ہوتا ہے مجھے صرف یہ بتا دے کہ تیری فوج میں وہ کون سی خوبی ہے جو میری فوج میں نہیں اور میری فوج میں وہ کون سی خامی ہے کہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تھوڑی سی نفری کی فوج سے شکست کھا گئی ہے۔
اس فوج نے تو ایرانیوں کی فوج کو کئی میدانوں میں بھگایا ہے حالانکہ ایرانی بہت بڑی جنگی طاقت رکھتے تھے۔
ہاں یہ راز تجھے دے سکتا ہوں ۔۔۔مسلمان قیدی نے کہا۔۔۔۔ ہم متحد اور دیندار قوم ہیں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور اس جسم میں دماغ صرف ایک ہے جس کا حکم سارا جسم مانتا ہے اگر تو نے ہمیں کبھی نماز پڑھتے دیکھا ہو تو اسی سے سمجھ جائے گا کہ ہم اللہ کے حضور جھکتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ  بھی ایک جسم کے مانند کرتے ہیں۔
ہم ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو شاید نہیں جانتا کہ میدان جنگ میں ہمارا سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔
پھر ہماری یہ خوبی ہے کہ ہم لوگ زندگی سے کم اور موت سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور تکبر و غرور کے بجائے ہم عجز وانکساری کو پسند کرتے ہیں ۔
ہماری تنظیم ایسی ہے جیسی تیری فوج میں ہے سپہ سالار ہے اس کے ماتحت سالار ہے اس کے ماتحت کمانڈر ہیں اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے عہدے بھی ہیں لیکن ہم جب اکٹھا بیٹھتے ہیں تو ہم میں کوئی حاکم اور کوئی محکوم نہیں ہوتا اس وقت ہمارے رتبہ ختم ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ہاں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں ہمیں کوئی قتل کی دھمکی دے یا دولت کا لالچ دے ہم سب سے پہلے اللہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔
اور اس کی ذات کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔
تو نے اپنی فوج کی خامیاں پوچھی ہیں۔
تیری فوج کی سب سے بڑی خامی تیرا وجود ہے اگر تو اپنے دماغ سے حکمرانی کا غرور نکال دے اور ذہنیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو سپاہی سمجھنے لگے تو دیکھ تیری قوم اور تیری فوج میں وہی طاقت پیدا ہوتی ہے یا نہیں جو ہم میں ہے۔
ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے لڑتے ہیں اور تیری فوج تیری خوشنودی کے لیے لڑتی ہے تو پیچھے ہٹ گیا تو تیری ساری فوج تتر بتر ہو گئی ۔
ہمارا اللہ پیچھے نہیں ہٹا کرتا ، ہم اس کے نام پر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ہم میں جو شہید ہوجاتے ہیں ان کی جگہ اور مجاہدین آجاتے ہیں۔ ہمارا سپاہی اگر میدان جنگ میں اکیلا رہ جائے گا تو اپنا سالار خود بن جائے گا اور اپنے آپ کو یہ حکم کبھی نہیں دے گا کہ تم اکیلے ہو اس لیے بھاگ جاؤ ۔
یہ مسلمان قیدی اس قسم کی باتیں کرتا رہا ہرقل نے ان باتوں کے بعد اس سے پھر فوجی راز معلوم کرنے شروع کر دیے اور یہ بھی پوچھا کہ تمہارے سپہ سالار کا اگلا پلان کیا ہے ۔
اس قیدی نے ایسے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ابھی قید میں پڑے رہنا چاہتے ہو۔
ہرقل نے کہا ۔۔۔جب تک میرے ان سوالوں کا جواب نہیں دوگے
تو قید میں ہی پڑے رہو گے۔ اور تمہارے ساتھ وہی سلوک ہونے لگے گا جو ہم دشمن کے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
ہرقل نے حکم دیا ابھی اسے کوٹھری میں رہنے دو ۔
دو روز بعد اسے پھر پیش کرنا قیدی کو دربار سے لے گئے اگلی صبح ہرقل کی ایک جوان سال شہزادی گھوڑے پر سوار قید خانے میں آئی قید خانے کے حاکم کو پتہ چلا تو وہ دوڑتا ہوا باہر نکلا اور شہزادی کے آگے جھک گیا۔ وہاں تو سارے خاندان کے ہر فرد کا حکم چلتا تھا یہ تو شہزادی تھی شہزادیوں کا تو اور ہی زیادہ احترام کیا جاتا تھا ۔
وہاں ایک نہیں کئی شہزادیاں تھی اس شہزادی نے اس مسلمانوں قیدی کا نام لیا اور کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے آئی ہے اور اسے ہرقل کے دربار میں پیش کرنا ہے۔
اگر کوئی اور قیدی ہوتا تو حاکم یہ ضرور سوچتا کہ ایک قیدی کو ہرقل کے دربار میں پیش کرنے کے لیے ایک شہزادی کیوں آئی ہے لیکن اس حاکم کو معلوم تھا کہ اس مسلمان قیدی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔
اور یہ برائے نام قیدی ہے ایک روز پہلے اسے ہرقل کے دربار میں لے گئے تھے۔
حاکم نے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ شہزادی اس قیدی کو ساتھ لے جانے کیوں آئی ہے ۔
حاکم اس شہزادی کے ساتھ ہو لیا اور چابیاں لے کر مسلمان قیدی کی کوٹھری تک پہنچا کوٹھری کھول کر قیدی کو باہر نکالا اور شہزادی کے حوالے کردیا یہ آج شہنشاہ ہرقل کا مہمان ہوگا شہزادی نے قید خانے کے حاکم سے کہا۔
حکم ہے کہ اس کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی جائیں اسی لیے ہرقل نے حکم بھیجا ہے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی قیدی کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی گئیں۔
شہزادی اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
خود گھوڑے پر سوار ہوئیں اور قیدی سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ پیدل چلے وہ کچھ دور تک اسی طرح چلتے گئے کہ شہزادی گھوڑے پر تھی اور قیدی اس کے ساتھ پیدل جا رہا تھا۔ کچھ اور آگے گئے تو شہزادی نے گھوڑا روک لیا۔
میرے پیچھے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ شہزادی نے قیدی سے کہا۔۔۔ ایڑ لگاؤ اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو آگے تمہیں الگ گھوڑا مل جائے گا مجھ سے یہ نہ پوچھنا کے میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں ۔
قیدی بلا چوں چرا شہزادی کے پیچھے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور ایڑ لگا دی اس سے آگے گھنا جنگل اورپہاڑی علاقہ تھا وہ شہر سے دور نکل گئے تو قیدی نے شہزادی سے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟
تم میرے ساتھ نہیں جارہے میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں شہزادی نے کہا۔۔۔ مجھے اپنی فوج میں لے چلوں میں واپس آنے کے لئے نہیں جارہی اسی لیے تمہیں قید خانے سے نکلوا لائی ہوں۔
قیدی نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا ۔
قیدی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا لشکر کہاں ہوگا ۔
اس لئے پکڑے جانے کا خطرہ ابھی سر پر موجود تھا اس نے گھوڑے کی رفتار ذرا تیز کر دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس دن کی صبح شہزادی مسلمان قیدی کو قید خانے سے رہا کروا کے لے گئی تھی اس دن کی شام ہونے کو آ گئی اس شہزادی کا نام شارینا تھا وہ کسی معمولی سے گھرانے کی لڑکی نہیں تھی کہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی گھر والے پریشان ہونے لگتے کہ لڑکی گھر سے نکلی تھی اور ابھی تک نہیں آئی وہ شہزادی تھی اور ماں کو معلوم تھا کہ وہ گھوڑے پر گئی ہے اس لئے کچھ وقت لگا کر ہی آئے گی لیکن پورا دن گزر گیا تھا ۔
شارینا وہاں اکیلی لڑکی تو نہیں تھی وہ شاہی محل تھا جس میں اس جیسی کئی لڑکیاں تھیں۔
ان میں کچھ داشتائیں تھی اور کچھ بیویاں ایک لڑکی کا ذرا زیادہ وقت کے لئے ادھر ادھر ہو جانا کوئی پریشان کن واقعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
ماں نے دن کے دوران تو اپنی بیٹی کی غیر حاضری محسوس ہی نہ کی۔ محسوس نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں محل کے اندر کے ماحول میں بے تحاشہ کھچاؤ پایا جاتا تھا ۔
ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
اور اس کی افواج شکست خوردگی کے عالم میں بکھر گئی تھی ۔
ہرقل فرعون قسم کا بادشاہ تھا، اپنی شکست پر وہ غصے سے باؤلا ہو گیا تھا۔
اس کی بیویاں اور داشتائیں اور محل میں رہنے والے دوسرے لوگ چھپتے پھرتے تھے۔ کہ ہرقل غصے میں آکر کسی کو ذرا سی بات پر قتل کردے گا کسی کے قتل کا حکم دینا اس طرح معمولی بات تھی جیسے بےکار سی کوئی چیز اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دی جائے۔
شارینا کی ماں شام سے بہت پہلے ہی پریشان ہونے لگی تھی لیکن وہ ہرقل کو بتانے سے ڈرتی تھی کہ ہرقل پہلے ہی غصے کی حالت میں ہے لیکن جب سورج غروب ہونے کو آ گیا تو ہرقل کے اس کمرے میں جا پہنچی جس میں ہرقل جاسوسوں سے رپورٹیں لیا کرتا تھا ۔
اور اپنے فوجی افسروں اور دیگر حاکموں کو بلا کر ان سے کام کی باتیں کیا کرتا اور احکام دیا کرتا تھا۔
بیوی کو اس کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو غصے سے اس کا چہرہ دھکنے لگا ۔
اس وقت وہ اکیلا نہیں تھا اس کے پاس کسی اور شہر سے آیا ہوا ایک قاصد بیٹھا ہوا تھا۔
کیوں آئی ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے شاہانہ اور غصیلی آواز میں پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں؟ ۔۔۔
سب معلوم ہے شارینا کی ماں ہرقل کی پوری بات سنے بغیر التجا کے لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کی مصروفیت اور آپ کی پریشانی بڑی اچھی طرح جانتی ہوں یہ آپ کی ہی نہیں یہ ہم سب کی پریشانی ہے میں اس طرح کبھی نہ آتی لیکن ماں ہوں۔
اصل بات بتاؤ کیا ہے؟ ۔۔۔ہرقل نے اس قدر گرج کر کہا جیسے کمرے کی چھت بھی کانپ اٹھی ہو۔
شارینا صبح گھوڑے پر نکلی تھی شارینا کی ماں نے کہا۔۔۔ ابھی تک واپس نہیں آئی۔۔۔
تو کیا میں اسے جاکر ڈھونڈو۔۔۔ ہرقل نے بڑی تلخ طنز کی اور کچھ دیر شارینا کی ماں کے منہ کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔آخر بولا اپنی اپنی اولاد پر تم سب خود ہی نظر کیوں نہیں رکھا کرتی کیا محل کے ملازموں محافظوں اور دیگر کارندوں نے تمہارا حکم ماننا چھوڑ دیا ہے۔
تمہیں میرے پاس آنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔
آپ جانتے ہیں یہ میری ایک ہی بیٹی ہے شارینا کی ماں نے بھکاریوں کی طرح کہا ۔۔۔معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے ملک کے حالات بھی تو ٹھیک نہیں۔
تم ایک بیٹی کو رو رہی ہوں ہرقل نے کہا ۔۔۔یہاں پورا ایک ملک اپنی سلطنت سے نکل گیا ہے۔۔۔ اور تم ایک بیٹی کو ڈھونڈ رہی ہوں ہرقل کی یہی ایک بیٹی یا دو چار بیٹے بیٹیاں ہوتے تو وہ پریشان ہوتا کہ ایک بیٹی کہاں چلی گئی ہے۔
اسے تو یاد ہی نہیں ہوگا کہ اس کی کتنی باقاعدہ بیویاں ہیں اور داشتائیں کتنی ہے۔
اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں ہیں ان دنوں تو اسے اور کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا پچھلے باب میں بیان ہو چکا کہ ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا مسلمانوں نے اسے شام سے بے دخل کر دیا تھا ۔
رہاء میں تو اس نے آکر پناہ لی تھی۔
وہ اس کوشش میں تھا کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو یہاں اکٹھا کر لے گا اور مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑے گا۔
ایک شہزادی کا کہیں غائب ہو جانا اس کے لئے ذرا سی بھی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا تھا۔
شارینا کے ماں نے ہرقل کی باتیں سنیں اور اس کی ذہنی حالت دیکھیں اور پھر اس کا سرد رویہ دیکھا تو کچھ اور کہے بغیر وہاں سے نکل آئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی کو قید خانے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ماں اس سوچ میں پڑ گئی کہ قید خانہ آبادی سے کچھ دور ہے اور اس کے ارد گرد تمام علاقہ ویران اور بنجر ہے اس طرف کوئی سیرگاہ نہیں نہ کوئی اور ایسی جگہ ہے جہاں شارینا گئ ہو۔
قید خانہ تو کوئی ایسی جگہ نہ تھی جسے دیکھنے کے لیے شارینا گئی ہو ۔
اگر وہ قید خانے میں ہی گئی تھی تو شام تک اسکا وہاں رکنا محال بے معنی اور نا قابل یقین تھا۔
وہ آخر ماں تھی اس کے ذہن میں وہم اور وسوسے پیدا ہونے لگے اسے خیال آیا کہ شارینا قیدخانے میں قیدیوں کو تفریحاً دیکھنے گئی ہو گی۔
ہو سکتا ہے کسی خطرناک قیدی نے اسے مار ڈالا ہو اور قید خانے کے عملے نے اس کی لاش اندر ہی کہیں دبا دی ہو تاکہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکے۔
شارینا کی ماں ہرقل کی دوسری بیویوں کی طرح ایک بیوی تھی ملکہ نہیں تھی نہ ہی ہرقل نے اپنی کسی بیوی کو ملکہ عالیہ کا درجہ دیا تھا ۔
پھر بھی اس کی بیویاں حکم چلا سکتی تھیں۔ اور شاہی اختیارات کا آزادانہ استعمال کرنے کی بھی اجازت تھی شارینا کی ماں نے اپنے خاص ملازم کو قید خانے کی طرف دوڑایا کہ دروغہ کو ساتھ لے آئے۔
اس نے سوچا یہ تھا کہ دروغہ معلوم کرے کہ شارینا قید خانے کے اندر گئی تھی اور اگر نہیں گئی تو کسی نے اسے قید خانے کے قریب سے گزرتے دیکھا ہوگا۔
ان سے ایسی توقع تھی ہی نہیں کہ سارا سراغ دروغہ سے ہی مل جائے گا۔
قید خانے کا دروغہ حکم ملتے ہی پہنچ گیا۔ شارینا کی ماں نے پریشانی کے عالم میں اس سے شارینا کے متعلق پوچھا کہ وہ قید خانے کے اندر گئی ہو گی، اسے قیدخانے کے قریب سے گزرتے کسی نے جو دیکھا ہوگا،،،، دروغہ نے شارینا کی ماں کے منہ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں سوال بھی تھا اور حیرت بھی ۔
شارینا کی ماں نے جب یہ کہا کہ شارینا صبح کی گئی ہوئی ابھی تک واپس نہیں آئی تو دروغہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
ملکہ عالیہ!،،،، ہرقل کی بیوی ہونے کی وجہ سے اس نے احتراماً ملکہ عالیہ کہنا ضروری سمجھا ۔
اور بولا۔۔۔۔کل صبح شہنشاہ ہرقل نے ایک مسلمان قیدی کو طلب کیا تھا۔
آج صبح شہزادی قید خانے میں آئی اور اس مسلمان قیدی کو رہا کروا کے اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔
باہر شہزادی کا گھوڑا کھڑا تھا جس پر وہ سوار ہوئی اور قیدی ساتھ ساتھ پیدل چل پڑا تھا ۔
شارینا کی ماں اس مسلمان قیدی کے متعلق اچھی طرح جانتی تھی کہ اسے اور اس کے دو تین ساتھیوں کو مہمانوں کی طرح قیدخانے میں کیوں رکھا گیا ہے ۔
اب اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ایک قیدی کو چھڑوا کر لے گئی ہے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ اس کی اطلاع ہرقل کو ہونی چاہیے یہ کوئی سازش ہو سکتی تھی۔
شارینا کی ماں کو ڈر یہ تھا کہ ہرقل سے یہ بات چھپا لی گئی اور کچھ دنوں بعد کسی اور ذریعے سے اسے پتہ چلا تو وہ اسے بھی اور دروغہ کو بھی قتل کروا دے گا ،یہ سوچ کر اس نے دروغہ کو ساتھ لیا اور پھر ہرقل کے کمرے میں جاپہنچیں۔
اب تو ہرقل نے اسے ایسی قہر بھری نظروں سے دیکھا جیسے خود اٹھ کر اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دے گا۔
لیکن قید خانے کے دروغہ کو ساتھ دیکھ کر اسے شک ہوا کہ بات کچھ اور ہے اور کوئی خاص واقعہ ہوگیا ہے۔
شارینا کی ماں نے اسے بتایا کہ شارینا اس مسلمان قیدی کو رہا کروا کے نہ جانے کہاں لے گئی ہے۔
جس قیدی کو کل صبح دربار میں بلایا گیا تھا۔
ہرقل کی آنکھوں میں جو قہر اترا تھا وہ آنکھوں میں ہی گم ہو گیا۔
اور ہرقل پر خاموشی طاری ہوگئی کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس خاموشی میں سے ایسا ہولناک طوفان اٹھے گا۔
ہرقل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ایک شہزادی ایک قیدی کو قید خانے سے نکلوا کر اس کے ساتھ چلی گئی ہے ۔
اسے پریشانی اس سے لاحق ہوئی کہ یہ مسلمان قیدی ایک خاص اہمیت کا حامل تھا وہ کوئی ادنی سپاہی نہیں تھا مسلمانوں کے لشکر میں اسے کوئی عہدہ حاصل تھا اور وہ اچھا خاصہ عقلمند بھی تھا۔
اور تم نے ایک شہزادی کے کہنے پر اسے رہا کردیا۔
ہرقل نے دروغہ سے کہا ۔۔۔۔اس کی بیڑیاں اور ہتھکڑی بھی اتار دیں یہ میری گرفتاری کی سازش ہو سکتی ہے اور میرے قتل کی بھی۔
قیدخانے کا دروغہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس نے ذہنی طور پر قبول کرلیا تھا کہ اس کی زندگی چند منٹ کی رہ گئی ہے۔
ہرقل کے یہاں سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی۔
کیا تمہیں قتل نہ کروا دیا جائے؟،،، ہرقل بولا۔۔۔ اگر یوں شہزادی کی مدد سے فرار ہونے والا قیدی عیسائی ہوتا تو میرے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔فرار ہونے والا مسلمان تھا ۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ان مسلمانوں نے ہمیں کس انجام تک پہنچادیا ہے۔ کیا تم صرف ایک وجہ بتا سکتے ہو جس کے بنا پر تمہارا یہ اقدام صحیح سمجھا جائے؟ ۔
جس طرح جوتشی نے اپنے آپ کو موت کے سامنے کھڑا دیکھ کر ہرقل کو سچی اور کھری کھری باتیں سنا دی تھی ویسی ہی کیفیت قیدخانے کے دروغہ پر طاری ہو گئی۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ زندہ باھر نہیں جا سکے گا۔۔۔
شہنشاہ روم!،،، دروغہ نے کہا اگر میں شہزادی کا حکم نہ مانتا تو وہ مجھے قتل کروا دیتی اس کا حکم مانا ہے تو آپ مجھے سزائے موت سنا رہے ہیں، مجھے آپ کی سزا قبول ہے قبول نہ ہوتی تو بھی آپ نے مجھے معاف نہیں کر دینا تھا۔
میں نے روم کے شہنشاہ کا نمک کھایا ہے مجھے یہ عہدہ اس شہنشاہ ہی نے دیا تھا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مرنے سے پہلے آپ کا کھایا ہوا نمک حلال کرجاؤ یہی ایک صلہ ہے جو میں آپ کے قدموں میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ کوئی سونے اور چاندی کا خزانہ نہیں چند ایک الفاظ ہیں جو آپ نے قبول کر لیا تو آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لیے بھی سود مند ہوں گے۔
ہرقل اسے چپ چاپ دیکھتا رہا تھا ۔اس کی اس خاموشی کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ دروغہ کو معاف نہیں کرے گا ۔موت نے دروغہ پر خوف اور تاسف طاری ہونے کے بجائے اس میں جراءت پیدا کردی۔
میں زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا ،،،دروغہ نے کہا،،،، حکم ماننا ہم لوگوں کا فرض ہے یہاں حکم ایک فرد سے نہیں ملتا بلکہ شاہی خاندان کے تمام افراد سے کئی طرح کے حکم ملتے ہیں، اور ہم لوگ کسی کی بھی حکم عدولی کی جرات نہیں کر سکتے میں جانتا ہوں تین چار مسلمان قیدیوں کو آپ نے مہمانوں کے طور پر قیدخانے میں رکھا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں ان کے ساتھ اتنا اچھا سلوک ہو رہا ہے آپ ان سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان مسلمانوں نے اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے روم کی ایسی عظیم اور دہشت ناک جنگی طاقت کو کس طرح شکست دے دی ہے کہ رومی فوج بکھر کر پسپا ہو رہی ہے۔
اور کہیں بھی اس کے پاؤں جم نہیں رہے۔ شاید آپ ان خصوصی قیدیوں کو کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہوں گے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں میں نے ان سے دو بار یہی بات پوچھی تھی انہوں نے جو جواب دیا وہ میرے دل نے قبول کیا اور یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔،،،،
انہوں نے کہا اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا نہ کوئی شاہی خاندان ہوتا ہے ۔
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
https://rebrand.ly/itdgneel

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی