کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 63
وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۶۳﴾
ترجمہ:  اور وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا تھا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔ (کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اس کو مضبوطی سے تھامو (49) اور اس میں جو کچھ (لکھا) ہے اس کو یاد رکھو، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو
تفسیر:  49: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اس کے بعض احکام بہت سخت ہیں، اس لئے اس سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کردئے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہے کہ تورات پر عمل کرنا ضروری ہے، مطالبہ اگرچہ نامعقول تھا مگر ان پر حجت تمام کرنے کے لئے ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر بھیجے گئے (اعراف، ٧: ١٥٥) جن کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست تورات پر عمل کا حکم دیا، مگر جب یہ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے تصدیق تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کا حکم دیا ہے ؛ لیکن ایک بات اپنی طرف سے بڑھادی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا تم سے ہوسکے اتنا عمل کرلینا ؛ لیکن جو نہ ہوسکے وہ ہم معاف کردیں گے ؛ چنانچہ تورات کے جس حکم میں بھی انہیں کچھ مشکل نظر آتی وہ یہ بہانہ تراش لیتے کہ یہ حکم بھی اسی چھوٹ میں داخل ہے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور ان کے سروں پر بلند کردیا کہ تورات کے تمام احکام کو تسلیم کرو، جب انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں پہاڑ ان پر گرانہ دیا جائے تب ان لوگوں نے تورات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کوہ طور کو ان کے سروں پر بلند کرنے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹاکر ان کے سروں پر معلق کردیا گیا ہو، جیسا کہ حافظ ابن جریر (رح) نے متعدد تابعین سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کچھ بھی بعید نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی صورت پیدا فرمادی گئی ہو کہ ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ پہاڑ ان پر آگرے گا مثلا کوئی زلزلہ آگیا ہو جس سے انہیں ایسا لگا کہ پہاڑ گرنے والا ہے چنانچہ سورة اعراف ( آیت ١٧١) میں اس واقعے کے بارے میں الفاظ یہ ہیں واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم اس میں لفظ ” نتق “ استعمال ہوا ہے جس کے معنی لغت میں زور زور سے ہلانے کے آتے ہیں (دیکھئے قاموس اور مفردات القرآن) لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ ” جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر زور سے اس طرح ہلایا کہ ان کو گمان ہوا کہ وہ ان پر گر پڑے گا یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی شخص کو ایمان قبول کرنے پر تو زبردستی مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن جب ایک شخص ایمان لے آئے تو اسے نافرمانی پر سزا بھی دی جاسکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر حکم ماننے پر آمادہ بھی کیا جاسکتا ہے بنی اسرائیل چونکہ ایمان پہلے ہی لاچکے تھے اس لئے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر فرمانبرداری پر آمادہ کیا گیا۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی